Home / جاگو بزنس / غیرحتمی آڈٹ رپورٹس شائع کرنے پر پاور ڈویژن کا اعتراض

غیرحتمی آڈٹ رپورٹس شائع کرنے پر پاور ڈویژن کا اعتراض

اسلام آباد: آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 177 ارب روپے کی وصولیوں کا دعویٰ کیے جانے کے بعد توانائی ڈویژن نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے حتمی فیصلے سے قبل آڈٹ رپورٹس کی اشاعت پر سوالات اٹھائے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 21-2020 کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران 176.9 ارب روپے کی وصولی کی، آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے محکموں سے 176.3 ارب روپے کی رقم وصول کی گئی جبکہ صوبائی اور ضلعی دفاتر سے 55 کروڑ 88 لاکھ روپے کے محصولات وصول کیے گئے۔

مذکورہ دورانیے میں سب سے زیادہ وصولی ڈائریکٹر جنرل آڈٹ (ڈی جی اے) پیٹرولیم اینڈ نیچرل ریسورسز لاہور نے کی تھی جنہوں نے ایک کھرب 69 ارب 67 کروڑ روپے وصول کیے جبکہ ڈی جی اے کمرشل آڈٹ اینڈ ایوے لیوشن۔ اسلام آباد 2.332 ارب کے محصولات وصول کیے۔

اسی طرح ڈی جی اے ان لینڈ ریونیو اینڈ کسٹمز، کراچی نے ایک ارب 83 کروڑ روپے جبکہ ڈی جی اے، اسلام آباد نے 61 کروڑ 94 لاکھ روپے کی وصولی کا انتظام کیا، ڈی جی اے فارن اینڈ انٹرنیشنل افیئرز، اسلام آباد نے 58 لاکھ، ڈی جی اے سوشل سیفٹی نیٹ نے 44 لاکھ روپے اور ڈی جی اے راولپنڈی نے 8 کروڑ 85 لاکھ روپے کی وصولی کی۔

اس کے علاوہ ڈی جی اے دفاعی امور، کراچی نے 18 کروڑ لاکھ روپے کی وصولی کی، ڈی جی اے ورکس (فیڈرل)، اسلام آباد نے 44 کروڑ 7 لاکھ روپے، ڈی جی اے ورکس پاک چین اقتصادی راہداری، اسلام آباد نے 7کروڑ 81 لاکھ روپے، ڈی جی اے سی اے اینڈ ای، اسلام آباد نے ایک کروڑ 50 لاکھ روپے اور ڈی جی اے پوسٹ اینڈ ٹیلی کام لاہور نے 76 کروڑ 24 لاکھ روپے بازیاب کرائے۔

ڈی جی اے پاور سیکٹر، لاہور سے بازیاب شدہ رقم 2 کروڑ 80 لاکھ روپے رہی جبکہ ڈی جی اے ریلوے لاہور نے 17 کروڑ 81 لاکھ روپے اور اس کے علاوہ ڈی جی اے آئی آر اینڈ سی، لاہور نے 8 کروڑ 28 لاکھ روپے اور ڈی جی اے (آئی آر اینڈ سی) کراچی نے 1.833 ارب روپے وصول کیے۔

صوبائی اور ضلعی حکومت کی جانب سے بازیاب کرائی گئی رقم کی بات کی جائے تو ڈی جی اے صوبائی ورکس، لاہور نے 2 کروڑ 69 لاکھ روپے کی وصولی کا انتظام کیا، ڈی جی اے پنجاب، لاہور نے 12 کروڑ 92 لاکھ روپے، ڈی جی اے خیبر پختونخوا، پشاور نے ایک کروڑ 55 لاکھ روپے، ڈی جی اے سندھ، کراچی نے 5 کروڑ 77 لاکھ روپے جبکہ ڈی جی اے بلوچستان، کوئٹہ نے 13 کروڑ 16 لاکھ روپے کی وصولی کی۔

اسی طرح ڈی جی آزاد جموں و کشمیر، مظفرآباد نے 5 کروڑ 44 لاکھ روپے، ڈی جی اے ضلع (شمالی) پنجاب، لاہور نے 13کروڑ 71 لاکھ روپے، ڈی جی اے ضلع (جنوبی) ملتان کے ذریعے 2 کروڑ 35 لاکھ روپے، ڈی جی اے ضلع پشاور نے 12 لاکھ 70 ہزار روپے اور ڈی جی اے (ایل سی) بلوچستان، کوئٹہ نے 4 لاکھ 20 ہزار روپے بازیاب کرائے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آڈیٹر جنرل آفس اپنے فیلڈ دفاتر کے ذریعے مختلف سرکاری دفاتر اور اداروں کے سالانہ آڈٹ کرواتا ہے، آڈیٹر جنرل آفس نے اب تک سال 20-2019 تک آڈٹ مکمل کر لیا ہے، سال 20-2019 کی آڈٹ رپورٹ پارلیمنٹ میں رکھی گئی۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بتایا کہ اس کے دفاتر آڈٹ پیرا کے ذریعے مختلف محکموں میں ہونے والی بدعنوانی کی نشاندہی کرتے ہیں، آدیٹر جنرل کی جانب سے تیار کردہ آڈٹ رپورٹس پر ہر سال پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ذریعے تبادلہ خیال کیا جاتا ہے، تفصیلی گفتگو کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی رپورٹ کی گواہی دیتی ہے، اس رپورٹ کی بنیاد پر متعلقہ محکموں سے رقم بازیاب کرائی جاتی ہے۔

دوسری طرف توانائی ڈویژن نے پارلیمنٹ کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے حتمی فیصلے سے قبل آڈٹ رپورٹس کی اشاعت کے پیچھے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی سوج بوجھ پر سوال اٹھایا ہے، انہوں نے کہا کہ بے ضابطگیوں یا بدانتظامی کی حتمی بات پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سپرد ہے لہٰذا متعلقہ فورم کے ذریعے حتمی شکل دینے سے پہلے آڈٹ رپورٹ کی رپورٹنگ مناسب رائے عامہ کے لیے منصفانہ رپورٹنگ کے مقصد کو پورا نہیں کرتی۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی (آڈٹ) پاور اینڈ پاور ڈویژن کے نمائندے پر مشتمل ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) نے پہلے ہی آڈٹ رپورٹس میں جن امور پر روشنی ڈالی گئی تھی ان پر تبادلہ خیال کیا تھا اور اس ضمن میں پاور سیکٹر کے تمام اداروں کو ریکارڈ کی توثیق اور اصولوں و ضوابط پر مبنی اپنے نظرثانی نقطہ نظر پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

پاور ڈویژن نے کہا کہ آڈٹ رپورٹس دونوں فریقوں کے قواعد و ضوابط کی تشریح کے نقطہ نظر میں واضح تفریق کا سوال اٹھاتی ہیں، اگر آڈٹ اور ایڈٹ کرنے والوں کے مابین کوئی اختلاف رائے ہو تو اسے پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ذریعے حتمی فیصلے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔

پاور ڈویژن نے کہا کہ بجلی کے شعبے کی سالانہ مارکیٹ آمدنی تقریباً 1.4 کھرب روپے ہے لہٰذا کھاتوں میں 3 ارب روپے کی غلط استعمال کا سوال غیر منطقی تھا، اس میں کہا گیا ہے کہ اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان کو سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے پچھلے سالوں کی وصولیوں / کھاتوں کا احاطہ نہیں کرنا چاہیے جس نے غیر ضروری طور پر عوامی ردعمل کو جنم دیا۔

Check Also

کراچی: جاپانی شہریوں کی گاڑی کے قریب خودکش دھماکے سی سی ٹی وی سامنے آگئی

کراچی کے علاقے لانڈھی میں خودکش دھماکے کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کی گاڑی کو …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *