Home / قلم شرارے / وقت کے گھوڑے پر سوار عمران خان اورپاکستان کا مستقبل

وقت کے گھوڑے پر سوار عمران خان اورپاکستان کا مستقبل

وقت کے گھوڑے پر سوار عمران خان اورپاکستان کا مستقبل

آئن اسٹائین کے نظریہ کو سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اس نظریے کے تحت اس نے نظریہ اضافیت پربات کی مگر اس کی مکمل تفہیم نہ ہو سکی، بعدازاں اسٹیفن ہاکنگ جو کہ برطانوی ماہر فلکیات تھے بلیک ہول کا نظریہ پیش کیا ، اس نظریہ کے تحت انہوں نے بتایا کہ ایک ستارہ جو کہ گرم گیہوں کا مجموعہ ہوتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتا ہے اور اس طرح کے عمل میں وہ اپنا جسم اپنے مرکز کی طرف شدید کشف ثقل کے باعث سکیٹرنا شروع کر دیتا ہے،اس طرح ہزاروں میل کا قطر(ستارہ)سکڑکر ایک چائے چمچہ کی طرح اور پھر نقطہ ٔ پر آ کر فنا ہو جاتا ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ فنا اختتام پذیر نہیں بلکہ ایک نیا آغاز ہے لاکھوں اور کروڑں میل پر موجود وہ ستارہ اب وحدانیت اور سنگلریٹی بن جاتا ہے اور مادے کی کثافت لامحدود ہوتی ہے بلیک ہول وہ سر بستہ راز ہے، جو ہر چیز ہڑپ کر جاتا ہے، مگر کسی کو اس کے بعدکا پتہ نہیں، بحیثیت مسلمان ہمیں بھی خدا  کی وحدانیت پر یقین ہے ،اپنی کتاب کے ذریعے اس نے ہماری رہنمائی بھی کی ہے،اس کا کہنا ہے کہ انسان ہمیشہ خسارے میںرہا ہے لیکن جنہوں نے اچھے اعمال کے ذریعے ایسے احسن عمل کئے وہ کبھی بھی گھاٹے یا خسارے میں نہیں رہے، کیونکہ آپ دنیا کے بادشاہ ہی کیوں نہ بن جائیں آخر کار ہم سب کو اسی مٹی میں مل جانا ہے، انسان جب اقتدار میں آتا ہے تو وہ دوسروں کا جبر واستحصال کرتا ہے لیکن اس دوران اگر دانشمندانہ طبقہ خاموشی اختیار کرلے اور جاہل شعلہ بیانی کرے تواس سے معاشرہ مزید تباہی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے،پہلے زمانے میں سیانے کہتے آئے ہیں، کہ وقت کسی کیلئے نہیں ٹھرتا، آئن اسٹائین اور اسٹیفن ہاکنگ نے بھی وقت سے متعلق شہادتوں کے ذریعے اس بات کو بتانے کی کوششیں کیں، تاریخ نے دیکھا کہ کتنے ہی بادشاہ، دولتمند، امیر اور سلطان وقت کی ان لہروں پر سوار ہو کر آئے اور زمین پر اپنی آمد کے نشانات چھوڑ کر چلے گئے، ہمارے ملک پاکستان کی71سالہ تاریخ میں ایوب خان کی آمریت ،غلام، سکندر مرزا، یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق اور پھر مشرف آمریت کے رعب دار گھوڑے پر سوار ہو کر آئے مگر وہ آج کہاں ہیں، اس طرح عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھے والے ذوالفقار علی بھٹو اسٹیبلشمنٹ اور عوام کی طاقت کے بل بوتے پر ایوان اقتدار پہنچے، مگر یہ بھی تاریخ ہے کہ جب ان کا نماز جنازہ ہوا تو گڑھی خدا بخش میں سکوت طاری تھا، شریف النفس محمد خان جونیجو بحیثیت وزیر اعظم چین کے دورے پر تھے، واپس جب ائیر پورٹ اُترے تو ان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ وزیر اعظم نہیں رہے، جنرل ضیاء الحق جس کا طوطی11سال تک بولتا رہا، وہ اپنے30سے زائد جرنیلو ںکے ہمراہ جہاز میں جل کر مر گیا، اس کے جسد خاکی کو مٹی تک نصیب نہ ہو سکی، جس کو بھٹو نے5فٹ اوپر لٹکایا، قدرت نے اسکو50ہزار فٹ سے لٹکا کر زمین پر گرا دیا یہ شعور رکھنے والے سانوں کیلئے ایک سبق تھا ،بعدا زاں بینظیر بھٹو اقتدار میں آئیں برطرف ہوئیں، نواز شریف، جرنیلوں اور اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوارہو کر ملک کے وزیر اعظم بن گئے، برطرف ہوئے، پھر واپس آئے اور اس طرح تین بار وزیر اعظم بنے ،اسی دوران جنرل پرویز مشرف جب وہ مسلح افواج کے سربراہ تھے توبتایا گیا کہ ان کو فوج کی سربراہی سے برطرف کر دیا گیا ہے ابھی وہ جہاز میں ہی تھے مگر جہاز اترنے سے پہلے ہی نواز شریف کو گرفتار کر لیا گیا، مشرف ایوان اقتدار میں تھا اور نواز شریف لانڈھی جیل میں ،مشرف بھی اس طرح9سال اقتدار پر قابض رہا ، اس نے اپنے دور اقتدار میں دشمنوں کو مکے دکھائے، ایم کیو ایم کے ذریعے کراچی میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ائیر پورٹ پر محسور کرکے باہر تک نہیں نکلنے دیا، بعد ازاں میثاق جمہوریت ہوا، نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان معاہدہ ہوا، بینظیر پاکستان آئیں مگر وہ اس جنگ میں جان کی بازی ہار گئیں، تاہم ان کے خون کے صدقے اقتدار پیپلز پارٹی کو ملا، فرینڈلی اپوزیشن کے بعد اقتدارنواز شریف کو منتقل ہوا اور پھر آج وہی نواز شریف برطرف ہو کر اڈیالا جیل میں اپنی بیٹی اور داماد کے ہمراہ موجود ہے، عمران خان جن کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ اس کے ہاتھ میں اقتدار کی لکیر ہی نہیں ہے، مگر آج وہ وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہے، فوجی جرنیل اس کی تربیت پر لگے ہوئے ہیں، تاہم وہی عمران خان جو کہ بچت کی بڑی بڑی باتیں کرتا تھا، وہی عمران خان آج بنی گالہ سے وزیر اعظم ہائوس جو کہ8کلو میٹر کا سفر روڈ کے ذریعے نہیں کر سکتا، اس کے پڑوسی آج بھی موٹر سائیکلوں اور ویگنوں پر وہی سفر کررہے ہیں آج کل نواز شریف جو کہ اڈیالہ جیل میں ہیں پیرول پر رہا ہوئے تو ان کا کمزوروناتواں چہرہ دیکھنے کے قابل تھا، انہوں نے جاتی امراء میں اپنے لئے ایسے باتھ روم بنائے ہوئے تھے کہ اس کا کموڈ ہی اڑھائی کروڑ میں لگا تھا، بتایا جاتا ہے کہ یہ کموڈ صوفہ سیٹ کی طرح ہے، بہر حال جیل میں امیر ہو کہ غریب اس کی کیفیت ایک جیسی ہوتی ہے، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس کی ذہنیت تبدیل ہو جاتی ہے،آصف زرداری کو ہی دیکھ لیجئے یا اب پھر پاکستان تحریک انصاف والوں کو ہی دیکھ لیں، ان لوگوں کو دولت کے ساتھ ساتھ بندوق اورمیڈیا کی حمایت بھی حاصل ہے تو وہ یقینا طمراق کے ساتھ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں، اس لئے ایسے لوگوں کی حالت جرمنی کے ہٹلر اور منگولیا کے چنگیزخان جیسی ہو جاتی ہے،بہر کیف یہ وقت چل رہا ہے وقت کی سوئی گھنٹوں اور منٹوں کو تیزی سے طے کررہی ہے آئن اسٹائن کا کہنا ہے کہ وقت لامحدود ازل سے لامحدود ابد یت کی جانب جاری ہے، وقت لہر کا نام ہے جو کہ مستقل بہہ رہی ہے جس میں ماضی،حال اور مستقبل زمانے نہیں ہیں، وہ گہرا سمندر ہے جو کہ شروع سے آخر تک بہتا ہی رہے گا۔ اور ہم جیسے انسانوں کی حقیقت ہی کیا ہے لیکن باوجود تمام چیزوں کا ادراک رکھنے کے ہم وہی کچھ کرتے ہیں جو کہ نہیں کرنا چاہیے، انسان جب طاقتور ہوتا ہے تو اسی وقت حکمران ہی نہیں اس میں ہم سب بشمول سیاسی قائدین، مذہبی رہنما،ادیب، دانشور، افسر واہلکار صحافی وقلم کار سب کے سب پاکستانی کی اس زبوں کے ذمہ دار ہیں، ہر کسی کو اپنے اپنے ضمیر کے کٹہرے میں کھڑا ہونے کی ضرورت ہے، ہم نے انگریزوں سے رہائی حاصل کی مگر انگریز اسٹیبلشمنٹ کی صورت میں ہماری درمیان ایک ایسا نشان چھوڑ کر جا چکے ہیں کہ ملک71سالوں بعد بھی آج انہی کے رحم وکرم پر ہے، ہماری قوم کا ضمیر مر چکا ہے، ہمارے زمین زادے ضمیر انسانیت کو زندہ کر سکتے ہیں یہ ممکن بھی ہے، مگر کون ہے جو یہ کام کر ے،آج عوام الناس زندگی کے تلخ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، جنہیں مزید کچلنے کیلئے منی بجٹ لایا گیا ہے، ترقیاتی منصوبے بند کئے جا رہے ہیں، جس سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا، ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کرنے والے جو کچھ کرنے جا رہے ہیں، اس سے مجھے نہیں لگتا کہ آئندہ پانچ سال عوام کیلئے خوشگوار تبدیلیاں لے کر آئیں گے، ہماری قوم جس کے جذبات واحسات مر چکے ہیں وہ زندہ ہونے کے باوجود مردہ قوم بن چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر پانچ سال بعد جب بھی وہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں، تو ان کی اس تبدیلی کو اُچک  لیا جاتا ہے، عمران خان جو کہتے تھے، کیا آج وہ اس پر عمل کررہے ہیں…؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو کہ آپ کو آئندہ آنے والے دنوں کی پیش گوئی کر سکتا ہے، اس وقت حالات سیاسی معاشرہ ایسا تشکیل دیا جا چکا ہے کہ سیاسی مخالفت ذاتی مخالفت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے مجھے پاکستان میں رہنے والے عوام سے گلہ نہیں لیکن یہاں امریکہ میں رہنے والے لوگ جو کہ پڑھے لکھے معاشرہ میں اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں،وہ بھی اسی طرز عمل کا مظاہرہ کریں تو یقیناً اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے، دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کو دیکھ لیجیے ان کے لیڈر اگلی نسلوں کاسوچتے ہیں مگر اقتدار حاصل کرنے کے لئے اب ایسی ایسی نسل تیار کی گئی ہے جس کوآنے والی نسلیں بھی یاد کر کے روئیں گی، بہر کیف وقت کا یہ سلسلہ چل رہا ہے اور ہم ہوں اور یا نہ ہوں یہ سلسلہ چلتا رہے گا مگر ہمیں آنے والی نسلوں کیلئے ایک بہتر پاکستان دینا ہو گا،یہ اس صورت ہی ممکن ہے جب ہم وقت کی قدر کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کیلئے ایسا پاکستان دیں جس کا خواب ہمارے آبائو اجداد نے دیکھا تھا، عمران خان اور ان کی ٹیم اب وقت کے اس گھوڑے پر سوار ہے اب وہ وقت نہیں رہا کہ حالات کو بدلہ نہ جائے بلکہ حالات پیدا کئے جائیں اپنی بات منوانے کیلئے گالیوں اور الزامات کی سیاست کی جائے، سینے میں انتقام کی آگ بجھانے کیلئے جو چاہے شوشہ چھوڑ دیا جائے ،لوگوں کا مذاق اڑایا جائے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ نفرتوں کی دیواریں پھلانگ کر پیار کے رشتوں کو برقرار رکھا جائے، سیاست کے گلیارے میں لوگ رسوخ حاصل کرنے اور مانگی مراد پانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے اپناتے ہیں، یہ سب کام ہو چکا اب ڈیلیور کرنے کا وقت ہے اگر ڈیلیوری میں عوام کو وہ کچھ حاصل نہ ہو سکا جس کی انہیں امید ہے تو ان کے خوابوں کی فلک بوس عمارت آن واحد میں زمین بوس ہو جائے گی،71سالوں عوام مسائل کے تھپیڑے سہتے اور برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں ، ان کے اندر کانٹوں کا بن موجود ہے جس سے وہ اندر ہی اندر لہولہان ہو رہے ہیں ، عوام اس خفیہ ہاتھ سے انتقام لینا چاہتے ہیں جو کہ حالات کو بدلنا نہیں چاہتا بلکہ حالات پیدا کرنا چاہتا ہے ان کے سینوںمیں انتقام کی آگ ہے تا ہم اس بار قربانی کا بکرا نواز شریف بنا، قوم ابھی بھی جھانسے میں ہے لیکن جس دن اس قوم کو ترکی کی عوام کی طرح ہوش آیا تو سمندر کا سانس جھاگ میں ٹوٹ جائے گا،پاکستان کی اکتر سالہ تاریخ میں کتنے ہی جرنیل سورما لیڈر آئے اور چلے گئے، وقت کا پہیہ چلتا رہا مگر تاریخ کے اوراقوں میںان کے کئے گئے فیصلے ان کوتاریخ میں اچھا اور برا رہنما بیان کرتے ہیں اور رہتی دنیا تک کرتے رہیں گے، 71سال کا عرصہ ایک بہت بڑا عرصہ ہے، جس میں قوموں نے ترقی حاصل کی، ملائیشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے، اس ملک کو قذاقوں کی پناہ گاہ کہا جاتا تھا، ملائیشیا آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے، تعلیم، انفرااسٹریکچر اور سیاحت کے حوالے سے یہ پوری دنیا میں مقبول ہے، اس طرح عرب امارات کی مثال بھی سامنے ہے، کچھ عرصہ قبل وہ ایک ویران اور بیاباں صحرا تھا، جس میں آج زمین ،آسمان کا فرق ہے اور اگر ان ممالک سے ہم مقابلہ کریں تو زمین اور آسمان کا فرق صاف نظر آجاتا ہے ان ممالک کو ان کی قیادتوں نے اس ترقی پرپہنچایا مگر پاکستان میں جس طرح اسٹیبلشمنٹ 71سالوں سے اپنے پنجے سیاسی ایوانوں میں گاڑھے ہوئے ہے، اس کے سبب مستقبل قریب میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع رکھنا کیکر کے درخت سے  بیر حاصل کرنے کے مترادف ہے۔بہر کیف حال ہی میںپیش کئے گئے  منی بجٹ کو ہی لے لیجئے،جہاں تک وزیر خزانہ کی جانب سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ترمیمی بل پیش کرنے کے دوران غریب عوام کو ریلیف دینے کا تعلق ہے تو وزیر اعظم،گورنر ،وزراء کو بھی ٹیکس کے دائرے میں لانے کا جو اعلان کیا گیا ہے وہ خوش آئندہ ہے اور یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہو گا کہ یہ لوگ بھی ہر قسم کاٹیکس ادا کرینگے مگر اس کے علاوہ ملک میں غیر پیداواری خرچ جس میں دفاعی اور انتظامی اخراجات شامل ہیں، اس کو کس طرح کم کیا جائے یہ سوچنا بھی اور اس پر اقدامات کرنا بھی بہت ضروری ہے، میںیہ سمجھتا ہوں کہ بجٹ اور معیشت ایک دوسرے سے لازم وملزوم ہیں، بجٹ میں وسائل کی درست طریقہ تقسیم سے ہی جمود کا شکار معیشت کو سہارا مل سکتا ہے، اس لئے معیشت مضبوط ہیو گی تو ملک کے تمام ادارے بھی مستحکم ہونگے، مگر خرچہ کم کرنا ہو گا، یہ درست عمل نہیں کہ جو لوگ ملک کو کھا رہے ہیں وہ ان کاملک بجلی، گیس، پٹرول کے نرخ بڑھا کر پورا کیا جائے تو یہی کام71سالوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے اس سے ملکی معیشت کو کبھی بھی بہتر  نہیں بنایا جا سکتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں زرعی پیداوار معیشت کو مضبوط بنایا جائے، وقت کا سفر جاری ہے اور جاری رہے گا ،عمران خان اور ان کی ٹیم وقت کے اس گھوڑ ے پر سوار ہے اور یہ وقت آیا ہے اور چلا جائے گا لیکن حکومت وقت کی تاریخ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رقم ہونا شروع ہو گئی ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے فیصلے کئے جائیں جس سے عوام کا معیار زندگی بلند ہو۔

Check Also

‎کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر

    کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر تحریر : راجہ زاہد اختر خانزادہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے دلبرداشتہ ہو کر چند ایک ماہ سے اس پر اظہار خیال کرنابھی چھوڑ دیا تھا، مگر شاید اپنی اس مٹی سے محبت واپس پھر وہیں کھینچ لانے کومجبور کردیتی ہے کہ اپنے حصے کا حق ادا کیا  جائے،ہماری قوم اور ملک گزشتہ تہتر سالوں سے دائروں کےسفر میں ہے،جس کا کوئی اختتام نہیں ہے ،یہ سفر کولہو میں بندھے ہوئے بیل کی مانند ہے، جسکی کوئی منزل نہیں ہے، جس طرح کولہو کا بیل آشنائے راز سے واقف نہیں ہوتا، اور دن رات چلتاچلا جا تا ہے، اس طرح ہماری قوم کو بھی دائروں کے اس سفر میں الجھا دیا گیا ہے، پاکستان کیآرمی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ سات دہائیوں سے ہر کسی کو کٹھ پتلی بنائے چلی آرہی ہے ، اور انکواسی دائرہ کے سفر میں چلنے پر مجبور کرتی رہی  ہے، اب جبکہ ملک کا تمام میڈیا حکومتی کنٹرولمیں ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ (جیو اور جنگ) کے مالک میر شکیل الرحمن انکی حراست میں ہیں انہوں نے  میڈیاپر پابندی کے ذریعہ کولہو کے اس بیل کی آنکھیں بھی مکملطور بند کردی ہیں ،اس طرح اب اس قوم(بیل) کو جہاں چاہے گھمائو یہ قوم یہی سمجھے گی کہ وہآگے کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن دراصل ہماری منزل ہم سے کوسوں دور ہے، گزشتہ تہتر سالوں سےپاکستان کی تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو ہی دہراتی چلی آرہی ہے، یہ ملک جہاں تھا وہیں پر نہیں بلکہوہ مزید پیچھے کی طرف چلا گیا ہے، اگر ہم یحییٰ خان کے مارشل لاء کو بھی گنتی میں گنیں تواس ملک میں چار مارشل لاء لگ چکے ہیں جو کہ اپنی نوعیت کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلفرہے ہیں، اس دوران کبھی ہمیں سمجھایا گیا کہ مظلوم مسلمان بھائیوں کیلئے جہاد کرنا ہے اسطرح پھر کہا گیا کہ پرائے معاملات میں ٹانگ اڑانا دہشت گردی ہے، کبھی ہمیں یہ بتایا گیا کہ دنیابھر میں بسنے والے مسلمان تمہارے بھائیوں کی طرح ہیں، کبھی تیس لاکھ افغان مہاجرین کےبوجھ تلے قوم کو دبا دیا جاتا ہے، کبھی اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کرا کے امریکی ڈالر خطیرتعداد میں وصول کیئے جاتے ہیں، کبھی تمام مسلمانیت دل سے نکال کر کئی مسلمانوں کو سارےمسلمہ اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غیروں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے، کبھی غیر ملکی ایجنٹوں کو ویزے جاری کر کے انہیں اپنے ہی ملک میں غدار بھرتی کرنے کےکام کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ کبھی اپنے ہی ملک میں دھرنے دلوا کر ملک کی معیشت اورسیاسی استحکام کو دائو پر لگایا جاتا ہے، کبھی جمہوری حکومتوں کو ناک میں نکیل ڈالنے کیلئےان کی کان مروڑی کی جاتی ہے، کبھی ایدھی جیسے شخص کوبھی خریدنے کی کوشش کی جاتیہے، تو کبھی اس کے جنازہ کی آڑ میں اپنا نام بلند کیا جاتا ہے، جب کبھی بھی قوم مشکل میں ہوتو سارا ملبہ سیاسی حکومت پر گرا کر متوازی حکومت کھڑی کرتے ہوئے اپنے نغمہ بجا بجا کر بتایاجاتا ہے کہ یہی ایک ادارہ ہے جو کہ محبت وطن ہے،باقی سب غدار ہیں، یہی آپ سے سچے ہیں،کبھی اپنے ہی ان لیڈروں کو قتل کرا دیا جاتا ہے، جنہوں نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئےسر توڑ کوششیں کی ہوتی ہیں، کبھی غریب صوبوں سندھ اور بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کےان عوام کو جو کہ اپنے لئے حق طلب کرتے ہیں اور اپنے حصہ کی روٹی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیںتو ان کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے، ان کی لاشیں مسخ کر کے پھینک دی جاتی ہیں، کبھی کراچیمیں اردو بولنے والے کو بڑا محب وطن قرار دیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ غدارقوم ہیں اورتو اور انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح تک کوبھی نہیں بخشا ، اس کوبھی ایوب خان کے مقابلہ میں مدقابل آنے پر ”انڈین ایجنٹ”قراردے دیا گیا، ججوں کی تحریک میںپوری قوم ایک ساتھ کھڑی ہوئی میڈیا نے اس تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ججز بحالہوئے مگر مجال ہے کہ کوئی جنرل مشرف کو غدار تک قرار دے دے، وہ پاکستان آیا مگر اس کوباآسانی فرار کرا دیا گیا، جمہوری حکومت بھی آئی تو اس کو گارڈ آف آنرز دے کر رخصت کیا گیا،نواز شریف دور میں ججوں کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں نہ صرف ججوں کی بلکہ ججوں کےاہل خانہ کو ٹریپ کر کے ان کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں، اس طرح ایماندار ججوں کو فیملیکے ذریعہ بلیک میل کیا گیا، دھرنے والوں میں کھلم کھلا رقوم تقسیم کی گئیں اور اس سلسلے میںوہ ایماندار جج قاضی فائز عیسیٰ نے آرمی انٹیلی جنس کی جانب سے رقوم کی تقسیم سے متعلقتاریخی فیصلہ دیا اور کوئٹہ سانحہ  کی تحقیقات پر دبنگ ریمارکس اور فیصلے دئیے، اس کو بھیمیڈیا ٹرائل کے ذریعے بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ، اسکو عہدے سے ہٹایا گیا اس سےقبل ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی آئی ایس آئی پر تنقید کرنے کیپاداش میں ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرف کیا گیا، اس جج نے پاکستان میں  جبریگمشدگیوں کے بارے میں اپنی عدالت میں کہا تھا کہ ” میں سمجھتا ہوں کہ مقامی پولیس بھی انطاقتور ایجنسیوں کے ساتھ مل چکی ہے جنہوں نے ملک کے سماجی ڈھانچے میں رکاوٹیں پیداکررکھی ہیں” جسٹس صدیقی نے آئی ایس آئی پر بھی شدید تنقید کی تھی جس کے بعد انکوخرید کیئے گئے ججوں کے ذریعے فارغ  کرادیا گیا ، ملک میں میڈیا کے ذریعے عوام کو کنٹرولکرنے کیلئے نت نئے گانے بنانے اور سوشل میڈیا پر کروڑوں روپے خرچ  کئے گئے مگر ان سے یہمعلوم نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ رقم فوج نے کہاں اور کیو ں کر خرچ کی؟ دائروں کے اس سفر میں گزشتہ ستر سالوں میں کبھی ہمیں کمشنری نظام ،تو کبھی ضلعی نظامکبھی پھر وہی کمشنری سسٹم اور پھر ضلعی بلدیاتی نظام الغرض وہی دائروں کا سفر جاری اورساری رہا ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پوری قوم کو یکجا کر نے کے بجائے ہمیں گروہوں ،نسلوں اورقبیلوں میں تقسیم کیا ،قوم کو آپس میں تقسیم کر کے ہی ان کا کاروبار چلتا ہے، انہوں نے قوم کومختلف دائروں میں تقسیم کر کے پھر انکو ایک دائرے میں قیدکیا ، اسطرح کسی کو کسی کےدائرے میں جھانکنے کی اجازت بھی نہیں، سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان کا دائرہ ،اردو ،سندھی کادائرہ، بلوچی اور پنجابی دائرہ، سرائیکی اور پنجابی کا دائرہ، شیعہ سنی، وہابی اور بریلویدائرہ، سیکولر اور مذہبی دائرہ ،یہ پوری قوم ان دائروں میں رہتے ہوئے اب تہتر سالوں بعد اپنے آپکو انہی دائروں کا قیدی سمجھنے لگ چکی ہے ، میڈیا جو اس بٹی ہوئی قوم کو شعور کی منزل پرلے جا کر انہیں سمجھانا چاہتا ہے کہ اپنے دائروں سے باہر نکلو اور اگر نکل نہیں سکتے تو ایکدوسرے کیلئے کم از کم احترام  ہی پیدا کرلو مگر جو بھی ایسی کوشش کرے وہ یہاں غدار قرار پاتاہے،دائروں کے اس سفر کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ ہی کوئی منزل، ہاں جو اس دائروں سے باہر اندائروں کو چلا رہے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ ان کی منزل اور کام یہی ہے کہ وہ قوم کو انہی میںمصروف رکھیں،اسی میں ان کی نجات ہے، اس طرح ملک میں جس طرح میں نے پہلے بتایا کہ چارمارشل لاء لگ چکے ہیں، انتخابات بھی ہوئے ،مختلف سیاسی جماعتوں نے اقتدار کیلئے زور آزمائیبھی کی مگر دائروں کے اس سفر میں رہتے ہوئے پاکستان کے نظام میں ذرہ برابر بھی بہتری نظرنہیں آئی، آپ گزشتہ ستر سالوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،ہمارا سیاسی نظام، حکمرانی کیصلاحیتیں، سماجی اور اخلاقی اقدار تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو کر پستی کی طرف گامزن ہیں،اس طرح ماضی میں اپنی کارکردگی پر فخر کرنے والے قومی ادارے بھی ہماری اس تہتر سالہتاریخ میں بد ترین توڑ پھوڑ اور تنزلی کا شکار ہوئے ، جس میں پی آئی اے اور اسٹیل ملز اس کیواضع مثالیں ہیں، مگر یہ تو ہمارے ہی تخلیق کردہ ادارے تھے، مگر وہ ادارے جو کہ انگریز ہمیں دےکر گئے تھے، وہ بھی تو ہم سنبھال نہیں سکے، پوسٹ آفس، ریلوے، تعلیم کا شعبہ، ضلعیانتظامیہ، بلدیاتی ادارے اور قومی خدمات کے کئی ادارے اس وقت اپنی بربادی کی مثال بنے ہوئےہیں، یہ سب ادارے انگریز ہم کو انتہائی بہتر حالت میں دے کر گئے تھے، دائروں کے اس سفر نےتنزلی کی جو داستان رقم کی ہے وہ انتہائی دل دکھانے والی داستان ہے اور عبرتناک بھی ہے ، مگرہم نے اب تک اس سے عبرت حاصل نہیں کی کوئی سبق نہیں سا۔  تاریخ کے مشاہدات اور مطالعہسے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ منظم جمہوری ممالک میں سیاسی قیادتوں نے سول سروسز، قوانین کوباقاعدہ بنایا لہٰذا اس ڈھانچہ سے باہر جو کوئی بھی قدم رکھنے کی کوشش کرتا تو اس کو دیگراداروں کے ذمہ دار روکنے کیلئے قانون پر عملدرآمد کراتے اور قانون کی بالادستی وائم کرنے کیلئےوہ ان قوانین کے ذریعے عملی جامعہ پہنایا جاتا، اس طرح ان پختہ بالغ جمہوری معاشروں میںقانون کی حکمرانی زندگی کا معمول اور رواج بن گئی، اس استحکام کی بنیادی وجہ یا اس کا رازسول سروس کی استقامت میں پنہاں ہوتا ہے، اس لئے ان ممالک میں سول سروسز کو بہت زیادہآئینی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ،اس طرح قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کی کارکردگی کے راستےمیں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی، وہ بلا خوف وخطر کام کرتے ہیں اور اس نظام کو چلاتےہیں، اس طرح کا تحفظ گزشتہ دنوں ہمیں امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں بھی نظر آیا، جہاں پرہیوسٹن کے پولیس چیف نے اپنے ملک کے صدر کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے کہا کہ صدر صاحب اگرآپ عقل ودانش کی بات نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے منہ کو ہی بند رکھیں”پولیس چیف نے یہجملہ پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کی موت کے بعد صدر ٹرمپ کی جانب سے دئیےگئے اس بیان کے جواب میں کہا تھا کہ اگر پولیس عوام کی حفاظت نہیں کر پا رہی ہے تو وہ اس کےلئے ملٹری فورسز کو پولیس کی جگہ تعینات کر سکتے ہیں، اس بیان پر اگر صدر ٹرمپ عملدرآمدکرتے تو واقعی معاملہ مزید بگاڑ کی طرف جاتا ، اس لئے پولیس چیف نے اپنے صدر کی جانب سےاس نظام کو خراب کہنے پر شٹ اپ بھی کہااور ان کو دوسرے لفظوں میں احمق بھی کہہ ڈالا اورمنہ بند کرنے کا مشورہ بھی دے دیا ، ان کا یہ بیان امریکہ بھر کے میڈیا میں کئی دنوں تک گردشکرتا رہا ، امریکہ ہمارے آبائی ملک پاکستان کی طرح 52 ریاستوں کا مجموعہ ہے ، اس طرحپاکستان میں بھی صوبے وفاق کو قائم رکھنے کی علامتیں ہیں، یہ بالکل اس طرح ہے کہ سندھبلوچستان، خیبر پختونخواہ یا پنجاب کے کسی بڑے شہر کا پولیس چیف اپنے ہی وزیر اعظم کیجانب سے اپنے فرائض میں مداخلت پر اس کو شٹ اپ کہہ دے، لیکن ایسا پاکستان میں ممکن نہیں،ویسے بھی اس طرح حق گوئی کے ساتھ اظہار خیال کردینا صدارتی یا پارلیمانی نظام کا تحفہنہیں ، بلکہ سچ یہی ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے اور یہ اس کا لازمی جُز ہے، امریکہ ہینہیں تمام یورپی ممالک میں جہاں جمہوریتیں ہیں وہاں اس طرح قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، مگرآپ پاکستان کو دیکھ لیں جہاں سندھ پولیس کے آئ جی کو رینجر کے سیکٹر کمانڈر نے اغوا کرایااور جبرا ان سے احکامات پر عملدرآمد کرایا ، جمہوریت ہمارے ملک میں بھی ہے لیکن اگر آپ تھانہمیں ایف آئی آر کٹوانے جائیں تو آپ کو حیرانی ہو گی کہ ملک میں سول لاء ، شرعیہ لاء سمیت کئیقوانین نافذ العمل ہیں، اس طرح نہ تیتر اور نہ بٹیر والی صورتحال ہے، اس جمہوریت کو جو لوگکنٹرول کرتے چلے آ رہے ہیں، وہ پاکستان کی آرمی اور اسٹیبلشمنٹ ہے، جنہوں نے گزشتہ70سالوںسے جمہوریت کو اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے، وہی اقتدار پر پوری طرح قابض ہیں اور جبکبھی بھی جمہوری حکومتیں جمہور ان کے مفادات پر چھیڑ چھاڑ کرنے کا سوچتے ہیں تو یہ پھرسے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں، اس لئے آنے والی تمام جمہوریتوں کو ان کی ہی کٹھ پتلی بننا پڑتا ہے، اس اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص خاندان اور جاگیردار سیاسی پارٹیاں باقاعدہ غلام ہیں، اس طرحان قوتوں نے70سالوں سے جمہوریت کو اپنے دائرہ میں قید کررکھا ہے ،ملک میں امیر امیر تر اورغریب غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہمیں جو بھی مافیا ئیں نظر آتی ہیں، سب کیسب اس نظام اور اس اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں، اگر سچا جمہوری معاشرہ تشکیل پا جائے توایسی مافیائیں کبھی بھی اس نظام میں پنپ نہیں سکتیں، پاکستان میں سرمایہ داروں کی شوگرملز مافیائیں ہیں وہ جب چاہیں چینی کی قیمت بڑھا دیں، گندم کی مافیا جب چاہیں ملک میں آٹےکی مصنوعی قلت پیدا کر دیں اور قیمتوں کو آسمان تک چڑھا دیں، اس طرح سیمنٹ ،پٹرول،مافیائیں اپنا منہ کھولے بیٹھی ہوئی ہیں، اب کرونا کے بعد پاکستان سے خبریں آ رہی ہیں کہ دوائوںکی انڈسٹری مافیا نے اس بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوائوں کی قیمتیں کئی فیصد بڑھا دی ہیں،جبکہ حکومت نے ان مافیا کو ار دوام دیتے ہوئے دواوں کی قیمتوں کو حال ہی میں بڑھا دیا ہے اسطرح یہ استحصالی قوتیں انتہائی منظم ہیں، صرف اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کتنیہی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے ، اس طرح اسٹیبلشمنٹ اور ان کی غلام اور لونڈی قوتوں کی حوسکی قیمت غریب عوام کو ہی دینا پڑتی ہے، ایک طرف سیاسی حکمرانوں کی نااہلی کا سانحہ درپیشہے تو دوسری طرف نااہل، خود غرض، سیاسی قوتوں نے سول سروسز کے ڈھانچہ کو برباد کرکےرکھ دیا ہے، اس بربادی کی وجہ سے سول سروسز کو آئینی تحفظ سے محروم رکھا گیا ،وزیر اعظمذوالفقار علی بھٹونے بڑے بڑے کام کئے مگر جب آئین تشکیل پا رہا تھا تو اس وقت بھی اس کو شایدجان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ سیاستدان ان سول سروسز کےافسران کو اپنی وفاداری پر لگانا چاہتے تھے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے خادم بن کر کا م کریں تاکہ ان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکے، یعنی یہ کہ جو کچھ حکمران چاہیں وہ وہیکریں اورسول سروسز رولز ریگولیشن کے نام پر کوئی بھی انکے لیئے رکاوٹ نہ بن سکے، اس طرحملک میں کھلے بندوں قانون شکنی اور لوٹ مار کا کلچر پروان چڑھنے لگا، سول سروسز کے افسراننے بھی اس بہتی گنگا سے اپنا حصہ وصول کیا، لوٹ مار کے اس کلچر میں اخلاقی قدروں کاجنازہ نکل گیا اور مزید کئی اور مافیائوں نے اس نظام کے تحت نیا جنم لیا اور حکومتی انتظامیکارکردگی کا بیڑاغرق کر دیا گیا، ہمارے سامنے اس وقت یہ منظر موجود ہے، قومی اداروں کیکارکردگی زوال پذیری کا شکار ہے، نیچے سے اوپر تک رشوت ستانی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا،ریلوے پوسٹ آفیس، اسٹیل مل، ضلعی انتظامیہ، پی آئی اے، مقامی حکومتوں کے شعبہ ناکارہ ہوچکے ہیں اور اس ناکامی کا سارا وزن غریب عوام برداشت کررہے ہیں، وہی اس کی قیمت ادا کررہےہیں،سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی ڈھانچہ، انتظامی ڈھانچہ اور اخلاقی ڈھانچہ اب اپنے اپنےدائروں میں سفر کررہا ہے، اس لئے حکمران کوئی بھی آئے، کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، اس طرحعوام کو صرف چہرے کی تبدیلی پر لگایا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ بے وقوف بن کر رہ جاتے ہیں ، اسوقت عوام بے بس اور محرومی کے احساس تلے مغلوب دائروں میں یہ سفر جاری رکھے ہوئے ہے،جس طرح پہلے میں نے کہا کہ میڈیا جو کہ عوام کو درست سمت کا تعین کرنے میں بڑا مدد گارتھا،اب اس بیل کی آنکھ پر بھی مکمل اور مضبوط پٹی باندھ دی گئی ہے، میڈیا کو بھی دائروں کےسفر میں ڈال دیا گیا ہے، کسی کو بھی کسی کے دائرے میں جھانکنے کی اجازت نہیں،، مختلفدائروں میں بٹی ہوئی یہ قوم کس طرح تلاش کرے کہ اس کی منزل کیا ہے، اس کے لئے ضروری ہےہمیں اپنی آنکھوں سے اور اپنی عقلوں سے جو پٹی اسٹیبلشمنٹ نے باندھی ہوئی ہے ہم اسکو اتارپھینکیں اور شعور کے ذریعے اصل دشمن کو پہنچانیں اور قوم اور ملک کاہم درست سمت پر تعینکریں ،بصورت دیگر آنے والے وقتوں میں ہم اور ہماری نسلیں اسی دائرے کے سفر میں لگی رہیں گیاور منزل ان سے بھی کوسوں دور ہوگی اسلیئے یہ ایسے سوالات ہیں جنکے جواب آپکو معلوم ہونابہت ضروری ہیں اور یاد رکھیئے جو معاشرہ سوال کرنابھول جاتا ہے۔ وہ جواب کبھی نہیں  ڈھونڈسکتا، اسلیئے جو بھی ایسا سوال کرتا ہے اسکو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *