Home / تازہ ترین خبر / ‎کرونا کے ذریعہ پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر

‎کرونا کے ذریعہ پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر

کرونا کے ذریعہ  پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر جاری وساری ہے اقوام عالم اب بھی جزوی طوربندش کا شکار ہے،انسان گھروں میں مقید رہے اور کئی حکومتی ادارے عملی طور پر غیر فعال بن کرہ گئے ، ابتک دنیابھر میں بڑی بڑی صنعتیں تالہ بندی کا شکار ہو چکی ہیں، گزشتہ چند ہفتوں اور مہینوں  میںزندگی اس طرح تبدیل ہو جائے گی یقین نہیں آتا  کہ سب کچھ بدل چکا ہے،کھانا پینا ،سیروسیاحت، ملنا جلنا،دفتری معاملات سے لے کر بچوں کے اسکول تمام چیزیں تبدیل ہو چکی ہیں، کچھبھی پہلے جیسا نہیں رہا، معاشی حالات بھی پہلے جیسے نہیں رہے، شاپنگ سینٹر، عام بازار اببھی بند ہیں، ان کی رونقیں ختم ہوچکی ہیں، شاہراہیں، ہائی ویز اب بھی ویرانی کا منظر پیشکررہے ہیں، اس طرح ایک ملک نہیں پوری دنیا اس طرح کی ہی تبدیلیوں کا شکار ہے، ایسا محسوسہو رہا ہے کہ پوری دنیا کشتی نوح کی طرح ایک ہی کشتی میں سوار ہے اور یہ کشتی ساحلسمندر پر لنگر انداز ہونے سے قبل بڑے بڑے ہچکولے لے رہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کئ یہ کشتی  ساحل نصیب ہونے سے قبل ہی کسی جذیرے کے عقب میں واقع پہاڑ سے ٹکرانے کے بالکل قریب پہنچچکی ہے، جہاں سے نکلنے کا واحد ایک ہی  راستہ ہے اور اسہی راستہ کی تلاش میں پوری  اقوامعالم بھر پور طریقے سے سرگرم عمل ہے، انشاء اللہ یہ کاوشیں اور جستجو کا سفر ایک دن ضرورکارگر ثابت ہو گا اور ہم سب ایک بار پھر اپنے اپنے علاقوں میں جا کر سکھ کا سانس لینے کے قابلہو سکیں گے اور ایک بار پھر ہم سب اُسی مشینیں زندگی میں مصروف ہو جائیں گے اور زندگیاسی پرانی اعتدال پسندی کے ساتھ رواں دواں ہو جائے گی اورخوف کی جو لہر پوری دنیا کااحاطہ کئے ہوئے ہے جلد ہی اختتام پذیر ہو گی، تاہم اس دوران ضرور ہزاروں ،لاکھوں افراد اپنیزندگیوں کو کرونا کے دان چڑھاچکے ہونگے جبکہ کروڑوں افراد اور لاکھوں خاندان تباہی اور بربادیکا نشان بن کر رہ جائیں گے۔

اس ضمن میں اگر ہم ایک صدی قبل تاریخ کے پرنے دور میں داخل ہوتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہبرصغیر پاک وہند میں18مئی1918ء کو جب پہلی عالمی جنگ ختم ہونے کے قریب تھی اس وقت پانیکا ایک جہاز بمبئی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتا ہے اور اس جہاز کے ذریعے ہندوستان پہنچنےوالے سپاہیوں میں سے7سپاہی ایک ماہ بعد 10جون کو انفلولینزا کے مرض میں مبتلا ہو کر اسپتالداخل ہوتے ہیں، لیکن بعد ازاں معلوم ہوتا ہے کہ یہ فوجی ایک ایسی خطرناک بیماری کا شکار ہیںجو کہ انسانوں میں بہت تیزی سے سفر کر کے ایک دوسرے کو متاثر کررہی ہے، جس کو بعد ازاںاسپینش فلو کا نام دیا گیا جبکہ یہ بیماری بھی وائرس کے ذریعے پھیلی اور یہ مسلسل دو سالوںتک برقرار رہی،1920ء میں اس کا اثر کافی حد تک کم ہوا لیکن آپ اس بیماری کی سنگینی کا اسطرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ بیماری صرف متحدہ ہندوستان میں ایک

کروڑ80لاکھ سے زائد افراد کو ابدی نیند سلانے کا سبب بنی اور بھارت اس وقت دنیا بھر میں امواتکے نمبروں میں دیگر ممالک کے مقابلے میں سر فہرست رہا، اس وقت اس فلو میں دنیا بھرکے50کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے اور یہ تعداد دنیا کی کل آبادی کا چوتھائی حصہ تھی ، تاہم آجدنیا کی آبادی7ارب سے زائد کی آبادی پر مشتمل ہے اس میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والےافراد کی تعداد تین لاکھ62ہزار اور کنفرم کیسز کی تعداد 6.8 ملین  ہے، اس تاریخی اعدادو شمارسے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کے مقابلے میں100سال قبل دنیا کو اس طرح کی ہی وبا کیکافی قیمت ادا کرنا پڑی تھی، اسپینیش فلو1918ء سے شروع ہو کر دسمبر1820میں اختتام پذیرہوا، آج کرونا کی وباء جو کہ دسمبر 2019ئ سے شروع ہوئی ہے لیکن اس کے اختتام کا کوئی پتہنہیں ہے ۔ تاہم آج کے دور میں جدید سائنس ،ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے ڈاکٹرز،نرسیںصحت کے شعبہ میں اپنی  زندگیاں خطرے میں ڈال کر ہماری اور ہمارے پیاروں کی زندگیاں بچانےکی تگ ودود میں مصروف ہیں، جس طرح میں نے پہلے ذکر کیا معاشی طور پر لاکھوں کروڑوںانسان تباہی اور بربادی کا نشان بنیں گے لیکن فوری طور پر وہ لوگ زیادہ متاثر ہوئے  ہیں جو کہروزانہ کی بنیادوں پر کماتے ہیں، ان کے پاس نہ ہی بچت کی گئی کوئی جمع پونجی ہے اور نہ ہیروزگار، وہ گھر بیٹھ کر کریں بھی تو کیا کریں، اس طرح یہ غریب طبقہ ہی نہیں بلکہ بڑے بڑےصنعتکار، سیاستدان ،حکمران اور طاقتور سے طاقتور ترین شخص کو بھی یہ پتہ نہیں کہ اس وباءسے کس طرح نمٹا جائے ، بڑے، چھوٹے تمام صنعتکار پریشانی کا شکار ہیں، اس سے بچنے کیتدبیر جو کہ سمجھ آ سکی ہے وہ صرف اور صرف یہی ہے کہ گھر میں رہو، کسی سے نہ ملو، اگربہت ضروری ہو تو باہر قدم رکھو، ملنا اگر بہت ضروری ہے تو فاصلہ رکھا جائے، اس طرح دنیا بھرکی ریاستیں اور معاشرے فی الحال بے بس ہیں اور مشترکہ طور پر ایسی ویکسین تیار کرنے کیتیاریاں کررہے ہیں جو کہ اس موذی مرض کو آنے سے قبل ہی انسانی جسم میں ہلاک کر سکے، تاہمپرانی دنیا سے نئی دنیا کا یہ سفر جاری ہے اور ہمیں خود بھی پتہ نہیں کہ ہم کب اس بیماری کوکنٹرول کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے، تاہم کامیابی کے بعد ہماری ایک نئی دنیا ہو گی،کئی مفکرینکا کہنا ہے کہ ہمارے پیشہ، صنعتوں، ایجادات اور طرز زندگی میں بڑی تبدیلیاں ممکن ہیں، کئیممالک میں پہلے ہی گھر سے ہی دفتری کام کرنے کا رواج چلتا آ رہا ہے، مگر اس وبا کے بعد مزیدکئی اور شعبہ ہائے جات قائم ہونگے جہاں پر دفتر کی بجائے حاضری ضروری نہیں ہو گی، اسطرح امریکہ میں ہائی اسکول اور اس سے نچلے گریڈ میں زیر تعلیم طالبعلموں کی کلاسوں سےمتعلق یہ گمان بھی نہیں تھا کہ ان کی کلاسیں آن لائن شروع ہو ں گی اور ان کو گھر پر ہی تعلیمحاصل کرنا ہو گی، اس طرح نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں تعلیم وتدریس کا کام گھر بیٹھےجاری ہے، زوم کے ذریعے جہاں کلاسیں ہو رہی ہیں وہاں اس کے ذریعے آن لائن میٹنگ اور اجلاسوںمیں بھی زوم کا استعمال تواتر سے کیا جا رہا ہے، طالب علم اور استاد گھر کی اسکرین پر ایکساتھ نظر آ رہے ہیں، امریکہ سمیت دنیا بھر میں کانفرنسز، لیکچرز، سیاسی،سماجی پارٹیوں کےاجلاس زوم کے ذریعے منعقد ہو رہے ہیں، گو کہ پاکستان میں پسماندہ علاقوں جیسے بلوچستان،سندھ، پنجاب، شمالی علاقہ جات کے وہ دیہی علاقے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں، وہاںمسائل ضرور ہونگے، لیکن مستقبل قریب میں اس ٹیکنالوجی میں جو ریاستیں پیچھے ہیں، ان کوآگے لانے کی ضرورت ہے ، تاہم اس وبا کے بعد یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ دنیا کے طاقتور ترین ممالکاس وبا میں اپنی قوت اور طاقت کو برقرار رکھ پاتے بھی ہیں یا کہ وہ بلندی سے پستی کی طرفگامزن ہوتے ہیں، اس ضمن میں تمام قیاس آرائیاں امریکہ اور چین کے مستقبل پر لگی ہوئی ہیں،امریکہ چین پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کمپنیوں کو کہاہے کہ وہ چین سے نکل کر دوبارہ چین جا کر سرمایہ کاری کریں، اس طرح تجارتی جنگ بھیچھیڑی جا چکی ہے، تجارتی خسارے کو کم کیا گیا ہے کہ چین نے جو دولت جمع کی ہے، اس میںمزید اضافہ نہ ہو سکے، اس طرح امریکہ یورپی اتحادیوں کو چھوڑنے کا سوچ رہا ہے جبکہ یورپییونین والے اتحادی بھی امریکہ کی دفاعی صلاحیتوں کے محتاج نہیں رہنا چاہتے، ان سے بھیامریکہ کے اختلافات چل رہے ہیں، ویسے بھی برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے نکل جانےسے پوری یورپی یونین کے اتحاد سے متعلق اس کے مستقبل کے حوالے سے بھی سوالات جنم لےرہے ہیں، لیکن چین نے اس وبا کے دوران ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ مستقبل میں ایک ابھرنے والیبڑی طاقت  ہو گی اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین مستقبل قریب میں مزید ترقی کرے گا، اس وقتبھی دنیا بھر میں کرونا سے بچائو کے اقدامات سے متعلق دنیا بھر نے چین کے تجربہ سے فوائدحاصل کئے اور کررہے ہیں، جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہاں پر قیادت کا فقدان ہے،ہونا تو یہچاہے تھا کہ اس دبا کے بعد قیادتوں کو اپنی محنت اور دیانت اور خدمت سے انسانیت کی فلاحوبہبود کیلئے اقدامات کرتے، آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے تمام سیاسی پارٹیوں کو اس کام پر لگایاجاتا لیک ایسا نہ ہوا جبکہ اس کے برعکس یہ بات سامنے نظر آئی کہ اس دوران حکومت نے اورملٹری اسسٹیبلشمنٹ نے کرونا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اٹھاویں ترمیم کو بحال کرنے کا کام  شروع کردیاہے ، اس طرح امریکہ میں بھی جہاں معالجین پریکٹیشنر کرونا وائرس کے بحران کا سامنا کررہےہیں ،تو دوسری جانب امریکہ میں قائم اسلحہ ساز کمپنیوں نے اپریل میں متعدد امریکی ریاستوںمیں گھروں میں رہنے والے افراد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کواسلحہ سے متعلق تشہیر کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر کئی پیجنزتشکیل دیئے، اس لابی نے یہ تمام کام میڈیا کے ذریعہ  کروایا،اس طرح امریکی صدر لاک ڈائون کےحق میں نہیں تھے جبکہ وہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی اکثریتی ریاستوں میں ہونے والے اس طرح کےمظاہروں کی حمایت کرتے نظر آئے بہر کیف اب جبکہ پوری دنیا پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر طےکرنے میں لگی ہوئی ہے جبکہ حکمرانوں کیلئے مشکلات اور چیلنجز بڑھتے چلے جا رہے ہیں، طویلبندش سے بھوک،بیروزگاری اور پریشانی میں اضافہ ہورہا ہے، کوئی بھی فیصلہ کرنا اتنا آسانکام نہیں، مگر پاکستان میں فیصلوں پر عملدرآمد کرانا اس وقت مشکل ہو تا ہے، جب مذہبی گروہاس کے مخالف ہوں، بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں لاپرواہی سے کام لیا گیاتو مئی کے وسط میں پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی تعداد میں کافی اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔بہر کیف پرانی دنیا نئی دنیا کی رہنمائی کررہی ہے، دنیا میں نت نئے طریقے متعارف کرا دئیے ہیںاور یہ وبا ترقی کی راہ کا تعین بھی کررہی ہے اور ہمیں جدید زندگی کی طرف راغب بھی کررہیہے، اس لئے ہمیں خود کو بھی جدید زندگی کی طرف راغب ہونا ہو گا، اور اگلی دنیا کے راستوں کیتیاری میں ان کے شانہ بشانہ چلنا ہو گا،جبکہ کائنات کے اصولوں اور قدرتی تبدیلیوں کو سمجھنےسے ہی ہم اپنی موجودہ صورتحال کا یقین اور اگلی زندگی کا تعین کر سکیں گے، کرونا کے بارےمیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ انسان کا بنایا ہوا وائرس ہے، جس کو حیاتیاتی ہتھیار کےبطوراستعمال کیا جا رہا ہے، اگر یہ گمان درست تصور کر لیا جائے کہ اس وائرس کا فطرت سےکچھ لینا دینا نہیں ہے تو ہم پر صرف اس کے موذی اور مضر اثرات ہی پڑ سکتے تھے اس سے قوتمدافعت میں طاقت کبجائے کمی واقع ہوتی جیسا کہ ایٹم بم گرنے کے بعد دنیا جانی مالی اورمعاشرتی نقصانات کا شکار ہو گئی تھی، اور ابتک اسکی اثرات نمایاں ہیں  ویسے اگر اس میںوائرس کی نوعیت شامل ہے، تو یقینا ہم اس پر قابو پا سکتے ہیں اور اس کے ساتھ زندگی بھی گزارسکتے ہیں اور یہی وائرس ہمیں مزید آگئے کی طرف لے کر جائے گا،کیونکہ دنیا کی ہیرا پھیری دنیاکے مستقبل کو مسخ کر سکتی ہے لیکن فطرت کی تبدیلی سے یقیننا یہ زمین ختم نہیں ہو گی اگر یہوائرس کسی سسٹم کے تحت پھیل جاتا ہے تو اس کا پھیلائو اس کے ایٹموں میں قدرتی عمل ہےکیونکہ اس طرح کی قدرتی آفات جو کہ ایک جانب انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتی ہیں تودوسری جانب زمین کی زندگی بھی ناگزیر ہے یہاں تک کہ اگر یہ وائرس ہم آہنگ نہیں ہے اور اپنیفطری شکل میں موجود ہے تو یہ وبا اپنی زندگی اور مزاج کے ساتھ سیارے کے مثبت سمت کا ذریعہبھی بن سکتی ہے اور انسانوں کو ماحول کے مطابق نئی دنیائوں کے اصول کی طرف راغب کرنےمیں انتہائی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے، اس طرح یہ وائرس ایک ایسا وائرس ہے جس کے لئے انسانتیار نہیں تھا، وائرس اپنے وقت میں اس دنیا پر آیا ہے میں پچھلی دھائیوں کی  تاریخ کا مطالعہکررہا تھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہر سو سال بعد ایک ایسا ہی بڑا وبائی مرض اس زمین پرآیا جیسے کہ1720میں طاعون،1820 میں کالرہ(ہیضہ)1920میں اسپنیش فلو جس کا ہم نے ذکر کیاہے اوراب 2020ء میں کرونا، آیا اگر ہم انسانوں کے پتھر کے زمانے سے لے کر دورانیے کا جائزہ لیںتو ہر بدلتے ہوئے عہد سے قدرت ہم کو ایک خاص مقام تک پہنچنے کے بعد نئی دنیا کی روشنی کودکھاتی ہے اور شاید یہ نئی دنیا کی روشنی سو سالوں پر محیط ہوتی ہے، بہر کیف اگر ہم ترقیاتیادورا کے دوران زمین کے جسمانی حالات کا مشاہد ہ کریں تو قدرت نے انسانی نسل کو ہمارے آسپاس کی دنیا کی ایک نئی تصویر کس طرح عطاء کی، بگ بینگ کے نظریہ کے تحت زمین بڑےدھماکے کے تناظر میں وجود میں آئی، آگ جلنے کے عمل گیسوں کے اخراج کے دور سے لے کر پانیبننے کے عمل اور پھر زندگی کے وجود کی تشکیل کو ہمیں دیکھنا ہو گا، یعنی یہ کہ جو عمل چلا وہپہلے زندگی کے وجود کے قابل بھی نہیں تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی گئیںاور یہ تمام عوامل زندگی کے وجود کو تشکیل دینے میں موزوں ثابت ہوتے رہے، اس دور سے لے کراب تک کے دور میں جو بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں وہ آہستہ آہستہ انسانی زندگیوں کیلئے بہترہوتی گئیں، ماہر فلکیاں اور ماہر طبعیات کی تحقیقات کے مطابق یہ زمین کا مدار ابھی اپنی زندگیتک نہیں پہنچا ہے اور اس عجیب وغریب مقام تک پہنچنے کیلئے اس کو کئی صدیاں درکار ہیں، اسصورتحال پر غور کرتے ہوئے یہ استدلال منطقی ہو گا کہ اس وقت زمین پر فطرت کی زندگی سےمتعلق مشکلات درست نہیں ہیں بلکہ یہ فطرت کی کارستانی زندگی میں مشکلات کیلئے نہیں بلکہاس کا رخ تبدیل کرنے کیلئے ہو سکتی ہیں اس طرح ہم اگر انسانی تہذیب کا مطالعہ کریں تو پتھرکے دور سے لے کر زرعی دور تک کے سفر میں قدرتی تبدیلیوں نے ہمیں راہیں عطا کیں اور قدرتیآفات انسانوں کو غار میں لے آئیں،زرعی عہد سے زرعی دور اور تہذیب کے دور تک فطرت کی جانبسے آنے والی ہر آفت نے ہمیں ایک نئی دنیا بنانے اور آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا ہے، اس طرحسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم زمین کی تازہ تباہی کیلئے تبدیلی کی نشانی کے بارے میں سوچسکتے ہیں، اس کا جواب ہاں میں ہے دراصل قدرت نے ہمیں ایک بار پھر موقع دیا ہے کہ ہم اپنی طرززندگی کو تبدیل کریں اور اپنی زندگی کو ایک ایسے معاشرے کے جدید خطوط پر استوار کریں جوہمارے اصل مقصد یعنی جنت کے تصور سے ہم کلام ہو سکے، کووڈ19کی دنیا کیسی ہو گی اورہمارا انداز زندگی کیسا ہو گا یہ پیش گوئی کرنا مشکل نہیں ہے یقینا ہم ایک ایسی دنیا کے سفر کیجانب نکل چکے ہیں جو کہ صدیوں سے ہمارے تصور میں جکڑی ہوئی ہے، تمام اقوام کے مذہبیپیشوا بعد از زندگی سے خیالی دنیا کا اکثر ذکرکرتے رہتے ہیں۔یہ تمام ضرورتیں، راحیتیں ،آسانیاں،عیاشیاں عقائد سے جو ذکر اس کو دوسرے جہان میں حاصل کرنے کی ہم تمنا رکھتے ہیں، یا پھرکبھی قصہ کہانیوں او ر تصوراتی زندگی میں حاصل کرکے اپنے دل کو خوش کرتے ہیں، اس دنیامیں ہم اپنی سوچ کے اشارے سے ہر وہ چیز حاصل کرلیتے ہیں جو کہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرنےکے ساتھ ساتھ ہماری جبلت ،تنہائی ،لذت،راحت کو کم کرے،ان تمام حقائق کی روشی میں ہم یہ بارآور کرا سکتے ہیں کہ فطرت نے ہم کو کووڈ19کے ذریعے معاشرتی  G-6دے کر کمپیوٹر کی زندگیکے بعد(Virtual)زندگی ورچوئل زندگی میں جانے کا موقع فراہم کیا ہے،G6-G3ایک ورچوئل دنیا ہےجو کہ ترقی کرتے کرتے جی5سے جی10 تک آگے جائے گی، جس طرح ہم آگے کا سفر طے کرتے چلےجائیں گے ، اس طرح یہ زندگی ورچوئلیٹی کی طرف راغب ہوتی چلی جائے گی، آپ دیکھیں کہکووڈ19کے بعد جہاں پورا کاروبار زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا وہاں آن لائن خریداری کا رجحان عروجپر پہنچ گیا ، جہاں روڈ راستے رویران ہو چکے ہیں، وہاں انٹرنیٹ کے ذریعے ملنے والی ہوم ڈیلوریکے سبب ایمیزان اور دیگر کمپنیوں کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا، گھریلو سامان اور اشیائے خوردونوش گھر بیٹھے نیٹ کے ذریعے منگوانے کا کاروبار عروج پر نظر آ رہا ہے اور بات یہیں ختم نہیںہوتی، سماجی رابطے جو پہلے بالمشافہ ہوتے تھے، وہ اب ورچوئیلٹی،اسکائپ اور واٹس ایپ پر اپنےرابطہ قائم کرتے چلے آ رہی ہیں، کھیلوں کے میدان ویران ہو چکے ہیں مگر موبائل کے اسکرین پرویڈیو گیم نیٹ فلیکس اور ڈزنی کے اسکرین اب گھروں میں کھل گئے ہیں، کھیلوں کے میدان ویران ہوچکے ہیں مگر موبائل کی اسکرین پر ویڈیو گیم ،نیٹ فلیکشن اور ڈزنی کے اسکرین اب گھروں میںکھل گئے ہیں۔

کووڈ19 نے زمینی سچائی کو علیحدہ کر دیا ہے ایک متبادل بڑھانے دینے والی حقیقت ورچوئلیونیورسٹیاں اور آن لائن تعلیم پہلے سے موجود تھی، لیکن تعلیمی ادارے اس وائرس کے سبب بند ہوگئے تھے ، تب سے ویڈیو لیکچرز اور آن لائن تعلیم کا رجحان عروج پر ہے، اگرچہ ہماری تعلیم اورمعاشرتی سرگرمیاں خیالی حقیقت کی طرف منتقل ہو گئی ہیں لیکن ہماری معاشرتی سرگرمیوں کےساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیاں خیالی حقیقت کے ساتھ بڑھ گئی ہیں، سیاستدانوں نے ہالو گرامٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے محافل موسیقی اور سوشل میڈیا سائنس میں شرکت کیلئے اپنیرضا مندی کی وڈیو شیئر کرنا شروع کر دی ہیں، مذہبی رہنما بھی اس ٹیکنالوجی سے پیچھے نہیںہٹے، جہاں اس سے مسلک کے لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے، وہاں اب یہودی عبادات گاہوں نےمجازی فرقہ پرست عبادت کا اپنا نظام تشکیل دینا شروع کر دیاہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایساکوئی کاروبار زندگی نہیں ہے جس میں ہم اپنی زمینی حقیقت سے خیالی حقیقت کی طرف نہ بڑھےہوں ، زمینی سچائی سے خیالی تصور میں منتقلی کا یہ صرف آغاز ہے، اس وقت موبائل یا کمپیوٹراسکرین پر خریداری پر ہم نظر ڈالتے ہیں،ہم اس کو چھو نہیں سکتے اور نہ ہی جسمانی طور پراستعمال کر سکتے ہیں، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا ہر گھر میں ورچوئل کمرے بڑھتےجائیں گے، کمرے کے اندر بیٹھ کر ہم جگہ جگہ شاپنگ،ہوٹل عبادت گاہ اور دفاتروں میں جائیں گےاور خیالی معاشرتی سرگرمیاں انجام دینے کیلئے اپنے کاروبار کو ایک ساتھ چلائیں گے، جس طرحٹی وی ہمارا خاندانی گھر ہے، اس طرح کا ورچوئل کمرہ بھی ہمارے گھر کا حصہ بن جائے گا اوروہ دن دور نہیں جب مستقبل میں ہمارے سارے گھر حقیقت بن جائینگے اور ہم پوری دنیا میں اپنےروبوٹکس اور کمپیوٹرائزڈ گھروں کے ذریعے ہی جڑے ہونگے، لیکن میں اور آپ شاید اس دنیا کو نہدیکھ پائیں مگر ہماری نسلیں ضرور اس دنیا کو دیکھیں گی،

Check Also

لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر کو 3 سال کیلئے چیئرمین نادرا تعینات کرنے کی منظوری

نو منتخب وفاقی حکومت نے چیئرمین نادرا کی تعیناتی سے متعلق بڑا فیصلہ کرلیا اور …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *