Home / قلم شرارے / مولانا فضل الرحمن کا دھرنا ، خفیہ طاغوتی قوتیں اور عوام

مولانا فضل الرحمن کا دھرنا ، خفیہ طاغوتی قوتیں اور عوام

پاکستان میں مولانا فضل الرحمن حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاریوں میں مصروف
عمل ہیں، دوسری جانب اس ضمن میںحکومتی حلقوں کے ساتھ ان میںبے چینی اور
سراسیمگی ہے اب تک تمام اپوزیشن جماعتیں اختلافات کا شکار ہیں، نواز شریف
کی پارٹی بھی گومگوں کیفیت کا شکار ہے، پیپلز پارٹی کبھی ہاں اور کبھی
ناں والی پالیسی پر عمل پیرا ہے، لیکن ایک بات جو صاف نظر آ رہی ہے کہ
مولانا اپنے فیصلہ میں بغیر کسی لچک کے قائم ودائم ہیں اور27اکتوبر کو
دھرنے کے فیصلہ پر قائم ہیں اور وہ کسی قیمت اس دھرنے اور ماچ سے
دستبردار ہونے یا کنارہ کشی کرنے کیلئے تیار نہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ
اور ان کے حامی ہر صورت میں27اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف مارچ کرینگے ،
خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ دھرنا اس قت تک جاری رہے گا جب تک موجودہ حکومت
گھر نہیں چلی جاتی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہو گا؟،
اس بارے میں صورتحال اب تک واضح نہیں ہے، یہ باتیں بھی باز گشت ہو رہی
ہیں کہ اس دھرنے کے پیچھے شاید اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہو، پیپلز پارٹی کا
کہنا ہے کہ وہ اس ضمن میں کسی بھی ایسی پارٹی کا ساتھ نہیں دینگے جو کہ
مذہبی کارڈ کا استعمال کریں گی،لیکن بعد ازاں پھر سے پیپلز پارٹی نواز
شریف کے ہمراہ مشورے اور مشاورت کے فیصلوں میں شامل ہو گئی ہے، نواز شریف
کی مسلم لیگ ن بھی مولانا کے منصوبوں سے متعلق واضح بیان دینے سے قاصرنظر
آ رہی ہے،مسلم لیگ ن والے ملاقاتوں پر ملاقاتیں کررہے ہیں لیکن یہ
ملاقاتیں اب تک بے نتیجہ ہی ثابت ہو رہی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اس بے
نتیجہ ملاقاتوں میں برابر کی حصہ دار ہے، مسلم لیگ ن کے حلقہ اس ضمن میں
اپنے خدشات رکھتے ہیں، ان کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی پر پہلے
سے ہی ریاستی عذاب نازل ہے ، اس صورتحال میں کیا ان کی پارٹی دھرنے میں
شرکت لینے کا کیا کارسک لے سکتی ہے کہ نہیں؟کچھ رہنمائوں کا کہنا ہے اس
صورت میں ان کی پارٹی کو مزید سخت صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے
اور مزید مصیبتوں کا سامنا کرنا ہو گا، دوسری طرف مارچ اور دھرنے سے
متعلق کئی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ مولانا مارچ کے انعقاد کے سلسلے میں
اتنے پر اعتماد کیوں دکھائی دے رہے ہیں اور وہ اس مارچ اور دھرنے پر بضد
کیوں ہیں؟ ان کا خیال ہے کہ شاید مولانا کو درپردہ کسی نہ قسم کی کوئی نہ
کوئی گارنٹی ضرور دی گئی ہے یا کوئی نہ کوئی یقین دہانی ضرور کرائی گئی
ہے، جس سے دیگر سیاستدان اب تک بے خبر ہیں، یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ
مولانا فضل الرحمن جو کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے رابطے
میں ہیں اور ان کا جھکائو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف  رہا ہے تاہم اگر ہم
ماضی کی تاریخ دیکھیں تو2014ء میں عمران خان کی جانب سے کئے گئے فیصلہ
ہمیشہ انکی پارٹی کے اتفا ق رائے سے ہونے والے فیصلے نہیں تھے، بلکہ یہ
فیصلہ کہیں اور سے کئے گئے تھے اس لئے اس پر عملدرآمد کیا گیا حالانکہ اس
وقت خیبر پختونخواہ کے عہدیداران نے صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے استعفیٰ
دینے سے انکار کر دیا تھا ، ان کا کہنا تھا کہ وہ بڑی مشکل سے اسمبلیوں
تک پہنچے ہیںاور استعفیٰ دینادرست عمل نہیں، بہر کیف اس وقت ملک میں دو
بڑی سیاسی جماعتیں ہیں مگر جماعت اسلامی اس خلا کو پر کرنے کی صلاحیت بھی
رکھتی ہے، اس دھرنے کے حوالے سے حکومت نے بھی اپنی حکومت عملی واضع کردی
ہے کہ وہ اس دھرنے کو کسی صورت نہیں ہونے دینگے اور حکومتی طاقت کا بھر
پور استعمال کیا جائے گا لیکن یہ مکافات عمل ہے،جس وقت عمران خان نے
دھرنے کا اعلان کیا تھا تووہ یہی عمران خان تھے جنہوں نے126دن اسلام آباد
بند کیے رکھا، چین کے صدرکو اس دھرنے کی وجہ اپنا دورہ منسوخ کرنا پڑا،
سپریم کورٹ کی دیوار پر شلواریں تک لٹکائی گئیں، پاکستان ٹیلی ویژن کی
عمارت پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش تک کی گئی، عمران خان نے اس
وقت سول نافرمانی کی تحریک چلاتے ہوئے لوگوں کو کہا کہ آپ بجلی، گیس کے
بل ادا نہ کریں، بیرون ملک پاکستانیوں کو کہا گیا کہ آپ ہنڈی کے ذریعے
رقم بھیجیں، اس طرح مولانا خادم حسین رضوی کو بھی دوسری جانب دھرنوںکیلئے
پلانٹ کیا گیا، جس نے ناموس رسالت کے نام پر اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیتے
ہوئے اسلام آباد کو بند کرانے میں اہم کردار ادا کیا، کئی وزراء پر حملے
کئے گئے ،اس قت مولانا طاہر القادری ،عمران خان کے ساتھ تھے جنہوں نے اب
سیاست سے ریٹارمنٹ کا اعلان کر دیا ہے حالانکہ ان کے مریدوں کو اس وقت
اسٹیبلشٹمنٹ نے ان کے پیر کے ذریعے استعمال کیا گیا اس صورتحال میں جو
کچھ عمران خان نے اس وقت کیا وہسب کچھ ان کے سامنے ہے اس لئے اخلاقی طور
پر وہ کس طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت مولانا فضل الرحمن کا دھرنا درست
عمل نہیں ہے۔
اس وقت پاکستان کی سیاست میں یہ بازگشت موجود ہے کہ اس وقت فوج اور
موجودہ حکومت ایک ہی بیچ پر ہیں اگر یہ بات درست ہے تو مولانا فضل الرحمن
کس کے ایماں پر اس طرح حکومت کو چیلنج دے رہے ہیں ،دوسری جانب یہ حقیقت
ہے کہ ملک میں جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے تب سے لے کر اب تک نہ
صرف مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ ڈالی ہے بلکہ معاشی مسائل دن بہ دن
بڑھ رہے ہیں ، ملک میں اس وقت غربت، بیروزگاری، بیرون ملک سے سرمایہ کاری
اندرونی اور بیرونی قرضہ جات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے، عوام الناس بے
چینی اور اذیت کا شکار ہیں ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، اس
صورتحال میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو کچھ
نہ کچھ کرتے ہوئے متحرک ہونا چاہیے تھا ، لیکن یہ دونوں جماعتیںصرف زبانی
جمع خرچ تک محدود رہیں اور اس زور اور شوز سے تحریک نہیںچلا پائیں جس کا
اظہار جمعیت علماء اسلام نے اپنے اعلان میںکہا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف
احتجاجی دھرنا دینگے اور آزادی مارچ کرینگے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر ہم نظر دوڑائیں تو آج تک ملک میں
چندسیاستدانوں کے کسی بھی سیاستدان نے عوام کے حقوق کیلئے کسی قسم کی
کوئی تحریک نہیں چلائی پر سابقہ تحریک کے پیچھے کسی اور کا منحوس ہاتھ
ہوتا تھا اور یہ تحریک ملکی اسٹیبلشمنٹ اور غیر ملکی قوتوں کے ایماں پر
چلائی گئیں اور اس میں موجود اسٹیبلشمنٹ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں
، حکومت گرانے کیلئے اس طرح کی جماعتیں بھی استعمال ہوتی رہی ہیں جو کہ
اپنے آپ کو مذہبی جماعت کہتے ہوئے اور اللہ اور اس کے رسولۖ کا نام
استعمال کرتی چلی آ رہی ہیں، لیکن عملی طور پر ان مذہبی جماعتوں نے آنے
والے ہر فوجی آمر کا ساتھ دیا ، پرویز مشرف کا دورہ اس کی بڑی مثال ہے،
جب ان جماعتوں نے ان کی مرضی اور منشاء کے مطابق بل پاس کرانے میں اہم
کردار ادا کیا اور کبھی بھی انہوں نے ماضی میں جمہوریت دشمن قوتوں کا
ساتھ دینے پر ندامت اور شرمندگی محسوس نہیں کی۔یہی وجہ ہے کہ جمعیت علماء
اسلام جو کہ اسٹریٹ پاوربھی رکھتی ہے وہ بھی اس ضمن میں تنقید کے نشانے
پر رہی ہیں کہ یہ پارٹی بھی آمروں کے ہاتھوں استعمال ہوتی رہی ہے،
اب جبکہ مولانا کے مارچ میں تقریباً20دن باقی رہ گئے ہیں توکچھ ہی دنوں
میں حکومتی پالیسی سامنے آنے کے امکانات ہیں اگر اس سے قبل مولانا فضل
الرحمن کو گرفتار یا نظر بند کیا جاتا ہے تو صورتحال مزاحمت کی طرف بھی
جا سکتی ہے، ملک میں ایک بار پھر ہنگامے او رشہروں میں احتجاج کا سلسلہ
شروع ہو سکتا ہے، خون خرابے کی صورتحال بھی جنم لے سکتی ہے، وفاقی وزیر
داخلہ اعجا شاہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ144کا نفاذ ہے، اس لئے
کوئی جلسہ جلوس یہاں نہیں ہو سکتا، انہوں نے دبے الفاظوں میں مولانا کو
دھمکی بھی دی ہے، جس کے بعد اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آزادی مارچ نکلنے
کے بعدحکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹکرائو کی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی
ہے اور اس کے نتیجے میں جمہوری نظام کو خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں،
شایدیہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اس مارچ میں
نکلنے کیلئے تیار نہیں، دوسری جانب نواز شریف نے اپنے خط میں مولانا کو
پیغام دیا ہے کہ وہ اگر وہ جیل سے باہر ہوتے تو یقینا وہ ان کے ساتھ اس
احتجاج میں شریک ہوتے تاہم نواز شریف نے یہی ہدایت شہباز شریف کوبھی دی
ہے جن کو اس رائے سے اختلاف ہے کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے
کے خواہشمند ہیں، مولانا فضل الرحمن کو مارچ ا ور دھرنے سے روکنا اتنا
مشکل کام نہیں ہے کیونکہ سعودی عرب سے ایک فون کال پر اس دھرنے کو روکا
جا سکتا ہے، مگر مولانا پرانے کھلاڑی ہیں وہ بھی ان معاملات کو اچھی طرح
جانتے ہیں ،مولانا کاآزادی مار چ عمران خان کی حکومت کے خلاف عوامی رد
عمل کی پہلی قسط ہے اوریہ سلسلہ روکنے والا نہیں،لیکن اس صورتحال میں
اپوزیشن جماعتوں کو انتشار کا شکار ہونے کی بجائے اتفاق رائے سے فیصلہ
کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس صورتحال کے سبب موجودہ حکومت بھی عوام دشمن
فیصلہ کرنے میں احتیاط کا دامن برائے کار لا سکتی ہے،تا کہ وہ موجودہ
حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کیخلاف ایک آواز بن کر ان پر دبائو مزید
بڑھا سکیں جس سے عوام کو ریلیف حاصل ہو نہ کہ جمہوریت دشمن قوتیں مولانا
کی آلہ کار بن کر جمہوریت کو شکار کرتے ہوئے ایک بر پھر سے جمہوریت کو
وینٹی لیٹر تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، جس کے کافی
امکانات بھی موجود ہیں کیونکہ اب تین سالوں تک بال باوجود کے کورٹ میں ہے
اور وہ اس بال کو جیسا چاہیں اپنے لئے کھیل سکتے ہیں۔
اب تین سالوں تک بال جنرل باجوہ کے کورٹ میں موجود ہے، وہ اس بال کو جیسا
چاہیں اپنے لئے کھیل سکتے ہیں، اس وقت دھرنے کے حوالے سے جو تازہ ترین
صورتحال ہے اس کے مطابق نواز شریف نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا
ہے کہ مولانا کو پوری طرح سپورٹ  کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ مولانا نے
الیکشن کے فوری بعد استعفوں کی بات کی تھی، ہم نے کہا تھا کہ نہیں
حالانکہ ان کی بات میں وزن تھا، آج مولانا کی بات کو رد کرنا بالکل غلط
ہو گا، نواز شریف کا کہنا تھا کہ میں نے شہباز شریف کو خط لکھ کر بھیج
دیا ہے، لیکن شہباز شریف ابھی تک بوٹ میںبیٹھے ہوئے ہیں، شاید نوازشریف
کے دو ٹوک مؤقف کے بعد پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی کھل کر مولانا
کے ساتھ کھڑے نظر آئیں، تاہم اپوزیشن جماعتوں میں بھی تحفظات ہیں کہ
شہباز شریف ان کو آگے کروا کے خود جرنیلوں سے ہاتھ ملا لے لگا، کیونکہ
ایسا ماضی میں کئی بار ہو چکا ہے، بہر کیف ابھی تک جو صورتحال ہے، اس سے
یہ انداز ہ لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا کے آزادی مارچ اور دھرنے کے پیچھے
اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نہیں ہے، ہو سکتا ہے، ان کو سعودی عرب کی حمایت ہو
لیکن عوام کو یہ بات سوچنا ہو گی کہ اسٹیبلشمنٹ کے سارے حالیہ گناہوں کی
معافی صرف نیازی کا چہرہ بدل کر کوئی اور کٹھ پتلی لانے سے ہو جائے تو یہ
افسوسناک عمل ہو گا، ہر بار کوئی بھٹو ،کوئی بینظیر یا کوئی نواز شریف
نہیں آئے گا، عوام کو یہ جنگ فوج کے دوسری جانب ان دوستوں سے جو کہ فوج
پر تنقید کو ناپسند کرتے ہیں، ان کے لئے عرض ہے کہ جب فوجج سیاست کرتی ہے
تو ہ ایک سیاسی پارٹی ہے، لہٰذا اس کے خلاف نعرے بھی بھی لگیں گے، لوگ
گالیاں بھی دینگے، انڈے بھی ماریں گے، لیکن یہ مسئلہ بندق نکالنے ،کیس
بنوا دینے یا اغواء کروا لینے یا تشدد سے حل نہیں ہو گا،یہ مافیا اسٹائل
جرنیلو ںکو ختم کرنا ہو گا،بد قسمتی سے پاکستان کی فوج سیاست بھی کرے،
بڑے بڑے بلینڈر بھی کرے ،کاروبار بھی کرے اور عوام سے وہ یہ توقع کریں کہ
وہ ان پر سیاسی اظہار رائے بھی نہ کریں تو یہ ممکن نہیں،فوج ہم سب کیلئے
باعث عزت واحترام ہے اور اگر ان کو عزت واحترام کرانا مقصود ہے تو وہ
سیاست اور کاروبار کو خیر آباد کہہ کر بیرکوں میں چلے جائیں، جمہوری
حکومت کے ماتحت کام کریں، یہ نہیں ہو سکتا کہ سیاست بھی ہو اور مخالفین
پر بندوق بھی تانی جائے،موجودہ دھرنا اور آزادی مارچ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف
مکافات عمل ہے کیونکہ ایک دن یہ ضرور ہونا ہے ،عوام اپنی نمائندہ حکومت
چاہتے ہیں جو کہ ان کی زبان بولے، ان کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو، اس وقت
جرنیلو کی کٹھ پتلی نے کشمیر بیچ دیا،افغانستان پر سعودے بازی کر لی،
بھارت سے ہار مان لی،اسرائیل پالیسی تبدیل کر لی اور برے میں صرف اپنے
مخالفین کو جیل ڈالنے کی اجازت مانگی، اگر سابقہ دور میں بھٹو ، بینظیر
یا نواز شریف اس طرح ملک فروخت کرنے پر مان جائے تو اس ملک کا کیا بنتا،
موجودہ دھرنا اور آزادی مارچ کتنا کامیاب ہوتا ہے، یہ تو آنے والا وقت
بتائے گا لیکن جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے یہ اس عمل کا نتیجہ ہے، اس لئے
حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لے کر اس مسئلہ کا سنجیدگی سے حل تلاش کرنا
چاہیے، کیونکہ طاقت کے بل بوتے پر عاضی دیوار تو ڈالی جا سکتی ہے مگر جو
پریشر اس وقت طاقت حاصل کررہا ہے وہ اس دیوار سمیت دیگر کئی اداروں کو
بھی بہا کر لے جا سکتا ہے۔

Check Also

‎کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر

    کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر تحریر : راجہ زاہد اختر خانزادہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے دلبرداشتہ ہو کر چند ایک ماہ سے اس پر اظہار خیال کرنابھی چھوڑ دیا تھا، مگر شاید اپنی اس مٹی سے محبت واپس پھر وہیں کھینچ لانے کومجبور کردیتی ہے کہ اپنے حصے کا حق ادا کیا  جائے،ہماری قوم اور ملک گزشتہ تہتر سالوں سے دائروں کےسفر میں ہے،جس کا کوئی اختتام نہیں ہے ،یہ سفر کولہو میں بندھے ہوئے بیل کی مانند ہے، جسکی کوئی منزل نہیں ہے، جس طرح کولہو کا بیل آشنائے راز سے واقف نہیں ہوتا، اور دن رات چلتاچلا جا تا ہے، اس طرح ہماری قوم کو بھی دائروں کے اس سفر میں الجھا دیا گیا ہے، پاکستان کیآرمی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ سات دہائیوں سے ہر کسی کو کٹھ پتلی بنائے چلی آرہی ہے ، اور انکواسی دائرہ کے سفر میں چلنے پر مجبور کرتی رہی  ہے، اب جبکہ ملک کا تمام میڈیا حکومتی کنٹرولمیں ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ (جیو اور جنگ) کے مالک میر شکیل الرحمن انکی حراست میں ہیں انہوں نے  میڈیاپر پابندی کے ذریعہ کولہو کے اس بیل کی آنکھیں بھی مکملطور بند کردی ہیں ،اس طرح اب اس قوم(بیل) کو جہاں چاہے گھمائو یہ قوم یہی سمجھے گی کہ وہآگے کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن دراصل ہماری منزل ہم سے کوسوں دور ہے، گزشتہ تہتر سالوں سےپاکستان کی تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو ہی دہراتی چلی آرہی ہے، یہ ملک جہاں تھا وہیں پر نہیں بلکہوہ مزید پیچھے کی طرف چلا گیا ہے، اگر ہم یحییٰ خان کے مارشل لاء کو بھی گنتی میں گنیں تواس ملک میں چار مارشل لاء لگ چکے ہیں جو کہ اپنی نوعیت کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلفرہے ہیں، اس دوران کبھی ہمیں سمجھایا گیا کہ مظلوم مسلمان بھائیوں کیلئے جہاد کرنا ہے اسطرح پھر کہا گیا کہ پرائے معاملات میں ٹانگ اڑانا دہشت گردی ہے، کبھی ہمیں یہ بتایا گیا کہ دنیابھر میں بسنے والے مسلمان تمہارے بھائیوں کی طرح ہیں، کبھی تیس لاکھ افغان مہاجرین کےبوجھ تلے قوم کو دبا دیا جاتا ہے، کبھی اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کرا کے امریکی ڈالر خطیرتعداد میں وصول کیئے جاتے ہیں، کبھی تمام مسلمانیت دل سے نکال کر کئی مسلمانوں کو سارےمسلمہ اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غیروں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے، کبھی غیر ملکی ایجنٹوں کو ویزے جاری کر کے انہیں اپنے ہی ملک میں غدار بھرتی کرنے کےکام کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ کبھی اپنے ہی ملک میں دھرنے دلوا کر ملک کی معیشت اورسیاسی استحکام کو دائو پر لگایا جاتا ہے، کبھی جمہوری حکومتوں کو ناک میں نکیل ڈالنے کیلئےان کی کان مروڑی کی جاتی ہے، کبھی ایدھی جیسے شخص کوبھی خریدنے کی کوشش کی جاتیہے، تو کبھی اس کے جنازہ کی آڑ میں اپنا نام بلند کیا جاتا ہے، جب کبھی بھی قوم مشکل میں ہوتو سارا ملبہ سیاسی حکومت پر گرا کر متوازی حکومت کھڑی کرتے ہوئے اپنے نغمہ بجا بجا کر بتایاجاتا ہے کہ یہی ایک ادارہ ہے جو کہ محبت وطن ہے،باقی سب غدار ہیں، یہی آپ سے سچے ہیں،کبھی اپنے ہی ان لیڈروں کو قتل کرا دیا جاتا ہے، جنہوں نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئےسر توڑ کوششیں کی ہوتی ہیں، کبھی غریب صوبوں سندھ اور بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کےان عوام کو جو کہ اپنے لئے حق طلب کرتے ہیں اور اپنے حصہ کی روٹی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیںتو ان کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے، ان کی لاشیں مسخ کر کے پھینک دی جاتی ہیں، کبھی کراچیمیں اردو بولنے والے کو بڑا محب وطن قرار دیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ غدارقوم ہیں اورتو اور انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح تک کوبھی نہیں بخشا ، اس کوبھی ایوب خان کے مقابلہ میں مدقابل آنے پر ”انڈین ایجنٹ”قراردے دیا گیا، ججوں کی تحریک میںپوری قوم ایک ساتھ کھڑی ہوئی میڈیا نے اس تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ججز بحالہوئے مگر مجال ہے کہ کوئی جنرل مشرف کو غدار تک قرار دے دے، وہ پاکستان آیا مگر اس کوباآسانی فرار کرا دیا گیا، جمہوری حکومت بھی آئی تو اس کو گارڈ آف آنرز دے کر رخصت کیا گیا،نواز شریف دور میں ججوں کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں نہ صرف ججوں کی بلکہ ججوں کےاہل خانہ کو ٹریپ کر کے ان کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں، اس طرح ایماندار ججوں کو فیملیکے ذریعہ بلیک میل کیا گیا، دھرنے والوں میں کھلم کھلا رقوم تقسیم کی گئیں اور اس سلسلے میںوہ ایماندار جج قاضی فائز عیسیٰ نے آرمی انٹیلی جنس کی جانب سے رقوم کی تقسیم سے متعلقتاریخی فیصلہ دیا اور کوئٹہ سانحہ  کی تحقیقات پر دبنگ ریمارکس اور فیصلے دئیے، اس کو بھیمیڈیا ٹرائل کے ذریعے بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ، اسکو عہدے سے ہٹایا گیا اس سےقبل ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی آئی ایس آئی پر تنقید کرنے کیپاداش میں ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرف کیا گیا، اس جج نے پاکستان میں  جبریگمشدگیوں کے بارے میں اپنی عدالت میں کہا تھا کہ ” میں سمجھتا ہوں کہ مقامی پولیس بھی انطاقتور ایجنسیوں کے ساتھ مل چکی ہے جنہوں نے ملک کے سماجی ڈھانچے میں رکاوٹیں پیداکررکھی ہیں” جسٹس صدیقی نے آئی ایس آئی پر بھی شدید تنقید کی تھی جس کے بعد انکوخرید کیئے گئے ججوں کے ذریعے فارغ  کرادیا گیا ، ملک میں میڈیا کے ذریعے عوام کو کنٹرولکرنے کیلئے نت نئے گانے بنانے اور سوشل میڈیا پر کروڑوں روپے خرچ  کئے گئے مگر ان سے یہمعلوم نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ رقم فوج نے کہاں اور کیو ں کر خرچ کی؟ دائروں کے اس سفر میں گزشتہ ستر سالوں میں کبھی ہمیں کمشنری نظام ،تو کبھی ضلعی نظامکبھی پھر وہی کمشنری سسٹم اور پھر ضلعی بلدیاتی نظام الغرض وہی دائروں کا سفر جاری اورساری رہا ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پوری قوم کو یکجا کر نے کے بجائے ہمیں گروہوں ،نسلوں اورقبیلوں میں تقسیم کیا ،قوم کو آپس میں تقسیم کر کے ہی ان کا کاروبار چلتا ہے، انہوں نے قوم کومختلف دائروں میں تقسیم کر کے پھر انکو ایک دائرے میں قیدکیا ، اسطرح کسی کو کسی کےدائرے میں جھانکنے کی اجازت بھی نہیں، سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان کا دائرہ ،اردو ،سندھی کادائرہ، بلوچی اور پنجابی دائرہ، سرائیکی اور پنجابی کا دائرہ، شیعہ سنی، وہابی اور بریلویدائرہ، سیکولر اور مذہبی دائرہ ،یہ پوری قوم ان دائروں میں رہتے ہوئے اب تہتر سالوں بعد اپنے آپکو انہی دائروں کا قیدی سمجھنے لگ چکی ہے ، میڈیا جو اس بٹی ہوئی قوم کو شعور کی منزل پرلے جا کر انہیں سمجھانا چاہتا ہے کہ اپنے دائروں سے باہر نکلو اور اگر نکل نہیں سکتے تو ایکدوسرے کیلئے کم از کم احترام  ہی پیدا کرلو مگر جو بھی ایسی کوشش کرے وہ یہاں غدار قرار پاتاہے،دائروں کے اس سفر کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ ہی کوئی منزل، ہاں جو اس دائروں سے باہر اندائروں کو چلا رہے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ ان کی منزل اور کام یہی ہے کہ وہ قوم کو انہی میںمصروف رکھیں،اسی میں ان کی نجات ہے، اس طرح ملک میں جس طرح میں نے پہلے بتایا کہ چارمارشل لاء لگ چکے ہیں، انتخابات بھی ہوئے ،مختلف سیاسی جماعتوں نے اقتدار کیلئے زور آزمائیبھی کی مگر دائروں کے اس سفر میں رہتے ہوئے پاکستان کے نظام میں ذرہ برابر بھی بہتری نظرنہیں آئی، آپ گزشتہ ستر سالوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،ہمارا سیاسی نظام، حکمرانی کیصلاحیتیں، سماجی اور اخلاقی اقدار تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو کر پستی کی طرف گامزن ہیں،اس طرح ماضی میں اپنی کارکردگی پر فخر کرنے والے قومی ادارے بھی ہماری اس تہتر سالہتاریخ میں بد ترین توڑ پھوڑ اور تنزلی کا شکار ہوئے ، جس میں پی آئی اے اور اسٹیل ملز اس کیواضع مثالیں ہیں، مگر یہ تو ہمارے ہی تخلیق کردہ ادارے تھے، مگر وہ ادارے جو کہ انگریز ہمیں دےکر گئے تھے، وہ بھی تو ہم سنبھال نہیں سکے، پوسٹ آفس، ریلوے، تعلیم کا شعبہ، ضلعیانتظامیہ، بلدیاتی ادارے اور قومی خدمات کے کئی ادارے اس وقت اپنی بربادی کی مثال بنے ہوئےہیں، یہ سب ادارے انگریز ہم کو انتہائی بہتر حالت میں دے کر گئے تھے، دائروں کے اس سفر نےتنزلی کی جو داستان رقم کی ہے وہ انتہائی دل دکھانے والی داستان ہے اور عبرتناک بھی ہے ، مگرہم نے اب تک اس سے عبرت حاصل نہیں کی کوئی سبق نہیں سا۔  تاریخ کے مشاہدات اور مطالعہسے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ منظم جمہوری ممالک میں سیاسی قیادتوں نے سول سروسز، قوانین کوباقاعدہ بنایا لہٰذا اس ڈھانچہ سے باہر جو کوئی بھی قدم رکھنے کی کوشش کرتا تو اس کو دیگراداروں کے ذمہ دار روکنے کیلئے قانون پر عملدرآمد کراتے اور قانون کی بالادستی وائم کرنے کیلئےوہ ان قوانین کے ذریعے عملی جامعہ پہنایا جاتا، اس طرح ان پختہ بالغ جمہوری معاشروں میںقانون کی حکمرانی زندگی کا معمول اور رواج بن گئی، اس استحکام کی بنیادی وجہ یا اس کا رازسول سروس کی استقامت میں پنہاں ہوتا ہے، اس لئے ان ممالک میں سول سروسز کو بہت زیادہآئینی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ،اس طرح قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کی کارکردگی کے راستےمیں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی، وہ بلا خوف وخطر کام کرتے ہیں اور اس نظام کو چلاتےہیں، اس طرح کا تحفظ گزشتہ دنوں ہمیں امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں بھی نظر آیا، جہاں پرہیوسٹن کے پولیس چیف نے اپنے ملک کے صدر کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے کہا کہ صدر صاحب اگرآپ عقل ودانش کی بات نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے منہ کو ہی بند رکھیں”پولیس چیف نے یہجملہ پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کی موت کے بعد صدر ٹرمپ کی جانب سے دئیےگئے اس بیان کے جواب میں کہا تھا کہ اگر پولیس عوام کی حفاظت نہیں کر پا رہی ہے تو وہ اس کےلئے ملٹری فورسز کو پولیس کی جگہ تعینات کر سکتے ہیں، اس بیان پر اگر صدر ٹرمپ عملدرآمدکرتے تو واقعی معاملہ مزید بگاڑ کی طرف جاتا ، اس لئے پولیس چیف نے اپنے صدر کی جانب سےاس نظام کو خراب کہنے پر شٹ اپ بھی کہااور ان کو دوسرے لفظوں میں احمق بھی کہہ ڈالا اورمنہ بند کرنے کا مشورہ بھی دے دیا ، ان کا یہ بیان امریکہ بھر کے میڈیا میں کئی دنوں تک گردشکرتا رہا ، امریکہ ہمارے آبائی ملک پاکستان کی طرح 52 ریاستوں کا مجموعہ ہے ، اس طرحپاکستان میں بھی صوبے وفاق کو قائم رکھنے کی علامتیں ہیں، یہ بالکل اس طرح ہے کہ سندھبلوچستان، خیبر پختونخواہ یا پنجاب کے کسی بڑے شہر کا پولیس چیف اپنے ہی وزیر اعظم کیجانب سے اپنے فرائض میں مداخلت پر اس کو شٹ اپ کہہ دے، لیکن ایسا پاکستان میں ممکن نہیں،ویسے بھی اس طرح حق گوئی کے ساتھ اظہار خیال کردینا صدارتی یا پارلیمانی نظام کا تحفہنہیں ، بلکہ سچ یہی ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے اور یہ اس کا لازمی جُز ہے، امریکہ ہینہیں تمام یورپی ممالک میں جہاں جمہوریتیں ہیں وہاں اس طرح قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، مگرآپ پاکستان کو دیکھ لیں جہاں سندھ پولیس کے آئ جی کو رینجر کے سیکٹر کمانڈر نے اغوا کرایااور جبرا ان سے احکامات پر عملدرآمد کرایا ، جمہوریت ہمارے ملک میں بھی ہے لیکن اگر آپ تھانہمیں ایف آئی آر کٹوانے جائیں تو آپ کو حیرانی ہو گی کہ ملک میں سول لاء ، شرعیہ لاء سمیت کئیقوانین نافذ العمل ہیں، اس طرح نہ تیتر اور نہ بٹیر والی صورتحال ہے، اس جمہوریت کو جو لوگکنٹرول کرتے چلے آ رہے ہیں، وہ پاکستان کی آرمی اور اسٹیبلشمنٹ ہے، جنہوں نے گزشتہ70سالوںسے جمہوریت کو اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے، وہی اقتدار پر پوری طرح قابض ہیں اور جبکبھی بھی جمہوری حکومتیں جمہور ان کے مفادات پر چھیڑ چھاڑ کرنے کا سوچتے ہیں تو یہ پھرسے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں، اس لئے آنے والی تمام جمہوریتوں کو ان کی ہی کٹھ پتلی بننا پڑتا ہے، اس اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص خاندان اور جاگیردار سیاسی پارٹیاں باقاعدہ غلام ہیں، اس طرحان قوتوں نے70سالوں سے جمہوریت کو اپنے دائرہ میں قید کررکھا ہے ،ملک میں امیر امیر تر اورغریب غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہمیں جو بھی مافیا ئیں نظر آتی ہیں، سب کیسب اس نظام اور اس اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں، اگر سچا جمہوری معاشرہ تشکیل پا جائے توایسی مافیائیں کبھی بھی اس نظام میں پنپ نہیں سکتیں، پاکستان میں سرمایہ داروں کی شوگرملز مافیائیں ہیں وہ جب چاہیں چینی کی قیمت بڑھا دیں، گندم کی مافیا جب چاہیں ملک میں آٹےکی مصنوعی قلت پیدا کر دیں اور قیمتوں کو آسمان تک چڑھا دیں، اس طرح سیمنٹ ،پٹرول،مافیائیں اپنا منہ کھولے بیٹھی ہوئی ہیں، اب کرونا کے بعد پاکستان سے خبریں آ رہی ہیں کہ دوائوںکی انڈسٹری مافیا نے اس بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوائوں کی قیمتیں کئی فیصد بڑھا دی ہیں،جبکہ حکومت نے ان مافیا کو ار دوام دیتے ہوئے دواوں کی قیمتوں کو حال ہی میں بڑھا دیا ہے اسطرح یہ استحصالی قوتیں انتہائی منظم ہیں، صرف اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کتنیہی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے ، اس طرح اسٹیبلشمنٹ اور ان کی غلام اور لونڈی قوتوں کی حوسکی قیمت غریب عوام کو ہی دینا پڑتی ہے، ایک طرف سیاسی حکمرانوں کی نااہلی کا سانحہ درپیشہے تو دوسری طرف نااہل، خود غرض، سیاسی قوتوں نے سول سروسز کے ڈھانچہ کو برباد کرکےرکھ دیا ہے، اس بربادی کی وجہ سے سول سروسز کو آئینی تحفظ سے محروم رکھا گیا ،وزیر اعظمذوالفقار علی بھٹونے بڑے بڑے کام کئے مگر جب آئین تشکیل پا رہا تھا تو اس وقت بھی اس کو شایدجان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ سیاستدان ان سول سروسز کےافسران کو اپنی وفاداری پر لگانا چاہتے تھے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے خادم بن کر کا م کریں تاکہ ان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکے، یعنی یہ کہ جو کچھ حکمران چاہیں وہ وہیکریں اورسول سروسز رولز ریگولیشن کے نام پر کوئی بھی انکے لیئے رکاوٹ نہ بن سکے، اس طرحملک میں کھلے بندوں قانون شکنی اور لوٹ مار کا کلچر پروان چڑھنے لگا، سول سروسز کے افسراننے بھی اس بہتی گنگا سے اپنا حصہ وصول کیا، لوٹ مار کے اس کلچر میں اخلاقی قدروں کاجنازہ نکل گیا اور مزید کئی اور مافیائوں نے اس نظام کے تحت نیا جنم لیا اور حکومتی انتظامیکارکردگی کا بیڑاغرق کر دیا گیا، ہمارے سامنے اس وقت یہ منظر موجود ہے، قومی اداروں کیکارکردگی زوال پذیری کا شکار ہے، نیچے سے اوپر تک رشوت ستانی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا،ریلوے پوسٹ آفیس، اسٹیل مل، ضلعی انتظامیہ، پی آئی اے، مقامی حکومتوں کے شعبہ ناکارہ ہوچکے ہیں اور اس ناکامی کا سارا وزن غریب عوام برداشت کررہے ہیں، وہی اس کی قیمت ادا کررہےہیں،سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی ڈھانچہ، انتظامی ڈھانچہ اور اخلاقی ڈھانچہ اب اپنے اپنےدائروں میں سفر کررہا ہے، اس لئے حکمران کوئی بھی آئے، کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، اس طرحعوام کو صرف چہرے کی تبدیلی پر لگایا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ بے وقوف بن کر رہ جاتے ہیں ، اسوقت عوام بے بس اور محرومی کے احساس تلے مغلوب دائروں میں یہ سفر جاری رکھے ہوئے ہے،جس طرح پہلے میں نے کہا کہ میڈیا جو کہ عوام کو درست سمت کا تعین کرنے میں بڑا مدد گارتھا،اب اس بیل کی آنکھ پر بھی مکمل اور مضبوط پٹی باندھ دی گئی ہے، میڈیا کو بھی دائروں کےسفر میں ڈال دیا گیا ہے، کسی کو بھی کسی کے دائرے میں جھانکنے کی اجازت نہیں،، مختلفدائروں میں بٹی ہوئی یہ قوم کس طرح تلاش کرے کہ اس کی منزل کیا ہے، اس کے لئے ضروری ہےہمیں اپنی آنکھوں سے اور اپنی عقلوں سے جو پٹی اسٹیبلشمنٹ نے باندھی ہوئی ہے ہم اسکو اتارپھینکیں اور شعور کے ذریعے اصل دشمن کو پہنچانیں اور قوم اور ملک کاہم درست سمت پر تعینکریں ،بصورت دیگر آنے والے وقتوں میں ہم اور ہماری نسلیں اسی دائرے کے سفر میں لگی رہیں گیاور منزل ان سے بھی کوسوں دور ہوگی اسلیئے یہ ایسے سوالات ہیں جنکے جواب آپکو معلوم ہونابہت ضروری ہیں اور یاد رکھیئے جو معاشرہ سوال کرنابھول جاتا ہے۔ وہ جواب کبھی نہیں  ڈھونڈسکتا، اسلیئے جو بھی ایسا سوال کرتا ہے اسکو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *