Home / قلم شرارے / مدارس کے نظام میں اصلاحات اورحکومت پاکستان کا عزم

مدارس کے نظام میں اصلاحات اورحکومت پاکستان کا عزم

 

فرینک اسلام

 

مدارس کے نام سے معروف 30ہزار کے لگ بھگ مذہبی  سکولوں کو حکومت پاکستان نے مین سٹریم تعلیمی نظام کا حصہ بنانے کا اعلان کیاہے تاکہ طویل عرصہ سے ملک بھرمیں جاری شدت پسندی کا خاتمہ کیاجاسکے۔پاکستانی فوج کے ترجمان ڈائریکٹرجنرل آئی ایس پی آر میجرجنرل آصف غفورنے یہ اعلان کرتے ہوئے اس عزم کااظہارکیاہے کہ ان تمام مذہبی مدارس کو حکومتی کنٹرول میں لایاجائے گا تاکہ اصلاحاتی ایجنڈا کے تحت مدارس کے نصاب میں جدید سائنسی مضامین شامل کرکے نفرت کے پرچارکی سوچ ختم کی جاسکے۔

 

حکومت پاکستان کا یہ اعلان میرے جیسے آزاد آبزرور کے لئے خصوصی اہمیت کااہمیت کا حامل ہے جو ایک عرصہ سے بھارتی مدارس میں اصلاحات پر زوردے رہے ہیں۔ یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں مدارس کی اصلاحات کا پروگرام ایک حساس اورنازک معاملہ ہے کیونکہ مدارس کو چلانے والے مذہبی عناصر اس “مداخلت”کے خلاف سخت مزاحمت کریں گے۔

 

بین الاقوامی سطح پر ان پاکستانی مدارس کو نوجوانوں میں شدت پسندی ابھارنے کا ذمہ دار قراردیاجاتارہاہے اورپاکستان ان دنوں اپنی سرزمین سے پیداہونے والی ایسی ہی شدت پسندی کے باعث سخت دبائو کا شکاربھی ہے۔بین الاقوامی  سطح پر منی لانڈرنگ اوردہشت گردی  کیلئے ہونے والی فنڈنگ پر نظر رکھنے والی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی طرف سے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیے جانے کے بعد سے حکومت اس سٹیٹس کو ختم کرنے کیلئے سخت جدوجہد کررہی ہے۔

 

بیروزگاری اورافراط زر کے ساتھ ساتھ بدترین معاشی بحران کے شکار پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ میرا پختہ یقین ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت کیلئےشدت پسند تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کاسا تھ ساتھ مدارس میں اصلاحات انتہائی اہم ہیں تاہم پاک فوج کے ترجمان نے یہ واضح کیاکہ پاکستان میں قائم 30ہزار مدارس میں سے صرف 100 کے لگ بھگ ہی شدت پسندی کے پرچار میں ملوث ہیں۔مذہبی  مدارس پاکستان میں تعلیمی سہولیات سے محروم لاکھوں غریب طلباء کو تعلیم دے رہے ہیں تاہم اب انہیں نفرت اورشدت پسندی سے احتراز کرناہوگا۔

 

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق حکومتی کنٹرول میں لانے کے بعد ان مدارس میں جدیدتعلیم کے فروغ کیلئے انسداددہشت گردی اورسکیورٹی اپریشنز پر ہونے والے اخراجات میں سے فنڈز خرچ کیے جائیں گےتاکہ آئندہ ان مدارس سے فارغ ہونے والے طالبعلموں کو بھی عملی زندگی میں وہی مواقع مل سکیں جو پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلباء کو میسرہوتے ہیں۔ میجرجنرل آصف غفورنے اس عزم کااظہارکیاکہ ہم پاکستان میں پرتشدد شدت پسندی ختم کرناچاہتے ہیں اوریہ تبھی ممکن ہوگا جب قوم کے تمام نوجوانوں کو یکساں تعلیم اورمواقع ملیں۔

 

حال ہی میں بھارتی اخبارات میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں بھارتی مدارس کی ماڈرنائزیشن پر زوردیاتھاکیونکہ انڈیا کےطول وعرض میں قائم 40000مدارس میں مجموعی  آبادی کے 2سے 4فیصد طلباء زیرتعلیم ہیں۔ پسماندہ اورانتہائی غریب بستیوں میں قائم یہ مدارس ابتدائی تعلیم کے حصول کا وہاں واحد ذریعہ ہیں اور کسی منظم اورمربوط تعلیمی نظام اورنیٹ ورک کا حصہ ہونے کی بجائے ان مدارس کی اکثریت آزادانہ طورپر کام کررہی ہے۔

 

میرے خیال میں یہ مدارس صرف اورصرف اسلامی تعلیم اوراسلام کے مخصوص نظریہ کے تحت دیتے ہیں اوروہاں طلباء مخصوص مذہبی عینک سے ہر چیز کو دیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں جس سے بادی النظرمیں ان طلباء کی معاشرتی ، معاشی اورسماجی حالات کے مطابق قوت فیصلہ اورصلاحیت متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس طرح یہ نوجوان 21ویں صدی کے تقاضوں سے نبردآزما ہونے کی صلاحیتوں سے عاری ہوجاتے ہیں۔بھارت کی طرح پاکستان میں بھی صورتحال یکساں ہیں اوراسی طرح اس کے علاج کی ضرورت بھی مشترک ہوگی۔

مدارس کی اصلاح کیسے ممکن ہے

میرے نقطعہ نظر کے مطابق تو سب سے اہم علاج مدارس کے نصاب کو ہمہ جہت اورمتوازن بنانے کی ضرورت ہے جس میں سائنس وٹیکنالوجی اورریاضی کی تعلیم ابتدائی سالوں میں رائج کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد ووکیشنل اورٹیکنیکل ٹریننگ  اورہائیر ایجوکیشن کیلئے ان طلباء کو تیارکیاجاناچاہئے۔ مدارس کے طلباء کا المیہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ وہ پرائمری لیول سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے اورمدارس کے نصاب کی اصلاحات میں اس امر پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہوگی کہ یہ نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اہلیت حاصل کرپائیں۔پاکستان میں یہ مسئلہ وزارت تعلیم کی طرف سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے مشترکہ طورپر اصلاحات کے عمل پر عملدرآمد سے حل ہوسکتاہے۔

 

پاکستان میں تبدیلی کے عمل کے روایتی مخالفین مدارس میں اصلاحات کے عمل کے خلاف بھرپور مزاحم ہونگے جبکہ استثنائی طورپر بعض اسے قبول بھی کرلیں گے۔ اب اس کا انحصار حکومت پاکستان کے سیاسی عزم اورمستقل مزاجی پر ہے کہ وہ ملک کے طول وعرض میں ان اصلاحات پر کیسے عملدرآمد کراتی ہے۔ یہ امید کی جانی چاہئے کہ ان مدارس کی انتظامہ اپنے طلباء اورملک کے بہترین مفاد میں حکومت کے ساتھ کس حد تک تعاون کرتی ہے۔

 

اصلاحاتی عمل میں حائل رکاوٹیں

 

مدارس کے اصلاحاتی ایجنڈا پر عملدرآمدمیں میرے خیال میں دوبڑی رکاوٹوں کا سامنا ہوسکتاہے۔ اول وہ مدارس کے منتظمین کا وہ مائنڈ سیٹ ہے جو سخت گیر روایات، مسخ حقائق کی قبولیت، منجمد نقطعہ نظر  اورمخصوص اعتقادات پر مبنی ہے۔ یہ  روایات،  نظریات  اوراعتقادات کی منتظمین کے بچپن کے حالات کے عکاس ہوتے ہیں جن کا عموماً مذہب کے ساتھ کوئی لینادینا نہیں ہوتااورایسے میں سوچ کی تبدیلی ان لوگوںکیلئے سب سے مشکل امرہوسکتاہے۔ دوسری بڑی رکاوٹ حکومت کی طرف سے ہر رنگ ونسل اورمذہب کے لوگوںکو کوالٹی ایجوکیشن بلاتفریق فراہم کرنے میں ناکامی کے باعث پیش آسکتی ہے۔

حال ہی میں بھارتی صوبہ ہریانہ کے ضلع میوات سےمتعلق ایک دلچسپ سٹڈی منظر عام پر آئی تھی جو بھارت کا پسماندہ ترین علاقہ ہے جہاں مدرسے صرف مسلمان طلباء کو تعلیم دیتے ہیں۔وہاں ہونے والے ایک سروے میں میوات کے لوگوں نے اس خواہش کا اظہارکیاتھا کہ وہ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں جدید سائنسی تعلیم دلواناچاہتے تھے لیکن انہیں اس کے مواقع ہی میسرنہ تھ۔دلچسپ امریہ ہے کہ میوات کے 77 میں سے صرف 8 مدارس ایسے تھے جو طلباء کو جدید تعلیم سے آراستہ کررہے تھے۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اگر پسماندہ علاقوں کے لوگوں اورمدارس کے منتظمین کو مناسب مواقع اور وسائل میسر ہوں توانہیں اس تبدیلی کی طرف راغب کیاجاسکتاہے۔

 

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا پہلاقدم:

میں ہمیشہ سے نظرانداز کیے گئے اورکمزورطبقات خصوصاًخواتین کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے پر زوردیتا رہاہوں اوراس ضمن میں میراعلیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے زعماء سے بھی بھرپوررابطہ رہاہے جن کی اس طرف خصوصی توجہ ہے اوروہ قابل قدرکام کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ میرے علم میں آیا ہے کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے حال ہی میں مدرسہ گریجویٹس کو یونیورسٹی گریجویٹ کورسز میں شرکت کیلئے خصوصی طورپر ایک کورس مرتب کیاہےجس میں انگریزی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اورہومین ڈویلپمنٹ کے مضامین شامل ہیں تاکہ ایسےطلباء کو دینی اورتنہائی پسندی سے نکال کر مضبوط اورقابل فہم نظام کا حصہ بنایا جاسکے۔

 

حتمی طورپر میں پاکستان کی حکومت کے اس اقدام کو قابل ستائش قراردیتاہوں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ پاکستان میں مدارس میں اصلاحات کا اعلان پہلی مرتبہ نہیں کیاگیا۔ ماضی  کی کئی حکومتیں مدارس کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے اوراصلاحات کے ایجنڈے کے خلاف  مذہبی جماعتوں کی سخت مزاحمت  اوراپنی کمزور حکمت عملی کے سبب عملدرآمد نہ کراسکیں۔ اب بہرطوریہ امید کی جاسکتی ہے کہ آخرکارپاکستانی حکومت مدارس کے اصلاحات کے ایجنڈے پر عملدرآمد میں کامیاب ہوجائے گی جو نہ صرف پاکستانی معاشرہ میں ایک مثبت تبدیلی ہوگی بلکہ بین الاقوامی سطح کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر بھی  مدارس سے متعلق لوگوں کے خیالات کو تبدیل کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

 

 

Check Also

‎کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر

    کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر تحریر : راجہ زاہد اختر خانزادہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے دلبرداشتہ ہو کر چند ایک ماہ سے اس پر اظہار خیال کرنابھی چھوڑ دیا تھا، مگر شاید اپنی اس مٹی سے محبت واپس پھر وہیں کھینچ لانے کومجبور کردیتی ہے کہ اپنے حصے کا حق ادا کیا  جائے،ہماری قوم اور ملک گزشتہ تہتر سالوں سے دائروں کےسفر میں ہے،جس کا کوئی اختتام نہیں ہے ،یہ سفر کولہو میں بندھے ہوئے بیل کی مانند ہے، جسکی کوئی منزل نہیں ہے، جس طرح کولہو کا بیل آشنائے راز سے واقف نہیں ہوتا، اور دن رات چلتاچلا جا تا ہے، اس طرح ہماری قوم کو بھی دائروں کے اس سفر میں الجھا دیا گیا ہے، پاکستان کیآرمی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ سات دہائیوں سے ہر کسی کو کٹھ پتلی بنائے چلی آرہی ہے ، اور انکواسی دائرہ کے سفر میں چلنے پر مجبور کرتی رہی  ہے، اب جبکہ ملک کا تمام میڈیا حکومتی کنٹرولمیں ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ (جیو اور جنگ) کے مالک میر شکیل الرحمن انکی حراست میں ہیں انہوں نے  میڈیاپر پابندی کے ذریعہ کولہو کے اس بیل کی آنکھیں بھی مکملطور بند کردی ہیں ،اس طرح اب اس قوم(بیل) کو جہاں چاہے گھمائو یہ قوم یہی سمجھے گی کہ وہآگے کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن دراصل ہماری منزل ہم سے کوسوں دور ہے، گزشتہ تہتر سالوں سےپاکستان کی تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو ہی دہراتی چلی آرہی ہے، یہ ملک جہاں تھا وہیں پر نہیں بلکہوہ مزید پیچھے کی طرف چلا گیا ہے، اگر ہم یحییٰ خان کے مارشل لاء کو بھی گنتی میں گنیں تواس ملک میں چار مارشل لاء لگ چکے ہیں جو کہ اپنی نوعیت کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلفرہے ہیں، اس دوران کبھی ہمیں سمجھایا گیا کہ مظلوم مسلمان بھائیوں کیلئے جہاد کرنا ہے اسطرح پھر کہا گیا کہ پرائے معاملات میں ٹانگ اڑانا دہشت گردی ہے، کبھی ہمیں یہ بتایا گیا کہ دنیابھر میں بسنے والے مسلمان تمہارے بھائیوں کی طرح ہیں، کبھی تیس لاکھ افغان مہاجرین کےبوجھ تلے قوم کو دبا دیا جاتا ہے، کبھی اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کرا کے امریکی ڈالر خطیرتعداد میں وصول کیئے جاتے ہیں، کبھی تمام مسلمانیت دل سے نکال کر کئی مسلمانوں کو سارےمسلمہ اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غیروں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے، کبھی غیر ملکی ایجنٹوں کو ویزے جاری کر کے انہیں اپنے ہی ملک میں غدار بھرتی کرنے کےکام کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ کبھی اپنے ہی ملک میں دھرنے دلوا کر ملک کی معیشت اورسیاسی استحکام کو دائو پر لگایا جاتا ہے، کبھی جمہوری حکومتوں کو ناک میں نکیل ڈالنے کیلئےان کی کان مروڑی کی جاتی ہے، کبھی ایدھی جیسے شخص کوبھی خریدنے کی کوشش کی جاتیہے، تو کبھی اس کے جنازہ کی آڑ میں اپنا نام بلند کیا جاتا ہے، جب کبھی بھی قوم مشکل میں ہوتو سارا ملبہ سیاسی حکومت پر گرا کر متوازی حکومت کھڑی کرتے ہوئے اپنے نغمہ بجا بجا کر بتایاجاتا ہے کہ یہی ایک ادارہ ہے جو کہ محبت وطن ہے،باقی سب غدار ہیں، یہی آپ سے سچے ہیں،کبھی اپنے ہی ان لیڈروں کو قتل کرا دیا جاتا ہے، جنہوں نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئےسر توڑ کوششیں کی ہوتی ہیں، کبھی غریب صوبوں سندھ اور بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کےان عوام کو جو کہ اپنے لئے حق طلب کرتے ہیں اور اپنے حصہ کی روٹی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیںتو ان کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے، ان کی لاشیں مسخ کر کے پھینک دی جاتی ہیں، کبھی کراچیمیں اردو بولنے والے کو بڑا محب وطن قرار دیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ غدارقوم ہیں اورتو اور انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح تک کوبھی نہیں بخشا ، اس کوبھی ایوب خان کے مقابلہ میں مدقابل آنے پر ”انڈین ایجنٹ”قراردے دیا گیا، ججوں کی تحریک میںپوری قوم ایک ساتھ کھڑی ہوئی میڈیا نے اس تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ججز بحالہوئے مگر مجال ہے کہ کوئی جنرل مشرف کو غدار تک قرار دے دے، وہ پاکستان آیا مگر اس کوباآسانی فرار کرا دیا گیا، جمہوری حکومت بھی آئی تو اس کو گارڈ آف آنرز دے کر رخصت کیا گیا،نواز شریف دور میں ججوں کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں نہ صرف ججوں کی بلکہ ججوں کےاہل خانہ کو ٹریپ کر کے ان کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں، اس طرح ایماندار ججوں کو فیملیکے ذریعہ بلیک میل کیا گیا، دھرنے والوں میں کھلم کھلا رقوم تقسیم کی گئیں اور اس سلسلے میںوہ ایماندار جج قاضی فائز عیسیٰ نے آرمی انٹیلی جنس کی جانب سے رقوم کی تقسیم سے متعلقتاریخی فیصلہ دیا اور کوئٹہ سانحہ  کی تحقیقات پر دبنگ ریمارکس اور فیصلے دئیے، اس کو بھیمیڈیا ٹرائل کے ذریعے بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ، اسکو عہدے سے ہٹایا گیا اس سےقبل ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی آئی ایس آئی پر تنقید کرنے کیپاداش میں ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرف کیا گیا، اس جج نے پاکستان میں  جبریگمشدگیوں کے بارے میں اپنی عدالت میں کہا تھا کہ ” میں سمجھتا ہوں کہ مقامی پولیس بھی انطاقتور ایجنسیوں کے ساتھ مل چکی ہے جنہوں نے ملک کے سماجی ڈھانچے میں رکاوٹیں پیداکررکھی ہیں” جسٹس صدیقی نے آئی ایس آئی پر بھی شدید تنقید کی تھی جس کے بعد انکوخرید کیئے گئے ججوں کے ذریعے فارغ  کرادیا گیا ، ملک میں میڈیا کے ذریعے عوام کو کنٹرولکرنے کیلئے نت نئے گانے بنانے اور سوشل میڈیا پر کروڑوں روپے خرچ  کئے گئے مگر ان سے یہمعلوم نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ رقم فوج نے کہاں اور کیو ں کر خرچ کی؟ دائروں کے اس سفر میں گزشتہ ستر سالوں میں کبھی ہمیں کمشنری نظام ،تو کبھی ضلعی نظامکبھی پھر وہی کمشنری سسٹم اور پھر ضلعی بلدیاتی نظام الغرض وہی دائروں کا سفر جاری اورساری رہا ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پوری قوم کو یکجا کر نے کے بجائے ہمیں گروہوں ،نسلوں اورقبیلوں میں تقسیم کیا ،قوم کو آپس میں تقسیم کر کے ہی ان کا کاروبار چلتا ہے، انہوں نے قوم کومختلف دائروں میں تقسیم کر کے پھر انکو ایک دائرے میں قیدکیا ، اسطرح کسی کو کسی کےدائرے میں جھانکنے کی اجازت بھی نہیں، سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان کا دائرہ ،اردو ،سندھی کادائرہ، بلوچی اور پنجابی دائرہ، سرائیکی اور پنجابی کا دائرہ، شیعہ سنی، وہابی اور بریلویدائرہ، سیکولر اور مذہبی دائرہ ،یہ پوری قوم ان دائروں میں رہتے ہوئے اب تہتر سالوں بعد اپنے آپکو انہی دائروں کا قیدی سمجھنے لگ چکی ہے ، میڈیا جو اس بٹی ہوئی قوم کو شعور کی منزل پرلے جا کر انہیں سمجھانا چاہتا ہے کہ اپنے دائروں سے باہر نکلو اور اگر نکل نہیں سکتے تو ایکدوسرے کیلئے کم از کم احترام  ہی پیدا کرلو مگر جو بھی ایسی کوشش کرے وہ یہاں غدار قرار پاتاہے،دائروں کے اس سفر کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ ہی کوئی منزل، ہاں جو اس دائروں سے باہر اندائروں کو چلا رہے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ ان کی منزل اور کام یہی ہے کہ وہ قوم کو انہی میںمصروف رکھیں،اسی میں ان کی نجات ہے، اس طرح ملک میں جس طرح میں نے پہلے بتایا کہ چارمارشل لاء لگ چکے ہیں، انتخابات بھی ہوئے ،مختلف سیاسی جماعتوں نے اقتدار کیلئے زور آزمائیبھی کی مگر دائروں کے اس سفر میں رہتے ہوئے پاکستان کے نظام میں ذرہ برابر بھی بہتری نظرنہیں آئی، آپ گزشتہ ستر سالوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،ہمارا سیاسی نظام، حکمرانی کیصلاحیتیں، سماجی اور اخلاقی اقدار تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو کر پستی کی طرف گامزن ہیں،اس طرح ماضی میں اپنی کارکردگی پر فخر کرنے والے قومی ادارے بھی ہماری اس تہتر سالہتاریخ میں بد ترین توڑ پھوڑ اور تنزلی کا شکار ہوئے ، جس میں پی آئی اے اور اسٹیل ملز اس کیواضع مثالیں ہیں، مگر یہ تو ہمارے ہی تخلیق کردہ ادارے تھے، مگر وہ ادارے جو کہ انگریز ہمیں دےکر گئے تھے، وہ بھی تو ہم سنبھال نہیں سکے، پوسٹ آفس، ریلوے، تعلیم کا شعبہ، ضلعیانتظامیہ، بلدیاتی ادارے اور قومی خدمات کے کئی ادارے اس وقت اپنی بربادی کی مثال بنے ہوئےہیں، یہ سب ادارے انگریز ہم کو انتہائی بہتر حالت میں دے کر گئے تھے، دائروں کے اس سفر نےتنزلی کی جو داستان رقم کی ہے وہ انتہائی دل دکھانے والی داستان ہے اور عبرتناک بھی ہے ، مگرہم نے اب تک اس سے عبرت حاصل نہیں کی کوئی سبق نہیں سا۔  تاریخ کے مشاہدات اور مطالعہسے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ منظم جمہوری ممالک میں سیاسی قیادتوں نے سول سروسز، قوانین کوباقاعدہ بنایا لہٰذا اس ڈھانچہ سے باہر جو کوئی بھی قدم رکھنے کی کوشش کرتا تو اس کو دیگراداروں کے ذمہ دار روکنے کیلئے قانون پر عملدرآمد کراتے اور قانون کی بالادستی وائم کرنے کیلئےوہ ان قوانین کے ذریعے عملی جامعہ پہنایا جاتا، اس طرح ان پختہ بالغ جمہوری معاشروں میںقانون کی حکمرانی زندگی کا معمول اور رواج بن گئی، اس استحکام کی بنیادی وجہ یا اس کا رازسول سروس کی استقامت میں پنہاں ہوتا ہے، اس لئے ان ممالک میں سول سروسز کو بہت زیادہآئینی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ،اس طرح قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کی کارکردگی کے راستےمیں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی، وہ بلا خوف وخطر کام کرتے ہیں اور اس نظام کو چلاتےہیں، اس طرح کا تحفظ گزشتہ دنوں ہمیں امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں بھی نظر آیا، جہاں پرہیوسٹن کے پولیس چیف نے اپنے ملک کے صدر کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے کہا کہ صدر صاحب اگرآپ عقل ودانش کی بات نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے منہ کو ہی بند رکھیں”پولیس چیف نے یہجملہ پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کی موت کے بعد صدر ٹرمپ کی جانب سے دئیےگئے اس بیان کے جواب میں کہا تھا کہ اگر پولیس عوام کی حفاظت نہیں کر پا رہی ہے تو وہ اس کےلئے ملٹری فورسز کو پولیس کی جگہ تعینات کر سکتے ہیں، اس بیان پر اگر صدر ٹرمپ عملدرآمدکرتے تو واقعی معاملہ مزید بگاڑ کی طرف جاتا ، اس لئے پولیس چیف نے اپنے صدر کی جانب سےاس نظام کو خراب کہنے پر شٹ اپ بھی کہااور ان کو دوسرے لفظوں میں احمق بھی کہہ ڈالا اورمنہ بند کرنے کا مشورہ بھی دے دیا ، ان کا یہ بیان امریکہ بھر کے میڈیا میں کئی دنوں تک گردشکرتا رہا ، امریکہ ہمارے آبائی ملک پاکستان کی طرح 52 ریاستوں کا مجموعہ ہے ، اس طرحپاکستان میں بھی صوبے وفاق کو قائم رکھنے کی علامتیں ہیں، یہ بالکل اس طرح ہے کہ سندھبلوچستان، خیبر پختونخواہ یا پنجاب کے کسی بڑے شہر کا پولیس چیف اپنے ہی وزیر اعظم کیجانب سے اپنے فرائض میں مداخلت پر اس کو شٹ اپ کہہ دے، لیکن ایسا پاکستان میں ممکن نہیں،ویسے بھی اس طرح حق گوئی کے ساتھ اظہار خیال کردینا صدارتی یا پارلیمانی نظام کا تحفہنہیں ، بلکہ سچ یہی ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے اور یہ اس کا لازمی جُز ہے، امریکہ ہینہیں تمام یورپی ممالک میں جہاں جمہوریتیں ہیں وہاں اس طرح قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، مگرآپ پاکستان کو دیکھ لیں جہاں سندھ پولیس کے آئ جی کو رینجر کے سیکٹر کمانڈر نے اغوا کرایااور جبرا ان سے احکامات پر عملدرآمد کرایا ، جمہوریت ہمارے ملک میں بھی ہے لیکن اگر آپ تھانہمیں ایف آئی آر کٹوانے جائیں تو آپ کو حیرانی ہو گی کہ ملک میں سول لاء ، شرعیہ لاء سمیت کئیقوانین نافذ العمل ہیں، اس طرح نہ تیتر اور نہ بٹیر والی صورتحال ہے، اس جمہوریت کو جو لوگکنٹرول کرتے چلے آ رہے ہیں، وہ پاکستان کی آرمی اور اسٹیبلشمنٹ ہے، جنہوں نے گزشتہ70سالوںسے جمہوریت کو اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے، وہی اقتدار پر پوری طرح قابض ہیں اور جبکبھی بھی جمہوری حکومتیں جمہور ان کے مفادات پر چھیڑ چھاڑ کرنے کا سوچتے ہیں تو یہ پھرسے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں، اس لئے آنے والی تمام جمہوریتوں کو ان کی ہی کٹھ پتلی بننا پڑتا ہے، اس اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص خاندان اور جاگیردار سیاسی پارٹیاں باقاعدہ غلام ہیں، اس طرحان قوتوں نے70سالوں سے جمہوریت کو اپنے دائرہ میں قید کررکھا ہے ،ملک میں امیر امیر تر اورغریب غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہمیں جو بھی مافیا ئیں نظر آتی ہیں، سب کیسب اس نظام اور اس اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں، اگر سچا جمہوری معاشرہ تشکیل پا جائے توایسی مافیائیں کبھی بھی اس نظام میں پنپ نہیں سکتیں، پاکستان میں سرمایہ داروں کی شوگرملز مافیائیں ہیں وہ جب چاہیں چینی کی قیمت بڑھا دیں، گندم کی مافیا جب چاہیں ملک میں آٹےکی مصنوعی قلت پیدا کر دیں اور قیمتوں کو آسمان تک چڑھا دیں، اس طرح سیمنٹ ،پٹرول،مافیائیں اپنا منہ کھولے بیٹھی ہوئی ہیں، اب کرونا کے بعد پاکستان سے خبریں آ رہی ہیں کہ دوائوںکی انڈسٹری مافیا نے اس بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوائوں کی قیمتیں کئی فیصد بڑھا دی ہیں،جبکہ حکومت نے ان مافیا کو ار دوام دیتے ہوئے دواوں کی قیمتوں کو حال ہی میں بڑھا دیا ہے اسطرح یہ استحصالی قوتیں انتہائی منظم ہیں، صرف اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کتنیہی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے ، اس طرح اسٹیبلشمنٹ اور ان کی غلام اور لونڈی قوتوں کی حوسکی قیمت غریب عوام کو ہی دینا پڑتی ہے، ایک طرف سیاسی حکمرانوں کی نااہلی کا سانحہ درپیشہے تو دوسری طرف نااہل، خود غرض، سیاسی قوتوں نے سول سروسز کے ڈھانچہ کو برباد کرکےرکھ دیا ہے، اس بربادی کی وجہ سے سول سروسز کو آئینی تحفظ سے محروم رکھا گیا ،وزیر اعظمذوالفقار علی بھٹونے بڑے بڑے کام کئے مگر جب آئین تشکیل پا رہا تھا تو اس وقت بھی اس کو شایدجان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ سیاستدان ان سول سروسز کےافسران کو اپنی وفاداری پر لگانا چاہتے تھے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے خادم بن کر کا م کریں تاکہ ان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکے، یعنی یہ کہ جو کچھ حکمران چاہیں وہ وہیکریں اورسول سروسز رولز ریگولیشن کے نام پر کوئی بھی انکے لیئے رکاوٹ نہ بن سکے، اس طرحملک میں کھلے بندوں قانون شکنی اور لوٹ مار کا کلچر پروان چڑھنے لگا، سول سروسز کے افسراننے بھی اس بہتی گنگا سے اپنا حصہ وصول کیا، لوٹ مار کے اس کلچر میں اخلاقی قدروں کاجنازہ نکل گیا اور مزید کئی اور مافیائوں نے اس نظام کے تحت نیا جنم لیا اور حکومتی انتظامیکارکردگی کا بیڑاغرق کر دیا گیا، ہمارے سامنے اس وقت یہ منظر موجود ہے، قومی اداروں کیکارکردگی زوال پذیری کا شکار ہے، نیچے سے اوپر تک رشوت ستانی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا،ریلوے پوسٹ آفیس، اسٹیل مل، ضلعی انتظامیہ، پی آئی اے، مقامی حکومتوں کے شعبہ ناکارہ ہوچکے ہیں اور اس ناکامی کا سارا وزن غریب عوام برداشت کررہے ہیں، وہی اس کی قیمت ادا کررہےہیں،سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی ڈھانچہ، انتظامی ڈھانچہ اور اخلاقی ڈھانچہ اب اپنے اپنےدائروں میں سفر کررہا ہے، اس لئے حکمران کوئی بھی آئے، کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، اس طرحعوام کو صرف چہرے کی تبدیلی پر لگایا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ بے وقوف بن کر رہ جاتے ہیں ، اسوقت عوام بے بس اور محرومی کے احساس تلے مغلوب دائروں میں یہ سفر جاری رکھے ہوئے ہے،جس طرح پہلے میں نے کہا کہ میڈیا جو کہ عوام کو درست سمت کا تعین کرنے میں بڑا مدد گارتھا،اب اس بیل کی آنکھ پر بھی مکمل اور مضبوط پٹی باندھ دی گئی ہے، میڈیا کو بھی دائروں کےسفر میں ڈال دیا گیا ہے، کسی کو بھی کسی کے دائرے میں جھانکنے کی اجازت نہیں،، مختلفدائروں میں بٹی ہوئی یہ قوم کس طرح تلاش کرے کہ اس کی منزل کیا ہے، اس کے لئے ضروری ہےہمیں اپنی آنکھوں سے اور اپنی عقلوں سے جو پٹی اسٹیبلشمنٹ نے باندھی ہوئی ہے ہم اسکو اتارپھینکیں اور شعور کے ذریعے اصل دشمن کو پہنچانیں اور قوم اور ملک کاہم درست سمت پر تعینکریں ،بصورت دیگر آنے والے وقتوں میں ہم اور ہماری نسلیں اسی دائرے کے سفر میں لگی رہیں گیاور منزل ان سے بھی کوسوں دور ہوگی اسلیئے یہ ایسے سوالات ہیں جنکے جواب آپکو معلوم ہونابہت ضروری ہیں اور یاد رکھیئے جو معاشرہ سوال کرنابھول جاتا ہے۔ وہ جواب کبھی نہیں  ڈھونڈسکتا، اسلیئے جو بھی ایسا سوال کرتا ہے اسکو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *