Home / جاگو کالمز / تیسری عالمی جنگ کے منڈلاتے ہوئے خطرات

تیسری عالمی جنگ کے منڈلاتے ہوئے خطرات

ترقی کی رفتار جہاں انسانی دنیا کو فوائد سے ہمکنار کر رہی ہے وہیں یہ دنیا اس ترقی کے باعث خطرات کی زد میں ہے صدیوں سے ہونے والی تحقیقات کے نتیجہ میں آج کا انسان ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے ہزاروں میلوں پر پھیلے دنیا کے کرہ ارض کو اس ترقی نے سمیٹ کر گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا ہے اب فاصلہ اور فوری رسائی بھی انسان کی دسترس میں ہے ۔حضرت انسان کی اس ترقی کی اس کی رفتار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں اگر یہ انسان اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے خطر ناک ترین اسلحہ کا استعمال نہیں کرتا تو وہ یقیناً مستقبل قریب میں حیرتوں کی تمام حدود کو بھی پار کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔دنیا کی سپر پاور امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب صدارتی انتخابات میں تقاریریں کر رہے تھے تو اس وقت ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو ورلڈ پولیس بننے کی ضرورت نہیں ان کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ جنگی جنون کے خلاف ہیں اور اپنی تمام تر توجہ امریکہ کی ازسر نو تعمیر پر دنیا چاہتے ہیں تاہم بر سر اقتدار آنے کے بعد شاید ان کی ترجیحات تبدیل ہو گئیں۔انہوں نے چین کے ون بلیٹ ون روڈ منصوبہ کی مخالفت سے لے کر شمالی کوریا کو للکارنے تک اور افغان پالیسی سے لے کر ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے منصوبوں پر اب عمل درآمد کرنا شروع کر دیا ہے ۔کئی محاذوں پر ایک ساتھ فائرنگ کرنے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ دنیا میں کوئی بڑا دنگل لگانے کے موڈ میں ہیں۔ان کی ان پالیسیوں کے سبب امریکی سینٹ میں خارجہ امور کی کمیٹی کے رپبلکن چیئرمین سینٹر باب کروکر نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کے عہدہ کو کسی ریلٹی شو کی طرح استعمال کر رہے ہیں جبکہ اس ضمن میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ہم ایران کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی روکنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں ان کا مزید کہنا ہے کہ ایران کو جنونی کنڑول کر رہے ہیں جبکہ ایران مشرق وسطیٰ میں دہشتگرد نیٹ ورک کے سہولت کار ہونے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق امریکی حکومت کی اوباما دور میں امریکہ اور ایران کے درمیان جو ڈیل ہوئی تھی اس کی وجہ سے ایران کی جنونی قیادت میں نئی روح پھونکے کا کام کیا ہے۔دوسری جانب ایران کی جانب سے امریکہ کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر امریکہ ایران کو سیکورٹی فورس پاسداران انقلاب کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کرتا ہے تو ایران اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔پاسداران انقلاب پر ممکنہ پابندی سے متعلق مختلف مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ امریکہ اگر اس تنظیم پر پابندیاں عائد کرتا ہے تو عراق اور شام میں موجود شدت پسندوں کی تنظیم دولت اسلامیہ سے نمٹنا اور بھی مشکل ہو جائے گا اور دولت اسلامیہ کے خلاف تہران اور واشنگٹن کی مشترکہ کاروائیوں میں بھی جھول آ جائے گا۔فرانس کا کہنا ہے کہ پاسداران انقلاب پر پابندی سے خطہ میں دہشتگردی میں مزید اضافہ ہو گا۔جرمنی نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کی اس اقدام کو بہتر تصور نہیں کرتا کیونکہ اس سے مشرق وسطیٰ میں سیکورٹی کی صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔
واضع رہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدہ کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو 2025تک کیلئے منجمند کرنے پر اتفاق کیا تھا جبکہ جوہری توانائی سے متعلق اقوام متحدہ کے نگران اداروں کا بھی کہنا تھا کہ ایران ان معاہدوں کی شرائط کی مکمل پاسداری کر رہا ہے۔اب امریکہ کی جانب سے جو رویہ اختیار کیا جا رہا ہے کہ اس سے یقینا پوری دنیا میں تشویش پائی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ سینٹ کی کمیٹی کے چیئرمین سمیت امن پسند دنیا کا خواب دیکھنے والے اس صورتحال سے نالاں ہیں دوسری جانب سے سعودی عرب کی یہ کوشش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقہ سے ایران کو نقصان پہنچائے یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے امریکہ پر دبائو بڑھانے کی غرض سے حال ہی میں ان کے بادشاہ نے روس کا دروہ کیا اور روس سے دفاعی معاہدات کیلئے جس میں انہوں نے دنیا کے خطر ناک ترین فضائی دفاعی سسٹم ایس 400کا معاہدہ کیا یہ وہ نظام ہے جو کہ جنگی جہازوں کو 500کلو میٹر تک تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا حدف 158کلو میٹر بلندی تک اڑنے والا جہاز بھی ہیں اس سسٹم کا توڑ ابھی تک کسی بھی ملک کے پاس نہیں ہے اس طرح جدید ترین جہاز بھی اس سسٹم کے تحت نہیں بچ سکتے۔اس سسٹم کے تحت بیک وقت180احداف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔اس طرح امریکہ نے بھی سعودی عرب کو ٹاڈ مزائل دفاعی سسٹم جس کی مالیت 15ارب ڈالر ہے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔پینٹا گون کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ایران کی جانب سے سعودی عرب کو اور مشرق وسطیٰ کو درپیش علاقائی سلامتی کی وجہ سے کیا گیا ہے ۔اس طرح اس اعلان کے بعد سعودی عرب امریکہ سے 44ٹرمینل پائی آلینڈڈ ایریا ڈیفنس یونی یاڈ لانچرز اور360میزائل بشمول فائر کنٹرول اسٹیشنز اور ریڈار خرید سکے گا پینٹا گون کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے قومی اور خارجہ پالیسی کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور خطہ میں ایران اور دیگر خطرات کو سامنے رکھ کر کیے گئے ہیں جس سے سعودی عرب کو مدد ملے گی۔دوسری جانب ایران کے پاس بلسٹک مزائل موجود ہیں جن کا شمار بڑے ہتھیاروں میں ہوتا ہے جبکہ تاڈ میزائل اس کے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے۔دوسری جانب امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب کے دوران ہونے والے معاہدوں میں سعودی بادشاہ نے 110ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے جس میں150لاک ہینڈ مارٹن بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں کا معاہدہ بھی شامل ہے ۔جس کی مالیت60ارب ڈالر ہے امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدہ کے بعد سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات گزشتہ کچھ عرصہ سے تنائو کا شکار تھے۔اس طرح شام کے معاملہ میں بھی روس کو ایران کے قریب سمجھا جا رہا تھا۔دوسری جانب شمالی کوریا مسلسل اپنے ہتھیاروں کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
بہر کیف مشرق وسطیٰ میں جنگ جاری ہے اقوام متحدہ کا ادارہ دنیا بھر میں امن کا داعی ہے لیکن یہ ادارہ بھی بڑے مغربی ممالک کیلئے صرف ایک کٹ پتلی ادارہ ہونے کا کردار ادا کر رہا ہے۔اس وقت بین الاقوامی طور پر یہ جو صورتحال ہے اس کے تحت امریکی قیادت اور روسی قیادت کو سنجیدہ ہو کر دنیا میں قیام امن کی کوششوں کو سپورٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اگر امریکہ اور روس دنیا بھر میں خود کھینچ تان کرنے والے اقدامات میں حصہ لتے ہیں تو یقیناً صورتحال اس کے برعکس ہو گی اور یہ گلوبل ولیج ترقی کرنے کی بجائے اپنی ہی کی گئی ترقی کے ہاتھوں بستر مرگ پر پہنچ سکتا ہے۔اس طرح پر امن دنیا کو خطرہ ہماری ہی ایجادات سے ہے اس لیے ضروری ہے کہ دنیا بھر میں رہنے والے ان ممالک کے باشندے اپنے اپنے ملکوں کے حکمرانوں پر یہ زور دیں کہ وہ اس دنیا کو ان کے اور ان کی آنے والی نسلوں کیلئے بہتر سے بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کریں کیونکہ یہ دنیا رہے گی تو آپ کی تھانیداری بھی برقرار رہے گی۔اگر یہ دنیا مٹ جاتی ہے تو نہ ہی تھانیدار رہے گا اور نہ ہی اس کے ظلم و جبر کا شکار مظلوم قوم اس لیے اگر تمام ممالک آپس میں اپنے اختلافات ٹیبل کی میز پر طے کریں تو واقعی یہ دنیا مستقبل میں پر امن دنیا کے بطور رہ سکتی ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک وہ چاہے طاقتور ہوں کہ کمزور برابری کی بنیاد پر بیٹھ کر فیصلے کریں اور اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Check Also

ناشتہ کیے بغیر بھوکے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ قرار

امریکا سمیت دیگر ممالک کے ماہرین کی جانب سے بھوک کے صحت اور خصوصی طور …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *