Home / قلم شرارے / پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر

پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر

پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر جاری وساری ہے اقوام عالم اب بھی جزوی طوربندش کا شکار ہے، انسانی گھروں میں مقید رہے اور کئی حکومتی ادارے عملی طور پر غیر فعال بن کرہ گئے تھے، دنیا بھر میں بڑی بڑی صنعتیں تالہ بندی کا شکار ہو چکی ہیں، گزشتہ چند ہفتوں میں زندگی اس طرح تبدیل ہو جائے گی یقین نہیں آتا سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے،کھانا پینا ،سیرو سیاحت، ملنا جلنا،دفتری معاملات سے لے کر بچوں کے اسکول تمام چیزیں تبدیل ہو چکی ہیں، کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا، معاشی حالات بھی پہلے جیسے نہیں رہے، شاپنگ سینٹر، عام بازار بند ہیں، ان کی رونقیں ختم کو چکی ہیں، شاہراہیں، ہائی وے ویرانی کا منظر پیش کررہے ہیں، اس طرح پوری دنیا اس طرح کی ہی تبدیلیوںکا شکار ہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پوری دنیا کشتی نوح کی طرح ایک ہی کشتی میں سوار ہے اور یہ کشتی ساحل سمندر پر لنگر انداز ہونے سے قبل بڑے بڑے ہچکولے لے رہی ہے اور ساحل نصیب ہونے سے قبل ہی کسی جذیرے کے عقب میں واقع پہاڑ سے ٹکرانے کے بالکل قریب پہنچ چکی ہے، جہاں سے نکلنے کا واحد ایک ہی  راستہ ہے اور اس راستہ کی تلاش میں اقوام عالم بھر پور طریقے سے سرگرم عمل ہے، انشاء اللہ یہ کاوشیں او ر جستجو کا سفر ایک دن ضرور کارگر ثابت ہو گا اور ہم سب ایک بار پھر اپنے اپنے علاقوں میں جا کر سکھ کا سانس لینے کے قابل ہو سکیں گے اور ایک بار پھر ہم سب اُسی مشینیں زندگی میںمصروف ہو جائیں گے اور زندگی اسی پرانی اعتدال پسندی کے ساتھ رواں دواں ہو جائے گی اورخوف کی جو لہر پوری دنیا کا احاطہ کئے ہوئے ہے جلد ہی اختتام پذیر ہو گی، تاہم اس دوران ضرور ہزاروں ،لاکھوں افراد اپنی زندگیوں کے چراغ گل کئے،اس جہان فانی سے رخصت ہو چکے ہونگے جبکہ کروڑوں افراد اور لاکھوں خاندان تباہی اور بربادی کا نشان بن کر رہ جائیں گے۔
اگر ہم ایک صدی قبل تاریخ کا مطالعہ کریں تو برصغیر پاک وہند میں18مئی1918ء کو جب پہلی عالمی جنگ ختم ہونے کے قریب تھی اس وقت پانی کا ایک جہاز بمبئی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتا ہے اور اس جہاز کے ذریعے ہندوستان پہنچنے والے سپاہیوں میں سے7سپاہی ایک ماہ بعد 10جون کو انفلولینزا کے مرض میں مبتلا ہو کر اسپتال داخل ہوتے ہیں، لیکن بعد ازاں معلوم ہوتا ہے کہ یہ فوجی ایک خطرناک ایسی بیماری کا شکار ہیں جو کہ انسانوں میں بہت تیزی سے سفر کر کے ایک دوسرے کو متاثر کررہی ہے، جس کو بعد ازاں اسپینش فلو کا نام دیا گیا اور یہ بیماری بھی وائرس کے ذریعے پھیلی اوریہ بیماری دو سالوں تک یہ برقرار رہی،1920ء میں اس کا اثر کافی حد تک کم ہوا لیکن آپ اس بیماری کی سنگینی کا اس طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ بیماری صرف متحدہ ہندوستان میں ایک کروڑ80لاکھ سے زائد افراد کو ابدی نیند سلانے کا سبب بنی اور بھارت اس وقت دنیا بھر میں اموات کے نمبروں میں دیگر ممالک کے مقابلے میں سر فہرست رہا، اس وقت اس فلو میں دنیا بھر کے50کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے اور یہ تعداد دنیا کی کل آبادی کا چوتھائی حصہ تھی ، تاہم آج دنیا کی آبادی7ارب سے زائد کی آبادی میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دو لاکھ28ہزار اور کنفرم کیسز کی تعداد3.21ملین ہے، اس تاریخی اعدادو شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کے مقابلے میں100سال قبل دنیا کو اس طرح کی ہی وبا کی کافی قیمت ادا کرنا پڑی تھی، اسپینیش فلو1918ء سے شروع ہو کر دسمبر1820میں اختتام پذیر ہوا، آج کرونا کی وباء جو کہ دسمبر 2019ئ سے شروع ہوئی ہے لیکن اس کے اختتام کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔ تاہم آج کے دور میں جدید سائنس ،ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے ڈاکٹروں،نرسیں اور معاشی طور پر سمیت صحت کے شعبہ میںاپنی زندگیاںکا خطرے میں ڈال کر ہماری اور ہمارے پیاروں کی زندگیاں بچانے کی تگ ودود میں مصروف ہیں، جس طرح میں نے پہلے ذکر کیا معاشی طور پر لاکھوں کروڑوں انسان تباہی اور بربادی کا نشان بنیں گے لیکن فوری طور پر وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جو کہ روزانہ کی بنیادوں پر کماتے ہیں، ان کے پاس نہ ہی بچت کی گئی کوئی جمع پونجی ہے اور نہ ہی روزگار، وہ گھر بیٹھ کر کریں بھی تو کیا کریں، اس طرح یہ غریب طبقہ ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے صنعتکار، سیاستدان ،حکمران اور طاقتور سے طاقتور ترین شخص کو بھی یہ پتہ نہیں کہ اس وباء سے کس طرح نمٹا جائے ، بڑے، چھوٹے تمام صنعتکار پریشانی کا شکار ہیں، اس سے بچنے کی تدبیر جو کہ سمجھ آ سکی ہے وہ صرف اور صرف یہی ہے کہ گھر میں رہو، کسی سے نہ ملو، اگر بہت ضرور ہو تو باہر قدم رکھو، ملنا اگر بہت ضروری ہے تو فاصلہ رکھا جائے، اس طرح دنیا بھر کی ریاستیں اور معاشرے فی الحال بے بس ہیں اور مشترکہ طور پر ایسی ویکسین تیار کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں جو کہ اس موذی مرض کو آنے سے قبل ہی انسانی جسم میں ہلاک کر سکے، تاہم پرانی دنیا سے نئی دنیا کا یہ سفر جاری ہے اور ہمیں خود بھی پتہ نہیں کہ ہم کب اس بیماری کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے، تاہم کامیابی کے بعد ہماری ایک نئی دنیا ہو گی،کئی مفکرین کا کہنا ہے کہ ہمارے پیشہ، صنعتوں، ایجادات اور طرز زندگی میں بڑی تبدیلیاں ممکن ہیں، کئی ممالک میں پہلے ہی گھر سے ہی دفتری کام کرنے کا رواج چلتا آ رہا ہے، مگر اس وبا کے بعد مزید کئی اور شعبہ ہائے جات قائم ہونگے جہاں پر دفتر کی بجائے حاضری ضروری نہیں ہو گی، اس طرح امریکہ میں ہائی اسکول اور اس سے نچلے گریڈ میں زیر تعلیم طالبعلموں کی کلاسوں سے متعلق یہ گمان بھی نہیں تھا کہ ان کی کلاسیں آن لائن شروع ہو ں گی اور ان کو گھر پر ہی تعلیم حاصل کرنا ہو گی، اس طرح نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں تعلیم وتدریس کا کام گھر بیٹھے جاری ہے، زوم کے ذریعے جہاں کلاسیں ہو رہی ہیں وہاں اس کے ذریعے آن لائن میٹنگ اور اجلاسوں میں بھی زوم کا استعمال تواتر سے کیا جا رہا ہے، طالب علم اور استاد گھر کی اسکرین پر ایک ساتھ نظر آ رہے ہیں، امریکہ سمیت دنیا بھر میں کانفرنسز، لیکچرز، سیاسی،سماجی پارٹیوں کے اجلاس زوم کے ذریعے منعقد ہو رہے ہیں، گو کہ پاکستان میں پسماندہ علاقوں جیسے بلوچستان، سندھ، پنجاب، شمالی علاقہ جات کے وہ دیہی علاقے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں، وہاں مسائل ضرور ہونگے، لیکن مستقبل قریب میں اس ٹیکنالوجی میںجو ریاستیں پیچھے ہیں، ان کو آگے لانے کی ضرورت ہے ، تاہم اس وبا کے بعد یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ دنیا کے طاقتور ترین ممالک اس وبا میں اپنی قوت اور طاقت کو برقرار رکھ پاتے بھی ہیں یا کہ وہ بلندی سے پستی کی طرف گامزن ہوتے ہیں، اس ضمن میںتمام قیاس آرائیاں امریکہ اور چین کے مستقبل پر لگی ہوئی ہیں، امریکہ چین پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کمپنیوں کو کہا ہے کہ وہ چین سے نکل کر دوبارہ چین جا کر سرمایہ کاری کریں، اس طرح تجارتی جنگ بھی چھیڑی جا چکی ہے، تجارتی خسارے کو کم کیا گیا ہے کہ چین نے جو دولت جمع کی ہے، اس میں مزید اضافہ نہ ہو سکے، اس طرح امریکہ یورپی اتحادیوں کو چھوڑنے کا سوچ رہا ہے جبکہ یورپی یونین والے اتحادی بھی امریکہ کی دفاعی صلاحیتوں کے محتاج نہیں رہنا چاہتے، ان سے بھی امریکہ کے اختلافات چل رہے ہیں، ویسے بھی برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے نکل جانے سے پوری یورپی یونین کے اتحاد سے متعلق اس کے مستقبل کے حوالے سے بھی سوالات جنم لے رہے ہیں، لیکن چین نے اس وبا کے دوران ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ مستقبل میں ایک ابھرنے والی بڑی طاقت  ہو گی اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین مستقبل قریب میں مزید ترقی کرے گا، اس وقت بھی دنیا بھر میں کرونا سے بچائو کے اقدامات سے متعلق دنیا بھر نے چین کے تجربہ سے فوائد حاصل کئے اور کررہے ہیں، پاکستان میں قیادت کا فقدان ہے،ہونا تو یہ چاہے تھا کہ اس دبا کے بعد قیادتوں کو اپنی محنت اور دیانت اور خدمت سے انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے اقدامات کئے جاتے، آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے تمام سیاسی پارٹیوں کو اس کام پر لگایا جاتا لیکن اس کے برعکس یہ بات سامنے نظر آئی کہ اس دوران حکومت نے اور ملٹری اسسٹیبلشمنٹ نے کرونا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اٹھاویں ترمیم کو بحال کرنا شروع کر دیں، اس طرح امریکہ میں بھی جہاں معالجین پریکٹیشنر کرونا وائرس کے بحران کا سامنا کررہے ہیں ،تو دوسری جانب امریکہ میں قائم اسلحہ ساز کمپنیوں نے اپریل میں متعدد امریکی ریاستوں میں گھروں میں رہنے والے افراد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو اسلحہ سے متعلق تشہیر کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر کئی پیجنز تشکیل دیئے، لابی نے یہ تمام کام کروایا،اس طرح امریکی صدر لاک ڈائون کے حق میں نہیں تھے جبکہ وہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی اکثریتی ریاستوں میں ہونے والے اس طرح کے مظاہروں کی حمایت کرتے نظر آئے بہر کیف اب جبکہ پوری دنیا پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر طے کرنے میں لگی ہوئی ہے جبکہ حکمرانوں کیلئے مشکلات اور چیلنجز بڑھتے چلے جا رہے ہیں، طویل بندش سے بھوک،بیروزگاری اور پریشانی میں اضافہ ہورہا ہے، کوئی بھی فیصلہ کرنا اتنا آسان کام نہیں، مگر پاکستان میں فیصلوں پر عملدرآمد کرانا اس وقت مشکل ہو تا ہے، جب مذہبی گروہ اس کے مخالف ہوں، بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں لاپرواہی سے کام لیا گیا تو مئی کے وسط میں پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی تعداد میں کافی اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
بہر کیف پرانی دنیا نئی دنیا کی رہنمائی کررہی ہے، دنیا میں نت نئے طریقے متعارف کرا دئیے ہیں اور یہ وبا ترقی کی راہ کا تعین بھی کررہی ہے اور ہمیں جدید زندگی کی طرف راغب بھی کررہی ہے، اس لئے ہمیں خود کو بھی جدید زندگی کی طرف راغب ہونا ہو گا، اور اگلی دنیا کے راستوں کی تیاری میں ان کے شانہ بشانہ چلنا ہو گا،جبکہ کائنات کے اصولوں اور قدرتی تبدیلیوں کو سمجھنے سے ہی ہم اپنی موجودہ صورتحال کا یقین اور اگلی زندگی کا تعین کر سکیںگے، کرونا کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ انسان کا بنایا ہوا وائرس ہے، جس کو حیاتیاتی ہتھیار کے بطوراستعمال کیا جا رہا ہے، اگر یہ گمان درست تصور کر لیا جائے کہ اس وائرس کا فطرت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے تو ہم پر صرف اس کے موذی اور مضر اثرات ہی پڑ سکتے ہیں جیسا کہ ایٹم بم گرنے کے بعد دنیا جانی مالی اور معاشرتی نقصانات کا شکار ہو گئی تھی، ویسے اگر اس میں وائرس کی نوعیت شامل ہے، تو یقینا ہم اس پر قابو پا سکتے ہیں اور اس کے ساتھ زندگی بھی گزار سکتے ہیں اور یہی وائرس ہمیں مزید آگئے کی طرف لے کر جائے گا،کیونکہ دنیا کی ہیرا پھیری دنیا کے مستقبل کو مسخ کر سکتی ہے لیکن فطرت کی تبدیلی سے زمین ختم نہیں ہو گی اگر یہ وائرس کسی سسٹم کے تحت پھیل جاتا ہے تو اس کا پھیلائو اس کے ایٹموں میں قدرتی عمل ہے کیونکہ اس طرح کی قدرتی آفات جو کہ ایک جانب انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتی ہیںتو دوسری جانب زمین کی زندگی بھی ناگزیر ہے یہاں تک کہ اگر یہ وائرس ہم آہنگ نہیں ہے اور اپنی فطری شکل میں موجود ہے تو یہ وبا اپنی زندگی اور مزاج کے ساتھ سیارے کے مثبت سمت کا ذریعے بھی بن سکتی ہے اور انسانوں کو ماحول کے مطابق نئی دنیائوں کے اصول کی طرف راغب کرنے میں انتہائی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے، اس طرح یہ وائرس ایک ایسا وائرس ہے جس کے لئے انسان تیار نہیں تھا، وائرس اپنے وقت میں اس دنیا پر آیا ہے میں پچھلے دنوں تاریخ کا مطالعہ کررہا تھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہر سو سال بعد ایک ایسا ہی بڑا وبائی مرض اس زمین پر آیا جیسے کہ1720میں طاعون،1820 میں کالرہ(ہیضہ)1920میں اسپنیش فلو جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اوراب 2020ء میں کرونا، اگر ہم انسانوں کے پتھر کے زمانے سے لے کر دورانیے کا جائزہ لیں تو ہر بدلتے ہوئے عہد سے قدرت ہم کو ایک خاص مقام تک پہنچنے کے بعد نئی دنیا کی روشنی کو دکھاتی ہے اور شاید یہ نئی دنیا کی روشنی سو سالوں پر محیط ہوتی ہے، بہر کیف اگر ہم ترقیاتی ادورا کے دوران زمین کے جسمانی حالات کا مشاہد ہ کریں تو قدرت نے انسانی نسل کو ہمارے آس پاس کی دنیا کی ایک نئی تصویر کس طرح عطاء کی، بگ بینگ کے نظریہ کے تحت زمین بڑے دھماکے کے تناظر میں وجود میں آئی، آگ جلنے کے عمل گیسوں کے اخراج کے دور سے لے کر پانی بننے کے عمل اور پھر زنددگی کے وجود کی تشکیل کو ہمیں دیکھنا ہو گا، یعنی یہ کہ جو عمل چلا وہ پہلے زندگی کے وجود کے قابل بھی نہیں تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی گئیں اور یہ تمام عوامل زندگی کے وجود کو تشکیل دینے میں موزوں ثابت ہوتے رہے، اس دور سے لے کر اب تک دور میں جو بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں وہ آہستہ آہستہ انسانی زندگیوں کیلئے بہتر ہوتی گئیں، ماہر فلکیاں اور ماہر طبعات کی تحقیقات کے مطابق یہ زمین کا مدار ابھی اپنی زندگی تک نہیں پہنچا ہے اور اس عجیب وغریب مقام تک  پہنچنے کیلئے اس کو کئی صدیاں درکار ہیں، اس صورتحال پر غور کرتے ہوئے یہ استدلال منطقی ہو گا کہ اس وقت زمین پر فطرت کی زندگی سے متعلق مشکلات درست نہیں ہیں بلکہ یہ فطرت کی کارستانی زندگی میں مشکلات کیلئے نہیں بلکہ اس کا رخ تبدیل کرنے کیلئے ہو سکتی ہیں اس طرح ہم اگر انسانی تہذیب کا مطالعہ کریں تو پتھر کے دور سے لے کر زرعی دور تک کے سفر میں قدرتی تبدیلیوں نے ہمیں راہیں عطا کیں اور قدرتی آفات انسانوں کو غار میں لے آئیں،زرعی عہد سے زرعی دور اور تہذیب کے دور تک فطرت کی جانب سے آنے والی ہر آفت نے ہمیں ایک نئی دنیا بنانے اور آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا ہے، اس طرح سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم زمین کی تازہ تباہی کیلئے تبدیلی کی نشانی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، اس کا جواب ہاں میں ہے دراصل قدرت نے ہمیں ایک بار پھر موقع دیا ہے کہ ہم اپنی طرز زندگی کو تبدیل کریں اور اپنی زندگی کو ایک ایسے معاشرے کے جدید خطوط پر استوار کریں جو ہمارے اصل مقصد یعنی جنت کے تصور سے ہم کلام ہو سکے، کووڈ19کی دنیا کیسی ہو گی اور ہمارا انداز زندگی کیسا ہو گا یہ پیش گوئی کرنا مشکل نہیں ہے یقینا ہم ایک ایسی دنیا کے سفر کی جانب نکل چکے ہیں جو کہ صدیوں سے ہمارے تصور میں جکڑی ہوئی ہے، تمام اقوام کے مذہبی پیشوا بعد از زندگی سے خیالی دنیا کا اکثر ذکرکرتے رہتے ہیں۔یہ تمام ضرورتیں، راحیتیں ،آسانیاں ،عیاشیاں عقائد سے جو ذکر اس کو دوسرے جہان میں حاصل کرنے کی ہم تمنا رکھتے ہیں، یا پھر کبھی قصہ کہانیوں او ر تصوراتی زندگی میں حاصل کرکے اپنے دل کو خوش کرتے ہیں، اس دنیا میں ہم اپنی سوچ کے اشارے سے ہر وہ چیز حاصل کرلیتے ہیں جو کہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری جبلت ،تنہائی ،لذت،راحت کو کم کرے،ان تمام حقائق کی روشی میں ہم یہ بار آور کرا سکتے ہیں کہ فطرت نے ہم کو کووڈ19کے ذریعے معاشرتی G-6دے کر کمپیوٹر کی زندگی کے بعد(Virtual)زندگی ورچوئل زندگی میں جانے کا موقع فراہم کیا ہے،G6-G3ایک ورچوئل دنیا ہے جو کہ ترقی کرتے کرتے جی5سے جی10 تک آگے جائے گی، جس طرح ہم آگے کا سفر طے کرتے چلے جائیں گے ، اس طرح یہ زندگی ورچوئلیٹی کی طرف راغب ہوتی چلی جائے گی، آپ دیکھیں کہ کووڈ19کے بعد جہاں پورا کاروبار زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا وہاں آن لائن خریداری کا رجحان عروج پر پہنچ گیا ، جہاں روڈ راستے رویران ہو چکے ہیں، وہاں انٹرنیٹ کے ذریعے ملنے والی ہوم ڈیلوری کے سبب ایمیزان اور دیگر کمپنیوں کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا، گھریلو سامان اور اشیائے خوردو نوش گھر بیٹھے نیٹ کے ذریعے منگوانے کا کاروبار عروج پر نظر آ رہا ہے اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی، سماجی رابطے جو پہلے بالمشافہ ہوتے تھے، وہ اب ورچوئیلٹی،اسکائپ اور واٹس ایپ پر اپنے رابطہ قائم کرتے چلے آ رہی ہیں، کھیلوں کے میدان ویران ہو چکے ہیں مگر موبائل کے اسکرین پر ویڈیو گیم نیٹ فلیکس اور ڈزنی کے اسکرین اب گھروں میں کھل گئے ہیں، کھیلوں کے میدان ویران ہو چکے ہیں مگر موبائل کی اسکرین پر ویڈیو گیم ،نیٹ فلیکشن اور ڈزنی کے اسکرین اب گھروں میں کھل گئے ہیں۔
کووڈ19 نے زمینی سچائی کو علیحدہ کر دیا ہے ایک متبادل بڑھانے دینے والی حقیقت ورچوئل یونیورسٹیاںاور آن لائن تعلیم پہلے سے موجود تھی، لیکن تعلیمی ادارے اس وائرس کے سبب بند ہو گئے ، تب سے ویڈیو لیکچرز اور آن لائن تعلیم کا رجحان عروج پر ہے، اگرچہ ہماری تعلیم اور معاشرتی سرگرمیاں خیالی حقیقت کی طرف منتقل ہو گئی ہیں لیکن ہماری معاشرتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیاں خیالی حقیقت کے ساتھ بڑھ گئی ہیں، سیاستدانوں نے ہالو گرام ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے محافل موسیقی اور سوشل میڈیا سائنس میں شرکت کیلئے اپنی رضا مندی کی وڈیو شیئر کرنا شروع کر دی ہیں، مذہبی رہنما بھی اس ٹیکنالوجی سے پیچھے نہیں ہٹے، جہاں اس سے مسلک کے لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے، وہاں اب یہودی عبادات گاہوں نے مجازی فرقہ پرست عبادت کا اپنا نظام تشکیل دینا شروع کر دیاہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کوئی کاروبار زندگی نہیں ہے جس میں ہم اپنی زمینی حقیقت سے خیالی حقیقت کی طرف نہ بڑھے ہوں ، زمینی سچائی سے خیالی تصور میں منتقلی کا یہ صرف آغاز ہے، اس وقت موبائل یا کمپیوٹر اسکرین پر خریداری پر ہم نظر ڈالتے ہیں،ہم اس کو چھو نہیں سکتے اور نہ ہی جسمانی طور پر استعمال کر سکتے ہیں، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا ہر گھر میں ورچوئل کمرے بڑھتے جائیں گے، کمرے کے اندر بیٹھ کر ہم جگہ شاپنگ،ہوٹل عبادت گاہ اور دفاتروں میں جائیں گے اور خیالی معاشرتی سرگرمیاں انجام دینے کیلئے اپنے کاروبار کو ایک ساتھ چلائیں گے، جس طرح ٹی وی ہمارا خاندانی گھر ہے، اس طرح کا ورچوئل کمرہ بھی ہمارے گھر کا حصہ بن جائے گا اور وہ دن دور نہیں جب مستقبل میں ہمارے سارے گھر حقیقت بن جائینگے اور ہم پوری دنیا میں اپنے روبوٹکس اور کمپیوٹرائزڈ گھروں کے ذریعے ہی جڑے ہونگے، لیکن میں اور آپ شاید اس دنیا کو نہ دیکھ پائیں مگر ہماری نسلیں ضرور اس دنیا کو دیکھیں گی،

Check Also

‎کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر

    کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر تحریر : راجہ زاہد اختر خانزادہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے دلبرداشتہ ہو کر چند ایک ماہ سے اس پر اظہار خیال کرنابھی چھوڑ دیا تھا، مگر شاید اپنی اس مٹی سے محبت واپس پھر وہیں کھینچ لانے کومجبور کردیتی ہے کہ اپنے حصے کا حق ادا کیا  جائے،ہماری قوم اور ملک گزشتہ تہتر سالوں سے دائروں کےسفر میں ہے،جس کا کوئی اختتام نہیں ہے ،یہ سفر کولہو میں بندھے ہوئے بیل کی مانند ہے، جسکی کوئی منزل نہیں ہے، جس طرح کولہو کا بیل آشنائے راز سے واقف نہیں ہوتا، اور دن رات چلتاچلا جا تا ہے، اس طرح ہماری قوم کو بھی دائروں کے اس سفر میں الجھا دیا گیا ہے، پاکستان کیآرمی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ سات دہائیوں سے ہر کسی کو کٹھ پتلی بنائے چلی آرہی ہے ، اور انکواسی دائرہ کے سفر میں چلنے پر مجبور کرتی رہی  ہے، اب جبکہ ملک کا تمام میڈیا حکومتی کنٹرولمیں ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ (جیو اور جنگ) کے مالک میر شکیل الرحمن انکی حراست میں ہیں انہوں نے  میڈیاپر پابندی کے ذریعہ کولہو کے اس بیل کی آنکھیں بھی مکملطور بند کردی ہیں ،اس طرح اب اس قوم(بیل) کو جہاں چاہے گھمائو یہ قوم یہی سمجھے گی کہ وہآگے کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن دراصل ہماری منزل ہم سے کوسوں دور ہے، گزشتہ تہتر سالوں سےپاکستان کی تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو ہی دہراتی چلی آرہی ہے، یہ ملک جہاں تھا وہیں پر نہیں بلکہوہ مزید پیچھے کی طرف چلا گیا ہے، اگر ہم یحییٰ خان کے مارشل لاء کو بھی گنتی میں گنیں تواس ملک میں چار مارشل لاء لگ چکے ہیں جو کہ اپنی نوعیت کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلفرہے ہیں، اس دوران کبھی ہمیں سمجھایا گیا کہ مظلوم مسلمان بھائیوں کیلئے جہاد کرنا ہے اسطرح پھر کہا گیا کہ پرائے معاملات میں ٹانگ اڑانا دہشت گردی ہے، کبھی ہمیں یہ بتایا گیا کہ دنیابھر میں بسنے والے مسلمان تمہارے بھائیوں کی طرح ہیں، کبھی تیس لاکھ افغان مہاجرین کےبوجھ تلے قوم کو دبا دیا جاتا ہے، کبھی اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کرا کے امریکی ڈالر خطیرتعداد میں وصول کیئے جاتے ہیں، کبھی تمام مسلمانیت دل سے نکال کر کئی مسلمانوں کو سارےمسلمہ اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غیروں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے، کبھی غیر ملکی ایجنٹوں کو ویزے جاری کر کے انہیں اپنے ہی ملک میں غدار بھرتی کرنے کےکام کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ کبھی اپنے ہی ملک میں دھرنے دلوا کر ملک کی معیشت اورسیاسی استحکام کو دائو پر لگایا جاتا ہے، کبھی جمہوری حکومتوں کو ناک میں نکیل ڈالنے کیلئےان کی کان مروڑی کی جاتی ہے، کبھی ایدھی جیسے شخص کوبھی خریدنے کی کوشش کی جاتیہے، تو کبھی اس کے جنازہ کی آڑ میں اپنا نام بلند کیا جاتا ہے، جب کبھی بھی قوم مشکل میں ہوتو سارا ملبہ سیاسی حکومت پر گرا کر متوازی حکومت کھڑی کرتے ہوئے اپنے نغمہ بجا بجا کر بتایاجاتا ہے کہ یہی ایک ادارہ ہے جو کہ محبت وطن ہے،باقی سب غدار ہیں، یہی آپ سے سچے ہیں،کبھی اپنے ہی ان لیڈروں کو قتل کرا دیا جاتا ہے، جنہوں نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئےسر توڑ کوششیں کی ہوتی ہیں، کبھی غریب صوبوں سندھ اور بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کےان عوام کو جو کہ اپنے لئے حق طلب کرتے ہیں اور اپنے حصہ کی روٹی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیںتو ان کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے، ان کی لاشیں مسخ کر کے پھینک دی جاتی ہیں، کبھی کراچیمیں اردو بولنے والے کو بڑا محب وطن قرار دیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ غدارقوم ہیں اورتو اور انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح تک کوبھی نہیں بخشا ، اس کوبھی ایوب خان کے مقابلہ میں مدقابل آنے پر ”انڈین ایجنٹ”قراردے دیا گیا، ججوں کی تحریک میںپوری قوم ایک ساتھ کھڑی ہوئی میڈیا نے اس تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ججز بحالہوئے مگر مجال ہے کہ کوئی جنرل مشرف کو غدار تک قرار دے دے، وہ پاکستان آیا مگر اس کوباآسانی فرار کرا دیا گیا، جمہوری حکومت بھی آئی تو اس کو گارڈ آف آنرز دے کر رخصت کیا گیا،نواز شریف دور میں ججوں کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں نہ صرف ججوں کی بلکہ ججوں کےاہل خانہ کو ٹریپ کر کے ان کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں، اس طرح ایماندار ججوں کو فیملیکے ذریعہ بلیک میل کیا گیا، دھرنے والوں میں کھلم کھلا رقوم تقسیم کی گئیں اور اس سلسلے میںوہ ایماندار جج قاضی فائز عیسیٰ نے آرمی انٹیلی جنس کی جانب سے رقوم کی تقسیم سے متعلقتاریخی فیصلہ دیا اور کوئٹہ سانحہ  کی تحقیقات پر دبنگ ریمارکس اور فیصلے دئیے، اس کو بھیمیڈیا ٹرائل کے ذریعے بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ، اسکو عہدے سے ہٹایا گیا اس سےقبل ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی آئی ایس آئی پر تنقید کرنے کیپاداش میں ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرف کیا گیا، اس جج نے پاکستان میں  جبریگمشدگیوں کے بارے میں اپنی عدالت میں کہا تھا کہ ” میں سمجھتا ہوں کہ مقامی پولیس بھی انطاقتور ایجنسیوں کے ساتھ مل چکی ہے جنہوں نے ملک کے سماجی ڈھانچے میں رکاوٹیں پیداکررکھی ہیں” جسٹس صدیقی نے آئی ایس آئی پر بھی شدید تنقید کی تھی جس کے بعد انکوخرید کیئے گئے ججوں کے ذریعے فارغ  کرادیا گیا ، ملک میں میڈیا کے ذریعے عوام کو کنٹرولکرنے کیلئے نت نئے گانے بنانے اور سوشل میڈیا پر کروڑوں روپے خرچ  کئے گئے مگر ان سے یہمعلوم نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ رقم فوج نے کہاں اور کیو ں کر خرچ کی؟ دائروں کے اس سفر میں گزشتہ ستر سالوں میں کبھی ہمیں کمشنری نظام ،تو کبھی ضلعی نظامکبھی پھر وہی کمشنری سسٹم اور پھر ضلعی بلدیاتی نظام الغرض وہی دائروں کا سفر جاری اورساری رہا ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پوری قوم کو یکجا کر نے کے بجائے ہمیں گروہوں ،نسلوں اورقبیلوں میں تقسیم کیا ،قوم کو آپس میں تقسیم کر کے ہی ان کا کاروبار چلتا ہے، انہوں نے قوم کومختلف دائروں میں تقسیم کر کے پھر انکو ایک دائرے میں قیدکیا ، اسطرح کسی کو کسی کےدائرے میں جھانکنے کی اجازت بھی نہیں، سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان کا دائرہ ،اردو ،سندھی کادائرہ، بلوچی اور پنجابی دائرہ، سرائیکی اور پنجابی کا دائرہ، شیعہ سنی، وہابی اور بریلویدائرہ، سیکولر اور مذہبی دائرہ ،یہ پوری قوم ان دائروں میں رہتے ہوئے اب تہتر سالوں بعد اپنے آپکو انہی دائروں کا قیدی سمجھنے لگ چکی ہے ، میڈیا جو اس بٹی ہوئی قوم کو شعور کی منزل پرلے جا کر انہیں سمجھانا چاہتا ہے کہ اپنے دائروں سے باہر نکلو اور اگر نکل نہیں سکتے تو ایکدوسرے کیلئے کم از کم احترام  ہی پیدا کرلو مگر جو بھی ایسی کوشش کرے وہ یہاں غدار قرار پاتاہے،دائروں کے اس سفر کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ ہی کوئی منزل، ہاں جو اس دائروں سے باہر اندائروں کو چلا رہے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ ان کی منزل اور کام یہی ہے کہ وہ قوم کو انہی میںمصروف رکھیں،اسی میں ان کی نجات ہے، اس طرح ملک میں جس طرح میں نے پہلے بتایا کہ چارمارشل لاء لگ چکے ہیں، انتخابات بھی ہوئے ،مختلف سیاسی جماعتوں نے اقتدار کیلئے زور آزمائیبھی کی مگر دائروں کے اس سفر میں رہتے ہوئے پاکستان کے نظام میں ذرہ برابر بھی بہتری نظرنہیں آئی، آپ گزشتہ ستر سالوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،ہمارا سیاسی نظام، حکمرانی کیصلاحیتیں، سماجی اور اخلاقی اقدار تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو کر پستی کی طرف گامزن ہیں،اس طرح ماضی میں اپنی کارکردگی پر فخر کرنے والے قومی ادارے بھی ہماری اس تہتر سالہتاریخ میں بد ترین توڑ پھوڑ اور تنزلی کا شکار ہوئے ، جس میں پی آئی اے اور اسٹیل ملز اس کیواضع مثالیں ہیں، مگر یہ تو ہمارے ہی تخلیق کردہ ادارے تھے، مگر وہ ادارے جو کہ انگریز ہمیں دےکر گئے تھے، وہ بھی تو ہم سنبھال نہیں سکے، پوسٹ آفس، ریلوے، تعلیم کا شعبہ، ضلعیانتظامیہ، بلدیاتی ادارے اور قومی خدمات کے کئی ادارے اس وقت اپنی بربادی کی مثال بنے ہوئےہیں، یہ سب ادارے انگریز ہم کو انتہائی بہتر حالت میں دے کر گئے تھے، دائروں کے اس سفر نےتنزلی کی جو داستان رقم کی ہے وہ انتہائی دل دکھانے والی داستان ہے اور عبرتناک بھی ہے ، مگرہم نے اب تک اس سے عبرت حاصل نہیں کی کوئی سبق نہیں سا۔  تاریخ کے مشاہدات اور مطالعہسے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ منظم جمہوری ممالک میں سیاسی قیادتوں نے سول سروسز، قوانین کوباقاعدہ بنایا لہٰذا اس ڈھانچہ سے باہر جو کوئی بھی قدم رکھنے کی کوشش کرتا تو اس کو دیگراداروں کے ذمہ دار روکنے کیلئے قانون پر عملدرآمد کراتے اور قانون کی بالادستی وائم کرنے کیلئےوہ ان قوانین کے ذریعے عملی جامعہ پہنایا جاتا، اس طرح ان پختہ بالغ جمہوری معاشروں میںقانون کی حکمرانی زندگی کا معمول اور رواج بن گئی، اس استحکام کی بنیادی وجہ یا اس کا رازسول سروس کی استقامت میں پنہاں ہوتا ہے، اس لئے ان ممالک میں سول سروسز کو بہت زیادہآئینی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ،اس طرح قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کی کارکردگی کے راستےمیں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی، وہ بلا خوف وخطر کام کرتے ہیں اور اس نظام کو چلاتےہیں، اس طرح کا تحفظ گزشتہ دنوں ہمیں امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں بھی نظر آیا، جہاں پرہیوسٹن کے پولیس چیف نے اپنے ملک کے صدر کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے کہا کہ صدر صاحب اگرآپ عقل ودانش کی بات نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے منہ کو ہی بند رکھیں”پولیس چیف نے یہجملہ پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کی موت کے بعد صدر ٹرمپ کی جانب سے دئیےگئے اس بیان کے جواب میں کہا تھا کہ اگر پولیس عوام کی حفاظت نہیں کر پا رہی ہے تو وہ اس کےلئے ملٹری فورسز کو پولیس کی جگہ تعینات کر سکتے ہیں، اس بیان پر اگر صدر ٹرمپ عملدرآمدکرتے تو واقعی معاملہ مزید بگاڑ کی طرف جاتا ، اس لئے پولیس چیف نے اپنے صدر کی جانب سےاس نظام کو خراب کہنے پر شٹ اپ بھی کہااور ان کو دوسرے لفظوں میں احمق بھی کہہ ڈالا اورمنہ بند کرنے کا مشورہ بھی دے دیا ، ان کا یہ بیان امریکہ بھر کے میڈیا میں کئی دنوں تک گردشکرتا رہا ، امریکہ ہمارے آبائی ملک پاکستان کی طرح 52 ریاستوں کا مجموعہ ہے ، اس طرحپاکستان میں بھی صوبے وفاق کو قائم رکھنے کی علامتیں ہیں، یہ بالکل اس طرح ہے کہ سندھبلوچستان، خیبر پختونخواہ یا پنجاب کے کسی بڑے شہر کا پولیس چیف اپنے ہی وزیر اعظم کیجانب سے اپنے فرائض میں مداخلت پر اس کو شٹ اپ کہہ دے، لیکن ایسا پاکستان میں ممکن نہیں،ویسے بھی اس طرح حق گوئی کے ساتھ اظہار خیال کردینا صدارتی یا پارلیمانی نظام کا تحفہنہیں ، بلکہ سچ یہی ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے اور یہ اس کا لازمی جُز ہے، امریکہ ہینہیں تمام یورپی ممالک میں جہاں جمہوریتیں ہیں وہاں اس طرح قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، مگرآپ پاکستان کو دیکھ لیں جہاں سندھ پولیس کے آئ جی کو رینجر کے سیکٹر کمانڈر نے اغوا کرایااور جبرا ان سے احکامات پر عملدرآمد کرایا ، جمہوریت ہمارے ملک میں بھی ہے لیکن اگر آپ تھانہمیں ایف آئی آر کٹوانے جائیں تو آپ کو حیرانی ہو گی کہ ملک میں سول لاء ، شرعیہ لاء سمیت کئیقوانین نافذ العمل ہیں، اس طرح نہ تیتر اور نہ بٹیر والی صورتحال ہے، اس جمہوریت کو جو لوگکنٹرول کرتے چلے آ رہے ہیں، وہ پاکستان کی آرمی اور اسٹیبلشمنٹ ہے، جنہوں نے گزشتہ70سالوںسے جمہوریت کو اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے، وہی اقتدار پر پوری طرح قابض ہیں اور جبکبھی بھی جمہوری حکومتیں جمہور ان کے مفادات پر چھیڑ چھاڑ کرنے کا سوچتے ہیں تو یہ پھرسے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں، اس لئے آنے والی تمام جمہوریتوں کو ان کی ہی کٹھ پتلی بننا پڑتا ہے، اس اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص خاندان اور جاگیردار سیاسی پارٹیاں باقاعدہ غلام ہیں، اس طرحان قوتوں نے70سالوں سے جمہوریت کو اپنے دائرہ میں قید کررکھا ہے ،ملک میں امیر امیر تر اورغریب غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہمیں جو بھی مافیا ئیں نظر آتی ہیں، سب کیسب اس نظام اور اس اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں، اگر سچا جمہوری معاشرہ تشکیل پا جائے توایسی مافیائیں کبھی بھی اس نظام میں پنپ نہیں سکتیں، پاکستان میں سرمایہ داروں کی شوگرملز مافیائیں ہیں وہ جب چاہیں چینی کی قیمت بڑھا دیں، گندم کی مافیا جب چاہیں ملک میں آٹےکی مصنوعی قلت پیدا کر دیں اور قیمتوں کو آسمان تک چڑھا دیں، اس طرح سیمنٹ ،پٹرول،مافیائیں اپنا منہ کھولے بیٹھی ہوئی ہیں، اب کرونا کے بعد پاکستان سے خبریں آ رہی ہیں کہ دوائوںکی انڈسٹری مافیا نے اس بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوائوں کی قیمتیں کئی فیصد بڑھا دی ہیں،جبکہ حکومت نے ان مافیا کو ار دوام دیتے ہوئے دواوں کی قیمتوں کو حال ہی میں بڑھا دیا ہے اسطرح یہ استحصالی قوتیں انتہائی منظم ہیں، صرف اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کتنیہی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے ، اس طرح اسٹیبلشمنٹ اور ان کی غلام اور لونڈی قوتوں کی حوسکی قیمت غریب عوام کو ہی دینا پڑتی ہے، ایک طرف سیاسی حکمرانوں کی نااہلی کا سانحہ درپیشہے تو دوسری طرف نااہل، خود غرض، سیاسی قوتوں نے سول سروسز کے ڈھانچہ کو برباد کرکےرکھ دیا ہے، اس بربادی کی وجہ سے سول سروسز کو آئینی تحفظ سے محروم رکھا گیا ،وزیر اعظمذوالفقار علی بھٹونے بڑے بڑے کام کئے مگر جب آئین تشکیل پا رہا تھا تو اس وقت بھی اس کو شایدجان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ سیاستدان ان سول سروسز کےافسران کو اپنی وفاداری پر لگانا چاہتے تھے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے خادم بن کر کا م کریں تاکہ ان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکے، یعنی یہ کہ جو کچھ حکمران چاہیں وہ وہیکریں اورسول سروسز رولز ریگولیشن کے نام پر کوئی بھی انکے لیئے رکاوٹ نہ بن سکے، اس طرحملک میں کھلے بندوں قانون شکنی اور لوٹ مار کا کلچر پروان چڑھنے لگا، سول سروسز کے افسراننے بھی اس بہتی گنگا سے اپنا حصہ وصول کیا، لوٹ مار کے اس کلچر میں اخلاقی قدروں کاجنازہ نکل گیا اور مزید کئی اور مافیائوں نے اس نظام کے تحت نیا جنم لیا اور حکومتی انتظامیکارکردگی کا بیڑاغرق کر دیا گیا، ہمارے سامنے اس وقت یہ منظر موجود ہے، قومی اداروں کیکارکردگی زوال پذیری کا شکار ہے، نیچے سے اوپر تک رشوت ستانی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا،ریلوے پوسٹ آفیس، اسٹیل مل، ضلعی انتظامیہ، پی آئی اے، مقامی حکومتوں کے شعبہ ناکارہ ہوچکے ہیں اور اس ناکامی کا سارا وزن غریب عوام برداشت کررہے ہیں، وہی اس کی قیمت ادا کررہےہیں،سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی ڈھانچہ، انتظامی ڈھانچہ اور اخلاقی ڈھانچہ اب اپنے اپنےدائروں میں سفر کررہا ہے، اس لئے حکمران کوئی بھی آئے، کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، اس طرحعوام کو صرف چہرے کی تبدیلی پر لگایا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ بے وقوف بن کر رہ جاتے ہیں ، اسوقت عوام بے بس اور محرومی کے احساس تلے مغلوب دائروں میں یہ سفر جاری رکھے ہوئے ہے،جس طرح پہلے میں نے کہا کہ میڈیا جو کہ عوام کو درست سمت کا تعین کرنے میں بڑا مدد گارتھا،اب اس بیل کی آنکھ پر بھی مکمل اور مضبوط پٹی باندھ دی گئی ہے، میڈیا کو بھی دائروں کےسفر میں ڈال دیا گیا ہے، کسی کو بھی کسی کے دائرے میں جھانکنے کی اجازت نہیں،، مختلفدائروں میں بٹی ہوئی یہ قوم کس طرح تلاش کرے کہ اس کی منزل کیا ہے، اس کے لئے ضروری ہےہمیں اپنی آنکھوں سے اور اپنی عقلوں سے جو پٹی اسٹیبلشمنٹ نے باندھی ہوئی ہے ہم اسکو اتارپھینکیں اور شعور کے ذریعے اصل دشمن کو پہنچانیں اور قوم اور ملک کاہم درست سمت پر تعینکریں ،بصورت دیگر آنے والے وقتوں میں ہم اور ہماری نسلیں اسی دائرے کے سفر میں لگی رہیں گیاور منزل ان سے بھی کوسوں دور ہوگی اسلیئے یہ ایسے سوالات ہیں جنکے جواب آپکو معلوم ہونابہت ضروری ہیں اور یاد رکھیئے جو معاشرہ سوال کرنابھول جاتا ہے۔ وہ جواب کبھی نہیں  ڈھونڈسکتا، اسلیئے جو بھی ایسا سوال کرتا ہے اسکو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *