Home / تازہ ترین خبر / ‎پاکستان میں آرمی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی جنگ ،نتیجہ کیا ہو گا…؟

‎پاکستان میں آرمی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی جنگ ،نتیجہ کیا ہو گا…؟

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی جنگ ،نتیجہ کیا ہو گا؟

تحریر : راجہ زاہد اختر خانزادہ

گذشتہ 2018 کے عام انتخابات میں میثاق جمہوریت پر عہدوپیمان کرنے والوں نے ایک دوسرے کے ساتھحلفیہ طور پر عہد وپیماں کرنے کے بعد اپنے عہد سے بیوفائی  کرتے ہوئے پاکستان کی فوجیاسٹیبلشمنٹ کو خود سے ہی یہ موقع فراہم کیا کہ وہ ایک بار پھر جمہوریت کے نوزائیدہ پودےکو  جڑ سمیت اکھاڑ پھینکیں، اس طرح اسٹیبلشمنٹ نے اس بار جمہوریت کی بساط جمہوریت اورجمہوری قوتوں کے ذریعے ہی سمیٹنے کی دلچسپ واردات کی ،جس کے نتیجے میں فوجیاسٹیبلشمنٹ نے ایک ایسے کٹھ پتلی سیاستدان کو ووٹ چوری کر کے مسند اقتدار پر بٹھایا جس کاخواب عوام کی خدمت نہیں بلکہ وزیر اعظم کی وہ کرسی تھی جس کو  وہ روزانہ اپنے خوابوں میںسجا دیکھتا تھا، اس طرح2018ء کے انتخابات کے ذریعے ایک جانب آرمی اسٹیبلشمنٹ کا وہ خوابشرمندہ تعبیر ا ہوا جس کے لئے وہ مسلسل گزشتہ چھ سالوں سے کوششیں اور گیم پلان کر کےجمہوری حکومتوں کو کمزور کرتے چلے آ رہے تھے 2018ء میں اس واردات کے ذریعے ایسا گیم پلانمرتب کیا گیا کہ آمریت پر بھی کوئی آنچ نہیں آئی جبکہ جمہوریت کے ذریعے ہی انہوں نےجمہوریت کو ذلیل ورسوا بھی کر دیا اور وہ عوام جس کو اپنے اس کپتان سے بہت زیادہ امیدیں اورتوقعات وابستہ تھیں وہ ان کے لئے رحمت کے بجائے زحمت  ثابت ہوا، گزشتہ سوا دو سالوں سےکپتان نے پاکستانی عوام کے ساتھ جو وعدہ کئے وہ سب سبز باغ ثابت ہوئے یہی وجہ ہے کہ عوامکی اکثریت کی اس جمہوریت سے بھی امیدیں ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگئیں ، اس جمہوریت میں یہبھی ہوا کہ سیاسی رہنمائوں کو غداری کے سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کئے گئے ، بغاوت تک کے مقدمہ  اس نام نہدجمہوری حکومت میں بنائےگئے حال ہی میں جو غداری کا مقدمہ بنایا گیا اس میں آزادکشمیر کے موجودہ منتخب وزیر اعظم کا نام بھی شامل ہے، جس  سے انڈیا کے وزیر اعظم نریندرمودی کے اس مؤقف کو بھی تقویت ملتی ہے کہ کشمیری واقعی غدار ہیں اور ان پر غداری اور بغاوتکے مقدمے بننے چاہئیں،موجودہ حکمران جن کو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت کا لبادہ پہنایا ہواہے ،انہوں نے اپنے اقدامات کے ذریعے دراصل ان سوا دو سالوں میں سابقہ آمریتی دور کو بھیمات دے ڈالی، یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت بہت ہی کم عرصہ میں اب عوامی نفرت اور غم وغصہکا سامنا کررہی ہے، عوام میں  مقبولیت کا ریکارڈ قائم کرنے والا وزیر اعظم ان دو سالوں میں غیرمقبولیت کا بھی ریکارڈ قائم کرچکا ہے، نیب اور عدالتوں کو بھی جس طرح سیاستدانوں، صحافیوںاور اظہار رائے کی آزادی کا استعمال کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا گیا،اس کی ماضی میںکوئی مثال نہیں ملتی، موجودہ کٹھ پتلی حکمران جو کچھ کررہے ہیں اور وہ آج جس تکبر اور گھمنڈکا شکار ہیں، ان کو یہ سوچنا ہو گا کہ آج جس صورتحال میں ان کے سیاسی مخالفین ہیں وہ کلخود بھی اس سے بدتر صورتحال کا شکار ہو سکتے ہیں اور وہ عمران خان جس کے گرد خانہبدوشوں کا ٹولہ جمع  ہے یقینا کل یہ ٹولہ ان کے قریب بھی نہیں ہو گا، بہر کیف اس وقت ملک بھرمیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک نئے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا قیامعمل میں لایا گیا ہے جن کی جانب سے پاکستان بھر کے مختلف شہروں میں احتجاجی جلسہ کرنےکا پروگرام مرتب کیا گیا اور یہ جلسے گوجرانوالہ اورکراچی میں منعقد ہو چکے ہیں، جبکہ  بعدازاں، لاہور، ملتان، پشاور اورکوئٹہ میں احتجاجی جلسہ منعقد کئے جائیں گے، اس سیاسی الائینزکے قیام کے بعد ایک صورتحال جو کہ تبدیل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے جو کھیل اسٹیبشلمنٹ اورپاکستان کی دوبڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان کھیلا جا رہا تھااب اس میں دیگر پارٹیوں کےکھلاڑی بھی شامل ہو گئے ہیں، جس میں بڑی سیاسی طاقت مولانا فضل الرحمن کی جماعتجمعیت علماء اسلام کی ہے، اس جماعت کے پاس جہاں اسٹریٹ پاور ہے وہاں ان کے پاس فوج کیطرز پر لڑنے والا جتھا بھی موجود ہے، ان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہگزشتہ دنوں نیب کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو دھمکانے کیلئے دیگر سیاستدانوں کی طرحان کو بھی نوٹس بھیجا گیا ،جس کے فوری بعد جمعیت علماء اسلام نے موجودہ حکومت کے خلافاحتجاج کی کال دینے کے بجائے ڈائریکٹ آرمی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف احتجاج کی کال دیتے ہوئےکور کمانڈر کے دفتر کے باہر مظاہرہ۔ کرنے  کا اعلان کردیا  ، جس کے فوری بعد مولانا فضل الرحمنکے خلاف نیب کا دیا ہوا نوٹس واپس لے لیا گیا، بہر کیف ملک بھر میں جیسے ہی جلسہ جلوسوں کاسلسلہ شروع ہوا ہے تواس کے بعد ماحول میں بھی گرمی پیدا ہوچکی ہے، آنے والا متوقع سیاسیاحتجاج مزید کتنی شدت اختیار کر ے گا اس کا ممکنہ طور پر تو اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہملک کے اندر مزید اور کیا کچھ ہو رہا ہے اور اس کے مستقبل میں کیا نتائج ہونگے، لیکن یہ باتیقینی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے حکومت مخالف سیاستدانوںکے ساتھ انتقامانہ اور جارہانہ رویہ اپنایا جارہا ہے جوکہ کسی طور درست نہیں ، اس طرح ایکطرف مخالف سیاستدانوں کے ساتھ انتقامی کارروائیاں تو دوسری جانب عوام کو مہنگائی کے مزیدبوجھ تلے دبانے کے باعث عوام بھی اس حکومت سے انتہائی نالاں دکھائی دے ہے ہیں ، حکومتیدعویٰ ہے کہ ملک آگے ترقی کررہا ہے جبکہ اپوزیشن رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ملک میں کچھ بھیاچھا نہیں ہو رہا ہے ،معاشی ،داخلہ، خارجہ، تمام پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں ملک آگے بڑھنے کےبجائے ان دو سالوں میں مزید کئی سالوں پیچھے چلا گیا ہے ، اگر ہم بین الاقوامی سروے اور اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو بھی صورتحال انتہائی مایوس کن نظر آتی ہے اس وقت پاکستان میں سبسے بڑے چیلنجز مہنگائی، بیروزگاری ہیں، حکومت نے غربت کے خاتمے کا دعویٰ کیا تھا مگر ان دوسالوں میں جو پالیسیاں دی گئی ہیں وہ سب کی سب غریبوں کا خاتمہ کررہی ہیں، جبکہ حکومتان کے حل کی بجائے مزید بحران پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے، اس کٹھ پتلی حکومت کو ظاہر ہےآرمی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور حکومت کے خلا ف گرینڈ الائنس بننے کےبعد چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ آئین اور قانون کی رہنمائی میں ہممنتخب حکومت کی مدد جاری رکھیں گے، ملٹری اکیڈمی کا کول میں کیڈٹ کی پاسنگ آئوٹ پریڈسے خطاب میں انہوں نے مزید کہا کہ ہماری قوت عوام ،آئین، جمہوریت اور جمہوری اقدار ہیں،جس کی پیروی ہمارے عوام کرتے ہیں ، اس لئے ہمیں ان اقدار کا تحفظ کرنا ہو گا، ہمارے قدم آئیناور عوام کے اعتماد کے مطابق ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ یہ مفروضہ ہے کہ ملک میں کچھ بھیدرست نہیں، مگر میں یہ یقین دلانا چاہتاہوں کہ یہاں سب کچھ اچھا ہو گا،  آرمی چیف کا بیان کسحد تک حقائق پر مبنی ہے یہ تو آپ سب لوگ بہتر جانتے ہونگے، لیکن اس تقریر کے ذریعے دراصلانہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو ایک واضع پیغام دیا ہے کہ اپوزیشن کچھ بھی کرے وہ موجودہحکومت کی پشت پر موجود رہیں گے، دوسری جانب ان کی تقریر کے حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتاہے، کہ کیا واقعی حکمرانوں نے ملک کو معاشی بحران سے نکال دیا ہے، آرمی چیف کے مطابق کیاواقعی سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے؟ اور کیا واقعی آئندہ مستقبل میں ہر شخص کیلئے آسانیاں پیدا ہوجائیں گے؟ ملک میں کیا واقعی پارلیمنٹ، آئین اور قانون کی بالادستی ہو گی؟ عوام کے حقوق کےتحفظ کو کیا واقعی یقینی بنایا جائے گا؟ ملک کے خلاف دشمن جو سازشیں کررہے ہیں ان کو کیاواقعی ناکامی ملے گی؟ اس وقت جو آپ کی چھتری تلے تمام کام کررہے ہیں، ان کا کیا بنے گا؟ اگرایسا سب کچھ ہو گا تو یہ کہنا درست ہے کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک ہے اگر ایسا نہیں ہے تو یقیناآئندہ آنے والے وقتوں میں آرمی اسٹیبلشمنٹ کوبشمول کٹھ پتلی حکمرانوں سمیت سبکو عوام کودھوکے میں رکھنے کا حساب دیناہو گا، اب عوام کی اکثریت اس بات کو جان چکی ہے کہ پارلیمنٹکی بالادستی ،ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی، عدلیہ ،میڈیا کی آزادی سمیت ملک کے تماماداروں کی مضبوطی سے ہی ملک اور عوام کی خوشحالی ممکن ہو گی اور ایسا اسی صورت میںممکن ہو گا جب حقیقی طور پر حکومتی اقتدار کی باگ ڈور عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس ہوگی جب سیاست کا محور اور منشور صرف اور صرف عوام کی خدمت ہو گا جب عام شخص سے لےکر حکمران اور اداروں کے سربراہوں سمیت ہر کسی کے ساتھ بلا امتیاز وتفریق احتساب ہو گا اوراگر ایسا ہوتا ہے تو ملک واقعی خوشحال ہو گا بہر کیف اس وقت حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میںزبردست جنگ کا آغاز ہو چکا ہے گوجرانوالہ اور پھر کراچی میں میں الائنس کی جانب سے بھر پورطاقت کا مظاہرہ کیا گیا گیا ہے، ملک کی معیشت پر اس کے کیا اثر پڑینگے ؟ لیکن یہ بات صافظاہر ہے کہ اس جنگ میں ایک بار پھر پسنے والی عوام ہی ہو گی ، وہی ہمیشہ سے سارا وزنبرداشت کرتے چلے آ رہے ہیں، اس وقت پاکستانی سیاست میں ایک انارکی کی فضا قائم ہو چکیہے، ہر پارٹی اپنا شو آف دکھانے کیلئے سرگرم عمل ہے، ظاہر ہے اس جنگ میں ایک ادارہ جس کےکرتا دھرنا(پاکستانی جرنیل) ہیں سر فہرست ہے، جس کی وجہ سے یہ سب کچھ کھیل تماشہ لگاہواہے۔اور دراصل تمام سیاسی جماعتوں کا یہ مظاہرہ انہی کرتا دھرنا جرنیلوں کے خلاف ہے جو کہکٹھ پتلی حکمرانوں کو استعمال کررہے ہیں اور درپردہ حکمرانی کررہے ہیں ، ان کی ہی وجہ سےاس جنگ میں دیگر ادارے بھی استعمال ہو رہے ہیں جس سے نقصان تمام اداروں کا ہو رہا ہے کہوہ عوام میں اپنی اہمیت اور اعتماد کھوتے جا رہے ہیں اور اس سے ملک کی ترقی کو بھی نقصانلاحق ہو رہا ہے، ہماراضی دیکھیں تو  پہلے سے ہی  ہمارا ملک ایک بڑے عرصہ تک آمریت اورپارلیمنٹ کے غیر فعال ہونے، آئین کی معطلی، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی پر کاری ضرب لگنے اورپرائی جنگ میں کودے جانے کے سبب بد امنی ، دہشت گردی اور معاشی دیوالیہ پن جیسے بحرانوںکا شکار رہا ہے، آج بھی ہم انہی پریشانیوں میں جھکڑے ہوئے ہیں،اس وقت بھی مہنگائی،بیروزگاری ،بڑے مسائل میں سر فہرست ہے، لیکن حکمران بجائے ان کو حل کرنے کے مزید بحرانپیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں اگر آج ہم اپنی صورتحال دیکھیں تو ہم وسطی ایشیائی ممالک کیصفوں میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں، حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر معمول سے چند منٹزیادہ بارش ہو جائے تو دیہات تو کیا شہر بھی سیلاب کی زد میں آ جاتے ہیں اور مہینوں تک عواماپنے گھر جانے سے قاصر رہتے ہیں، اس طرح تعلیم اور صحت میں بھی ہم بہت پیچھے ہیں، ہمارےپاس امن ایک مہمان کی صورت میں آتا ہے، جس میں جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا، روزگار کےمواقع بڑھانے کے بجائے سکڑتے جا رہے ہیں، صوبوں کو دیکھیں تو وہ ایک دوسرے کے خلافشکایتیں کرتے نظر آ رہے ہیں، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کے عوام کو بہت زیادہ شکایاتہیں، کہ انکے عوام کو اپنے وسائل سے محروم کر دیا گیا ہے، گیس کی رائیلٹی  ہو یا تیل سمیت دیگرمعدنیات، سی پورٹ کی آمدنی، اس پر صوبوں کا کوئی حق نہیں، عوا م کی زندگیوں کے اوقاتگھنٹوں تاریکیوں میں گزرتے ہیں، اب وفاقی ملازمین بھی سراپا احتجاج ہیں،بلوچستان اور سندھ توپہلے سے ہی اپنے غم وغصہ کا اظہار کررہے ہیں، شمالی وزیر ستان میں حالات اطمینان بخشنہیں، عام افراد حکمرانوں سے انتہائی ناخوش اور نالاں ہیں، وہ ملک جس کو اللہ نے ان گنتنعمتوں سے نوازا، جہاں ندیاں اور جھیل ، سمندر، اونچے پہاڑ، برف پوش چٹانیں، معدنیات سمیتہمیں سب کچھ اللہ نے عطاء کیا ہے جب کہ چار موسموں کی تمام برکات بھی  ہم پر اترتی ہیں، مگرباوجود اللہ کی ان تمام نوازشوں کے اگر عوام کے پاس دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو سکے، اور عوامکی اکثریت غربت کی لکیر سے بھی زیادہ نیچے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں، جہاں گندگیاور غلاظت کے ڈھیر ہوں اور عوام عزت کی زندگی گزارنے سے قاصر ہوں، تو وہاں کے ریاستی نظاماور حکمرانوں کیلئے یہ ایک بڑا سوال ہے کیونکہ ہم دنیا میں انگلیوں پر گنی جانے والی ایٹمی قوتوںمیں شمار ہوتے ہیں، مگر اندرونی حالات ہمیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتے اور یہ اندرونی حالاتہمارے ہی خراب کردہ ہیں، اس میں کسی باہر والے کا کوئی قصور نہیں، اس لئے حقیقت یہ ہے کہہماری تباہی کیلئے ہمیں اب کسی دشمن کی بھی ضرورت نہیں رہی، بہتر حکمرانیگزشتہ73سالوں سے دیوانے کے خواب کی مانند ہے، جس طرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ پوری طرح پورےنظام پر مسلط ہے، یہی وجہ ہے کہ بہترحکمرانی کی تعبیر ہمیں دور دور تک نظر نہیں آتی،تاوقت کہعوام خودبیدار نہ ہوجائیں اور اپنے حقوق کیلئے وہ خود سراپا احتجاج ہوکر اپنے حقوق غاصبوںسے چھین لیں ، جس طرح یہاں بہتر حکمرانی ناپید ہے، اس طرح اظہار رائے کی آزادی کی اُمیدبھی کبھی بھی پوری نہ ہوسکی ،سیاست جو کہ ایک سماجی علم ہے،  اس کے خلاف درپردہ ملٹریاسٹیبلشمنٹ کی جانب سے  جمہوریت کے خلاف کی جانے والی تشہیر نے جمہوریت کو  اتنا کمزورکر دیا ہے کہ اب عوام اس سماجی علمسیاستپر یقین کرنے کیلئے بھی تیار نہیں، اور یہیاشٹبلشمینٹ کی جیت بھی ہے، ہماری اشٹیبلشمینٹ نے ماضی میں بھی اسظرح کی  ریشہ دوانیوںکا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں دیکھا، مگر ہر دس سالوں کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی جانب سےوہی تجربہ کیا جاتا ہے،وہی عمل بار بار دہرایا جاتا ہے جو کہ ماضی میں ہماری ناکامیوں کا سبببنا، اس لئے ہم ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں، اس لئے اگر ہمکو اپنی اگلی نسلوں کیلئے ایک مستحکم اور بہتر پاکستان، مستحکم نظام دینا چاہتے ہیں تو قومکو  اصل دشمن کو پہچاننا ہو گا ، کٹھ پتلی حکمرانوں کے پیچھے ان ہاتھوں کو بے نقاب کرنا ہو گا،جن کے ذریعہ یہ پتلی تماشہ گزشتہ73سالوں سے کھیلا جا رہا ہے، یہ وہی ہیں جو فرقہ واریت ،لسانیت کو پروان چڑھا کر ہماری قوم کو تقسیم کئے ہوئے  ہیں، تا کہ ہم آپس میں ہی دست وگریباںرہیں اسلیئے ہمیں تقسیم در تقسیم کے عمل کو ختم کر کے ایک دوسرے کا دست وبازوں بننا ہوگا،ایسے سیاستدانوں کا انتخاب کرنا ہو گا، جو کہ اپنے مفادات کیلئے نہیں بلکہ  حقیقی معنوں میںعوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہوں، جن کا منشور نفرت کی آگ سے بچا کر ہمیں ایک قوم جمع کرناہو اور جو اسٹیبلشمنٹ کے مہرہ نہ ہوں، اب سیاستدانوں کو بھی2018ء کے انتخابات سے سبقحاصل کرلینا چاہیے اور ان کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ بغیر کسی لاگ لپیٹ کے جرأت کےساتھ اپنی بات عوام کے سامنے کہہ سکیں اور حقیقی جمہوریت لانے کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکیں، بہر کیف گوجرانوالہ کے جلوس کے بعد پی ڈی ایم نے اپنا دوسرا پاور شو کراچی کے جناحگرائونڈ میں دکھایا ہے، اس کے بعد کوئٹہ ، پشاور اور لاہور میں ان کے جلسے ہونگے، اس طرح اگلےدو سے تین ماہ تک ملک میں سیاسی آب وہوا انتہائی گرم رہے گی، اس کے نتائج کیا ہونگے، یہابھی یقین سے نہیں کہا سکتا، نوازشریف اب کھلم کھلا چیف آرمی اسٹاف اور دیگر جرنیلوں کواپنی تقاریروں کے ذریعے ان کے مکروہ چہرہ کو بے نقاب کررہے ہیں اور اس وقت مسلم لیگ ن کاکردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ ملک کی مضبوط ترین پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے ملکی تاریخمیں پہلی بار پنجاب کی طاقتور سیاسی طاقت کو چیلنج کیا ہے اور پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نےاس الائیز کو بہت اہم بنا دیا ہے، ماضی میں آرمی  اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کے خلافانتہائی سخت رویہ  اپنایا اور اس کے جواب میں وہبھٹو خاندان کے چار اہم لیڈروں سمیت ہزاروںرہنمائوں اور کارکنوں کی زندگیوں  سے بھی محروم ہوئے ،بہرکیف یہ دوسرا موقع ہے کہ جب پنجابکی سب سے بڑی سیاسی قوت نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے اسٹیبلشمنٹ کو ایک عجیبصورتحال میں ڈال دیا ہے  اس لئے ممکن ہے کہ صورتحال تبدیل ہو جائے، ہو سکتا ہے کہ ُترکی کیطرز پر عوام جرنیلوں کا احتساب کرتے ہوئے ان کو مجبور کر دیں کہ وہ صرف اور صرف ملک کیسرحدوں کی حفاظت کریں اور سیاست بازی سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔  اور جو فنڈز انکودیئے جاتے ہیں وہ منتخب نمائیندوں کو اسکا حساب دیں لیکن یہ سب کچھ کہنا قبل از وقت  اورایک دیوانے کا خواب محسوس ہوتا ہے ، اس وقت سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو جنگچل رہی ہے،اس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، اسکا اندازہ کچھ ہی دنوں میں سامنے نظر آ جائے گامگر اسٹیبلشمنٹ ایک طاقتور ادارہ ہے اور جب تک وہاں سے بھی اندرونی طور کوئی انقلاب برپانہیں ہوتا ، تب تک یہ بلی اور چوہے والا کھیل چلتا رہے گا مگر پھر بھی فیصلہ کن قوت عوام ہیں،اگر عوام ایک بار اپنے حقوق کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ ایسے سیاسی رہنمائوں کا انتخاب کرلیتے ہیں جو کہ اس ضمن میں اپنا سخت  مؤقف رکھتے ہوں  تو شاید اصل تبدیلی کا یہ خوابکبھی نہ کبھی شرمندہ تعبیر ہو بھی جائے لیکن یہ بات طے ہے کہ جو کچھ پہلے چلتا چلا آ رہا ہےوہ سب کچھ اس جدید دور میں چلنا انتہائی دشوار کن ہے۔

Check Also

غزہ کی صورتحال عالمی نظام کی مکمل ناکامی ہے، سعودی وزیرخارجہ

سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ غزہ کی صورتحال عالمی نظام …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *