Home / جاگو دنیا / فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ: یورپی یونین کی ترکی کو سنگین نتائج کی دھمکی

فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ: یورپی یونین کی ترکی کو سنگین نتائج کی دھمکی

یورپی کمیشن نے ترکی کو فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ سے متعلق بیان پر خبردار کیا ہے کہ انقرہ کی یورپی یونین میں شمولیت کی کوشش مزید تاخیر کا شکار ہوسکتی ہیں۔

غیرملکی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق یورپی یونین کے ترجمان ترجمان نے کہا کہ ‘کسی بھی رکن ریاست کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ بنیادی ذمہ داریوں کے منافی ہے اور اس طرز عمل سے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی راہیں مزید دور ہوجائے گی۔

خیال رہے کہ ترکی نے 1987 میں یورپی اکنامک کمیونٹی میں شامل ہونے کے لیے درخواست دی تھی۔

2005 میں یورپی یونین سے باضابطہ طور پر الحاق کی بات چیت کا آغاز کیا تھا لیکن ان مذاکرات میں کوئی مؤثر انداز میں پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

ترکی نے مذکورہ قتل کی مذمت کی لیکن ترکی کے صدر طیب اروان نے فرانسیسی صدر کے ساتھ شدید الفاظ کی جنگ بھی دوبارہ شروع کردی ہے ، اور فرانسیسی سامان کے بائیکاٹ کے مطالبے میں اپنی آواز بھی شامل کردی ہے۔

اب یورپی یونین میں شمولیت کی درخواست کی نگرانی کرنے والے یورپی کمیشن نے متنبہ کیا ہے کہ فرانسیسی مصنوعات کا باضابطہ بائیکاٹ کرنے کے مطالبے سے ترکی کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کی شرائط کی خلاف ورزی ہوگی۔

ترجمان نے کہا ترکی کے ساتھ یورپی یونین کے معاہدوں سے سامان کی آزادانہ تجارت کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترکی ان معاہدوں کے تحت دو طرفہ ذمہ داریوں کا پابند ہے اور ان کا پورا احترام کیا جانا چاہیے۔

واضح رہے کہ ترکی اور یورپی یونین کے مابین ایسوسی ایشن ایگریمنٹ، کسٹمز یونین اینڈ ایگریکلچر اور کول اینڈ اسٹیل (ایف ٹے ایز) معاہدے ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنے فرانسیسی ہم منصب پر مسلمانوں سے متعلق متنازع پالیسیوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایمانوئل میکرون کو ‘دماغی معائنہ’ کرانے کی ضرورت ہے۔

ترک صدر نے کہا تھا کہ ایسے سربراہ مملکت کے بارے میں کہا کہہ سکتے ہیں جو مختلف مذہبی گروہوں کے لاکھوں ممبروں کے ساتھ اس طرح سلوک کرتا ہو: سب سے پہلے انہیں اپنا دماغی معائنہ کروانا چاہیے۔

بعدازاں فرانس نے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے فرانسیسی ہم منصب ایمانوئل میکرون کے ذہنی صحت سے متعلق بیان کے بعد ترکی سے اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے واپس بلایا تھا۔

پیرس نے ترک صدر کے بیان کی بھرپور مذمت کی تھی۔

فرانسیسی صدر کا متنازع بیان

واضح رہے کہ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

جس کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو ‘ہیرو’ اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو ‘مجسم’ بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ فرانسیسی صدر کی جانب سے اسلام مخالف بیان سامنے آیا ہو، رواں ماہ کے آغاز میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے فرانس کے سیکیولر “بنیاد پرست اسلام” کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی تھی اور اس دوران اسلام مخالف بیان بھی دیا تھا۔

ایمانوئیل میکرون نے فرانس کی سیکیولر اقدار کے ‘بنیاد پرست اسلام’ کے خلاف ‘دفاع’ کے لیے منصوبے کو منظر عام پر لاتے ہوئے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ کے بہتر کنٹرول کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے سعودی عرب، قطر اور ترکی جیسے ممالک کا نام لیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ فرانس میں ‘اسلام کو غیر ملکی اثرات سے آزاد’ کروانا ضروری ہے۔

ان کے مطابق اس مقصد کے لیے، حکومت مساجد کی غیر ملکی مالی اعانت کے بارے میں جانچ پڑتال کرے گی اور اماموں کی تربیت کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے یا فرانسیسی سرزمین پر غیر ملکی مبلغین کی میزبانی پر پابندی لگائے گی۔

جس پر ردِعمل دیتے ہوئے مصر کے ممتاز اسلامی ادارے جامعۃ الازھر کے اسکالرز نے ”اسلام پسند علیحدگی” کے حوالے سے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے بیان کو ‘نسل پرستانہ’ اور ‘نفرت انگیز’ قرار دیا تھا۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ فرانسیسی ہفتہ وار میگزین چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔

Check Also

ایرانی سفارتخانے پر حملہ ویانا کنونشن کی خلاف ورزی تھی، ترک صدر

 اردوان نے کہا ہے کہ دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر حملہ کرکے اسرائیل نے عالمی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *