Home / جاگو پاکستان / پی آئی سی واقعہ افسوسناک، جو کچھ ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا، چیف جسٹس

پی آئی سی واقعہ افسوسناک، جو کچھ ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا، چیف جسٹس

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے لاہور کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں پیش آنے والے واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

اسلام آباد میں فوری اور سستے انصاف کی فراہمی سے متعلق قومی کانفرنس کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ میں پہلے لاہور کے پی آئی سی میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے پر بات کرنا چاہوں گا۔

خیال رہے کہ 11 دسمبر کو لاہور میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں مبینہ طور پر وکلا نے ہنگامہ آرائی کر کے ہسپتال کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ کی تھی جس کے باعث طبی امداد نہ ملنے سے 3 مریض جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے جبکہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعے کا نوٹس لے لیا تھا۔

جس کے بعد پی آئی سی پر حملے کے بعد پولیس نے 81 وکلا کو گرفتار کرلیا تھا، لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 46 وکلا کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا تھا جبکہ پولیس کی جانب سے پی آئی سی پر حملے کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق پولیس کی درخواست مسترد کردی تھی۔

اس معاملے پر آج دوران خطاب چیف جسٹس نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہے، لہٰذا میں کوئی ایس بات نہیں کہوں گا جو اس معاملے کے میرٹ اور فریقین کے موقف سے ٹکرائے۔

تاہم چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ ہم سب سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا اور یہ بہت افسوسناک اور المناک تھا، تاہم ہمارے دل متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں امید ہے اور ہم دعا کرتے ہیں کہ قانون اور طبی پیشے سے وابستہ افراد اپنے اقدار کی پیروی کریں گے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ میرا ہمیشہ سے یہ ماننا ہے کہ قانون اور طب معزز ترین پیشے ہیں اور اس پیشے سے جڑے وقار کو برقرار رکھنے کے لیے ہر کوشش کرنی چاہیے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو سب ہوا وہ المناک، ناقابل یقین اور حیران کن تھا، اس افسوناک واقعے نے بھی ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم خوداحتسابی کا عمل کریں اور دونوں شعبوں سے منسلک گراں قدر خدمات کو ذہن میں رکھیں، امید ہے کہ اس طرح کے واقعات مستقبل میں پیش نہیں آئیں گے۔

‘ہم نے سوچ لیا کہ تھا کہ ہم بغیر لڑے نہیں جھکیں گے’

علاوہ ازیں تقریب میں ماڈل کورٹ پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کہانی بہت طویل ہے لیکن اس کے لیے وقت بہت کم تھا تاہم ہم نے بہت سے برج عبور کرے اور ہم سب میں ایک چیز عام تھی کہ ہم نے کچھ کرنا ہے اور ہم بغیر لڑے نہیں جھکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے ہمیں لوگوں کی خدمت کا موقع دیا اور ہم اس موقع کو ضائع کرنے کا موقع نہیں دے سکتے تھے، میرے اندر بلوچ خون مجھے مجبور کرتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا کرنا ہے جو بھلائی اور خیر کا ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے لیے ہم نے 2 چیزوں پر توجہ مرکوز کی۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم پر کچھ عرصے پہلے تک یہی تہمت تھی کہ ٹرائل کورٹ کا نظام انتقال کرچکا ہے اور یہ غیرفعال ہوگیا ہے، تاہم ہم نے امید نہیں ہاری، ہم نے کوشش کی اور تہیا کرلیا کہ ہم نے اس حالت کو بدلنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بدلنے میں 2 امکانات تھے کہ یا تو کوئی قانونی اصلاحات کی تجویز دیں، جس طرح ہماری تاریخ میں قانون، طریقہ کار، عدالتی نظام کو بدلنے کے لیے 15 سے 20 کمیشن بن چکے ہیں اور یہ سب تجاویز کتابوں میں دفن ہوگئیں، لہٰذا ہم نے کہا کہ ہم نے یہ کام نہیں کرنا بلکہ اسی نظام اور قانون سے راستے نکالنے ہیں۔

اپنی بات میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے سوچھا کہ کوئی ایسا راستہ نکالنا ہے کہ اللہ اسی میں سے کسی مردے کو جنم دے دے اور اللہ کی بڑی مہربانی ہے کہ اس نے ہمیں ہدایت فرمائی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے 2 بنیادی باتوں کو ہم نے اٹینڈ کیا، پہلا یہ کہ جو رول اوور سسٹم کیسز تھے جس میں 40 سے 50 کیس ساتھ چل رہے، ایک ہی دن میں ایک کیس میں گواہ، دوسرے میں دوسرا گواہ ہورہے ہیں، تیسرے میں متفرق درخواست کا فیصلہ ہورہا ہے اور چوتھے میں کچھ اور ہورہا ہے تو ہم نے سوچا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں جو فعال اور نتیجہ دینے والا نظام ہے اس میں یہ سسٹم نہیں ہے، تاہم ہمارے یہاں بہت صبر والے لوگ ہیں آپ جو بھی تاریخ دے دیں گے وہ انتظار کرلیں گے لیکن جب وہ تاریخ آجائے تو مزید انتظار نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سوچا کہ رول اوور سسٹم نہیں بلکہ مستقل ٹرائل سسٹم ہونا چاہیے جبکہ دوسری بنیادی بات جو ہم نے لی وہ یہ ریاست کے کیسز سے متعلق تھی۔

‘ریاستی کیسز میں ثبوت اور گواہوں کو لانے کی ذمہ داری ریاست کی ہے’

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریاست کے کیسز میں ریاست مدعی ہے اور ثبوت اور گواہوں کو لانے کی ذمہ داری ریاست کی ہے لیکن کچھ عرصے سے یہ ذمہ داری مدعی پر ڈال دی گئی جو غلط سسٹم ہے، پولیس اور ریاست کو ریاست کے کیسز کی ذمہ داری لینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ دو بنیادی فیصلے تھے جس سے زمین اور آسمان کا فرق پڑا اور ہمارا ایک ایک ماڈل جج اس بات کی تصدیق کرے گا کہ اب ریاست اور پولیس گواہوں کو لاتی ہے۔

دوران خطاب چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے پولیس افسران کو کہا کہ اپنی ذمہ داری اٹھائیں اور اب پولیس ان گواہوں کو بھی اٹھا کر لے آتی ہے جو ایک ایک سال سے نہیں ملتے تھے اور ان کا بیان ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ چالان جمع کرانے کا بھی پولیس سے تعلق تھا اور ہم نے نظام بنایا ہے کہ 17 روز میں عبوری چالان جمع ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک نیا نظام شروع کیا کہ اگر ٹرائل 3 یا 4 دن چلنا ہے تو جس دن جو ہوا جج اسی دن فیصلہ لکھنا شروع کردیں گے، اسی طرح ہم نے سپریم کورٹ میں بھی التوا نہ دینے کی پالیسی شروع کی اور 5 سال سے میری بینچ میں کوئی التوا ہی نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 25 سال کا جو کرمنل اپیلوں کا بیک لاک تھا وہ ٹوٹ چکا ہے اور سپریم کورٹ میں بھی وہی حالت ہے جو 28 ضلعوں کی ٹرائل کورٹ میں ہے کہ وہاں کوئی زیرالتوا اپیل نہیں ہے۔

اپنے خطاب میں چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ 208 روز میں ایک لاکھ 15 ہزار ٹرائل مکمل ہوسکتے ہیں تو اگر اسی رفتار سے چلیں تو ملک میں زیر التوا کیسز کا خاتمہ چند برسوں کی بات ہے اور ہم نے ایک ایسی ٹیم اور ماحول بنایا ہے کہ یہ خود سے کرنے والا طریقہ بن گیا ہے اور یہ انشااللہ یہ اسی رفتار سے چلتا رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس طرف جارہے ہیں کہ 25 سے 30 ضلعوں میں کوئی کیس زیر التوا نہیں، جس وقت کیس آتا ہے جج اسی وقت مستعدی سے اسے سن کر 5 سے 7 روز میں ٹرائل مکمل کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

تنقید کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لوگ یقین نہیں کرتے کہ ایسا ہوا ہے اور جب انہیں یقین نہیں آتا تو وہ کہتے ہیں کہ کچھ گڑبڑ ہے یا ہم سے جوٹ بولا جارہا ہے۔

‘تبدیلی وہی لاتے ہیں جو خطرہ مول لینے کو تیار ہوتے ہیں’

انہوں نے کہا کہ جب یہ بات ہوئی تو ہم نے پاکستان بار کونسل کے ایک اعلیٰ سطح وفد سے کہا کہ آپ اپنی ٹیمیں بنائیں اور ماڈل کورٹس میں جاکر بیٹھ جائیں اور خود دیکھ لیں اور آج میں مکمل اعتماد سے بتاؤں کہ 6 ماہ میں کوئی شکایت نہیں آئی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ میں نے اور میرے 2 ججز نے کہا کہ ہم ماڈل کورٹس پر انٹرنیٹ کے ذریعے چھاپہ ماریں گے اور ہم نے خفیہ طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے کنیکٹ کرکے ایک گھنٹے تک ملک کے 4 مختلف کورٹس کی کارروائی دیکھتے رہے اور ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ تو ہائی کورٹ کے ججز لگ رہے تھے، اتنا اچھا ٹرائل ہورہا تھا اور ہم بہت متاثر ہوئے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ جو کام اچھا ہورہا ہو اسے آگے بڑھانا چاہیے تاہم ہمارے ہاں منفی رائے دینے میں لوگ تھوڑی خوشی محسوس کرتے ہیں اور بے جا تنقید ہوتی ہے، جس سے ہماری دل شکنی ہوتی ہے تاہم ہمارے حوصلے میں کبھی کمی نہیں آئی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 1984 سے درخواستیں زیر التوا تھیں جو ختم ہوگئیں، اس وقت 2019 کی اپیلیں آتی ہیں، لہٰذا یہ جنون اور جذبہ کسی بھی چیز کے لیے ضروری ہے۔

آخر میں ان کا کہنا تھا کہ تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں جو خطرہ مول لینے کو تیار ہوتے ہیں، ہم کی نیت ٹھیک ہے تو اللہ کی مدد ساتھ ہوگی، آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کرنے والا کام ہے تو کر گزریں۔

چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماڈل کورٹس ججز نے انصاف کے ادارے کر باعزت بنا دیا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ لیوی نے بھی ہماری بہت مدد کی۔

Check Also

ادویات کی قلت پر خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع کیلئے ایمرجنسی ادویات روانہ

وزیر صحت خیبر پختونخوا سید قاسم علی شاہ نے ہسپتالوں میں ادویات کی غیرموجودگی پر …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *