Home / جاگو ہیوسٹن نیوز / ہیوسٹن معروف تاجر اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما طاہر جاوید کی رہائشگاہ پر پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی کے اعزاز میں منعقدہ الوداعی پارٹی سے کانگریس کے اراکین شیلا جیکسن اور الگرین اور قونصل جنرل عائشہ فاروقی اور طہر جاوید خطاب کررہے ہیں

ہیوسٹن معروف تاجر اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما طاہر جاوید کی رہائشگاہ پر پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی کے اعزاز میں منعقدہ الوداعی پارٹی سے کانگریس کے اراکین شیلا جیکسن اور الگرین اور قونصل جنرل عائشہ فاروقی اور طہر جاوید خطاب کررہے ہیں

ہیوسٹن(راجہ زاہد اختر خانزادہ سے)کشمیری عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے، مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ اپنا مؤثر کردار ادا کرے، اراکین کانگریس شیلا جیکسن لی اور ایل گرین نے تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرا دی،ہیوسٹن میں متعین پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی کے اعزاز میں الوداعی تقریب ،میزبان طاہر جاوید اور پاکستانی کمیونٹی کے رہنمائوں نے مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم اوور آرٹیکل370کی تسنیخ پر کھل کر اظہار خیال کیا، اراکین کانگریس شیلا جیکسن لی اور ایل گرین نئے مسئلہ کشمیر پر واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے اور مقبوضہ وادی میں لوگوں کی جانوں ،حقوق اور آزادی کے تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہیے، جس کیلئے اقوام متحدہ متحرک کردار ادا کرے اورمسئلہ کشمیر کے حل کو یقینی بنائے، ممتاز بزنس ٹائیکون اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنما طاہر جاوید کی جانب سے ہیوسٹن میں متعین پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی کے اعزاز میں منعقدہ الوداعی تقریب اس وقت مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بن گئی، جب میزبان طاہر جاوید نے اپنے خیر مقدمی کلمات میں اراکین کانگریس پر زور دیا کہ وہ تنازعہ کشمیر پر کسی فریق کا ساتھ دینے کے بجائے حق اور انصاف کے ساتھ کھڑے ہوں، دونوں اراکین کانگریس نئے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے حق اور انصاف کیلئے بھر پور آواز بلند کرنے کی یقین کراتے ہوئے کہا کہ قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے بھی مسئلہ کشمیر پر تفصیلی روشنی اور اراکین کانگریس کو بھارتی مظالم سمیت آرٹیکل370کے خاتمے کے غیر آئینی فیصلے سے آگاہ کیا، میزبان طاہر جاوید نے اراکین پر زور دیا کہ وہ حق اور انصاف کیلئے اپنا مؤثر کردار ادا کریں،اس موقع پر رخصت ہونے والی قونصل جنرل کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا جبکہ اراکین کانگریس کی طرف سے قونصل جنرل کو کانگریسی تعریفی اسناد بھی ا

پنے ملک کے حالات، سیاست، افراتفری سمیت دنیا بھر پر نظر ڈالتا ہوں تو ایک لمحے کیلئے میں اپنے آپ کو پتھر کے دور میں کھویا ہوا محسوس کرتا ہوں، پتھر کے دور سے نکل کر اب ترقی یافتہ دور تک حضرت انسان نے کافی مسافتیں طے کیں، دوران سفر اس کو بڑے نشیب وفراز سے گزرنا پڑا، کتنی ہی آفتوں ،مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، یہ حضرت انسان جنگلوں اور پہاڑوں سے نکل کر سماجی بندھنوں میں بندھا مگر اس سفر میں اس کو صدیاں نہیںبلکہ ہزاروں سال لگے لیکن باوجود ہزاروں سال گزر جانے کے اس انسان نے اپنی وحشی جبلتوں کو خیرآباد نہیں کہا، یہی جبلتیں جب انسان میں گھر کرتی ہیں تو اس کو یہ جنگوں پر مجبور کرتی ہیں، ریاستوں کو بنیاد بنا کر یہی انسان ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہو جاتا ہے اور اس جنگ وجدل میں بھی انسان کو سفر کرتے صدیاں بیت گئیں، کہیں یہ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں اُتارتا ہے تو کہیں ریاست تو کہیں یہ نسلی تعصب کی آگ میں اندھا ہو کر قتل غارت گری میں مصروف ہو جاتا ہے اس کو بات کا علم بھی ہے کہ قددرت نے اس کو جہاں پیدا کیا وہ اس رنگ میںرنگ گیا ان کے جیسابن گیا، وہ اس کے جیسا بن گیا،وہ اگر مشرق کی بجائے مغرب میں پیدا ہوتا تو آج وہ مغربی تہذیب وتمدن کا حامی ہوتا، وہ جب پیدا ہوا تو بے اختیار تھا،اس نے نہ مذہب کا خود چنائو کیا نہ سر حدوں کا لیکن چونکہ وہ وہاں پیدا ہوا ان لوگوں میں پیدا ہوا تو اس کو بھی اس کو ان جیسا بنا دیا،یہ اس کا فیصلہ اور اختیار بھی نہیں تھا، لیکن اس حقیقت کو جاننے کے باوجودانسانوں کی جانب سے جو جنگیں مسلط کی گئیں اور اس کے نتیجے میں اس کو جن تلخ تجربات سے گزرنا پڑا اس کی وجہ سے بلآخر انسان نے مجبور ہو کر اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے ان کو بہتر ماحول دینے کیلئے آپس میں موجود اختلافات اور جھگڑوں کو ختم کرتے  ہوئے پوری دنیا میں امن کی تلاش کی کوششیں کیں اور اس دنیا کو کسی حد تک مسائل اور اختلافات سے آزاد کرنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر کوششیں کیں، اقوام عالم کے ادارے وجود میں آئے جس کے نتیجے میں بین الاقوامی مسائل کے حل کیلئے پلیٹ فارم تشکیل دیا گیا ، نت نئی چیزیں وجود میں آئیں،
انتہائی خطرناک اسلحہ کے بجائے اس طرح کی ایجادات کی گئیں جو بنی نوع انسان کے کام آئیں اور انسانوںکو زندگی میں در پیش مسائل کے حل کا سامان مہیا کریں، انسانوںکے سکھ چین سلامتی کو ان کے ذریعے یقینی بنانے کا عزم کیا گیا، ان کوششوں اور کاوشوں نے دنیا بھر کے انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کے مواقع فراہم کیااور دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر تی چلی گئی، آج دنیا میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے کا سفر انتہائی آسان ہے، جبکہ دنیا بھر میں اگر کہیں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے،تو اس دور کے انسانوںکو یہ آزادی ہے کہ وہ اس واقعہ کو کوسوں دور وقوع پذیر ہو جانے کے باوجود فوری طور جان سکتا ہے، دیکھ سکتا ہے، یہ ترقی کا عروج ہے اور اس ضمن میںمزید جدت پسند منصوبوں پر کام جاری ہے، اس طرح آنے والے نسلوں کے انسان مستقبل میں شاید کوئی ایسا انوکھا،تجربہ کر ڈالیں کہ جس سے اس نسل کے لوگوں کو حیرانی بھی ہو، مگر ہم ہیں کہ اب تک اس پتھر کے دور سے نکلنے کیلئے تیار نہیں،امن آج بھی ہمارے لئے ایک بڑا خواب بنا ہوا ہے، اس وقت پاکستان میںنہ صرف اندرونی حالات دہشت گردی کا شکار ہیں، بلکہ پڑوسی ملک کی جانب سے بھی عالمی اور بین الاقوامی قوانین کی جو دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، پڑوسی ملک میں نہ صرف وہاں رہنے والی اقلیتوں کیلئے جینا حرام کر دیا گیا ہے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے سرحد کے اس پار بھی عوام کو کسی طریقے تنگ کیا جائے حالیہ کشمیر کے حالات سے آپ انداز لگا سکتے ہیں کہ ان کی سیاست کا رخ کیا انداز اختیار کئے ہوئے ہے وہ بلا جواز انسانی آبادیوں کو نشانہ بناتے ہیں، انسانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہیں تو کبھی ان پر بم برسائے جاتے ہیں، کبھی کلسٹر بم سے تو کبھی آنکھوں کو اندھا کرنے والے پلٹ گنوں کا استعمال کرکے ان کی آزادی کی تحریک کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ پوری دنیا کو ان کا چہرہ دکھانے کا کائی فائدہ اب تک حاصل نہیں ہوا، کیا بھارت اور مودی اپنی عوام کو دوبارہ پتھر والے دور میں لے جانا چاہتے ہیں، یا جنگی جبلت اب تک ان کے خمیر سے نہیں نکل سکی ہے، ان کو ایسی کارروائیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لینی چاہیے، ان کے اس عمل سے عام انسانوں کی زندگیاں اجل کا شکار بن رہی ہیں، پوری دنیا میں بھارت کیلئے مسئلہ کشمیر پر ایک منفی تاثر ابھر رہا ہے اور ان کو اپنی کارروائیاں فوری بندکرنی چاہیں، انسانوں کو تکالیف پہنچانے کے عمل والی پالیسی سے ان کو کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ دوسری صورت میں ان کا سکھ اور امن بھی سلامت نہیں رہے گا، آزاد قوموں کا نصاب تعلیم کیا کوئی دوسرا ہے، مولانا ابوالکلام آزاد نے ہندوستان کی آزادی کے بعد جب وہ وزیر تعلیم تھے کہا تھا کہ ہم کو اپنی نسلوں کو غلامی سے نفرت سکھانا ہو گی اور غلام بنانے والی عالمی قوتوں کیخلاف بدلہ لینے کی ریت سکھانی ہو گی، یہی سوچ جواہر لال نہرو کی تھی کہ کہیں عالمی سامراج ایک بار پھر برصغیر واپس آ کر اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گا، اس لئے تعلیمی اداروں میں غلامی سے نفرت کا سبق بچوں کو پڑھایا جائے، اس طرح کی تعلیم کا اثر ہندوستان میں نظر بھی آیا،لیکن پاکستان اس میں ہمیشہ پیچھے رہا،1997ء کی تاریخ گواہ ہے جب اکتوبر کے مہینے میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ ٹیلر پاکستان اور ہندوستان کے دورہ پر گئیںتو پاکستان کی عوام نے ان کا والہانہ استقبال ایک محسنہ کے بطور کیا،جبکہ ان کے دورہ ہندوستان کے موقع پر وہاں کے عوام نے بھوک ہڑتالیں کیں کہ ملکہ ہمارے ملک میں نہ آئے اور اگر آئے تو جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی جانب سے بھارتیوں کے قتل عام پر ہندوستان کی عوام سے معافی طلب کرے۔!
بہر کیف بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل370 کو ختم کرنے کا جو اقدام کیا ہے اس سے پاکستان کو اس نے ایک بند گلی میں لا کھڑاکیا ہے، سیاسی شطرنج کی بساط پر کھیل میں جو چال مودی نے چلی ہے اس کے بعد پاکستان اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کوئی چال چلے، نریندر مودی کے ہمراہ اس کھیل میں اس کے پارٹنر اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو بھی ہیں، جنہوں نے انتہائی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے اندرونی سیاسی کشیدہ حالات سے فوری فائدہ اٹھانے کا مشورہ دے کر اس پر عملدرآمد کرا لیا ہے،سیاسی کھیل پر نظر رکھنے والے افراد اس کھیل کو باآسانی سمجھ چکے ہیں، یہی کھیل اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کھیلا جو کھیل اب مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے، بھارت کی جانب سے آرٹیکل370کو ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر بھارت کے آئین کے تحت بھارت میں ضم ہو چکا ہے جبکہ پاکستان کی جانب موجود جموں وکشمیر اب تک متنازعہ حیثیت میںموجود ہے، اس طرح اس آرٹیکل کے نفاذ کے بعد مقبوضہ کشمیرمیںجائیدادوں کی قیمتیں تقریباً دوگنی ہو چکی ہیں، مقبوضہ کشمیر مسلمان اکثریتی ریاست ہے، تاہم آئندہ پانچ سالوں میں ہندو انتہا پسند وہاں پر سرمایہ کاری کے ذریعہ کشمیریوں سے ان کی جائیدادیں اور زمین خرید کر عملی طور پر اس پر قابض ہو جائیں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے کشمیربھی کہیں فلسطین کا منظر پیش نہ کرنے لگ جائے، جائیدادوں کی یہی وہ خواب ہے جس کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے مودی نے آرٹیکل370کا آئین سے خاتمہ کیا ہے،اب دیگر ہندوستانی وہاں جائیدادوں کی خریدو فروخت کر سکیں گے کیونکہ انڈیا کے آئین کی رو سے وہ علاقہ اب متازعہ نہیں رہا، اس ضمن میںموجودہ پاکستان کے جو حکمران ہیں ان کو کمال چالاکی سے پھنسایا گیا ہے، پاکستان میں عسکری قیادت ایک بار پھر بین الاقوامی سازشوں کا شکار ہو گئی ہے، ملک چلانے کیلئے ان کو فنڈز درکار ہیں، لولی لنگڑی جمہوریت اور کٹھ پتلی حکمرانوں کے آنے کے بعد پاکستان سفارتی طور پر بین الاقوانی دنیامیں تنہا رہ گیا ہے، کسی بھی ایک ملک نے انڈیا کے اس اقدام کی مذمت نہیں کی، اس طرح پاکستان کی خاموشی بھی دیگر ممالک کیلئے اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ اندرون خانہ وہ انڈیا کے اس اقدام پر شایدنیم رضا مندی اختیار کئے،پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جو رد عمل دیکھنے میں آیا وہ حیران کن تھا سب اسٹیبلشمنٹ کی زبان بول رہے تھے، صرف ایک خاتون جو کہ نواز شریف کی بیٹی مریم نواز تھیں، اس اقدام کے خلاف جلسہ جلوسوں کے ذریعے ببانگ دھل مخالف کررہی تھیں اس کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا ،اس طرح حکومت نے یہ گرفتاری کر کے اس بات پر مہر ثابت کر دی کہ وہ بھارت کے اس اقدام پر رضا مند ہیں، اس طرح دیگر مذہبی جماعتیں جو کہ اسٹیبلشمنٹ کے پیرول پر کام کرتی ہیں، وہ بھی خاموش تماشائی نظر آئیں، جماعت اسلامی جو کہ1998ء میں جب واجپائی لاہور آیا تھا تو انہوںنے مینار پاکستان پر جلسہ کیا، نواز شریف کے ہمراہ اس نے کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا اور متفقہ حل پر رضا مندی ظاہر کی، لیکن اس وقت جماعت اسلامی نے لاہور کو میدان جنگ میں تبدیل کئے رکھا،غداری کے فتوی جاری کئے گئے، اب جبکہ2019ء میں بھارت نے کشمیر پر آئین کے آرٹیکل میں ترمیم کر کے مکمل قبضہ کر لیا ہے تو وہی جماعت اسلامی مسلسل مراقبہ میںڈوبی ہوئی ہے، یہی جماعت اسلامی کئی دہائیوں سے کشمیر کے نام پر قربانی کی کھالیں اکٹھی کرتی رہی، ہماری فوج نے تین جنگیں اسی نام پر لڑیں، پارلیمنٹ میں وہ زرداری جو کبھی کہتا تھا کہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے وہ خود وہاں بجتا ہوا نظر آیا،اس کے منہ میں تعصب کی بات ڈالی گئی تا کہ عوام کی کشمیر سے توجہ ہٹائی جا سکے، پاکستان کی کمزور حکومت کے کٹھ پتلی وزیر اعظم عمران نے جب پائلٹ اور جہاز گرانے کا واقعہ ہوا تو وہ خود اوندھے منہ بھارت کے سامنے لیٹ گئے یکطرفہ طور باڈر کھول دیا گیا، نہ صرف پائلٹ کو چھوڑ دیا گیا بلکہ فضائی حدود انڈیا پر نچھاور کرتے ہوئے سینکڑوں مس کالیں مار دی گئیں، اس طرح اب بھی حدود بند نہیں کی گئی، جس سے انڈیا کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑتا، کیوکہ فضائی حدود بند ہو جانے کے باعث ان کو جو روٹ اختیار کرنا پڑتا اس سے ان کو معاشی طور پر کافی نصان لاحق ہو سکتا تھا، اس طرح اگر ہم الیکشن سے پہلے کا جائزہ لیں تو بھارتی الیکشن سے کچھ ماہ قبل مودی بری طرح الیکشن ہار رہا تھا ، پھر پلوامہ ہوجاتا ہے اور کچھ جہادی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں، اس طرح مودی حملہ کرتا ہے اور پاکستان کی معافیاں اس کو الیکشن جتوا دیتی ہیں، اس طرح مودی نے اپنے انتخابات کے دوران کہا کہ دوبارہ منتخب ہوا تو کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کر کے اس کو ہندوستان کا باقاعدہ حصہ بنا دوں گا، جبکہ عمران خان نے بیان دیا کہ کشمیر کا مسئلہ مودی کی جیت میںپنہاں ہے یہ بیانات سیاسی شعور رکھنے والے افراد کو اس وقت سمجھ آ گئے تھے کہ آئندہ مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے ،ماضی میں بھی جرنیل جب بھی طاقتور ہوئے ملک کو انہوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بھارت کو تین دریا انہوں نے ہی تشطری پر سجا کر دئیے،مشرقی پاکستان کا کام انہوں نے کیا اور نام بھٹو کا اور کارگل کا نام نواز شریف سے موسوم کراکے قوم کو رٹوایا گیا ، سرکریک، سیاچن، کارگل، سب ان کے کارنامے تھے، اب جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے، آج کٹھ پتلی وزیر اعظم ان کے کہنے پر وہی کچھ کررہا ہے جو وہ چاہتے ہیں مگر آئندہ کی تاریخ میں کشمیر کے اس سودے میں نام عمران خان کا ہی آئے گا، حالانکہ کشمیر کا سودا جرنیلوں نے کر لیا ہے وہ اپنی عیاشیاںچاہتے ہیں، اس پر مجھے چند اشعار یاد آرہے ہیں کہ
سرد مہر لوگوں سے
ان کی سرد مہری کا
ہم گلہ نہیں کرتے
تیر جو زباں کے ہیں
گر کسی کو لگ جائیں
درد سا کیوں ہوتا ہے؟
زخم ان کی باتوں کے
کیوں سلا نہیں کرتے
پتھروں کی دنیا میں
لوگ بھی ہیں پتھر کے
لاکھ زلزلے آئیں
وہ ہلا نہیں کرتے
کشمیر کیا پوری امت مسلمہ اس وقت واقعی زلزلے کی کیفیت میں ہے، کشمیری اس وقت آندھیوں میں گھرے شجر کی ٹہنیوں پر اپنا گھونسلہ تلاش کررہے ہیںِ ان کی آنکھیں گلاب بن چکی ہیں، اسٹیبلشمنٹ لوٹ کھسوٹ میںمصروف ہے، مظالم ار استحعال اور دکھ بھری زندگی سے حکومت کی خرد غرضانہ چالوں سے سرحد کے اس پار رہنے والے کشمیری نہیں ہیں، اندرون ملک رہنے والے باشندے بھی پریشان ہیںِ اسٹیبلشمنٹ اپنے سیاسی اور توسیعی عزائم کو فروغ دینے اور ان پر عملدرآمد کرانے کیلئے وہ ہرمعاملات میں دخیل ہے، زمیوں سے جڑی تہذیب خطرے میں ہے،کشمیری کانچ کے خواب دیکھ کر اپنی آنکھیں زخمی کئے ہوئے ہیں، اسٹیبلشمنٹ اور مودی کٹھ بندھن اور سمجھوتہ غلامی کی پہلی قسط ہے،وحشی جبلتیں آنکھوں میں لرزتے رقص کرتے کشمیریوںکے آنسوئوں سے بے نیاز ہے، سیاستدانوں کی زبانوں میں اور صحافیوں کے قلم لکنت کا شکار ہو چکے ہیں، میں اس تمام صورتحال کے بعد جو کچھ دیکھ رہا ہوں اور بڑا بھیانک خواب ہے، اللہ کرے جھوٹا ثابت ہو مگر دیکھ رہا ہوں کہ کشمیریوں کی آئندہ آنے والے نسلیں وادیوں میں لپکتے کھیت اور کھلیانوں سے محروم ہو جائیں گے، گلاب کا پیڑ اور خوشبو تو ہو گی مگر اس پر ان کا حق نہیں ہو گا، آج جس طرح فلسطین کی عوام یہودیوں کی قید میں ہیں، اللہ نہ کرے کشمیری آنے والی نسلیں، اس طرح کے عذاب سے گزریں، مگر زمینی حقائق یہی کچھ بیان کررہے ہیں، اس میں قصور حکمرانوںکا نہیں ہمارا بھی ہے کیونکہ بقول فیض
ہوتی نہیں جو قوم…حق بات پہ یکجا
اس قوم کا حاکم ہی بس ان کی سزا ہے
ہوسکتا ہے کشمیرمیں اب کچھ بہتری آ جائے، شاید بھارتی سپریم کورٹ کچھ ریلیف کشمیریوںکو دے لیکن وزیر اعظم عمران خان نے آرمی چیف کو جو توسیع دی ہے اس کی قیمت کو بھگتنا ہو گی، اس توسیع کی قیمت ہمارے سامنے نظر آ چکی ہے،آئی ایم ایف کے اسرار پر روپے کو تباہ کر دیا گیا ہے، شدید مہنگائی ہے، امریکہ کے کہنے پر سی پیک پر کام روک دیا گیا ہے، افغانستان کا تمام گند اور بھی پاکستان کی گود میں آنے والا ہے، کشمیر کا سودا کرتے ہوئے میڈیا پر پابندی لگا دی گئی ہے، بے قصور لوگ جیلوں میں بند ہیں، اور نااہل لوگو حکمران بنے ہوئے ہیں، آپ دیکھیں کہ پہلے جنرل فیض اور باجوہ نے عمرانکو وزیر اعظم بنوایا، پھر باجوہ نے جنرل فیض کو ڈی جی آئی ایس آئی بنایا پھر عمران اور فیض نے باجوہ کو تین سال توسیع دی،اب باجوہ اور عمران مل کر جنرل فیض کو آرمی چیف بنائینگے جو عمران کو دوبارہ الیکشن جتوائے گا، لیکن انجام اچھا نہیں ہو گا۔
ہم لوگ تعصب وہ چاہے نسلی ہو کہ علاقائی یا مذہبی ہم اس کا شکار ہو چکے ہیں، حرام خوری ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے، جو کام پرانے زمانہ کا انسان حیوانی جبلتوں کے ذریعے لیتا تھا، اس میں اب تبدیلی یہ آ گئی ہے کہ وہ تمام وہ کام اب بھی کررہا ہے مگر وہ یہ کام کرنے کیلئے اب عقل کااستعمال کرتا ہے، ہم آج بھی استحصالی قوتوں کے غلام ہیں، قوم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ہوئی ہے اور ہمارا سفر کوہلوں کے بیل کاسفر ہے، جس میں راستہ کبھی طے نہیں ہو پاتا کیونکہ ہماری آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں، اس سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں آنکھوں پر بندھی پٹیوں کو ہٹانا ہو گا، اپنی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہو گا،یہ تعلیم کے ذریعے ہی ترقی کرینگے اور یہی تعلیم ان کی آنکھوں پر بندھی پٹی کو کھولنے میں اہم کردار ادا کرے گی، پاکستان کو واقعی اس طرح کی بے غیرت قیاددت جو ملی ہے اس کو عالمی دنیابھی جانتی ہے انکو پتہ ہے کہ وہ ہر بات مان جائیں گے کام چلتا رہے گا دو روٹی ان کو ملتی رہے گی اور غلامی جاری رہے گی۔پاکستان کے وجود کو لگی یہ خون آشام جونکیں جو کہ اس کا ایک ایک قطرہ نچوڑنے میں لگی ہوئی ہے، بقول ابن انشائ
فرض کرو ہم اہل وفا ہوں،فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوںباتیں جھوٹی ہوں، افسانے ہوں

پیش کی گئیں۔

Check Also

گلوکار رحیم شاہ کے ڈیلس کنسرٹ میں پاکستان حکومت کے ایوارڈ پر چونکا دینے والے انکشافات، متنازعہ کارکردگی نے مداحوں کو مایوس کر دیا

ڈیلس ( راجہ زاہد اختر خانزادہ) پاکستان کے معروف گلوکار رحیم شاہ جنہوں نے پشتو …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *