Home / جاگو کالمز / سائبر سردجنگ کے نقارے اور امریکہ کی حکمت عملی

سائبر سردجنگ کے نقارے اور امریکہ کی حکمت عملی

امریکی وزیر دفاع جم میٹس ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ میں وزیر دفاع کے عہدے پر فائز ہیں جو کہ جنوری 2017ء کو اس منصب پر فائز ہوئے تھے یہ عہدہ سنھبالنے کے بعد انہوں نے جب امریکہ کی نئی حکمت عملی کا اعلان کیا تو ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے سب سے بڑے دشمن چین اور روس ہیں جبکہ دوسرے درجے پر انہوں نے ایران اور شمالی کوریا کا نام لیا تھا گو کہ امریکہ کے خلاف کافی عرصہ سے امریکہ سے مقابلہ کی تیاریوں میں مصروف تھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد اس کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا اس طرح امریکہ اور روس کے تعلقات جو کہ کافی عرصہ سے کشیدگی کا شکار تھے وہ مزید کشیدہ ہوئے حال ہی میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی کشکش سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ دنیا بھر میں سرد جنگ کا دور ایک بار پھر سے واپس آ رہا ہے گو کہ اس کے پیچھے کافی عوامل کار فرما ہیں تاہم امریکہ نے روس پر مختلف شعبہ ہائے جات میں جاسوسی کے الزامات عائد کیے ہیں امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کی جو کہانیاں سامنے آ رہی ہیں اس کی روس ہمیشہ سے تردید کرتا رہا ہے روس امریکہ تعلقات میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب ٹرمپ انتظامیہ نے 60کے قریب روسی سفارتکاروں کو اپنے ملک سے نکالنے کا اعلان کیا اس طرح امریکہ سے اظہار یکجہتی کے طور پر جرمنی سمیت یورپی ممالک نے بھی روسی سفارتکاروں کو اپنے ملک سے نکالنے کا اعلان کیا اور ان ممالک نے بھی روسی سفارتکاروں پر جاسوسی کے الزامات عائد کئے۔ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ روسی اینٹیجنس سروسز انتہائی جارحانہ انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اور اس کی روک تھام ضروری ہے اس طرح بعدازاں روس نے بھی جوابی کاروائی کرتے ہوئے امریکہ کے سفارتکاروں کو اپنے ملک سے نکالنے کا اعلان کیا۔امریکہ کا مزید کہنا ہے کہ کیمائی حملوں کے پیچھے بھی روس کا عمل دخل تھا۔دوسری جانب پاکستان نے امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والی کھینچ تان کے حوالے سے اپنا پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی صورت میں اس بار پاکستان کسی بھی ملک کی حمایت نہیں کرے گا اور وہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرئے گا اس ضمن میں وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پہلے ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے ہمیں نقصانات لاحق ہوئے اس لیے اس بار ہم ایسا نہیں کریں گے اس وقت سفارتکاروں کو نکالنے کا جو عمل سامنے آیا ہے وہ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد روس کے خلاف امریکہ کا سب سے بڑا اقدام ہے محسوس یہی ہو رہا ہے کہ سرد جنگ کا زمانہ انتہائی قریب تر ہے۔اس طرح ابھی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکہ کی جانب سے پاکستانی سفارتکاروں پر بھی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں امریکہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں ان کے سفارتکاروں کو حراساں کیا جا رہا ہے اس لیے اس ضمن میں مستقبل کے حالات سے روشناس ہو سکتے ہیں۔مجھے اس وقت برطانوی ماہر فلکیات سٹیفن ہاکنگ کی ایک بات یاد آ رہی ہے جو کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کہی کہ دنیا کی تباہی انسان کے اپنے ہاتھوں سے ہو گی روس اس وقت مصنوعی ذہانت کی اہمیت پر زور دے رہا ہے جس کی بنیاد پر اس نے مصنوعی ذہانت کے سوفٹ وئیر تیار کر لیے ہیں جو انسانی ذہانت سے کئی گناہ زیادہ ہیں جس کی بنیاد پر وہ انتہائی تیزی کی بنیاد پر فیصلے کر سکتا ہے یہ مصنوعی ذہانت ڈرون حملوں،خود کار گاڑیوں اور سائبر سیکورٹی کے شعبوں میں استعمال کی جا رہی ہے اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو 1940ء اور 1950ء کی دہائیوں میں دونوں حریف ممالک بھی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف تھے اور چاند پر قدم رکھنا بھی اس ٹیکنالوجی کا حصہ تھا اس طرح موجودہ دور میں روس اور امریکہ سائیبر ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں سرد جنگ کا دور سائبر حملوں کے ذریعہ کیا جائے۔گو کہ دونوں ممالک کے پاس وافر مقدار میں اسلحہ موجود ہے لیکن اس بات کا اندازہ دونوں ممالک کو ہے کہ اگر یہ اسلحہ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے وہ خود اپنی تباہی کا سامان مہیا کریں گے دونوں ممالک کے پاس جو اسلحہ ہے اس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پوری دنیا کو کئی سو بار تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دونوں ممالک اس وقت سائبر اسلحہ تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس کے تحت وہ ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کے جوہری اثاثوں اور تنصیبات،بحری بیڑوں،آب دوزوں کو ناکارہ بنا سکیں سائبر اسلحہ کے ذریعہ مواصلات کے نظام انرجی کے پلانٹس کو ختم کیا جا سکے اس طرح کسی بھی ملک میں مالی افراتفری پھیلانے کیلئے بینکوں کے نظام کو ناکارہ کیا جا سکے اس طرح ماحولیات کے نظام بارشوں،سیلابوں،زلزلوں اور خشک سالی تک بھی اس کے ذریعہ کنڑول کرنے کی کوششیں جاری ہیں گزشتہ کئی سال قبل میری ایک دوسرے سے اسہی معاملہ پر بات چیت ہو رہی تھی تو اس وقت بھی میں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ آج کل جو سونامی اور دیگر زلزلوں کی تبدیلیاں آ رہی ہیں اس کے پیچھے لگتا ہے کہ سائبر حملوں سے متعلق تجربات کسی نا کسی مراحل میں ہو رہے ہیں جس سے عام عوام واقف نہیں ہیں بہر کیف اس بارے میں اس وقت بھی تصدیق سے نہیں کہا جا سکتا تاہم بین الاقوامی دفاعی ماہرین میں یہ بات عام ہے کہ امریکہ نے 7سال قبل پاکستان کے علاقہ ایبٹ آباد میں جس وقت اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کیلئے آپریشن کیا تھا تو انہوں نے سائبر حملہ کے ذریعہ اس سے قبل پاکستان کی دفاعی تنصیبات کو مفلوج بنا دیا تھا یہی وجہ تھی کہ پاکستان کو اس سے متعلق پتہ ہی نہ چل سکا اس طرح یہ ٹیکنالوجی اسرائیل کے پاس بھی موجود ہے جس نے شام کے ری ایکٹر پر 2007ء میں حملہ کرنے سے قبل ان کے دفاعی فضائی نظام کو کچھ وقت کیلئے ناکارہ بنا دیا تھا۔
دوسری جانب روس اور چین اس وقت ایک ساتھ ہیں چین کے پاس معیشت کی ترقی کا ہتھیار ہے اگر ہم گزشتہ جنگوں کا موازنہ کریں تو دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ وہ واحد ملک تھا جس کے پاس کافی سرمایہ تھا جس کے تحت انہوں نے دیگر ممالک میں اس سرمایہ کاری کے تحت اپنے تعلقات کو مضبوط کیا جبکہ اس کے مقابلہ میں روس کافی کمزور حیثیت میں تھا یہی وجہ تھی کہ روس زیادہ دیر تک امریکہ کا مقابلہ نہ کر سکا اور اس کا انجام روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دنیا کے سامنے آیا۔تاہم اس بار چین روس کے ساتھ ہے جس کی معیثت وافر مقدار میں سرمایہ پیدا کر رہی ہے امریکہ بھی اس وقت چین کا قرضہ ایک کھرب ڈالر سے زیادہ ہے چین معیثت کے سلسلہ میں مختلف ممالک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کہ وجہ سے ان ممالک کا انحصار چین پر بہت زیادہ ہو گیا ہے خود امریکہ بھی چین پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے چین نے اپنی جڑیں دنیا بھر میں مضبوط کر لی ہیں اور چین اس میں کافی کامیاب بھی رہا ہے جس کا مقابلہ کوئی بھی ملک اس وقت کرنے کے قابل نہیں ہے اگر ہم امریکہ کو دیکھیں تو امریکہ چین کے سرمایہ کے مقابلہ میں بیس کھرب ڈالر کے خسارے میں ہے جبکہ جو پالیساں اب ڈونلڈ ٹرمپ لے کر آ رہے ہیں اس سے خسارے میں اضافہ مزید بڑھے گا اس وقت دنیا کی جو صورتحال ہے خصوصا روس اور چائینا سے امریکہ کی سرد جنگ کے نتیجہ میں دونوں ممالک کے کیمپوں میں موجود ممالک بھی اسے متاثر ہوں گے امریکہ اس وقت دنیا کا عظیم ترین ملک ہے ار کئی دہائیوں سے امریکہ کے سر پر سپر پاور کا جو تاج سجا ہوا ہے ظاہر ہے کہ وہ کسی صورت اس تاج سے کسی بھی ملک کو دینے کیلئے تیار نہیں اور نہ ہی وہ کسی بھی ملک کو اپنے مقابلہ میں طاقتور ترین دیکھنا چاہتا ہے اس لیے اگر یہ سرد جنگ شروع ہوتی ہے تو ہاتھیوں کی اس لڑائی میں دیگر ممالک بھی ترانوالہ بنیں گے تاہم اس بار اب تک کئی ممالک خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا رہنا ایک مشکل کام ہے پاکستان نے گو کہ اس طرح کی ہی پالیسی کا اعلان کیا ہے مگر امریکہ کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ پاکستان اب ان کے ساتھ نہیں رہا۔
ڈونلڈ ٹرمپ جو کہ انتخابات میں امریکہ کو عظیم بنانے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس ملک کو عظیم برقرار رکھنے کیلئے کس طرح کی پالیساں اختیار کرتے ہیں اس وقت روس اور چین نے امریکہ کو چاروں اطراف گھیر لیا ہے امریکہ اس وقت بیس کھرب ڈالر کا مقروض ہے اگر سرد جنگ شروع ہوتی ہے تو اس کے نتیجہ میں امریکہ کس طرح سپر پاور کا تاج بچانے میں کامیاب ہو گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ جنگ یقیناً وہی جیت پائے گا جو کہ ٹیکنالوجی اور معیثت کی دوڑ میں سب سے آگے ہو گا۔اور مجھے نہیں لگتا کہ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں روس اور امریکہ سے آگے ہو گا مجھے تو شائبہ ہے کہ موجودہ انتخابات کے حوالے سے روسی سفارتکاروں کی مداخلت کے جو الزامات سامنے آ رہے ہیں یہ بھی ہونے والی سرد جنگ کی ایک کڑی ثابت ہو گی امریکن سی آئی اے روس کی موساد سے کہیں بہتر اور طاقتور ایجنسی ہے ہو سکتا ہے کہ انتخابات میں مداخلت کا جو کام کیا گیا ہے اس میں اس کے پیچھے امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کا بھی کردار ہو تا کہ وہ اس بات کی تہہ میں پہنچنے کی کوششوں کے ذریعہ اس بات کا اندازہ لگانے کی کوششوں میں مصروف ہوں کہ روس کے پاس سائبر حملوں سے متعلق اسلحہ کتنا طاقتور ہے اور سرد جنگ کی صورت میں وہ اس کا مقابلہ کرنے کے اہل بھی ہیں کہ نہیں بہر کیف مستقبل قریب میں آنے والا وقت اس ضمن میں خوش آئین دکھائی نہیں دیتا۔

Check Also

ناشتہ کیے بغیر بھوکے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ قرار

امریکا سمیت دیگر ممالک کے ماہرین کی جانب سے بھوک کے صحت اور خصوصی طور …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *