Home / جاگو کالمز / مُلا ملڑی کا سماج اور عاصمہ جہانگیر

مُلا ملڑی کا سماج اور عاصمہ جہانگیر

مُلا اور ملٹری والے مردانہ سماج میں راج کرتے ہوئے خداؤں کو للکارتی،وعظوں اور فتویٰ فروشوں کو بے نقاب کرتی ہوئی عاصمہ جہانگیر واقعی خزاں میں بہار کا رنگ لے کر پیدا ہوئی مگر 66سالوں کی جہد مسلسل کے بعد وہ اپنے کروڑوں چاہنے والوں کو یادوں کی اندھیری گہرائیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلی گئی لیکن تاریخ میں اس کی یادوں کی روشن اور گہری لکیر اس بے انصاف سماج اور گٹھن زدہ ماحول کی لاچار اور بے کس عورتوں مردوں کو ہمیشہ طاقت اور حوصلہ دیتی رہے گی۔
مجھے نہیں معلوم زندگی کا تسلسل ہے یا موت زندگی کی انتہا ہے لیکن یہ بات عیاں ہے کہ ہر زندہ چیز کو موت کا ذائقہ ضرور چکھنا ہے اور ہر جاندار کی زندگی کا اختتام موت کی صورت میں ہی ہمارے سامنے آتا ہے دنیا میں کتنے تونگر اچھے ہوں کہ بُرے آئے اور چلے گئے تاہم اس دنیا کا سفر جاری ہے وقت کا پہیہ گھوم رہا ہے اور گھومتا ہی رہے گا لیکن جو لمحات اور پل آج آپ کے نصیب میں ہیں شاید کل آپ کے نصیب میں نہ ہوں اس لیے اس دنیا میں ان لمحات اور پل کو جو لوگ اپنی توانائیوں میں امر بنا لیتے ہیں وہ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ رہتے ہیں معاشرہ میں رول ماڈل بننا جان جُوکھوں کا کام ہوتا ہے جس کیلئے تکالیف اور دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے وہ سب کچھ کرنا ہوتا ہے جو کہ ہر عام شخص نہیں کرسکتا اس طرح اپنی زندگی کے ان مختصر ایام میں اپنے کاموں کے ذریعہ اپنے آپکو منوانا پڑتا ہے اپنے کردار کی عظمت کو ثابت کرنے کیلئے عوام الناس کی فلاح و بہبود کے وہ کام کرانا ہوتے ہیں جنکو خود تاریخ اپنے سینہ پر ثبت کرے ۔عاصمہ جہانگیر بھی ایسی ہی تاریخ ساز شخصیتوں میں سے ایک ایسی ہی شخصیت تھیں جس نے اپنی پوری زندگی حق و انصاف ،انسانی حقوق کے حصول کیلئے وقف کی وہ دوسروں کیلئے لڑی اسکے لئیے اسکو اپنے ہر دور کے خداؤں کو لککارنا پڑا،ان سے عوام کیلئے جنگ کی اور سرخرو ہوئی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔مزاحمتی عمل اور جہد مسلسل کے نتیجہ میں دھان پان کی سی یہ کمزور عورت طاقتور ملاؤں اور طاقتور ملڑی والوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی تمام طاقتور ترین شخصیات اور ادارے اس کی شخصیت کے سامنے انتہائی بُونے دکھائی دیتے تھے اس نے جوجہدو جہد کی اور آج اس کی جوجہد کے انمٹ نقوش تاریخ نے اپنی قرطاس ابیض پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رقم کرلئیے ہیں ۔
زمانہ طالب علمی میں جب شعوری طور میں نے آنکھ کھولی تو ضیاء الحق کا بدترین مارشلاء میرے سامنے تھا اس دوران سیاسی کارکنوں کو جہاں قید و بند کی صعبتوں سے گزرنا پڑتا تھا وہاں ان کو جیل کوڑے پھانسیاں دے کر ریاستی ادارے معاشرہ پر مارشلاء کا خوف اور حیبت طاری کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے انسانی حقوق کے حوالے سے جب سب نے چپ سادھ لی تو عاصمہ نے اس کام کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لیا میرے کچھ دوست اس دوران انکے ساتھ کام رہے تھے جس میں ایک صحافی حسرت لغاری،طفیل میمن،اکبر علی شاہ راشدی اور دیگر شامل تھے یہ اس زمانہ میں عاصمہ جہانگیر کی بنائی گئی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ممبر تھے اور انسانی حقوق کے حوالے سے اس تنظیم کے ساتھ کام کر رہے تھے۔انہوں نے مجھے بھی اس کام میں شمولیت کی دعوت دی اس طرح میں بھی ان کی سفارش پرہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کا (ایچ آر سی پی) ممبر بنا اس زمانہ میں ہم نے عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں کام کیا انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے ہمارے علاقہ میں جو بھی خلاف قانون اقدامات ہوتے تھے وہ ہم رپورٹ کرکے اسلام آباد بھیج دیتے تھے چونکہ میں صحافی بھی تھا اس لیے میں نے کافی رپورٹس پرہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کو رپورٹ کیں بہر کیف اس پلیٹ فارم سے ترقی پسند اور روشن خیال شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ،ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے (ایچ آر سی پی) بحیثیت ممبر ہونے کے اس وقت ریاست کے احتساب سے لے کر محروم طبقات کی نمائندگی کرتے ہوئے میں اپنے آپ کو ایک طاقتور شخص تصور کرتا تھا اور یہ طاقت عاصمہ جہانگیر کی بنائی گئی انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم “ ایچ آر سی پی “کی ہی تھی جس نے اس وقت خوف زدہ ماحول میں مجھے حونصلہ دیا اور طاقت دی اس طرح ایچ آر سی پی کے بینر تلے نظریاتی لوگ جمع ہوتے رہے اور یہ قافلہ بنتا رہا۔آج ایچ آر سی پی پاکستان کی انسانی حقوق کے حوالے سے معتبر تنظیم ہے جس کی رپورٹس پر بین الاقوامی برادری آنکھ بند کر کے یقین کرتی ہے اور مُلا اور ملٹری والے آج بھی اس تنظیم سے دہشت زدہ رہتے ہیں۔عاصمہ جہانگیر نے اپنی زندگی میں انسانی حقوق،عورتوں کے حقوق،ریاستی اور پولیس گردی،عوام کے حقوق کی پامالی،ذلت اور ذیاتیوں،اقلتیوں کے حقوق ،نفرت،ناانصافی،مذہبی نسلی فرقہ پرستی،طبقاتی اور صنفی فرق،فرسودہ رسم و رواج،انتہا پسندی،دہشتگردی،کے معاملات عرض یہ کہ وہ ہر اس موقع پر سامنے کھڑی نظر آئیں جہاں بھی ایسے معاملات جنم لیتے ایجنیسوں کے ہاتھوں گمشدہ افراد کا معامعلہ ہویا دیگر معملات وہ پہلے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتی اور انصاف نہیں ملتا تو اس لیے بین الاقوامی ادارے میں بھی جاکر انکے لئیے آواز بلند کرتیں وہ ان کے حقوق کی جنگ لڑتیں اور اپنے زریں اصولوں کے ذریعہ ان تمام قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتیں اس کو شاہی قلعہ میں قید بھی کیا گیا۔اس پر تشدد بھی ہوا مگر وہ آہنی حوصلہ رکھنے والی عورت تھی عاصمہ جہانگیر جب آکیس برس کی لڑکی اور قانون کی طالبہ تھیں تو ان کے والد غلام جیلانی کو اس وقت کے مارشلاء ایڈمنسٹیٹر آمر جنرل یحییٰ خان نے اس وجہ سے جیل میں ڈال دیا تھا کہ وہ پاکستانی فوج کی بنگلہ دیش میں کاروائی اور فوجی آپریشن کے خلاف برسر پیکار تھے انہوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی جسکی پاداش میں انکو جیل میں ڈال دیا گیا وہ اپنے والد کی رہائی کیلئے اُس وقت کے بڑے بڑے وکیلوں کے دروازے کھٹکھٹاتی رہیں مگر سب نے جنرل یحیٰ خان کے خوف سے یہ مقدمہ لینے سے معذرت کر لی۔اس کم عمر لڑکی نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اپنے والد کا کیس خود لڑے گی عدالت نے اجازت دی اور وہ لڑکی یہ کیس جیت گئی اس عظیم بیٹی نے نہ صرف اپنے والد کو رہا کرایا بلکہ ڈکٹیٹر شپ کو عدالت سے غیرقانونی قرار دلوا کر پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔یہی وجہ تھی کی ذوالفقار علی بھٹو کو بھی سول مارشلاء ختم کرنا پڑا اور ملک کا آئین فوری طور پر تشکیل دیا گیا 1983ء میں تیرہ برس کی صفیہ بی بی سے زیادتی کا واقعہ اب بھی کئی لوگوں کو یاد ہو گا اس زیادتی کے نتیجہ میں وہ حاملہ ہو گئی تھی عدالت نے اس مقدمہ میں نہ صرف صفیہ کو جیل بھیجا بلکہ اس پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا کیونکہ صفیہ کے پاس اس زیادتی کے گواہ نہ تھے جبکہ ملزمان نے اس بات کو عدالت میں ثابت کیا تھا کہ صفیہ بی بی نے اپنی رضا مندی سے یہ گناہ کیا ہے عاصمہ جہانگیر نے اس کا مقدمہ لڑا اور مظلوم صفیہ کو بچایا۔اس طرح 1993میں توہین مذہب کے جرم میں عدالت نے 14سالہ مسیحی بچے سلامت میسح کو سزائے موت سنائی ایسے حساس کیس کو پاکستان میں بھلا کون لڑتا لیکن اس موقع پر بھی عاصمہ جہانگیر آگے آئیں اس نے سلامت میسح کے حق میں ایسے دلائل دیئے کہ عدالت کو یہ ماننا پڑا کہ اس کی سزائے موت کا فیصلہ غلط تھا اور کچھ شر پسندوں نے مذہب کا نام استعمال کر کے اس 14سالہ بچے کو مقدمہ میں پھنسادیا ہے۔اس طرح1999ء میں صائمہ سرور کے مشہور مقدمہ کی پیروی کی اور اس لڑکی کو دستک میں پناہ دی عاصمہ نے دستک گروپ بنا کر ایسی بچیوں کو اسلام آباد میں پناہ دینے کا ارداہ قائم کیا جو ریاست اور سرپرستوں کے عتاب کا شکار ہو جاتی تھیں۔یہ مقدمہ اپنی تاریخی نوعیت کا ایک اہم مقدمہ تھا اس مقدمہ کی پیروی کرنے پر عاصمہ جہانگیر کو مذہبی گروپوں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں دی گئیں لیکن اس نے اس کی پرواہ نہیں کی عاصمہ کا مقدمہ وہ عدالت سے جیتں، اس مقدمہ میں ہائی کورٹ کی جانب سے فیصلہ دیا گیا تھا کہ ایک مسلمان بالغ عورت اپنے سرپرست(ولی) کی اجازات کے بغیر شادی نہیں کر سکتی جبکہ عورت کی مرضی ہو کہ نہ ہو نکاح میں سرپرستوں کی مرضی ضروری ہے اور ان کی مرضی سے ہی وہ شادی کر سکتی ہے جبکہ یہ اُس وقت پاکستان کا آئینبھی یہی کہتا تھا عاصمہ جہانگیر نے اس مقدمہ کے ذریعہ پاکستان کی عورت کو اس کا آئینی اور مذہبی حق دلایا کہ وہ اپنی مرضی سے ہی شادی کر سکتی ہے اس طرح فوج اور ایجنسیوں کی جانب سے اغواء کیے گئے گمشدہ افراد کا معاملہ ہو کہ سابق امریکی سفیر حسین حقانی پر میمو گیٹ کا مقدمہ وہ فوج اور ایجنسیوں کے چنبے میں پھنسے افراد کو چُھڑا لیتی تھیں وہ ہر وہ مقدمہ لے لیتی تھیں جس میں دوسرے وکیل ایسا مقدمہ لیتے ہوئے گھبراتے تھے وہ اس بزدل معاشرہ کی وہ بہادر عورت تھی جو کہ مُلا اور ملڑی کے قائم کردہ حصار کو توڑ کر معاشرہ میں اصلاحی نظام لانے کیلئے سرگرم عمل تھیں وہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی تھی یہی وجہ تھی کہ اہل مذہب کبھی اس کو کافر اور کبھی قادیانی کے القابات سے نوازتے ملڑی برگیڈ اور محبالوطنی کا سرٹیفکیٹ دینے والے کبھی اس کو ملک کا غدار گردانتے تو کبھی اس کو را کا ایجنٹ قرار دے دیتے تھے وہ متنازعہ انکے لئے تھی جو اپنی سوچ تحت ملک کو اپنے مفادات کے تابع کرکے چلانا چاہتے تھے اور جب ان کے مفادات پر ذک پہنچتی تھی تو وہ کانپ اٹھتے لیکن وہ اس دلیر عورت کا حقیقی زندگی میں مقابلہ کرنے سے قاصر تھے اس لیے ہی وہ افواہوں کی فیکڑیوں کے ذریعہ یہ افواہیں پھیلاتے کہ وہ کافر ہے ،قادیانی ہے وہ ملک کی غدار ہے لیکن اس نے ان فیکڑیوں کا بھی مقابلہ کیا حراساں نہیں ہوئی وہ کرپشن سے پاک تھی،منافق نہیں تھی،مصائب میں ڈٹے رہنے کا حونصلہ اس نے زندگی سے سیکھ لیا تھا وہ ان فوجیوں کو جو کہ عوام کو بلیڈی سویلین کہتے تھے ان کو برملا ڈفرفوجی کہا کوٹ لکھپت جیل کی اونچی دیواریں اور فوجی عدالتیں بھی اس کو نہ ہلا سکیں۔2005میں لاہور میں میراتھن ریس میں لاٹھی چارج اب بھی کئی لوگوں کو یاد ہو گا یہ مشرف کا دور تھا عوام کی حفاظت معمور محافظ عاصمہ پر چڑھ دوڑے اس کے کپڑے تار تار کر دئیے گئے ایک عورت کیلئے یہ تصور کتنا حیبت ناک ہوتا ہے کہ سربازار اس کو برہنہ کر دیا جائے اس کے سر سے چادر کھینچ لی جائے۔اس وقت عاصمہ بے بس اپنے تن پر چادر ڈالنے کیلئے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی یہ برا وقت بھی عاصمہ نے دیکھا اس نے اس واقعہ کے بعد اپنے دل میں پنپنے والی اس بغاوت کو قربان نہیں ہونے دیا بلکہ اپنے نظریات کو زندہ رکھا اور ہتھیار نہیں ڈالے ۔ بلکہ کمزور عورتوں کو مزید حونصلہ اور مزید طاقت دلوائی اس کی اکیلی آواز مُلا ملڑی اور ریاستی غنڈوں کیلئے ایک بڑا چیلنج تھی آمر ڈکٹیٹر مشرف دور میں جب ججوں کو گھروں میں قید کر دیاگیا تھا تو اس نے اپنی بہن حنا جیلانی،اسد جمال،فاروق طارق کے ہمراہ ججوں کے گھرون کے باہر جا کر پہرے دئیے اور رجعت پسند اور باطل پرست قوتوں سے مقابلہ کیا عدلیہ بحالی تحریک میں اہم کردار ادا کیا تاہم بعدازاں جب عدلیہ بحال ہو گئی تو غلط کام کرنے پر انکو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔عاصمہ جہانگیر اپنے بدترین مخالف طالبان کیلئے بھی کہتی تھیں کہ اگر ان کا ماروائے عدالت قتل ہوا تو وہ طالبان کے حق میں بھی آواز بلند کریں گی۔عاصمہ جہانگیر اصولوں کی پاسدار تھیں سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو سے ان کی ذاتی دوستی تھی مگر انہوں نے محترمہ جب برسراقتدار تھیں تو انسانی حقوق کی پامالی پر انکی حکومت کی بھی مخالفت کی اپنی زندگی میںتین بڑے پاکستان کے ڈکٹیٹروں یحیی خان،ضیاء الحق اور مشرف کے مارشلاء کا مقبلہ کیا ۔ذوالفقار علی بھٹو کے غلط اقدامات پر بھی انہوں نے آواز اٹھائی۔نواز شریف کے اقدامات کو بھی چیلنج کیا عاصمہ کسی کی نہیں تھی وہ صرف اور صرف اصولوں کی تھی۔ملائیت کو للکارنے کا ملکہ اس کے ہی پاس تھا ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان جس کی بنیاد اس نے رکھی آج بھی وہ اس کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہے وہ آج بھی ایچ آر سی پی کی صورت میں زندہ و جاوید ہے۔عاصمہ کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ وہ 2004سے لے کر2010تک 6سالوں تک مسلسل اقوام متحدہ میں مذہبی آزادیوں کے حوالے سے اپنی خدمات سرانجام دیتی رہیں ان کی خدمات کے اعتراف میں رائیٹ لولی ہوڈ ایوارڈ فریڈم ایوارڈ،ہلال امتیاز،ستارہ امتیاز،یونیسکو،مارٹن اینلز ایوارڈ سمیت کتنے ہی قومی اور بین الاقوامی اعزازوں سے انکو نوازا گیا انہوں نے پاکستان میں عورتوں کی پہلی لافرم رجسٹرڈ کی کتنی ہی کتابیں بھی لکھیں۔
عاصمہ جہانگیر کے حالات زندگی ایک مختصر کالم میں تحریر کرنا انتہائی مشکل کام ہے ان پر کتنی ہی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں وہ اپنے عہد کی تاریخ ساز شخصیت تھیں۔آج بھی ان کے مرنے کے بعد رجعت پسند قوتیں ،خفیہ ایجنسیوں کے کرتا دھرتا مُلا اور ملٹری والے بے بنیاد پروپگنڈا کر کے ان کی شخصیت کو مسخ کر کے تاریخی حقائق سے پردہ پوشی کرنا چاہتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ عاصمہ بحیثیت ہیرو عوام کے سامنے موجود رہے اور لوگ ان کی زندگی سے متاثر ہو کر کہیں ایسا کام شروع نہ کردیں جو ان کے لیے درد سر ہو اہل مذہب اور حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینے والے آج بھی اس عورت کی سوچ سے خوف زدہ ہیں اس لیے ہی مرنے کے بعد بھی ان کی توپوں کا رخ عاصمہ جہانگیر کی لاش کی طرف ہے۔
مگر درانتی سے گھاس کاٹنے والی اور انگوٹھا لگا کر اپنا حق دینے والی باندی عورتیں، ایجنیسوں کے عتاب کا شکار اور انکے ورثاع اور حقوق انساں کے علمبردار آج بھی عاصمہ کو اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں وہ آج بھی رنگ و بُو کی منانند ان کے ساتھ ساتھ ہے اس کی سوچ آج بھی چہروں پر سختی اور درشتی لیئے ایجنسیوں کے ٹولے اور اطلس و کمخواب میں سجے ایوانوںاور جاگیروں میں بیٹھے ان لوگوں کا احاطہ کرتی ہے جنہوں نے غریب عوام کے حقوق سلب کیے ہوئے ہیں عاصمہ جہانگیر آسودہ خاک ہوگئیں مگر اس کی سوچ مستقبل میں بھی مُلا اور ملٹری والے مردانہ سماج میں راج کرتے ہوئے خداؤں وعظموں اور فتویٰ فروشوں کو للکارتی رہے گی ملا اور ملٹری والے لاکھ پروپیگنڈا کر لیں مگر جو سوچ عاصمہ جہانگیر نے عوام کو دی ہے وہ ہمیشہ اس کے چاہنے والوں کو طاقت ور حونصلہ مند بناتی رہے گی اور یہ سوچنے پر ضرور مجبور کرے گی جسکا نقشہ علاؤ الدین ہمدم خانزادہ کے اس شعر میں موجود ہے کہ…
کیسا اپنا ملک ہے یارو
تو کافر اور میں غدار

Check Also

ناشتہ کیے بغیر بھوکے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ قرار

امریکا سمیت دیگر ممالک کے ماہرین کی جانب سے بھوک کے صحت اور خصوصی طور …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *