Home / جاگو کالمز / عمران خان کا بطوروزیراعظم پاکستان ایک سال

عمران خان کا بطوروزیراعظم پاکستان ایک سال

عمران خان کا بطوروزیراعظم پاکستان ایک سال

         تحریر: فرینک ایف اسلام 

وزیراعظم بننے کے بعد 19اگست 2018ء کو پاکستانی قوم سے اپنے پہلے خطاب کے دوران عمران خان نےدو نکات یعنی خطہ میں امن اورپاکستانی عوام کی ترقی وخوشحالی پر زوردیاتھا۔ ایک انڈین امریکی کے طورپر مجھےان کی ان ترجیحات پر دلی مسرت ہوئی تھی کہ پاکستان بھارت سے تعلقات بہتربنانے اورمعاشی طورپر ایک مضبوط ملک بن کر اس خطہ میں کہیں زیادہ موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکتاہے۔ اسی بناء پر میں نے عمران خان انتظامیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیتارہاہوں اوریہاں میں وزیراعظم عمران خان کی ترجیحات اورایک سالہ کارکردگی سے متعلق اپنی ذاتی رائے پیش کررہاہوں۔

وزیراعظم عمران خان کے نقاد بجا طورپر ایک سالہ دوراقتدار میں متعدد خرابیوں کی نشاندہی کرتے آئے ہیں جن میں افراط زر، بے روز گاری، کرنسی کی بے قدری اورشرح نمو کا سکڑنا شامل ہیں۔ اس کے برعکس موجودہ حکومت کے پانچ اقدامات جن میں فلاحی ریاست کے قیام، علاج معالجہ کیلئے ہیلتھ کارڈز کے اجراء، گرین پاکستان تحریک، یوتھ ٹریننگ کا آغاز اورسکول سے محروم نوجوانوں کیلئے یوتھ پروگرامز شامل ہیں، ان منفی محرکات کو بیلنس کرکے ملکی ترقی کو ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہوئےعوام کے مستقبل کو روشن بناسکتے ہیں۔ پیغمبراسلام حضرت محمدﷺکی تعلیمات سے متاثر ہوکر پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست (جسے عمران خان ریاست مدینہ کا نام دیتے ہیں) کا قیام موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے  اوراس کے لئے حکومت کا احساس پروگرام بنیادی کردار ادا کرسکتاہے۔ غربت کے خاتمہ اور پسماندہ طبقات کی فلاح وبہبود کا یہ پروگرام مارچ 2019ء میں شروع کیاگیاتھا جس کے مقاصدمیں 60لاکھ سے زائد خواتین کی مالی معاونت کرکے انہیں اپنے قدموں پر کھڑا کرنا، 10 لاکھ سے زائد انتہائی غربت کا شکارکنبوں کی معاشی کفالت، غریب اورضرورتمند طلبا و طالبات کیلئے 20ہزاروظائف اورخوراک کی کمی کا شکار مائوں اور نوزائیدہ بچوں کیلئے فوڈ پروگرام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ غربت کے خاتمہ کا ایک اور پروگرام نیشنل پاورٹی گریجوایشن اینیشیٹو ملک کے 100 پسماندہ اضلاع کے ایک کروڑ 62 لاکھ سے زائد غریب افراد جن میں 50فیصد خواتین شامل ہونگی کی بہتری کیلئے 42ارب 65 کروڑ روپے کی خطیر رقم سے شروع کیاگیاہے ۔ ان پروگرامز پر اگر دیانتداری سے عملدرآمد کیاگیاتو یہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے کروڑوں پاکستانیوں کومعاشرے کا فعال حصہ بنانے میں مددگارثابت ہوسکتے ہیں۔

صحت سہولت پروگرام کے تحت ہیلتھ کارڈز کا اجراء خان حکومت کا غریب اورکم آمدنی والے خاندانوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں اورسرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک ملک کے 42 اضلاع کے 20لاکھ خاندانوں کو اس پروگرام کے تحت رجسٹرکیاجاچکاہے۔یہ صحت سہولت کارڈز ملک بھر کے معذورافراد کو بھی فراہم کیے گئے ہیں اوران کے پیکیج میں ایک لاکھ 20ہزار روپے سے لے کر 7لاکھ 20ہزار روپے تک کا علاج معالجہ شامل ہے جو پسماندہ اورغریب خاندانوں کی سکت سے ہمیشہ باہر رہاہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لوگوں کی اکثریت ہیلتھ کارڈ کی افادیت اوراس کے استعمال کے طریقہ کارسے آشنا نہیں ہےاوراس کے لئے تعلیمی وتربیتی پروگرامز کی ضرورت بھی ہے ۔ مزید برآں صحت کے سرکاری اداروں میں صحت کارڈز سے متعلق جامع آگاہی کا نظام بھی رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ متوسط طبقہ کے ضرورتمند لوگ اس سے مستفید ہوسکیں۔ لوگوں کو یہ سہولت اپنے اضلاع میں فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ بڑے شہروں میں ٹریفک کے مسائل اورہسپتالوں میں رش جیسے مسائل بھی پیدانہ ہوں۔

وزیراعظم عمران خان نے برسراقتدارآتے ہی شجرکاری، جنگلی حیات کی بقاء اورماحولیاتی نظام کی بحالی کی طرف توجہ دیتے ہوئے موسمیاتی تغیرات کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اقدامات کیے ہیں جن میں 10ارب پلانٹس سونامی پروگرام شامل ہے جس سے نہ صرف جنگلات کے رقبہ میں اضافہ ہوگا بلکہ اس پروگرام کے پہلے مرحلہ میں اگلے چار سالوں کے دوران  3ارب 29 کروڑ مقامی پودے لگائے جائیں گےجس سے دورافتادہ علاقوں میں 15 لاکھ نئی آسامیاں پیدا ہونے کی توقع بھی ہے۔ کلین اینڈ گرین پاکستان موومنٹ کے تحت شجرکاری،  ٹھوس اورمائع کوڑے وفضلات کی تلفی اورحفظان صحت کے اصولوں کے تحت پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی ایک شاندار پراجیکٹ ہے جس میں پنجاب اورخیبر پختونخوا کے 19شہروں کی کلین اینڈ گرین رینکنگ کی جائے گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھرمیں لوگ سالانہ 55 ارب پولی تھین بیگ (شاپنگ بیگ) استعمال کرتے ہیں جوزمین اورپانی کی آلودگی کا سب سے بڑا سبب بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ان کے استعمال پر دارالحکومت اسلام آباد میں پابندی عائد کردی ہے جسے بتدریج بڑھاکر مستقبل قریب میں پورے ملک میں نافذ کردیاجائےگا۔ماہرین کی تجویز ہے کہ ان تمام ماحول دوست اقدامات  پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد کیلئے سخت مانیٹرنگ کا نظام رائج کیاجانا چاہئے خواہ اس کے لئے بین الاقوامی ماحولیاتی تنظیموں کے ساتھ اشتراک عمل ہی کیوں نہ کرناپڑے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ملک میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو سماجی ، معاشی  اورسیاسی طورپر مضبوط اوربااختیاربنانے کیلئے نیشنل یوتھ ڈویلپمنٹ فریم ورک کے تحت کامیاب جوان پروگرام کاآغاز کیا ہے جس کے ذریعہ نوجوانوں کی اعلیٰ تعلیم، ہنرمندی، انٹرپرینیئور شپ اورسماجی کاموں میں شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا۔اس پروگرام کی خاصیتوں میں تعلیم، روزگار اورسماجی خدمات شامل ہونگی۔کامیاب جوان پروگرام بلاشبہ  اس ضمن میں پہلا قدم ہوگا لیکن یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ پاکستان کی 60فیصد سے زائد نوجوان آبادی کیلئے ووکیشنل ٹریننگ اورہنرمندی کے مواقع کی فراہمی کا سکوپ بین الاقوامی معیار کے مطابق موجود ہے؟  ذمہ دار حلقے اس ضمن میں ووکیشنل ٹریننگ کے معیار کو بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زوردے رہے ہیں۔

اپنی پہلی نشری تقریر میں عمران خان نے سکول نہ جاسکنے والے اڑھائی کروڑ بچوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاتھاکہ دنیا میں کئی ممالک کی اتنی آبادی نہیں ہے جتنے بچے پاکستان میں سکول جانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔عمران خان کی حکومت نے اپنے اقتدارکے پہلے سال میں اس پر کام شروع کرتے ہوئے اسلام آباد میں پائیلٹ پراجیکٹ شروع کیا اور11ہزار ایسے بچوں کو انرول کرکے روایتی اورغیر روایتی تعلیمی اداروں میں داخل کرایا گیا ہے ۔ ان تمام بچوں کو بلامعاوضہ یونیفارم اورکتب وغیرہ فراہم کی گئی ہیں تاکہ ان کے خاندانو ں پر تعلیمی اخراجا ت کا بوجھ نہ پڑے۔ یہ اگرچہ ایک بہترین آغاز ہے لیکن اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے ابھی بہت کچھ اوربہت موثر انداز میں کرنا باقی ہے ۔

حکومت پاکستان کے ان پانچ شعبوں کی ترجیحات کو عملی جامہ پہنانے سے وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی لوگ تیزی  سے ترقی کریں گے مگر بدقسمتی سے میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ اسی جذبہ کے تحت امن کی بحالی کیلئے کوئی تحریک سامنے نہیں آرہی ۔ میں اس امن عمل کی باریکیوں میں جائے بغیر یہ کہوں گا کہ اس وقت پاکستان اوربھارت کے باہمی تعلقات کم ترین سطح پر ہونے کی وجہ سے خطہ میں امن کو خدشات لاحق ہیں۔یہ تجزیہ پیش کرتے ہوئے میری یہ خواہش ہے اورمجھے امید ہے کہ آج سے ایک سال بعد جب عمران خان کی حکومت کے دو سال پورے ہونگے تو ہم ترقی کے ساتھ ساتھ امن کے محاذ پر بھی ٹھوس پیش رفت دیکھیں گے۔ اب اس کا فیصلہ وقت کرے گا کہ ایسا ممکن ہوتا ہے کہ نہیں۔

 

Check Also

ناشتہ کیے بغیر بھوکے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ قرار

امریکا سمیت دیگر ممالک کے ماہرین کی جانب سے بھوک کے صحت اور خصوصی طور …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *