Breaking News
Home / جاگو کالمز / پاکستان میں ریاست کے اندر موجود ریاست سے جنگ

پاکستان میں ریاست کے اندر موجود ریاست سے جنگ

پاکستان میں سیاسی فضا میں باوجود نواز شریف کو عدالت کے ذریعہ نااہل کرانے کی گرمی کی حدت برقرار ہے۔اسٹبلشمنٹ کی جانب سے پاکستان میں جمہوری حکومت کو کمزور کرنے کا عمل جو کہ گذشتہ 70سالوں سے جاری ہے اس نے مزید شدت اختیار کر لی ہے ایک طرف پھر ملک کی اسٹبلشمنٹ ہے تو دوسری جانب عوامی طاقت کے دعویدار نواز شریف اور ان کی پارٹی مسلم لیگ (ن)۔نواز شریف جب لندن گئے تو افواہیں پھیلائی گئیں کہ شریف خاندان ملک چھوڑ کر بھاگ رہا ہے لیکن نواز شریف نہ صرف واپس آئے بلکہ انہوں نے عدالتوں کا سامنا کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے ۔نواز شریف کا کہنا ہے کہ آمریت کے دور میں بنائے مقدمات کو واپس سے کھولا جا رہا ہے ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے جو فیصلہ کیا وہ پہلے سے طے شدہ تھا جبکہ پر اسرار طریقہ سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی اور ایک وٹس ایپ کال پر اقامہ کا بہانہ بنا کر ان کو نااہل کیا گیا ان کا کہنا ہے کہ وہ جھوٹ پر مبنی مقدمات سے نمٹ رہے یں اور آگے بھی ان حالات کا وہ مقابلہ کریں گے ان کا مزید کہنا ہے کہ سانحہ ڈھاکہ سے ہم نے سبق حاصل نہیں کیا اور وہی کچھ دہرایا جاتا ہے۔اب نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر تین ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت میں جاری ہے جس میں نواز شریف ان کی بیٹی مریم نواز ان کے دونوں بیٹوں جسین نواز اور حسن نواز اور داماد کیپٹنن (ر)صفدر کے احتساب عدالتوں سے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو چکے ہیں ان احتساب عدالتوں میں جو مقدمات قائم کیے گئے ہیں اس کے مطابق ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے اثاثہ باہر بھیجے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے انہوں نے بیرون ملک اثاثے بنانے میں ترجیح دی وغیرہ وغیرہ۔سپریم کورٹ نے ان کو وزیراعظم کے بطور نااہل کرنے کا جو فیصلہ دیا اس کے مطابق وہ پارٹی صدارت یا عہدہ کیلئے بھی نااہل قرار پائے تھے۔تاہم بعدازاں حال ہی میں سینٹ سے ترمیمی بل پاس کیا گیا اور بعدازاں اس بل کو قومی اسمبلی نے بھی منظور کر لیا جس کے مطابق وہ مسلم لیگ ن کے واپس سے صدر ہو سکتے ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ جن شقوں کے تحت ان کو نااہل قرار دیا گیا یہ شق ضیاء الحق کے آمریتی دور میں بنائی گئیں جبکہ ضیاء الحق نے یہ شق اپنے اقتدار کو طول دینے کی غرض سے آئین میں شامل کروائیں تھیں جو کہ اس وقت سے اب تک آئین کا حصہ ہیں اس طرح ضیاء الحق نے ملک کے ساتھ ساتھ جو کچھ کیا اس کی سزا عوام اور عوامی نمائندے اب تک بھگت رہے ہیں۔جہاں تک کرپشن اور دیگر معاملات کا تعلق ہے تو کوئی بھی اس کی حمایت نہیں کرتا لیکن اس عمل میں درپردہ جو خفیہ ہاتھ کام کر رہے ہیں وہ ہمیشہ عوام کی نظروں سے اوجھل رہتے چلے آ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام اصل برائی کی جڑ تک پہنچنے کے بجائے سامنے نظر آنے والے عوامل کو ہی اس کا ذمہ دار سمجھتے ہے اس کی ایک واضع مثال ہمارے سامنے ایم کیو ایم کی ہے ایم کیو ایم جس کا طوطی کراچی میں بولتا تھا جس کی یک کال پر پورا کراچی بند ہو جاتا تھا آج وہی ایم کیو ایم اس وقت بھی موجود ہے مگر ان کی غنڈہ گردی بالکل بند ہے کراچی میں رینجرز تو 30سالوں سے مقیم ہے جو کام وہ آج کر رہی ہے وہ کام ان تیس سالوں کے دوران بھی کر سکتی تھی کیونکہ اس کا کام امن و امان کی بحالی تھا لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا اور موقع دیا کہ یہ قتل و غارت گری جاری رہے اس طرح ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ یہ قتل و غارت گری جو کہ ان کے کھاتے میں ڈالی گئی یہ کام خفیہ ایجنسیوں کا تھا جو کہ ان کے نام سے یہ کام کرتے تھے اس طرح بدنام ایم کیو ایم کو کیا جاتا تھا تاکہ لوگ ایم کیو ایم سے متنفر ہوں اس طرح حال ہی میں کراچی میں عورتوں پر حملہ کے ذریعہ خوف و ہراس پھیلا کر ان کی توجہ دوسری جانب مبذول کرائی جا رہی ہے اور یہ کام کون کر رہا ہے سب جانتے ہیں۔ بہر کیف یہ الزامات وہ ایک دوسرے پر دیتے ہیں لیکن یہ بات ہر کوئی ذی الشعور شخص جانتا ہے کہ ریاست سے زیادہ طاقتور کوئی ادارہ نہیں ہے۔طالبان جو دن رات قتل و غارت گری کرتے تھے آج ان کی بھی غنڈہ گردی فوج نے آپریشن کے ذریعہ ختم کی یہ سب کچھ انہوں نے پہلے کیوں نہیں کیا یہ تمام تر معاملات اسٹبلشمنٹ کے دوہرے کردارکی بھر پور عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔حال ہی میں احتساب عدالت میں نواز شریف کی پیشی کے دوران جو واقعہ پیش آیا وہ بھی اس عمل کی ایک بڑی مثال ہے وزیر داخلہ جس کے تحت ملک کی تمام تر فورسز بشمول رینجرز بھی ہے لیکن وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی پیشی کے دوران یکدم رینجرز کے دستے عدالت کے باہر تعینات کر دئیے گئے اور وزیر داخلہ کو بھی عدالت میں جانے سے روکا گیا جس پر انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں چل سکتی ان کا کہنا تھا کہ وہ وزیرداخلہ ہیں لیکن ان کو نہیں پتہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے رینجرز کو ان کے حکم سے نہیں بلایا گیا۔جب کہ ان کو بلانے کیلئے سول حکومت کے کسی اعلیٰ افسر نے بھی درخواست نہیں کی لیکن پھر بھی رینجرز یکدم وہاں پر تعینات کر دی گئی۔
بہر کیف نواز شریف کی لندن سے واپسی اور عدالتوں کا سامنا کرنے کا جو انہوں نے عندیہ دیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کیا ارادے رکھتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی عزت و وقار کی خاطر یہ پر لڑائی لڑنے کا تہیہ کر چکے ہیں اور اس کے لیے وہ پر عزم نظر آتے ہیں۔وزیر اعظم کے عہدے سے نکالے جانے کے باوجود ان کا حکومت پر اثر و رسوخ برقرار رہے نئے وزیر اعظم ان کی جی حضوری میں لگے ہوئے ہیں جبکہ ان کے بھائی شہباز شریف پنجاب کے معاملات جوں کے توں چلا رہے ہیں۔دوسری جانب یقیناً نواز شریف کی واپس پاکستان آمد کے بعد ان کی پارٹی میں بھی اعتماد بڑھا ہے جس نے ان کی پارٹی کی صفوں میں ایک نئی جان ڈالی ہے جبکہ اہم جو بات سامنے آئی وہ ایوان بالا اور ایوان زیریں سے عوامی نمائندگی والے بل کی کثرت رائے سے منظوری ہے جس کے بعد وہ اب قانونی طور پر پارٹی معاملات کی باگ دوڑ سنھبالنے کیلئے اہل قرار ہو چکے ہیں۔اس وقت جو صورتحال ہے اس کی مثال ہمیں ماضی کی سیاست میں پہلے کبھی نہیں ملتی کیونکہ سیاستدانوں کو منی لانڈرنگ سے لے کر بے قائدگیوں کے کئی الزامات کا نہ صرف سامنا ہے بلکہ ان الزامات پر ان کے خلاف فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ نواز شریف لندن جانے اور پھر واپس آنے کے بعد مزید پر اعتماد نظر آر ہے ہیں جبکہ ان کے لب ولہجہ میں نرمی ضرور آئی ہے وہ عدلیہ سے متعلق تو بات کرتے رہے ہیں تاہم ان کے بقول جن خفیہ ہاتھوں نے ان کے خلاف سازشیں کی ہیں ان کے بارے میں ان کی زبان ابھی تک خاموش ہے ۔حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ جے آئی ٹی میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بھی رکھا گیا اور عدالتوں پر مسلسل دبائو ڈال کر یہ فیصلہ کرایا گیا۔بہر کیف اب احتساب عدالت کی سماعت ایک سیاسی تماشہ بن کر رہ گئی ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عدالتوں کو خفیہ ہاتھ مسلسل اپنے مکمل دبائو میں رکھے ہوئے ہیں دوسری جانب نواز شریف مکمل وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ عدالتوں میں آ کر ججوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ آج بھی با اختیار ہے اور انہوں نے شکست قبول نہیں کی ہے ان کی واپس پاکستان آمد سے یقیناً ان کو سیاسی فائدہ پہنچا ہے اور ان کے مخالفین بھی اس بات پر تذبذب کا شکار ہیں تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف یہ دوہری سیاسی اور عدالتی لڑائی کی جنگ جیت سکیں گے…؟
جو لڑائی اس وقت شروع ہو چکی ہے ظاہر ہے کہ یہ جلدی ختم ہونے والی جنگ نہیں ہے یہ مزید پیچیدہ ہوتی چلی جائے گی۔نواز شریف کے خاندان کے اراکین اور وزیر خزانہ پر آمدنی سے زیادہ اثاثہ بنانے اور کرپشن میں فرد جرم عائد ہونے سے صورتحال اور بھی مزید گھمبیر ہو گئی ہے اور آگے مستقبل میں کیا ہو گا۔اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں اس وقت ریاست بہت کمزور ہے حالات میں ہے ملک کے انتہائی طاقتور سیاسی خاندانوں کو نشانہ بنانے کیلئے شروع کیے جانے والے احتساب کے عمل نے موجودہ اقتصادی ڈھانچہ میں موجود خامیوں کو طشت ازبام کر دیا ہے۔شریف خاندان کے خلا ف عدالتی کاروائی اور اسٹبلشمنٹ کی اس ضمن میں پشت پناہی نے اداروں کے درمیان ٹکرائو کی صورتحال پیدا کر دی ہے۔
اس لیے پاکستان میں اس وقت جو صورتحال ہے اگر اس سے مناسب طریقہ نہیں نمٹایا گیا تو اس سے تمام تر سیاسی نظام آمریت کی لپٹ میں بھی آ سکتا ہے اور یہ سیاسی تھیوری جو کہ پیش کی جا رہی ہے جس کے تحت عدلیہ اور فوج کے درمیان گٹھ جوڑ ہو چکا ہے ملک کو سیاسی عدم و استحکام پہنچا سکتے ہیں جبکہ حالات اور واقعات دن بدن اس بات کی گواہی دیتے نظر آ رہے ہیں جے آئی ٹی میں بھی فوج کی خفیہ ایجنسیوں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے افراد کو شامل کرنے کے فیصلہ نے اس تمام شکوک وشبہات کو تقویت دی ہے اور اگر آج مسلم لیگ ن والے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ جمہوری نظام کو کمزور کرنے کیلئے سازشیں کی جا رہی ہیں تو اس میں ہمیں تعجب نہیں کرنا چاہیے اس طرح نہ صرف یہ بلکہ نیب جس کو عدالت نے ایک مردہ ادارہ قرار دیا تھا اس کو شریف خاندان کے خلاف کرپشن کے مقدمات کھولنے کا جو حکم دیا گیا وہ اس مردہ ادارے میں نئی روح پھونکنے کے مترداف ہے جبکہ یہ سب کچھ اسٹبلمشنٹ کی مرضی اور منتا کے تحت ہو رہا ہے اس لیے یہاں سے بھی انصاف کے معاملہ میں کسی شفافیت کی امید نہیں ان تمام واقعات کے بعد اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ اسٹبلشمنٹ نے عدالتی کاروائی کے ذریعہ یہ بحران گھڑنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے جو کہ سول،ملڑی تعلقات میں مزید تلخیوں کو جنم دے گی۔پانامہ کیس اور اس پر عدالتی کاروائی شروع ہونے سے یقینی طور پر اس تاثر کو تقویت ملی کہ یہ سب کچھ اسٹبلشمنٹ کی ایماں پر ہو رہا ہے۔کابینہ کے وزیروں اور سنیئر پارٹی عہدیداران کی جانب سے مسلسل خفیہ ایجنسیوں پر الزام عائد کیا جا رہا ہے جس کے بعد چیف آف آرمی سٹاف نے اس کی تردید بھی کی تاہم اب وزیر داخلہ کی جانب سے ریاست کے اندر ریاست کے بیان نے فوج کی بینڈ بجا کر رکھ دی ہے۔
دوسری جانب جہاں اسٹبلشمنٹ حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے تو وفاقی حکومت بھی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ پائوں باندھنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے ۔وفاقی حکومت ملک کی تاریخ میں پہلی بار ججز اور جرنیلوں کا بھی احتساب کرنے کیلئے قانون سازی کا ارادہ رکھتی ہے۔میڈیا کی جو رپورٹ آ رہی ہیں اس کے مطابق پیپلز پارٹی کی تجویز پر ججوں اور جرنیلوں کو احتساب کے ذریعہ عدالتوں کے کٹہرے میں لانے کیلئے نیب کی جگہ پر احتساب کمیشن قائم کر کے پلی بارگین والے قانون کو ختم کرنے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے۔ایک سلسلہ میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس ضمن میں مختلف سیاسی پارٹی کے رہنمائوں سے بات چیت کی گئی ہے جبکہ چار اکتوبر کو اس سلسلہ میں اجلاس بھی بلایا گیا ہے جس میں کوشش ہو گی کہ اتفاق رائے ہو سکے اور ایسا قانون متعارف کرایا جائے جس کے تحت حاضر سروس ججز اور جرنیلز سے تحقیقات کی جا سکے۔
پاکستان 70سال کا ہو گیا لیکن اب تک یہ ججز اور جرنیلز مقدس گائے کی طرح ہیں حالانکہ ان کے فیصلوں کے سبب ملک اور عوام پر منفی اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں ان قوتوں نے طاقت کے زور پر آئینی قوت کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا اور مالی مفادات حاصل کیے۔پاکستان میں جس طرح عدلیہ کا کام عوام کو انصاف پہنچانا ہے اور سماج دشمن عناصروں کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے اس طرح پاک فوج کا کام ملک کی سالمیت اور عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے بیرونی اور داخلی خطرات سے محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات آنے کی صورت میں عوام کو مدد کرنا فوج کے فریضہ میں شامل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ادارے سرکاری خرچہ سے سالانہ کروڑوں اربوں روپے حاصل کرتے ہیں اور ان کا ناجائز استعمال بھی کیا جاتا ہے اگر ان پر ان کی باز پرس کی جائے تو یہ عوامی حکومت کو آنکھیں دکھاتے ہیں اور اپنی طاقت کا استعمال جمہوری حکومت کے خلاف کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی من مانیاں کر سکیں۔اس کے نتیجہ میں عوام کے یے اب تک مشکلات پیدا ہو رہی یں جن کا ازالہ کرنا انتہائی ضروری ہے اگر سایسی پارٹیاں اس گھمبیر اور حساس مسئلہ پر ایک ساتھ مل کر کوئی بہتر قانون سازی کرتی ہیں تو اس پر اسٹبلشمنٹ اور ججز کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے کیونکہ پاکستان کے دستور کے تحت ہر شہری کا درجہ برابر ہے ۔کوئی مقدس گائے نہیں مگر یہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ سے ی حکومت،عدلیہ،عسکری ادارے اور اسٹبلشمنٹ کے راستے جدا جدا ہوتے ہیں اور ہر کوئی اپنے آپ کو پاور فل تصور کرتا ہے جس میں آرمی کا کردار سب سے اہم ہے اس کے نتیجہ میں ہی آمریت کے سیاہ بادل ہمیشہ ہمارے ملک پر چھائے رہتے ہیں اگر ہم ملک کی اصل قوت جو کہ عوام جمہوری حکومت یا پارلیمنٹ کے ذریعہ دیتی ہے اس کو یہ ادارے بائے پاس کر کے اپنی من مانیاں چلانے کے جو اقدامات کرتے ہیں وہ کبھی بھی ملک کے مفاد میں اور جمہور کے مفاد میں نہیں ہوتی اس لیے سابقہ ماضی میں ون یونٹ کے ذریعہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا جس کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا اب اس طرح بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی طور درست عمل نہیں کہ اختلافات کی بنیاد پر ماروائے عدالت لوگوں کو قتل کرایا جائے یا ان کو اغواے کر کے ان پر تشدد کیا جائے سول حکومت کے معاملات میں اسٹبلشمنٹ جس طرح مداخلت کر رہی ہے اور عوامی مینڈیٹ کو جس طرح دیوار سے لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آرمی اور عدلیہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے خطر ناک منصوبہ پر عمل کر رہے ہیں جو کہ ملک اور قوم کیلئے خطر ناک عمل ہے اس وقت ن لیگ کی قیادت کئی مشکلات اور پریشانیوں سے نبرد آزماد ہے اس وقت جبکہ پڑوسی ممالک سے خطرات بھی لاحق ہیں قومی سلامتی کے معاملات پر فوج اور سولین قیادت کے درمیان اگر یہ تعلقات اس طرح کشیدہ رہتے ہیں تو اس سے نہ صرف سیاسی نظام عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے بلکہ فوج کو بھی اس کے نتیجہ میں عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بہر کیف تمام تر صورتحال کا دارو مدار نیب اور عدالتی کارائیوں پر منحصر ہے کہ نیب اور عدالت میں کاروائی کیا رخ اختیار کرتی ہیں یہ بھی اشارہ نہیں ملتا کہ پورے چھ ماہ تک یہ کاروائی چلے گی یہ بھی امکان نہیں کہ کاروائی چلے اور شریف خاندان کو اس کے نتیجہ میں کچھ نہ ہو ہو اس لیے نواز شریف اور ان کے خاندان کی امکانی سزا سے صورتحال مزید خراب ہو گی اور پھر کوئی نہیں ہو گا جو کہ اس پر کنڑول کر سکے۔اس لیے آنے والا وقت جو آ رہا ہے اس کو سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے ملک کیلئے انتہائی خطر ناک ترین وقت قرار دے رہے ہیں کیونکہ ریاست کے اندر ریاست کی جنگ کیا کچھ بہا کر لے جاتی ہے اس کا بھی اندازہ لگانا مشکل ہے۔

Check Also

ناشتہ کیے بغیر بھوکے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ قرار

امریکا سمیت دیگر ممالک کے ماہرین کی جانب سے بھوک کے صحت اور خصوصی طور …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *