Home / جاگو ٹیکنالوجی / کیا یہ کچھووں کا ’سینگ والا ڈائنوسار‘ تھا؟

کیا یہ کچھووں کا ’سینگ والا ڈائنوسار‘ تھا؟

زیورخ: سوئٹزرلینڈ، کولمبیا، وینزویلا اور برازیل کے سائنسدانوں پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم نے وینزویلا اور کولمبیا کے ریگستانوں ایک قدیم دیوقامت کچھوے کے رکازات (فوسلز) دریافت کیے ہیں جو اندازاً 1200 کلوگرام وزنی تھا جبکہ اس کے سخت خول کی لمبائی 2.4 میٹر سے 3 میٹر تک رہی ہوگی۔ تازہ پانی میں پائے جانے والے ان کچھووں میں نروں کے خول پر سینگ بھی ابھرے ہوتے تھے۔

آج سے تقریباً 50 لاکھ سال پہلے معدوم ہوجانے والے اس کچھوے کو ’’اسٹوپینڈیمائس جیوگرافیکس‘‘ (Stupendemys geographicus) کا نام دیا گیا ہے جس کے اوّلین رکازات 1970 کے عشرے میں دریافت کیے گئے تھے۔ یہ تازہ پانی میں پایا جانے والا کچھوا تھا۔

حالیہ تحقیق میں اس دیوقامت کچھوے کے اور بھی کئی رکازات دریافت ہوئے ہیں جن میں سے کچھ خاصے مکمل بھی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کولمبیا اور وینزویلا کے موجودہ ریگستانی علاقے آج سے لاکھوں سال پہلے سرسبز و شاداب مقامات ہوا کرتے تھے جہاں ندیوں، جھیلوں اور تالابوں کے علاوہ دلدلیں بھی بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ ماضی میں بھی یہاں سے دیوقامت معدوم مگرمچھ کی مختلف اقسام کے علاوہ کتر کر کھانے والے معدوم جانوروں کے رکازات دریافت ہوچکے ہیں، تاہم دیوقامت کچھوے کی دریافت کئی لحاظ سے منفرد اور اہم ہے۔

تازہ پانی کے موجودہ کچھووں کی بنیاد پر ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ اسٹوپینڈیمائس کی گردن، خول کے درمیان کے بجائے دائیں یا بائیں جانب سے باہر نکلی ہوتی تھی۔ نر کچھووں کے خول پر ابھرے ہوئے سینگوں کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کچھوا غالباً انہیں نسل خیزی کےلیے مادہ سے ملاپ (mating) کی لڑائی میں اپنے مخالف نر کچھوے سے لڑنے میں استعمال کرتا تھا۔ ان کے علاوہ یہی سینگ اسے غالباً اپنے سب سے خطرناک دشمن، دیوقامت مگرمچھ جیسے جانور سے مقابلہ کرنے میں بھی مدد دیتے تھے۔

جسمانی تجزیئے اور کچھووں کے ارتقائی شجر (ایوولیوشنری ٹری) سے موازنہ کرکے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسٹوپینڈیمائس کا قریب ترین زندہ رشتہ دار، ایمیزون کا دریائی کچھوا ہے جس کا سر اس کے بقیہ جسم کے مقابلے میں خاصا بڑا ہوتا ہے۔ البتہ یہ تقریباً 12 کلوگرام تک وزنی ہوتا ہے جبکہ اسٹوپینڈیمائس کا وزن اس سے 100 گنا زیادہ تھا۔

حالیہ مطالعے سے اس خیال کو بھی تقویت پہنچتی ہے کہ اسٹوپینڈیمائس صرف چند علاقوں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ یہ براعظم امریکا کے پورے جنوبی حصے میں پایا جاتا تھا۔

اس اچھوتی دریافت کی تفصیلات تحقیقی مجلے ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔

Check Also

موبائل ڈیوائسز پر کروڑوں سائبر حملے کیسے روکے گئے؟

سائبر سیکیوریٹی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کروڑوں موبائل ڈیوائسز پر گزشتہ سال کی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *