Home / تازہ ترین خبر / عالمی حکومتی گٹھ بندھن اور کشمیری عوام کا مستقبل۔۔!

عالمی حکومتی گٹھ بندھن اور کشمیری عوام کا مستقبل۔۔!

 عالمی حکومتی گٹھ بندھن اور کشمیری عوام کامستقبل
تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ
 اپنے ملک کے حالات، سیاست، افراتفری سمیت دنیا بھر پر نظر ڈالتا ہوں تو ایک لمحے کیلئے میں اپنے آپ کو پتھر کے دور میں کھویا ہوا محسوس کرتا ہوں، پتھر کے دور سے نکل کر اب ترقی یافتہ دور تک حضرت انسان نے کافی مسافتیں طے کیں، دوران سفر اس کو بڑے نشیب وفراز سے گزرنا پڑا، کتنی ہی آفتوں ،مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، یہ حضرت انسان جنگلوں اور پہاڑوں سے نکل کر سماجی بندھنوں میں بندھا مگر اس سفر میں اس کو صدیاں نہیں بلکہ ہزاروں سال لگے لیکن باوجود ہزاروں سال گزر جانے کے اس انسان نے اپنی وحشی جبلتوں کو خیرآباد نہیں کہا، یہی جبلتیں جب انسان میں گھر کرتی ہیں تو اس کو یہ جنگوں پر مجبور کرتی ہیں، ریاستوں کو بنیاد بنا کر یہی انسان ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہو جاتا ہے اس جنگ وجدل میں بھی انسان کو سفر کرتے صدیاں بیت گئیں، کہیں یہ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں اتارتا ہے تو کہیں ریاست تو کہیں یہ نسلی تعصب کی آگ میں اندھا ہو کر قتل غارت گری میں مصروف ہو جاتا ہے اسکو اس بات کا علم بھی ہے کہ قددرت نے اس کو جہاں پیدا کیا وہ اسطرح کے  رنگ میں رنگ گیا اور ان کے جیسابن گیا،یہ انسان  اگر مشرق کی بجائے مغرب میں پیدا ہوتا تو وہ آج مغربی تہذیب وتمدن کا حامی ہوتا، اسطرح وہ  جب پیدا ہوا تو بے اختیار تھا،اس نے نہ مذہب کا خود چنا کیا اور نہ سر حدوں کا تعین کرکے جنم لیا لیکن چونکہ وہ وہاں پیدا ہوا ان لوگوں میں پیدا ہوا تو اس کو بھی ان جیسا بننا پڑا ،نہ یہ  اس کا فیصلہ تھا اور ہی اسکا اختیار ا، لیکن اس حقیقت کو جاننے کے باوجودانسانوں کی جانب سے جو جنگیں ایک دسورے پر مسلط کی گئیں اور اس کے نتیجے میں اس کو جن تلخ تجربات سے گزرنا پڑا اسکی تاریخ گواہ ہے، لیکن بعدازاں اس نے لڑائی کشت وخون کے بجائے ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیا جسکے تحت  وہ  آئیندہ آنے والی نسلوں کیلئے ان کو بہتر ماحول دینے اور آپس میں موجود اختلافات اور جھگڑوں کو ختم کرنے کیلئے مسائل کو گفت وشنید کے ذریعہ حل کرسکے، اس ضمن میں  پوری دنیا میں امن کی تلاش کیلئے کوششیں کیں اور اس دنیا کو کسی حد تک مسائل اور اختلافات سے آزاد کرنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر کوششوں کے بعد ، اقوام عالم کے ادارے وجود میں آئے جس کے نتیجے میں بین الاقوامی مسائل کے حل کیلئے پلیٹ فارم تشکیل دیا گیا ، جسکے بعد نت نئی چیزیں وجود میں آئیں، انتہائی خطرناک اسلحہ کے بجائے اس طرح کی ایجادات کی گئیں جو بنی نوع انسان کیکئے مستقبل میں کام آئیں اور انسانوں کو زندگی میں در پیش مسائل کے حل کا سامان مہیا کریں، انسانوںکے سکھ چین سلامتی کو ان کے ذریعے یقینی بنانے کا عزم کیا گیا، ان کوششوں اور کاوشوں نے دنیا بھر کے انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کے مواقع فراہم کیئے اور  دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر تی چلی گئی، آج دنیا میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے کا سفر انتہائی آسان ہے، جبکہ دنیا بھر میں اگر کہیں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے،تو اس دور کے انسانوںکو یہ آزادی ہے کہ وہ اس واقعہ کو کوسوں دور رہہ کر بھی  فوری طور جان سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں، یہ ترقی کا عروج ہے اور اس ضمن میںمزید جدت پسند منصوبوں پر کام جاری ہے، اس طرح شاید آنے والے نسلوں کے انسان مستقبل میں شاید کوئی ایسا انوکھا،تجربہ کر ڈالیں کہ جس سے شاید ہماری  نسل کے لوگوں کو حیرانی بھی ہو، مگر ہم ہیں کہ اب تک اس پتھر کے دور سے نکلنے کیلئے تیار نہیں،امن آج بھی ہمارے لئے ایک بڑا خواب بنا ہوا ہے، اس وقت پاکستان میں نہ صرف اندرونی حالات دہشت گردی کا شکار ہیں، بلکہ پڑوسی ملک کی جانب سے بھی عالمی اور بین الاقوامی قوانین کی جو دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں وہ قابل تشویش ہیں ، پڑوسی ملک میں نہ صرف وہاں رہنے والی اقلیتوں کیلئے جینا حرام کر دیا گیا ہے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے سرحد کے اس پار بھی عوام کو کسی نہ کسی طریقے تنگ کیا جائے، حالیہ کشمیر کے حالات سے آپ انداز لگا سکتے ہیں کہ ان کی سیاست کا رخ کیا انداز اختیار کئے ہوئے ہے وہ بلا جواز انسانی آبادیوں کو نشانہ بناتے ہیں، انسانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہیں تو کبھی ان پر بم برسائے جاتے ہیں، کبھی کلسٹر بم سے تو کبھی آنکھوں کو اندھا کرنے والی پلٹ گنوں کا استعمال کرکے ان کی آزادی کی تحریک کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن لگتا ایسے ہے کہ پوری دنیا کو ان کا چہرہ دکھانے کا کوئی فائدہ اب تک حاصل نہیں ہوا، لگتا یہ ہے کہ مودی خطہ کی  عوام کو دوبارہ پتھر والے دور میں لے جانا چاہتا ہے،  جنگی جبلت اب تک ان کے خمیر میں موجود  ہے، مودی جو کچھ کررہا ہے اسکو ایسی کارروائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ  اسکے اس عمل سے عام انسانوں کی زندگیاں اجل کا شکار بن رہی ہیں، پوری دنیا میں بھارت کیلئے مسئلہ کشمیر پر ایک منفی تاثر ابھر رہا ہے لیکن وہ  اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، انسانوں کو تکالیف پہنچانے انکے حقوق پامال کرنے کی پالیسیوں  سے ان کو کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ دوسری صورت میں ان کا سکھ اور امن بھی کسی طور سلامت نہیں رہہ سکے گا،اگر ہم بھارت کی سیسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو  مولانا ابوالکلام آزاد نے ہندوستان کی آزادی کے بعد جب وہ وزیر تعلیم تھے تو کہا تھا کہ ہمیں  اپنی نسلوں کو غلامی سے نفرت سکھانا ہو گی اور غلام بنانے والی عالمی قوتوں کیخلاف بدلہ لینے کی ریت قوم کو سکھانی ہو گی، یہی سوچ جواہر لال نہرو کی تھی کہ کہیں عالمی سامراج ایک بار پھر برصغیر واپس آ کر انکے ملک پر قبضہ نہ کرلے، اس لئے تعلیمی اداروں میں غلامی سے نفرت کا سبق بچوں کو پڑھایا گیا، اس طرح کی تعلیم کا اثر ہندوستان میں نظر بھی آیا،لیکن پاکستان اس میں ہمیشہ پیچھے رہا،1997 کی تاریخ گواہ ہے جب اکتوبر کے مہینے میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ ٹیلر پاکستان اور ہندوستان کے دورہ پر گئیں تو پاکستان کی عوام نے ان کا والہانہ استقبال ایک محسنہ کے بطور کیا،جبکہ ان کے دورہ ہندوستان کے موقع پر وہاں کے عوام نے بھوک ہڑتالیں کیں کہ ملکہ ہمارے ملک میں نہ آئے اور اگر آئے تو جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی جانب سے بھارتیوں کے قتل عام پر ہندوستان کی عوام سے معافی طلب کرے۔!بہر کیف بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل370 کو ختم کرنے کا جو اقدام کیا گیا ہے اس سے پاکستان کو اس نے ایک بند گلی میں لا کھڑاکیا ہے، سیاسی شطرنج کی بساط پر کھیل میں جو چال مودی نے چلی ہے اس کے بعد پاکستان اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کوئی چال چل سکے، نریندر مودی کے ہمراہ اس کھیل میں اس کے پارٹنر اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو بھی ہیں، جنہوں نے انتہائی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے اندرونی سیاسی کشیدہ حالات سے فوری فائدہ اٹھانے کا مشورہ دے کر اس پر عملدرآمد بھی کرا لیا ہے،سیاسی کھیل پر نظر رکھنے والے افراد اس کھیل کو باآسانی سمجھ چکے ہیں، یہی کھیل اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کھیلا جو کھیل اب مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے، بھارت کی جانب سے آرٹیکل370کو ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر بھارت کے آئین کے تحت بھارت میں ضم ہو چکا ہے جبکہ پاکستان کی جانب موجود جموں وکشمیر اب تک متنازعہ حیثیت میںموجود ہے، اس طرح اس آرٹیکل کے نفاذ کے بعد مقبوضہ کشمیرمیں جائیدادوں کی قیمتیں تقریبا دوگنی ہو چکی ہیں، مقبوضہ کشمیر مسلمان اکثریتی ریاست ہے، تاہم آئندہ پانچ سالوں میں ہندو انتہا پسند وہاں پر سرمایہ کاری کے ذریعہ کشمیریوں سے ان کی جائیدادیں اور زمین خرید کر عملی طور پر اس پر قابض ہو جائیں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے کشمیربھی کہیں فلسطین کا منظر پیش نہ کرنے لگ جائے،  یہی وہ خواب ہے جس کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے مودی نے آرٹیکل370کا آئین سے خاتمہ کیا ہے،اب دیگر عام ہندوستانی کو یہ حق حاصل ہوچکا ہے کہ وہ وہاں جائیدادوں کی خریدو فروخت کر سکیں گے کیونکہ انڈیا کے آئین کی رو سے اب اس ترممیم کے بعد یہ  علاقہ اب متازعہ نہیں رہا، اس ضمن میںموجودہ پاکستان کے جو حکمران ہیں ان کو کمال چالاکی سے پھنسایا گیا ہے یا پھر خود ، پاکستان کی عسکری قیادت ایک بار پھر بین الاقوامی سازشوں کا شکار ہو گئی ہے، کیونکہ ملک چلانے کیلئے ان کو فنڈز درکار ہیں، لولی لنگڑی جمہوریت اور کٹھ پتلی حکمرانوں کے آنے کے بعد پاکستان سفارتی طور پر بین الاقوانی دنیامیں تنہا رہ گیا ہے، کسی بھی ایک ملک نے انڈیا کے اس اقدام کی مذمت نہیں کی، اس طرح پاکستان کی خاموشی بھی دیگر ممالک کیلئے اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ اندرون خانہ وہ انڈیا کے اس اقدام پر شایدنیم رضا مندی اختیار کئے ہوئے تھے ،پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جو رد عمل دیکھنے میں آیا وہ حیران کن تھا سب اسٹیبلشمنٹ کی زبان بول رہے تھے، صرف ایک خاتون جو کہ نواز شریف کی بیٹی مریم نواز تھیں، اس اقدام کے خلاف جلسہ جلوسوں کے ذریعے ببانگ دھل مخالف کررہی تھیں لیکن اس کو بھی حکمرانوں نے پھر سے پابند سلاسل کردیا  اس طرح حکومت نے یہ گرفتاری کر کے اس بات پر مہر ثابت کر دی کہ وہ بھارت کے اس اقدام پر رضا مند ہیں، اور عوامی طور پر کوئی  مزاحمت نہیں چاہتیاس طرح دیگر مذہبی جماعتیں جو کہ اسٹیبلشمنٹ کے پیرول پر ہمیشہ کام کرتی رہی ہیں، وہ بھی اس نوقع پر  خاموش تماشائی نظر آئیں، جماعت اسلامی جو کہ1998 میں جب واجپائی لاہور آیا تھا تو انہوںنے مینار پاکستان پر جلسہ کیا تھا ، نواز شریف کے ہمراہ اس نے کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا اور متفقہ حل پر رضا مندی ظاہر کی، لیکن اس وقت جماعت اسلامی نے لاہور کو میدان جنگ میں تبدیل کئے رکھا،غداری کے فتوی جاری کئے گئے، اب جبکہ2019 میں بھارت نے کشمیر پر آئین کے آرٹیکل میں ترمیم کر کے مکمل قبضہ کر لیا ہے تو وہی جماعت اسلامی مسلسل مراقبہ میںڈوبی ہوئی ہے، یہی جماعت اسلامی کئی دہائیوں سے کشمیر کے نام پر قربانی کی کھالیں اکٹھی کرتی رہی، ہماری فوج نے تین جنگیں اسہی کشمیر کے نام پر لڑیں، پارلیمنٹ میں وہ زرداری جو کبھی کہتا تھا کہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے وہ خود پارلیمنٹ میں  بجتا ہوا نظر آیا،اس کے منہ میں تعصب کی بات ڈالی گئی تا کہ عوام کی کشمیر سے توجہ ہٹائی جا سکے، پاکستان کی کمزور حکومت کے کٹھ پتلی وزیر اعظم عمران نے جب پائلٹ اور جہاز گرانے کا واقعہ ہوا تو وہ خود بھارت کے سامنے لیٹ گئے یکطرفہ طور باڈر کھول دیا گیا، نہ صرف پائلٹ کو چھوڑاگیا بلکہ فضائی حدود انڈیا پر نچھاور کرتے ہوئے سینکڑوں مس کالیں مار دی گئیں، اس طرح اب بھی  فضائی حدود بند نہیں کی گئی، جس سے انڈیا کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑتا، کیوکہ فضائی حدود بند ہو جانے کے باعث ان کو جو روٹ اختیار کرنا پڑتا اس سے ان کو معاشی طور پر کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ، اس طرح اگر ہم الیکشن سے پہلے کا جائزہ لیں تو بھارتی الیکشن سے کچھ ماہ قبل مودی بری طرح الیکشن ہار رہا تھا ، پھر پلوامہ ہوجاتا ہے اور کچھ جہادی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں، اس طرح مودی حملہ کرتا ہے اور پاکستان کی معافیاں اس کو الیکشن جتوا دیتی ہیں، اس طرح مودی نے اپنے انتخابات کے دوران کہا کہ دوبارہ منتخب ہوا تو کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کر کے اس کو ہندوستان کا باقاعدہ حصہ بنا دوں گا، جبکہ عمران خان نے بیان دیا کہ کشمیر کا مسئلہ مودی کی جیت میں پنہاں ہے یہ بیانات سیاسی شعور رکھنے والے افراد کو اسوقت ہی سمجھ آ گئے تھے کہ آئندہ مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے ،ماضی میں بھی جرنیل جب بھی طاقتور ہوئے ملک کو انہوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بھارت کو تین دریا انہوں نے ہی دشمن کو تشطری میں سجا کر دئیے،مشرقی پاکستان کا کام انہوں نے ہی تمام کیا اور نام بھٹو کا داغ دیا گیا جبکہ کارگل کا نام نواز شریف سے موسوم کراکے قوم کو رٹوایا گیا کہ یہی سچ ہے  اور یہیی حقیقت ہے ، سرکریک، سیاچن، کارگل، سب ان کے کارنامے تھے، اب جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے، آج کٹھ پتلی وزیر اعظم ان کے کہنے پر وہی کچھ کررہا ہے جو وہ چاہتے ہیں مگر آئندہ کی تاریخ میں کشمیر کے اس سودے میں نام عمران خان کا ہی آئے گا، حالانکہ کشمیر کا سودا ان جرنیلوں نے کیا ہے وہ جوکہ ایکسٹینشن اور مسلسل اپنی عیاشیاں چاہتے ہیں، اس پر مجھے چند اشعار یاد آرہے ہیں کہسرد مہر لوگوں سیان کی سرد مہری کاہم گلہ نہیں کرتے تیر جو زباں کے ہیںگر کسی کو لگ جائیںدرد سا کیوں ہوتا ہے؟زخم ان کی باتوں کیکیوں سلا نہیں کرتے پتھروں کی دنیا میںلوگ بھی ہیں پتھر کیلاکھ زلزلے آئیںوہ ہلا نہیں کرتیکشمیر کیا پوری امت مسلمہ اس وقت واقعی زلزلے کی کیفیت میں ہے، کشمیری اس وقت آندھیوں میں گھرے شجر کی ٹہنیوں پر اپنا گھونسلہ تلاش کررہے ہیںِ ان کی آنکھیں گلاب بن چکی ہیں، اسٹیبلشمنٹ لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے، مظالم اور استحصال اور دکھ بھری زندگی سے حکومت کی خود غرضانہ چالوں سے سرحد کے اس پار رہنے والے کشمیری  ہی نہیں بلکہ ، اندرون ملک بسنے والے پاکستانی  بھی پریشان ہیںِ اسٹیبلشمنٹ اپنے سیاسی اور توسیعی عزائم کو فروغ دینے اور ان پر عملدرآمد کرانے کیلئے ہرمعاملات میں دخیل ہے، زمینوں سے جڑی تہذیب خطرے میں ہے، کیونکہ تین دریاں کے بعد کشمیر کا سودا مستقبل میں  چھوٹے صوبوں کو پانی کے مزید  مسائل سے ہمکنار کرے گا   ، کشمیری کانچ کے خواب دیکھ کر اپنی آنکھیں زخمی کیئے ہوئے ہیں، اسٹیبلشمنٹ اور مودی کٹھ بندھن اور سمجھوتہ اس غلامی کی پہلی قسط ہے،وحشی جبلتیں آنکھوں میں لرزتے رقص کرتے کشمیریوں کے آنسوئوں سے بے نیاز ہے، سیاستدانوں کی زبانوں میں اور صحافیوں کے قلم لکنت کا شکار ہو چکے ہیں، میں اس تمام صورتحال کے بعد جو کچھ دیکھ رہا ہوں اور بڑا بھیانک خواب ہے، اللہ کرے یہ خواب جھوٹا ثابت ہو مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ کشمیریوں کی آئندہ آنے والے نسلیں اپنے اجداد کے  وادیوں میں لہکتے کھیت اور کھلیانوں سے محروم ہو نگے، گلاب کا پیڑ اور خوشبو تو ہو گی مگر اس پر ان کا حق نہیں ہو گا، آج جس طرح فلسطین کی عوام یہودیوں کی قید میں ہیں، اللہ نہ کرے کشمیری آنے والی نسلیں، اس طرح کے عذاب سے گزریں، مگر زمینی حقائق یہی کچھ بیان کررہے ہیں، اس میں قصور حکمرانوں کا نہیں ہمارا بھی ہے کیونکہ بقول فیضہوتی نہیں جو قومحق بات پہ یکجااس قوم کا حاکم ہی بس ان کی سزا ہیہوسکتا ہے کشمیرمیں اب کچھ بہتری آ جائے، شاید بھارتی سپریم کورٹ کچھ ریلیف کشمیریوں کو دے لیکن وزیر اعظم عمران خان نے آرمی چیف کو جو توسیع دی ہے اس کی قیمت  کشمیریوں کو بھگتنا ہو گی، اس توسیع کی قیمت ہمارے سامنے نظر آ چکی ہے،آئی ایم ایف کے اسرار پر روپے کو تباہ کر دیا گیا ہے، شدید مہنگائی ہے، سی پیک پر کام تاحال معطل ہے ، افغانستان کا تمام گند اور بھی پاکستان کی گود میں آنے والا ہے، کشمیر کا سودا کرتے ہوئیپاکستان میں  میڈیا پر پابندی لگا دی گئی ہے، بغیر کسی ثبوت کے لوگ جیلوں میں بند ہیں،  نااہل لوگ حکمران بنے ہوئے ہیں، آپ دیکھیں کہ پہلے جنرل فیض اور باجوہ نے عمران کو وزیر اعظم بنوایا، پھر باجوہ نے جنرل فیض کو ڈی جی آئی ایس آئی بنایا پھر عمران اور فیض نے باجوہ کو تین سال توسیع دی،اب باجوہ اور عمران مل کر جنرل فیض کو آرمی چیف بنائینگے جو عمران کو دوبارہ الیکشن جتوائے گا، دس سال کا پلان ہے مگر یادرکھیں اسکا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ہم لوگ تعصب وہ چاہے نسلی ہو کہ علاقائی مذہبی ہوکہ نسلی ہم سب  اس کا شکار ہو چکے ہیں، حرام خوری ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے، جو کام پرانے زمانہ کا انسان حیوانی جبلتوں کے ذریعے لیتا تھا، اس میں اب تبدیلی یہ آ گئی ہے کہ وہ تمام کام اب بھی کررہا ہے مگر وہ یہ کام کرنے کیلئے اب اپنی عقل کااستعمال کرتا ہے، ہم آج بھی استحصالی قوتوں کے غلام ہیں، قوم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ہوئی ہے اور ہمارا سفر کوہلو کے اس بیل کاسفر ہے،جو پورا دن سفر کرتا ہے مگر اسکا راستہ کبھی طے نہیں ہو پاتا کیونکہ ہماری آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں، اس سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں آنکھوں پر بندھی پٹیوں کو ہٹانا ہو گا، اپنی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے شعور اپنے آپ اور قوم میں پیدا کرنا ہوگا،  اور یہ سب کچھ  تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہوسکے گااور یہی تعلیم ان کی آنکھوں پر بندھی پٹی کو کھولنے میں اہم کردار ادا کرے گی، پاکستان کو واقعی اس طرح کی جو ڈھیٹ قیاددت ملی ہے اس کو عالمی دنیابھی جانتی ہے انکو پتہ ہے کہ وہ ہر بات مان جائیں گے اور انکاکام چلتا رہے گا دو روٹی ان کو ملتی رہے گی اور غلامی جاری رہے گی۔پاکستان کے وجود کو لگی یہ خون آشام جونکیں جو کہ اس کا ایک ایک قطرہ نچوڑنے میں لگی ہوئی ہیں،
بقول ابن انشائ
فرض کرو ہم اہل وفا ہوں،فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں، افسانے ہوں
بہرکیف اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ یہ یقین رکھیں کے انشاللہ ان سب ظالمون کا حساب ہو گا۔ ان وردی والے غنڈوں سے بھی جوکہ اس کٹھ پتلی کو لائے ہیں ۔ اس کٹھ پتلی سے اور اپنا قلم اور حرف بیچنے والے صحافیوں سے بھی جنھوں نے دن رات جھوٹ بول کے عوام کو گمراہ کیا۔سزا جزا سب یہیں پہ ہو گی
انتظار کیجئے۔

Check Also

بشام حملے پر اعلٰی سطح کا سیکیورٹی اجلاس، تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے مشترکہ تحقیقات کی ہدایت

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی اجلاس منعقد ہوا جس میں …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *