Home / تازہ ترین خبر / بھارتی انتخابات میں بی جے پی کی سونامی اور علاقائی امن کے امکانات

بھارتی انتخابات میں بی جے پی کی سونامی اور علاقائی امن کے امکانات

بھارتی انتخابات میں بی جے پی کی سونامی اور علاقائی امن کے امکانات
ڈاکٹرقیصرعباس
(ڈاکٹرقیصرعباس پاکستانی نژاد دانشور ہیں جو امریکہ کی کئی یونیورسیٹیز میں پروفیسر، ڈائریکٹر اور اسسٹنت ڈین رہ چکے ہیں )

انڈیاکے حالیہ انتخابات میںبھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) بھاری اکژیت کے ساتھ ایک مضبوط قومی پارٹی بن کرابھری ہے۔ پنجاب اور جنوبی ریاستوں تامل ناڈو اور کیرالہ کے علاوہ جہاں کانگریس کو کامیابی حاصل ہوئی ہے، بی جے پی نے ملک کے بیشتر حصوں میں زبر دست کامیابی حاصل کی ہے۔ یہاں تک کہ مغربی بنگال اور بہارمیں ، جہاں ترقی پسند جماعتیں ہمیشہ کامیاب ہوتی رہیں ہیں، اب نرندر مودی کا طوطی بول رہاہے اور وہ ایک بار پھر بلا شرکت غیرے دہلی کے تخت پر براجمان ہونے جارہے ہیں۔
مودی کی یہ کامیابی کچھ ایسی بھی غیر متوقع نہیں تھی کہ جس انداز میں انہوں نے اوران کی پارٹی نے انتخابات کی مہم چلائی وہ بلاشبہ ملک کی سیاسی شہ رگ پران کی مضبوط گرفت اور انتخابی داﺅ پیچ میں مہارت کی آئینہ دار ہے۔ دوسری جانب انتخابات کے نتائج کانگریس پارٹی کی غیرموثرانتخابی مہم، سیاسی ناپختہ کاری اور عوام سے بڑھتے ہوئے فاصلوں کی غمازبھی ہیں۔
بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھی جس کے اہم پہلوتھے اپنی گزشتہ پانچ سال کی کارکردگی کا جائزہ ، ووٹروںکی اکثریت کے بڑھتے ہوئے اندیشوں کی نشاندہی،اہم سماجی اور مذہبی گروپ بندیوں کا ادراک، ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال اور ان سب عوامل کی بنیاد پر انتخابی مہم کی جدید اصولوں پر تشکیل ۔
گزشتہ پانچ سال میں بی جے پی کی حکومت معاشی استحکام ، غربت کے خاتمے اور نوجوانوں کی بے روزگاری پرقابوپانے میں بری طرح ناکام ہوئی۔ اسی عرصے میں زرعی پیداوار میں مسلسل کمی نظرآئی اور قرضوں سے پسے ہوے کسانوں کی ایک بڑی تعداد نے خودکشی کی ۔
ان تمام مسائل کی موجودگی میں حکمران جماعت نے انتخابات جیتنے کے لئیے ایک نئی حکمت عملی کے تحت پچھلے پانچ برس کے سنگین مسائل کا ذکرہی انتخابی مہم کے بیانیے سے خارج کردیا جن کا دفاع پارٹی کو مشکل میں ڈال سکتاتھا ۔ بی جے پی کے رہنماوں نے اقلیتوں کونشانہ بناکر ہندو اکثریت کے ووٹ حاصل کیے ۔بابری مسجد پر رام مند ر بنانے کا عزم اسی حکمت عملی کا مظہر تھا جسے تما م سطحوں پر پورے زورشور سے اچھال کر مسلمانوں کو انتخابی سرگرمیوں سے علیحدہ کیاگیا۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا عندیہ دیاجاتارہا جس کے تحت خطے کو آئینی مراعات حاصل ہیں۔
علاقائی سطح پر پاکستان نشانے پرتھا جس کی آڑ میں مودی نے ملکی سا لمیت کو ایک اہم انتخابی مسئلہ بنادیا۔ اسی دوران پلوامہ کا خودکش حملہ بھی حکمراں پارٹی کے لیے امید کی کرن بن کر ابھرا جس کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کا عزم اور دشمن سے انتقام ہر سیاسی بیانئے کا جزو بن گئے۔ پاکستان میں بالاکوٹ کے مقام پر بھارتی طیاروں کی بمباری بھی ہندو قوم پرستی کو مزید ہوا دینے میں کارآمد ثابت ہوئی اور مودی کو ایک ایسے طاقتوررہنما کے طورپرپیش کیاگیا جوموثرطورپر ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
بی جے پی نے بڑی مہارت سے روائتی اور جدید زرائع ابلاغ کو انتخابی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ انتخابات سے پہلے کچھ ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ جیسے اظہار رائے کا حق صرف ان ہی لکھاریوں، نامہ نگاروں اور ٹی وی میزبانوں کو حاصل ہے جو حکمرانوں کے حامی ہوںاور دوسری پارٹیوں کی بات کرنے والے یا غیرجانبدار تجزیہ کار غدار کہلائے۔ ٹی وی، ریڈیو، اخبارات، رسائل، اور بل بورڈ زپر بی جے پی اورمودی ہی راج کررہے تھے۔ حکمران جماعت نے بالی وڈ کے فنکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو بھی اس بار سیاسی مہم کاباقاعدہ حصہ بنایا۔ مقبول فلمی ستاروں کو پارٹی ٹکٹ دئے گےے جن میںسنی دیول، سمرتی ایرانی اور ہیما مالنی جیسے فن کارانتخابات میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ سمرتی ایرانی نے توکانگریس کے روایتی گڑھ امیتھی میں راہول گاندھی کوشکست دے کر سیاسی پنڈتوں کوبھی حیرت میں ڈال دیا۔
اس صورت حال کے پس منظر میں جہاں حکمران جماعت نے ہر قسم کے علاقائی اور مذہبی تعصبات کو ہوادے کر اپناہندو ووٹ بنک مستحکم کیا وہاں کانگریس پارٹی گزشتہ پانچ سال کے دوران حکومت کی مایوس کن کارکردگی کو موثر انداز میں اجاگر کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ اگرچہ کانگریس کا انتخابی منشو ر مذہبی ہم آہنگی، قومی اتحاد، سماجی مساوات، مسئلہ کشمیر اوربیروزگاری جیسے مسائل کا معقول حل پیش کررہاتھا لیکن وہ اس منشور کو ووٹروں کی سوچ کا حصہ نہ بناسکی۔
بھارت میںبی جے پی کی سیاسی سونامی عالمی پیمانے پر ایک ایسی لہر کا حصہ بھی نظرآرہی ہے جہاں امریکہ اور یورپ میں رجعت پسند جماعتیں قوم پرستی کی بنیاد پر اقتدار میں آئی ہیں۔ بھارت میںبھی جہاںکچھ عرصہ پہلے تک ثقافتی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو ریاست کا بنیادی ستون سمجھا جاتا تھا، مودی کی پالیسیوں اورحالیہ انتخابات کے بعد ایسا لگتاہے کہ آنے والے پانچ سال ملک کی اقلیتوں اور مسلمانوں کے لئے آسان نہیں ہوں گے۔
داخلی محاز پر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کے بعد مودی اب عالمی سطح پربھی اپنی ساکھ بنانا چاہیں گے تاکہ انہیںایک عالمی رہنما کے طورپریاد رکھا جائے اوربھارت ایک علاقائی طاقت کے طور پر سامنے آسکے۔ لیکن اس راہ میں پاکستا ن سے تعلقات اور کشمیرکا مسئلہ بہت بڑی رکاوٹیں ہیں۔کشمیر میں امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور انسانی حقوق کی پامالی پر اب عالمی سطح پربھی تشویش پائی جاتی ہے اور ان مسائل کوحل کئے بغیربھارت کا ایک عالمی طاقت بننے کاخواب ناممکن دکھائی دیتاہے۔
اس نئی ؑعلاقائی صورت حال میں پاک بھارت مذاکرات کی راہ ہموار ہوتی نظر آرہی ہے۔ جہاں بھارت میںبی جے پی بھاری اکژیت کے ساتھ حکومت بنارہی ہے وہاں پاکستان کی تاریخ میںپہلی مرتبہ سول حکومت اورفوجی قیادت میں ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔ان حالات میںدونوں ملکوں کے درمیان سنجیدہ مشاورت کے مواقع پیداہوسکتے ہیںاور اگر ایسا ہوا تو یہ اس خطے میںامن کے قیام کے لئے ایک اچھی خبر ہوگی۔

ّّّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Check Also

غزہ کی صورتحال عالمی نظام کی مکمل ناکامی ہے، سعودی وزیرخارجہ

سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ غزہ کی صورتحال عالمی نظام …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *