Home / جاگو کالمز / اے پارلیمنٹ تیرا کالا منہ

اے پارلیمنٹ تیرا کالا منہ

پاکستان میں سیاست کی دھماچوکڑیاں اپنے عروج پر ہیں سینٹ کے انتخابات ہوں کے چیئرمین کا انتخاب یا اس سے قبل سیاسی رہنمائوں پر کالک پھینکے جوتا پھینکنے کے واقعات ان سب عوامل سے پاکستان میں مستقبل کی سیاست میںہونے والے منفی رجحانات ابھی سے کھل کر سامنے آ رہے ہیں بدقسمتی سے آج جو لوگ اس کا شکار ہو رہے ہیں انہوں نے بھی اپنے دور اقتدار میں یہی کچھ کیا۔بوٹوں کی گھن گرج پہلے بھی تھی اور آجبھی ہے،سینٹ کے انتخابات کے بعد جیالوں کو بھی مبارک ہو کہ سینٹ کے بازار میں زرداری صاحب نے بھٹو کے عوض بوٹ حاصل کرنے کا سودا کر لیا ہے اور صادق سخبرانی اور امین مانڈوالی اسٹبلشمنٹ کے تصدیق کردہ صادق اور امین تھے اور پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے مل کر اسٹبلشمنٹ کے امیدواروں کا واقعی بول بالا کر دیا ہے۔زرداری نے پہلے خیبر پختونخواہ سے پی ٹی آئی نامی اصطبل سے نمونہ کے بطور سولہ گھوڑے خریدے اور پسند آنے پر پورے کا پورا اصطبل ہی خرید ڈالا اس پر پی ٹی آئی کے کارکنان بھی مبارکباد کے مستحق ہیں ان انتخابات سے عوام کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ آئندہ مستقبل میں کس طرح کی تبدیلی آنے والی ہے ویسے میں صادق سنجرابی کو دنیا کا سب سے زیادہ خوش قسمت شخص سمجھتا ہوں کیونکہ یہ اگر پنجاب میں پیدا ہوتا تو شاید وہاں کونسلر بھی منتخب نہ ہو سکتا لیکن بلوچی پیدائش اور اسٹبلشمنٹ کی خصوصی شفقت کی بدولت آج وہ خود بھی حیران اور پریشان ہے کہ میری لاٹری کسیے نکل آئی ہے ویسے بھی زرداری کو قوم کے جس پیسہ سے کراچی کو کوڑا کرکٹ اٹھانا تھا اس نے ان پیسوں سے سینٹرز اٹھا لیے اور قوم کو ان دونوں میں کوئی فرق بھی محسوس نہیں ہوتا آج مجھے اعتزاز احسن کی لکھی گئی نظم یاد آ رہی ہے مگر حالات اور واقعات سے کچھ الفاظ بدل گئے ہیں آمریت کے منصف پھر سے آن پہنچے ہیں اور آمریت اب پی پی پی کی ماں کے جیسی ہو گئی ہے جو کہ ہر بکائو سے پیار کر رہی ہے آج پیپلز پارٹی والوں کو بھی فوج اچھی لگ رہی ہے کیونکہ زردای فوج کی گود میں بیٹھ چکے ہیںجس نے جمہوریت کی ماں کو آمریت کی گود میں گروی رکھ دیا ہے بہر کیف مجھے اس بات پر حیرت نہیں کہ اسٹبلشمنٹ نے زرداری اور عمران خان کو ایک لڑی میں بالاآخر پرودیا ہے۔
پاکستان میں ان انتخابات سے یہ بات بھی عوام کے سامنے آئی کہ سیاستدانوں کا نہ کوئی اصول ہے اور نہ ان کا کوئی نظریہ یہی وجہ ہے کہ ملک انارکی کی طرف جا رہا ہے ذاتی طور پر میں نواز شریف کا حمایتی نہیں لیکن آج وہ جس طرح اسٹبلشمنٹ کے خلاف کھڑا ہوا ہے یہ بات قابل تحسین ہے بابا رحمتے جس کے قلم کی ڈور بھی اسٹبلمشنٹ کے ہاتھوں میں ہے اس نے ہی نواز شریف کو اتنی بدعنوانیاں کرنے کے باوجود اور تمام ثبوت ہونے کے باوجود اقامہ پر لا کر ہی چت کرنا مناسب سمجھا لیکن فیصلہ ایسا ہی آنا تھا کیونکہ اسٹبلشمنٹ کو دوسرے بدعنوانوں کا احتساب کرنا ہوتا تو فیصلہ بھی ایسا ہی آتا لیکن ظاہر ہے دوسرے بدعنوانوں کو تحفظ بھی فراہم کرنا تھا اس لیے نواز شریف کے خلاف کوئی بھی ایسا فیصلہ سامنے نہ آ سکا جس کی پوری قوم کو امید تھی لیکن شاید اسٹبلشمنٹ کو بھی نواز شریف سے اس طرح مزاحمت کی امید نہیں تھی لیکن وہ مسلسل عوامی عدالت میں جا رہا ہے میرا تعلق سندھ سے ہے میں نے سندھ کو بھی دیکھا اور پنجاب بھی دیکھا مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ نواز شریف نے چاہے کتنی ہی بدعنوانیاں کیوں نہ کی ہوں مگر پھر بھی اس نے پنجاب میں کام کرائے یہی وجہ ہے کہ لوگ آج بھی اس کے دیوانے ہیں لیکن اس کے برعکس آپ سندھ میں چلے جائیں پورا سندھ موہنجودوڑو کو منظر پیش کر رہا ہے پیپلز پارٹی کی حکومت نے پورے کا پورا پیسہ کھا لیا میں نے وہاں کے ایک میئر(ناظم) سے شکایت کی کہ شہر اتنا گندا ہے جس پر اس کا جواب تھا کہ چونکہ آپ امریکہ سے آئے ہیں اس لیے آپ کو یہ شہر گندا لگ رہا ہے مجھے ان کی عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہا میں نے کہا کہ میں سال چھ ماہ میں پاکستان آتا ہوں 10سال بعد نہیں آیا ہوں کہ مجھے اندازہ نہ ہو بہر کیف عدالتوں کے ذریعہ جس طرح یک طرفہ ایک پارٹی کے خلاف تواتر کیساتھ فیصلے آ رہے تھے اس سے مجھے اندازہ تھا کہ اسٹبلشمنٹ اپنی پوری کوششوں میں ہے کہ نواز شریف کو ٹف ٹائم دیا جائے گا اس طرح جب نواز شریف نے عوامی رابطہ مہم چلائی تو ان کے رہنمائوں کو سیاہی اور کالک پھینک کر ڈرایا گیا جوتے مار کر یہ پیغام دیا گیا کہ باز آجائو اور واقعی مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا ایک بیان یاد آ رہا ہے جو کہ انہوں نے اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد دیا تھا کہ میرا تعلق چونکہ سندھ سے ہے اس لیے مجھے ہٹایا گیا ہے وہ دلیر خاتون تھی اس نے اسٹبلمشنٹ کا بہادری سے مقابلہ کیا لیکن اس کو مار دیا گیا اس کے قاتلوں نے مولانا سمیع الحق کے مدرسہ میں دو دن قیام کیا یہ بات ریکارڈ پر ہے اور یہ بھی بات ریکارڈ پر ہے کہ مولانا سمیع الحق کے مدرسہ کو خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت نے کئی کروڑ روپے امداد دی اور وہ امداد جاری بھی ہے لیکن آج اسٹبلشمنٹ کے سامنے سندھ بلوچستان کا کوئی کمزور لیڈر نہیں ہے کہ وہ اس کو نظر انداز کر دے آج ان کے سامنے اپوزیشن میں کھڑا بڑے صوبہ پنجاب کا لیڈر ہے اس کی جگہ اگر کوئی ہوتا تو شاید اب تک لیاقت باغ میں اس کا خون بھی دھل گیا ہوتا ویسے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے۔نواز شریف اب بھی نہ ڈرا تو طالبان چھوڑنے جائیں گے ایک جانب نواز شریف جو ووٹ کی حرمت کا نعرہ لگا رہا ہے اور دوسری جانب سازشیں کی جا رہی ہیں ہو سکتا ہے کہ ختم نبوت اور بلاسمی کا نعرہ لگوایا جائے گا خدانخواستہ ملک رہے نہ رہے مگر فوجی بدمعاشی قائم رہنی چاہیے۔انہوں نے پہلے بھی انہوں نے آدھا ملک توڑ ڈالا 1971ء کی جنگ میں نوئے ہزار تھے جن کو بھٹو شہید واپس لے کر آیا تھا اور وہ بھارت کی اسیری سے بھاگ کر پنجاب ہی آئے تھے لیکن اب 2018ء میں کتنے ہیں جو کہ پنجاب کو چھوڑ کر جائیں گے آج پنجاب کا لیڈر ہی ان کا محاسبہ کر رہا ہے اور اس نے اس جرات کا مظاہرہ کیا ہے اور مسلسل کر رہا ہے۔
پاکستان میں جوتے،کالک،تھپڑ رسید کرنے کا جو کلچر پراون چڑھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اس سے اس بات کا سب کو اندازہ ہے کہ اگر کوئی کسی کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تو وہ ایسا کچھ ہی کرتا ہے یہ انتہائی گری ہوئی حرکیتں ہیں۔سیاسی اختلافات کا مقابلہ سیاست کے ذریعہ ہی کرنا جمہوریت ہے لیکن جو یہ عمل کرا رہے ہیں وہ نہ ملک سے مخلص ہیں اور نہ مذہب سے مخلص ہیں نواز شریف اور خواجہ آصف نے یہ اچھا کیا کہ انہوں نے اپنے اوپر حملہ کرنے والوں کو معاف کر دیا میری نبی کریمۖ کی یہ سنت ہیں میری نظر میں کسی کے چہرے پر کالک پھینکنا یا جوتا مارنے کا کام کوئی بھی عاشق رسول نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ عاشق رسول کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ وہ نام تو نبی ۖ کا لے رہا ہے اور کام اس بڑھیا والا کر رہا ہے جو کہ حضورۖ پر روزانہ کچرا پھینکتی تھی۔فیصل آباد میں جب عمران خان نے جلسہ کیا تو کہا کہ میں اقتدار میں آ کر رانا ثناء اللہ کو مونچھوں سے پکڑا کر جیل میں ڈالوں گا۔کیا اس طرح عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا جاتا ہے۔رانا ثناء اللہ خود بھی بولنے میں عمران خان کی ہی طرح ہیں لیکن عمران خان آپ ایک بڑی پارٹی کے لیڈر ہیں آپ پر یہ زیب نہیں دیتا کہ اس طرح کی زبان استعمال کریں پہلے زمانہ میں سیاسی پارٹیاں اپنے کارکنوں کو سیاسی تربیت فراہم کرتی تھیں لیکن عمران خان نے جس سیاست کو متعارف کرایا ہے یہ اس کا ہی اثر ہے کہ مخالفین اپنے سخت جملوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوششیں کرتے ہیں۔
بہر کیف سیاسی پارٹیاں آج کل اسٹبلشمنٹ سے تربیت حاصل کرتی ہیں جس طرح کا بیج ڈالا جائے گا پھل تو وہی آئے گا پیپلز پارٹی جو کہ ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کی سیاست کے خلاف نظریہ کی سیاست کرتی رہی ہے وہ آج کل اسٹبلشمنٹ کی سیاست کر رہی ہے میری نظر میں پارٹی اپنے امیدواروں سے پہنچانی جاتی ہے امپائروں کے امیدواروں پر مہر لگا کر پیپلز پارٹی نے گویا اپنے قتل نامہ پر دستخط کر دئیے ہیں اب نہ پیپلز پارٹی کا نظریہ ہے اور نہ منشور سینٹ کے چہرے پر بھی آج سیاہی پھینک دی گئی ہے جمہوریت کے منہ پر بھی آج پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے مل کر جوتے مار دیے ہیں ۔یہ پاکستان کے غریب عوام تو تبدیلی لانا چاہتے تھے اور تبدیلی لانا چاہتے ہیں مگر عوامی نمائندوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عوام سے زیادہ عوامی نمائندوں کو خریدنا بالکل آسان کام ہے اس لیے پی ٹی آئی کے وہ دوست جو تبدیلی کے خواہاں ہیں ان کے لیے مبارک ہو کہ تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آ گئی ہے قوم کو یہ تبدیلی مبارک ہو لیکن یہ یاد رہے کہ…
اور بقول شاعر کہ…
لگے کی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
اس گلی میں صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں سلام پیش کرتا ہوں سینٹ میں نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو کو جنہوں نے چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے حوالے سے سینٹ میں جو تقریر کی وہ انتہائی پر اثر اور بہترین تقریر تھی انہوں نے کہا تھا کہ…مجھے آج اس ایوان میں بیٹھتے ہوئے شرم آ رہی ہے میں سمجھتا ہوں کہ آج پارلیمنٹ ہار چکی ہے بالادست طبقے نے بتا دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو منڈی بنا سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ ثابت ہو گیا ہے کہ پیپلز پارٹی نہیں بالادست طبقے جیتے ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ آج ہوئوس کا منہ کالا ہو گیا ہے مبارکباد کس چیز کی دی جائے ان کا مزید کہنا تھا کہ آج شہید بے نظیر بھٹو نہیں جیتیں ذوالفقار علی بھٹو نہیں جیتا بالادست طبقہ جیتا ہے۔
میں اس ضمن میں یہ کہوں گا کہ آج گڑھی خدا بخش میں بھٹو کے پہلو میں بھٹو کی اصل پیپلز پارٹی کی بھی تدفین ہو گئی ہے اور جو کام ضیاء الحق اور دیگر آمریتیں نہ کر سکیں وہ کام آج آصف علی زرداری نے کر دیا ہے۔او مومن خان مومن کا یہ شعر ایک تبدیلی کے ساتھ سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب کا منظر پیش کر رہا ہے کہ…
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
اے پارلیمنٹ تیرا کالا منہ…

Check Also

ناشتہ کیے بغیر بھوکے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ قرار

امریکا سمیت دیگر ممالک کے ماہرین کی جانب سے بھوک کے صحت اور خصوصی طور …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *