Home / جاگو کھیل / کرکٹ میں نسلی تعصب کب جرم بنا اور سزا کس کس کھلاڑی کو ہوئی؟

کرکٹ میں نسلی تعصب کب جرم بنا اور سزا کس کس کھلاڑی کو ہوئی؟

ان دنوں پاکستان کرکٹ ٹیم جنوبی افریقا کے دورے پر جہاں ٹیم ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز کے بعد ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی شکست کھا چکی ہے۔ قومی ٹیم ناقص کارکردگی کی وجہ سے پہلے ہی تنقید کے زد میں تھی اور سونے پر سہاگا کپتان سرفراز احمد نے حریف کھلاڑی پر نسل پرستانہ فقرے ادا کرکے کرکٹ حلقے میں ہلچل مچادی۔

قومی ٹیم کے قائد نے دوسرے میچ میں میزبان ٹیم کے سیاہ فام کھلاڑی فیلوک وائیو کی اچھی پرفارمنس پر جو تاثرات دیے، وہ اسٹمپ مائیک میں ریکارڈ ہوگئے۔بعد میں سرفراز احمد نے نسلی تعصب پر مبنی جملے ادا کرنے پر فاسٹ بولر فیلوک وائیو سے معافی بھی مانگی۔ کپتان فاف ڈوپلیسی اور فیلوک وائیو نے سرفراز کو معاف کردیا لیکن آئی سی سی نے سرفراز احمد پر انسداد نسل پرستی ایکٹ کے آرٹیکل 7.3 کے تحت 4 میچز کی پابندی عائد کر دی، جس کے بعد وہ وطن واپس آگئے۔

کھیلوں کی دنیا میں سخت اور تلخ جملوں کا تبادلہ ،نوک جھوک، لڑائی جھگڑے، گالم گلوچ ،تعصب اور نسل پرستی عام مسئلہ ہے۔ 2007 میں ہیومن رائٹس اینڈ ایکول اپورچونیٹی کمیشن (ایچ آر ای او سی) نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق انٹرنیشنل اسپورٹس میں حریف کھلاڑیوں کو گالی دینا، جملے کسنا، نسل پرستانہ فقرے کہنا عام بات ہے۔

جنوبی افریقا میں نسلی تعصب اور نارواسلوک کے خلاف سیاہ فاموں کی جانب سے کافی عرصے تک جدوجہد کی گئی۔ بیسویں صدی میں 1948ء سے 1994 تک جنوبی افریقا میں ایک سیاسی نظام ’’اپارتھائیڈ ‘‘ نافذ تھا۔ اس نظام کے تحت جنوبی افریقا کے لوگوں کو نسلی اعتبار سے تقسیم کیا گیا تھا۔ ملک میں سیاہ فام افراد تعداد میں ذیادہ تھے لیکن حکومت سفید فاموں کی تھی۔ اس نسل پرست حکومت کے آخری صدر فریڈرک ولیم ڈی کلارک تھے۔

1994 میں اس نسل پرست سیاسی نظام کا خاتمہ ہوا جس میں سب سے اہم کردار عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کا تھا، جنھوں نے اپنی قوم کے خلاف ہونے والے نسلی تعصب اور ان کے جائز حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ انہوں نے مسلسل 27 سال جیل میں گزارے لیکن اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ نیلسن منڈیلا کی طویل پرامن جدوجہد کے نتیجے میں جنوبی افریقا میں نسلی امتیاز کا خاتمہ ہوا اور سیاہ فام کو سفید فام کے برابر حقوق حاصل ہوئے اور انھیں غلامی کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نجات مل گئی۔ اس کے ساتھ ہی رہوڈیشیا (موجودہ زمبابوے) بھی نسل پرستی سے آزاد ہوا۔

1970 میں جب جنوبی افریقا میں اینٹی اپارتھائیڈ موومنٹ مہم چلائی جارہی تھی اس وقت آئی سی سی نے جنوبی افریقا کرکٹ ٹیم پر بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں شرکت پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔1991 میں آئی سی سی نے بطور ٹیسٹ ٹیم جنوبی افریقا کو بحال کیا۔

‘آئی سی سی کی انسداد نسل پرستی پالیسی’ 

آئی سی سی نے کرکٹ کی دنیا کو نسلی تعصب سے پاک رکھنے کے لیے 2012 میں انسداد نسل پرستی پالیسی بنائی۔اس پالیسی میں آئی سی سی نے نسلی تعصب کی حوصلہ شکنی کے لیے سخت قوانین متعارف کروائے تھے۔ قوانین کے مطابق نسل پرستانہ رویہ پہلی دفعہ دکھانے پر کرکٹر کو دو سے چار ٹیسٹ یا محدود اوورز کے چار سے آٹھ میچوں کی پابندی کا سامنا ہوگا جب کہ دوبارہ اس جرم کے ارتکاب پر تاحیات پابندی بھی لگ سکتی ہے۔اتنے سخت قوانین کے موجودگی کے باوجود کئی کھلاڑی اپنے جذبات پر قابو رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔

ڈرین لیمن – سزا پانے والا پہلا کرکٹر

دنیائے کرکٹ میں نسل پرستانہ فقرے کہنے کی پاداش میں سب سے پہلےسابق آسٹریلوی بیٹسمین اور کوچ ڈرین لیمن کو سزا ہوئی۔ متعصبانہ جملے اداکرنے پر ڈرین لیمن کو 5 ون ڈے میچز کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے 2003 میں سری لنکا کے خلاف ون ڈے میچ میں رن آؤٹ ہونے کے بعد ڈریسنگ روم جاتے ہوئے حریف کھلاڑیوں پر نسل پرستانہ جملے کسے جسے سری لنکن حکام نے بھی سنا۔ آئی سی سی نے ان پر پابندی عائد کی اور وہ 2003 ورلڈ کپ کے ابتدائی میچز میں شرکت کرنے سے محروم رہے۔

ڈین جونز نے ہاشم آملہ کو ’’دہشت گرد‘‘ کہا

2006 میں جنوبی افریقا کی ٹیم سری لنکا کے دورے پر تھی، جنوبی افریقی کھلاڑی ہاشم آملہ نے دوسرے ٹیسٹ کے چوتھے دن کمار سنگاکارا کا کیچ لیا۔ کیمرہ بہت ہی زبردست کیچ پکڑنے والے ہاشم آملہ پر مرکوز تھا، اسی دوران آسٹریلیا کے سابق کرکٹر اور کمنٹیٹر ڈین جونز ،جو کھیلوں کے چینل ’’ٹین اسپورٹس پر کمنٹیٹر پینل کا حصہ تھے،کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’دہشت گرد نے ایک اور وکٹ لے لی۔‘

اس جملے کے فوراً بعد ہی میزبان براڈ کاسٹرز نے کمرشل بریک لیا لیکن ڈین جونز کا بیان مائیکرو فون میں ریکارڈ ہوچکا تھا۔دوسری جانب جنوبی افریقا کے ٹی وی چینل نے بھی ان کے بیان کو ریکارڈ کر لیا۔ ڈی جونز نے اپنے اس بیان پر ہاشم آملہ سے معافی تو مانگی لیکن ٹین اسپورٹس کی انتظامیہ نے اس معاملے پر سخت رد عمل دکھاتے ہوئے ڈین جونز کو نوکری سے فارغ کر دیا۔

ہرشل گبز اور پاکستانی ٹیم

جنوری2007 میں جنوبی افریقی کھلاڑی ہرشل گبز بھی اس جرم کے مرتکب ہوئے۔ وہ پاکستان کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ کے دوران اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے اور حریف کھلاڑیوں اور شائقین پر نازیبا جملے کسے۔ اسٹمپ میں لگے مائیک نے ان کی باتوں کو ریکارڈ کر لیا۔

بعدازاں ہرشل گبز نے اپنے اس رویے اور نازیبا جملے پر معافی بھی مانگی لیکن وہ آئی سی سی کے کوڈ آف کنڈکٹ کی شق 3.3 کے تحت جرم کے مرتکب قرار پائے اور آئی سی سی نے ان پر دو میچز کی پابندی عائد کی۔

ہربھجن سنگھ ،اینڈریو سائمنذز اور ’منکی گیٹ‘

جنوری 2008 میں آسٹریلیا کے اینڈریو سائمنذز نے بھارتی اسپنر ہربھجن سنگھ کی شکایت کرتے ہوئے ہوئے کہا کہ دوسرے ٹیسٹ کے تیسرے دن میچ کے دوران انھیں’بندر ‘ کہا گیا۔ جس کے بعد ہربھجن سنگھ پر 3میچز کی پابندی عائد ہوگئی ۔

دوسری جانب بھارتی کرکٹ بورڈنے آئی سی سی سے میچ ریفری مائیک پروکٹر کے فیصلے کے خلاف اپیل کی ۔ آئی سی سی نے ہربھجن سنگھ پر تین میچز کی پابندی کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے انھیں نازیبا اور غیر مہذب زبان استعمال کرنے پر میچ فیس کا 50 فیصد جرمانہ عائد کر دیا۔

فواد احمد کی کٹ

2013 میں کرکٹ آسٹریلیا نے، پاکستانی نژاد فواد احمد کو نسلی تعصب کا نشانہ بنانے والے مداحوں پر برہمی کا اظہار کیا۔ لیگ اسپنر فواد احمد نے کرکٹ انتظامیہ سےان کے کٹ(شرٹ ) میں بیئر کمپنی کا برانڈ VBکا لوگو نہ لگانے کی درخواست کی تھی جس پر کرکٹ آسٹریلیا نے ان کی درخواست منظور کر لی لیکن سوشل میڈیا پر فواد احمد کے عقیدے پر سخت تنقید کی گئی۔تاہم بورڈ نے اس معاملے میں فواد احمد کا بھرپور ساتھ دیا ۔

مارک ورمولین اور’بندر‘

2015میں سابق زمبابوین ٹیسٹ کرکٹر مارک ورمولین پر سیاہ فام افراد کے خلاف نسل پرستانہ جملے کسنے پر کرکٹ کی تمام  سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ انھوں نے فیس بک پر ملک کے سیاہ فام افراد کو ’بندر‘ کہا تھا۔

’اپنے ملک واپس جاؤ، کریگ اورٹن’

2015میں انگلش فاسٹ بولر کریگ اورٹن نے پاکستانی نژاد اشعر زیدی کو گالی دی اور نسلی تعصب کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کاؤنٹی چیمپئن شپ کے ایک میچ کے دوران سسیکس کے کھلاڑی اشعر زیدی کو کہا کہ ’اپنے ملک واپس جاؤ‘ ،جس کے بعد ان پر دو میچ پر پابندی عائد کردی گئی۔

‘ماجد حق کو وطن بھیج دیا گیا’

اسکاٹ لینڈ کےاسپنر ماجد حق کو ورلڈ کپ 2015 کے دوران ٹوئٹر پر نسلی امتیازی سلوک کے بیانات پوسٹ کرنے پر وطن بھیج دیا گیا۔ انھیں سری لنکا کے خلاف میچ سے ڈراپ کردیا گیا تھا، جس پر انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا ’جب آپ اقلیت میں ہوتے ہیں تو آپ کے لیے بہت مشکل ہوجاتی ہے۔‘ آئی سی سی نے کارروائی کرتے ہوئے انھیں ورلڈ کپ کے بقیہ میچز سے باہر کردیا تھا۔

جیفری بائیکاٹ اور ’منہ کالا‘

2017 میں سابق انگلش کپتان اور برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے کمنٹیٹر جیفری بائیکاٹ نے ویسٹ انڈین پلیئرز کے بارے میں کہا تھا کہ مجھے بھی ان بہادروں سے لڑنے کے لیے’منہ کالا‘ کرنے کی ضرورت ہے۔ جیفری نے یہ نسل پرستانہ جملے  انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ڈے اور نائٹ ٹیسٹ کے وقفے کے دوران سوال وجوابات کے سیشن میں ادا کیے۔

جیفری بائیکاٹ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس کے لیے انھوں نے ٹوئٹر پر معذرت بھی کی۔ مداحوں کی جانب سے بی بی سی پر بائیکاٹ کو برطرف کرنے کا سخت دباؤ تھا لیکن بی سی سی نے ان کی نوکری برقرار رکھی۔

معین علی اور ’اسامہ‘ تحقیقات

گزشتہ سال انگلش آل راؤنڈر معین علی نےاپنی خودنوشت میں لکھا کہ انھیں آسٹریلوی پلیئر کی جانب سے 2015 میں ایشز سیریز کے دوران نسلی تعصب کانشانہ بنایا گیا۔ لیفٹ ہینڈڈ بیٹسمین نے لکھا کہ ایشز سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ کے دوران ایک کھلاڑی میری طرف مڑا اور کہا ’یہ لو اسامہ‘مجھے اپنی کانوں پر یقین نہیں آیا۔ مجھے اس وقت بہت غصہ آیا۔ اس سے پہلے مجھے کبھی کرکٹ کے میدان میں غصہ نہیں آیا۔

معین علی کے اس انکشاف کے بعد کرکٹ آسٹریلیا نے معین علی کے الزامات کی تحقیقات کا اعلان کر دیا۔ بعدازاں معین علی نے خود ہی اس معاملے کو رفع دفع کرنے کے لیے کرکٹ آسٹریلیا سے تحقیقات ختم کرنے کی درخواست کی ۔

کرکٹ آسٹریلیا کی مداحوں کو تنبیہ

گزشتہ برس دسمبر میں کرکٹ آسٹریلیا نے میلبورن کرکٹ گراؤنڈ کے مداحوں کو نسل پرستانہ نعرے لگانے پر تنبیہ کی ہے۔ کرکٹ آسٹریلیا کا کہنا تھا کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق کرکٹ شائقین نے باگسنگ ڈے ٹیسٹ میں بھارتی کھلاڑیوں کے خلاف نسل پرستانہ نعرے لگائے جس کے بعد کرکٹ آسٹریلیا نے مداحوں کو خبردار کیا کہ اس طرح کے رویے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ ماضی میں آسٹریلیا میں جب بھی کوئی مہمان ٹیم آتی تو اس کی آمد سے قبل ہی آسٹریلیوی ذرائع ابلاغ پر وہاں کے کرکٹرز حریف کھلاڑیوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے الفاظ کی جنگ چھیڑ کر ذاتیات تک پر اتر آتے تھے۔

خواتین کے خلاف نازیبا جملے کہنے پانڈیا اور راہول معطل

رواں سال کے آغاز میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ہردیک پانڈیا اور لوکیش راہول کو ٹی وی شو ’’کافی ود کرن‘ ‘میں خواتین کے خلاف نازیبا جملے کہنے پر معطل کردیا گیا۔ دونوں کھلاڑیوں کے متنازع انٹرویو پر سوشل میڈیا اور مداحوں نے خوب تنقید کی اور بی سی سی آئی نے ایکشن لیتے ہوئے دونوں کھلاڑی کو معطل کرکے آسٹریلیا سے واپس بلالیا۔

پانڈیا اور راہول نے معافی بھی مانگی جو کام نہ آسکی اور ان کے خلاف انکوائری شروع کردی گئی۔

Check Also

نیشنل ویمن فٹ بال چیمپئن شپ ملتوی

نیشنل ویمن فٹ بال چیمپئن شپ ملتوی کردی گئی۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن (پی ایف …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *