Home / جاگو کالمز / پناما کیس کا تماشہ اور عوام

پناما کیس کا تماشہ اور عوام

خدا خدا کر کے ایک عرصہ سے پاکستان کی عدالتوں میں چلنے والا پاناما کیس اختتام پذیر ہوا اس دوران پاکستانیوں کی محفلوں میں جہاں بھی جانا ہوتا ہر کوئی مجھ سے یہ سوال کرتا کہ آئندہ کیا ہو گا…؟
ویسے بھی یہ مقدمہ ایک عرصہ سے عوام الناس کے حواس پر چھایا ہوا ہے کہ کتنے ہی مہینوں کی پیشیوں کے بعد اور دو ماہ کیلئے جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کی رپورٹ آنے کے بعد مسلسل کئی روز تک عدالتوں میں اس مقدمہ سے متعلق سماعت ہوتی رہی اور اب اعلیٰ عدالت نے پناما کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔فیصلہ کیا آتا ہے یہ تو وقت بتائے گا لیکن جس طرح میں نے کہا کہ جب بھی مجھ سے یہ سوال ہوتا تو میرا سوال کرنے والے کو یہی جواب ہوتا کہ اس مقدمہ سے آپ کو بڑی امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہیں کیونکہ کسی شخص کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تبدیلی لانے کیلئے ہمارے ملک کا جو نظام ہے اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور مجھے یہ نظام تبدیل ہوتا نظر نہیں آ تا اگر عدالت نواز شریف کو نااہل قرار دے بھی دیتی ہے تو ان کی جگہ ان کا بھائی یا اور کوئی شخص وزیراعظم بن جائے گا حکومت پھر بھی نواز شریف ہی کرئے گا۔بہر کیف اس ضمن میں مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے کے لیے عوام نے بھی شاید سکھ کا سانس لیا ہو کیونکہ پورے ملک میں سینکڑوں نیوز چینل سے اس مقدمہ سے متعلق لمحہ بہ لمحہ رپورٹس جس طرح سے پیش کر رہے تھے اس کی وجہ سے پاکستان میں موجود عوام کا سانس تو بند تھا ہی بلکہ باہر رہنے والے میرے جیسے پاکستانی بھی پریشانی اور تجسس کا شکار تھے کہ نہ جانے پاکستان میں کیا کچھ ہونے والا ہے پاکستان کے ان چینل پر کبھی حکمران جماعت تو کبھی اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کو دھمکیاں دیتے ہوئے دکھایا جا رہا تھا تو کبھی سازشوں سے متعلق خبروں کو گرم کر کے پیش کیا جا رہا تھا کبھی کہا جا رہا تھا کہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا۔بہر کیف ایک تماشہ لگا ہوا تھا اور ہم سب اس کھیل کے تماش بین تھے جس نے ہم عوام کو معمول والی زندگی کو متاثر کر کے رکھا ہوا تھا اور یہ اثرات ملکی امور پر بھی نظر آ رہے تھے۔اس مقدمہ کی اہمیت اس لیے بھی تھی کہ اس ملک میں کیا واقعی حکمرانوں کا احتساب ہو گا…؟
اگر ہم پاکستان کی سابقہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسی مثال نہیں ملتی کہ کبھی عدالت نے حکمرانوں کو ان کے دور اقتدار میں اس طرح مقدمہ بازی کے ذریعہ احتساب کرنے کی کوشش کی ہو پاکستان پیپلزپارٹی کے دور میں یہ نظر آیا لیکن بعد میں سب نے دیکھا کہ اس مقدمہ کے ذریعہ کس طرح پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس نے فائدہ اٹھایا اس طرح پاکستان میں انصاف کا حصول واقعی جوئے شیر لانے سے کم نہیں تاہم یہ سابقہ رویات سے ہٹ کر ایک علیحدہ روایت ہے کہ حکمران خاندان کو عدالتوں میں اس طرح گھسیٹا گیا ہے جس سے عوام میں عدالتوں کیلئے اعتماد بھی پیدا ہوا ہے۔ہم یہاں امریکہ کے جس معاشرہ میں رہتے ہیں یہاں پر ایسا کچھ ہونا ایک معمول کی بات ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں یہ ہونا واقعی ایک معجزہ سے کم نہیں ہے ۔عوام سمجھ رہے ہیں کہ شاید ملک کی قسمت تبدیل ہونے جا رہی ہے اور قانون کی بالادستی قائم ہونے والی ہے اور عوام جب سے پاکستان بنا ہے سے تن سے لے کر اب تک اس انتظار میں ہیں۔خصوصا پاکستان نوجوان طبقہ یہی چاہتا ہے پاکستان میں تحریک انصاف پارٹی بھی اسہی مشن کو لے کر آگے آئی اور انصاف اور برابری کا نعرہ بلند کیا دیکھتے ہی دیکھتے یہ پارٹی ایک بڑی پارٹی میں تبدیل ہوئی حکومت اور تحریک انصاف میں تصادم جاری تھا ایک جانب حکمران طبقہ تو دوسری جانب نوجوان جو کہ پہلے انتخابات میں دھاندی کی شکایت کو دور کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے اور اب ان کا مطالبہ احتساب تھا،عدلیہ نے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کیا۔مضبوط عدلیہ ملک میں جمہوریت کے تسلسل اور معاشرہ کے استحکام کیلئے انتہائی ضروری ہوتی ہے۔مغربی ممالک میں عوام کا اپنی حکومتوں اور عدلیہ پر اعتماد اس ملک کے استحکام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اور یہ حقیقت بھی ہے کہ کوئی بھی ریاست وہ چاہے کتنی ہی امیر کیوں نہ ہو لیکن اگر وہاں پر قانون کی بالادستی نہ ہو تو وہاں پر رہنے والے عوام کا وہ ہی کسی صورت اعتماد حاصل نہیں کر پاتی ہے۔عوام کا یہ سوچنا درست ہے کہ ہمارا ملک ہر قسم کی معدنیات سے مالا مال ہے۔سمندر سے لے کر برفانی پہاڑی چوٹیوں،دریا،نہر اور زرخیز زمین سب کچھ ہمارے پاس موجود ہے۔ہمارے پاس تیل اور گیس سمیت کتنے ہی معدنی وسائل موجود ہیں لیکن ترقی کی مد میں ہم سب پیچھے رہ گئے ہیں نااہل قیادتوں نے ملک کو ترقی کی اس دوڑ میں بالکل پیچھے لا کھڑا کیا ہے ہمارا پڑوسی ملک بھارت کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے وہاں پر بھی سیاستدان کرپشن کرتے ہیں تاہم وہ کرپشن کرتے ہوئے خوف بھی کھاتے ہیں ۔آج ہمارے پاکستان کی آبادی جس میں ساٹھ فیصد ایسے لوگ اور خاندان آباد ہیں جو کہ غربت کی لکیر سے نیچے اپنی زندگیاں بسر کر ہے ہیں ان کو کھانے کیلئے مناسب خوارک نہیں وہ پینے کے پانی تک کیلئے محروم ہیں صحت علاج معالجہ کی سہولتیں ان سے کوسوں دور ہیں۔اس جدید دور میں بھی ہماری نسلیں جہالت کے سمندر میں غرق ہیں اس کا سبب عوام کے یہی لیڈران ہیں جو کہ عرصہ دراز سے حکومت کرتے چلے آ رہے ہیں اس میں فوجی حکام ہوں کہ سیاستدان تمام کے تمام برابر کے شریک ہیں ہماری اسٹبلشمنٹ(فوج) نے جس طرح سیاستدانوں کی پرورش کی اور ان کو پروان چڑھایا یہ سب کچھ اس کا ثمر ہی ہے۔فوج کی کوکھ سے جنم لینے والے ان سیاستدانوں نے عوام کی زندگیاں بہتر بنانے کے بجائے اپنی تجوریاں بھریں اپنے من پسند لوگوں کو نواز میرٹ کی دھجیاں اڑائیں۔ان کی خواہش رہی کہ اعلیٰ عہدوں پر ایسے افراد کا تقرر کیا جائے جو کہ ان کے حکم پر غلط کو درست اور درست کو غلط کر سکیں۔اس لیے ان تمام باتوں کا احتساب ضروری ہے اور احتساب صرف حکمران خاندان تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر ایک سیاستدان کا احتساب ضروری ہے۔جس نے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ان کی دولت کو لوٹا اور اس ملک کو ترقی کے راستے سے ہٹا دیا۔پاکستان میں واقعی احتساب کے عمل کو بہتر سے بہتر تر کرنے کی ضرورت ہے۔دیر آئید درست آئید کے مصداق اگر ہماری اسٹبلشمنٹ اگر ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے اب ایسے شفاف سیاستدانوں کو آگے لانا چاہتی ہے تو یہ اقدام قابل ستائش ہے اس وقت ملک میں کرپشن کے خلاف سخت سے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے ۔اس ضمن میں حال ہی میں سندھ اسمبلی سے پاس ہونے والا نیب سے متعلق بل بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے تمام چور سیاستدانوں نے یہ بل اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے پاس کرایا ہے اس کو بھی عدالت میں لے جایا جائے تا کہ وہ اس بل کو ختم کرنے کے احکامات صادر کرئے کیونکہ یہ چور سیاستدان کسی صورت نہیں چاہیں گے کہ ان کا احتساب ہو۔پاکستان میں اس وقت جو حالات ہیں اس میں مارشل لاء آنے کے امکانات بہت کم ہیں ویسے بھی پاک افواج سرحدوں پر مصروف ہے ان کے پاس شہری نظام کو سنجھالنے کیلئے اضافی دستہ بھی نہیں جبکہ فوج کے اعلیٰ عہدیداران بھی اس ضمن میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ویسے بھی کئی سیاسی پارٹیاں اس انتظار میں ہیں کہ مارشل لاء آئے تاکہ ان کی کرپشن اور دیگر کاموں سے عوام کی توجہ ہٹ جائے اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ مظلوم بن کر عوام کے سامنے آئیں اور ان سے ووٹ لے سکیں بہر کیف پاکستان واقعی ایک نئی ڈگر پر چل رہا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ اس ضمن میں اپنا بھرپور کردار ادا کرئے کیونکہ پاکستانی معاشرہ میں ایماندار ہونا فرشتہ ہونے سے کم نہیں یہ فوج عدالتیں اور سیاستدان اسہی معاشرہ کا حصہ ہیں لیکن اب جو نسل آ رہی ہے وہ پاکستان کو تبدیل کرنا چاہتی ہے لیکن مجھے اس ضمن میں کوئی بڑی تبدیلی فی الحال ہوتے نظر نہیں آ رہی ہے لیکن یہ امر خوش آئیند ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ماضی کی روایات سے ہٹ کر ہے ۔سیاستدانوں کو بھی اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ وہ دن چلے گئے جب لوٹ مار کرتے تھے اور کوئی بولنے والا نہیں ہوتا تھا اب ہر کوئی بول رہا ہے عوام الناس میں اب یہ شعور بیدار ہو چکا ہے اور یہ شعور ہی پاکستان کے بہتر اور اچھے مستبقل کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔پناما کیس کا تماشہ بند ہوا اب عمران خان پر عائد الزمات پر مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے لیکن دوسری جماعتوں جس میں پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری بھی شامل ہیں ان کا عدالت کب احتساب کرے گی یہ ایک سوال ہے اس ضمن میں عدالت جو بھی فیصلہ کرئے لیکن کیا عوام آئیندہ انتخابات میں واقعی تبدیلی لے کر آئیں گے یہ وقت ہی بتائے گا لیکن جہاں پر عوام میں تعلیم نہ ہو تو وہاں پر عوام سے بھی بڑی امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتیں کیونکہ ماضی میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے لیکن عوام ہی ہے جو حقیقاً تبدیلی کے اس
شعر میں اتنے ووٹ کے ذریعہ اس اصل تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتی ہے۔

Check Also

ناشتہ کیے بغیر بھوکے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ قرار

امریکا سمیت دیگر ممالک کے ماہرین کی جانب سے بھوک کے صحت اور خصوصی طور …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *