Home / تازہ ترین خبر / ‎نو منتخب امریکی صدر بائیڈن کی جیت خوشگوار ہوا کا جھونکا

‎نو منتخب امریکی صدر بائیڈن کی جیت خوشگوار ہوا کا جھونکا

‎نو منتخب امریکی صدر بائیڈن کی جیت خوشگوار ہوا کا جھونکا

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

‎امریکی عوام نے صدارتی انتخابات میں ووٹ کی طاقت کے ذریعے تبدیلی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر لیا، دنیا بھر میں ہر کسی کی نظریں یہاں کے انتخابات کے پر لگی ہوئی تھیں تاہم دنیا نے دیکھا کہ نسل پرستی، جھوٹ، مخالفین پر ذاتی حملے کرنے والاصدر اب وائیٹ ہائوس سے رخصت ہونے کو ہے، امریکی قوم ایک مہذب قوم کے بطور پوری دنیا میں جانی جاتی ہے لیکن سابقہ انتخابات میں نفرت، نسل
‎پرستی کے نام پر ٹرمپ نے ووٹ حاصل کیئے پوری دنیا اس بات پر حیران اور پریشان تھی جبکہ منتخب ہونے کے بعد اسکی پالیسیوں سے امریکہ میں نسلی اور صنفی نفرتوں نے جنم لیا، اس امر پر بڑے بڑے احتجاج بھی سامنے آئے مگر ٹرمپ نے اس کی پرواہ نہیں کی کیونکہ وہ جو منشور لیکر آایا تھا اسپر عمل کررہا تھا، اور وہ اپنے اسی انداز سیاست سے آگے چلتے رہے، اسطرح اب جب انتخابات کا معرکہ قریب آیا تو ٹرمپ کو یہ سو فیصدی یقین تھا کہ وہ صدارت کا یہ انتخاب باآسانی جیت جائے گا، لیکن ایسا نہ ہو سکا، وہی ریاستیں جو کہ سابقہ انتخاب میں ٹرمپ کو کامیابی سے ہمکنار کرانےکا سبب بنی نہ صرف وہ بلکہ ری پبلکن ریاستیں بھی اس انتخاب میں ان
‎سے منہ موڑ گئیں، ٹرمپ کے مقابلہ میں جوبائیڈن کو امریکی عوام نے نہ صرف کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ ایک تاریخ بھی رقم کی کہ اب تک امریکہ کی تاریخ میں منتخبب ہونے والے تمام صدور کے مقابلے میں جوبائیڈن کو ملنے والے دوٹوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، آپ نے دیکھا کہ انڈیا میں نریندر
‎مودی بھی اس طرح ہندو پرستی کے بل بوتے پر اقتدار کی مسند تک پہنچا ہر جگہ انتہا پسند انتخابات جیتے جسکے بعد
‎ دنیا بھر میں انتہا پسندی کو فروغ ملا، لیکن اب امریکی انتخابات کے نتائج نے یہ بات ثابت کی کہ اب دنیا اس سے بیزار ہے وہ انتہا پسندی اور نسل پرست حکمرانوں سے
‎چھٹکارا چاہتے ہیں گو کہ ٹرمپ اور اس کے کئی حواری اب تک انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں اور وہ اپنی شکست ماننے کیلئے تیار نہیں، ٹرمپ کا خیال ہے کہ پوسٹل بیلٹ میں کافی ہیرا پھیری کی گئی ہے کیونکہ ایسی مشینیں موجود ہیں جو کہ لفافہ کھول کر اس کو اُسی حالت میں دوبارہ سیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ، بہر کیف جو بائیڈن منجھے ہوئے سیاستدان ہیں جو کہ گزشتہ36سالوں سےسینیٹر کے عہدہ پر فائض رہے یہ شاید واحد امریکی صدر ہونگے جو کہ انتخابات کے دوران سب سے کم ذاتی پروفائل سے گزرے ہونگے، وہ8سال نائب صدر کے عہدے پر بھی فائض رہے، اس سے قبل1987ء میں پہلی بار وہ صدارتی امیدوار کی حیثیت میں سامنے آئے مگر وہ دستبردار ہو گئے، اس کی
‎وجہ یہ تھی کہ انہوں نے برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رہنما نیل کانک کی تقریر سے کچھ الفاظ اپنی تقریر میں ملا کر کہہ ڈالے ، جس پر ان کو بطور صدر امیدواری سے
دستبردار ہونا پڑا وہ جب سینیٹر تھے اسوقت انکا کنبہ جس میں ان کی ااہلیہ اور بچی شامل تھیں، ٹریفک حادثہ میں ہلاک ہو گئے، بعد ازاں ایک بچہ دماغ کے کینسر کے باعث ہلاک ہو گیا۔
‎2008وہ صدارتی امیدوار کے بطور آنا چاہتے تھے مگر وہ دستبردار ہو
گئے اور اوباما نے ان کو اپنا نائب صدر چن لیا، بہر کیف جوبائیڈن کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ی صورتحال20سال قبل بھی پیش آئی تھی جب بش اور الگور کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا اور الگور”اس انتخاب میں شکست کھا گئے”الگور نے36دنوں کے بعد سپریم کورٹ کا دورازہ کھٹکھٹایا، سپریم کورٹ نے ووٹ کی گنتی کے بعد فیصلہ بش کے حق میں دیا، اس طرح امریکی عوام کو36دنوں تک نتائج کا انتظار کرنا پڑا، امریکیوں نے1876ء میں بھی چار ماہ
‎صدارتی نتائج کا انتظار کیاتھا، جو بائیڈن نے اپنی جیت کے بعد اپنےپہلے خطاب میں جو کچھ کہا اس سے پوری دنیا میں خوشی ہے اور دنیا میں امید کی ایک
نئی لہر دوڑ گئی ہے، اس طرح کچھ بدلنے یا نہ بدلے مگر وائیٹ ہائوس میں امریکی قوم کی نمائندگی کرنے والے شخص کی زبان مہذبانہ اور مٹھاس سے بھرپور ضرور ہو گی، اس وقت پوری دنیا جہاں کرونا کے موذی مرض کے سبب پری
‎کا شکار ہے وہاں امریکہ میں بھی اب تک مرنے والوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے اوپر پہنچ چکی ہے، کرونا میں اتنی بڑی ہلاکتیں بھی ٹرمپ کی شکست کا سبب بنی ، اس وقت امریکہ میں ایک کروڑ20لاکھ سے زائد شہری بیروزگار ہو چکے
‎ہیں، ٹرمپ کی پالیسیوں کے باعث قوم کی سوچ تقسیم ہوگئی تھی، اس لئے اب جوبائیڈن کو بحیثیت لیڈر امریکی قوم کو ایک پیج پر لانا انکے لیئے ایک بڑا کام ہوگا اور یہ ان کیلئے کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں ہوگا، جوبائیڈن کو ٹرمپ
‎کی جانب سے دھاندلی والا الزام بھی پریشان کرے گا، اس سے ہونا ہانا کچھ ببھی نہیں مگر اس سے عوام کے ذہن ضرور خراب ہو رہے ہیں، وہ اپنے نظام پر بد اعتمادی کا اظہار کررہے ہیں، صدر منتخب جو بائیڈن نے اپنے پہلے 100 دن وہائٹ ​​ہاؤس میں امیگریشن بل پر کام کرنے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتظامی احکامات کو واپس کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔جبکہ حالیہ مہینوں میں اپنی انتخابی مہم پیرس کے آب و ہوا کے معاہدوں میں دوبارہ شامل ہونے کا کہا ہے، اور وہ صدر ٹرمپ کے عالمی ادارہ صحت سے دستبرداری کو بھی مسترد کردینگے۔ وہ مسلم اکثریتی ممالک کے تقریبا تمام سفروں پر پابندی کو ختم کرینگے ، اور وہ اس پروگرام کو دوبارہ بحال کرینگے جوکہ “خواب دیکھنے والوں” کو ، جو بچے غیرقانونی طور پر امریکہ لائے گئے تھے انکو سٹیزن شپ فراہم کرینگے بائیڈن نے این بی سی نیوز کو بتایا کہ وہ ایک ایسا بل تلاش کریں گے جو “11 ملین سے زیادہ غیر دستاویزی لوگوں کے لئے شہریت کا راستہ فراہم کرتا ہے۔”بائیڈن نے کورونا وائرس سے متلق ٹاسک فورس قائم کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے ، اس اعتراف میں کہ عالمی وبائی مرض اس کا بنیادی مسئلہ ہوگا جس کا انھیں سامنا کرنا ہوگا۔ پاکستان کا جہاں تک تعلق ہے تو بائیڈن کی جیت سے پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہونے کی امید ہے کیونکہ افغانستان میں امن کا مسئلہ موجود ہے، طالبان سے بات کرنا اور مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ
‎کا حل تلاش کرنا بہت ضرور ی ہے، اب جبکہ ٹرمپ نے عراق اور افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کے احکامات صادر کردیئے ہیں تو اس صورت میں ان کو مزید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے، صدر بش کے زمانہ میں جب عراق پر
‎حملہ کیا گیا تھا اس وقت شروع دنوں میں نو منتخب صدر بائیڈن نے عراق پر حملہ کی حمایت کی تھی مگر بعد ازاں انہوں نے اپنی رائے تبدیل کر لی تھی، بائیڈن
‎اور ان کی نائب صدر کمیلا ہیرس دونوں کشمیر سے متعلق واضع طور پر ہندوستان کی موجودہ نریندر مودی کی حکومت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے
‎کیونکہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور جب ہندوستان نے اس کو اپنا حصہ قرار دینے کی کوشش کی تو ان دونوں رہنمائوں نے اس پر سخت تحفظات کا ااظہار کیا تھا جبکہ انہوں نے کشمیری مسلمانوں اور انڈین مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر بھی بات کی تھی اس تمام صورتحال کے باعث ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بائیڈن پاکستان کیلئے اچھے ثابت ہونگے جبکہ انہوں نے پاکستان کو جب سینٹ سے امداد منظور کی گئی تھی اسوقت بھی انہوں نے اس بل کی حمایت کی تھی،جوبائیڈن کا تعلق ایک متوسط غریب گھرانے سے ہے مگر وہ بچپن سے ہی بڑے خواب دیکھنے کا عادی تھا، امریکی صدارت اس کا دیرینہ خواب تھا جو کہ اب پائیہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے گو کہ اس بار قسمت نے بائیڈن کا خوب ساتھ
‎دیا ان کو کافی ووٹ ان کے پروگرام یا پارٹی کے سبب نہیں ملے بلکہ ٹرمپ کی مخالف میں بھی ملے یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی ووٹنگ کی ماضی میں مثال بھی نہیں ملتی ، بائیڈن کو ووٹ دینے والے ووٹرز ہر صورت اس کو جتانے پولنگ اسٹیشن
‎تک گئے جبکہ ٹرمپ یہ ہار ماننے کیلئے تیار نہیں، وہ پینٹا گون، سی آئی اے اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنی ہار کا ذمہ دار سمجھتا ہے ، جس کا وہ برملا اظہار بھی کر چکا ہے جبکہ ٹرمپ کی جانب سے اس طرح کے احتجاج اور جارحانہ روش پر
‎پوری دنیا حیرت زدہ ہے کیونکہ انتخابات ان کی نگرانی میں ہوئے اور کئی ریاستیں جہاں پر دونوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا، وہاں پر ان کی اپنی پارٹی ری پبلکن پارٹی کی ریاست میں بھی حکمرانی ہے اور الیکشن کا عملہ
‎اور سیکرٹری تمام لوگ ان کی ہی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، بہر کیف ٹرمپ یہ گیم ہار چکے ہیں ، بائیڈن کے پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف سے بھی کافی تعلقات ہیں، جبکہ انکے بینظیر بھٹو سے بھی اچھے
‎مراسم تھے، اس طرح ان کی جیت پاکستان کی اپوزیشن کیلئے بھی نیک شگون ہے۔اس طرح بائیڈن ،ایران اور روس کے ساتھ بھی تعلقات بہتر رکھنا چاہتے ہیں وہ چین سے متعلق پرانی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونگے، دوسری جانب کمیلاہیرس جن کی والدہ انڈین نژاد ہیں ، اس رشتہ کے سبب قیاس کیا جا رہا ہے کہ انکا جھکائو انڈیا کی طرف ہو گا لیکن کمیلا ہیرس وزیر اعظم نریندر مودی کو اچھا تصور نہیں کرتیں، کشمیر کے حوالے سے انہوں نے واضع بیان دیا ہے اگر ہم ٹرمپ اور بائیڈن کا موازنہ کریں تو ٹرمپ کی سیاست نسل پرستی، نفرت
‎پر مبنی تھی وہ باتوں کے گولے چھوڑنے کے عادی ہیں، نظریاتی طور پر ان کا موازنہ ہم مودی سے کرسکتے ہیں جو کہ مذہبی انتہا پسندی کے نام پر برسراقتدار آئے، یہ حقیقت ہے کہ جب بھی اقتدار نسل پرست یا انتہا پسندوں کے
‎ہاتھوں لگ جاتا ہے تو عوام کا مزاج اور دماغ خرا ب ہو جاتا ہے، اس طرح وہ اپنے زہریلے پروپیگنڈوں کے ذریعے قوم کو بھی ان کے دماغ کا توازن کو خراب کر نے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ وائیٹ ہائوس سے ٹرمپ کیا جا رہا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ وائیٹ ہائوس پر چھائے ہوئے کالے بادل اب چھٹ رہے ہیں، عوام نے اس انتخاب میں نسل پرستی، انتقام کی بد بودار سیاست کو مستر د کیا ہے اور شاید یہ تعاریخ کا شاندار کارنامہ بھی ہو، یقینا عوام نے امریکہ کو اپنے اس فیصلے سے ممکنہ آنے والی تباہی سے بچادیا ہے، ڈیمو کریٹک پارٹی ،ترقی پسند اور روشن خیالی کی حامل جماعت ہے، اس لئے امریکہ کے نو منتخب صدر جوبائیڈن نے بھی اپنے خطاب میں اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ وہ پورے امریکہ کے صدر ہیں اور کئی پالیسیوں کو وہ تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جنوری میں اقتدار کی منتقلی کا عمل ہے اور نئی قیادت کے آنے سے دنیا بھر میں نفرت کے بل بوتے پر سیاست کرنے والوں کیلئے یہ ایک بڑا سبق بھی جبکہ دنیا بھر میں اس تبدیلی کوجمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے والوں نے انتہائی پسند کیا ہے جبکہ امریکہ کے نو منتخب صدر کی جانب سے نفرتوں پر مبنی متنازعہ پالیسیوں کے تبدیل ہونے کا پہلے سے ہی اعلان کر دیا گیاہے ،جبکہ اس انتخاب کے حوالے سے دو حساس مسلم ممالک ایران اور فلسطین کے لیڈروں کے بیانات بھی سامے آئے ہیں، فلسطینی صدر محمود عباس نے نئے صدر کو مبارکباد دی ہے اور انہوں نے وائیٹ ہائوس جس کا انہوں نے تین دہائیوں سے بائیکاٹ کررکھا تھا اس کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے واضح رہے کہ یورشلم کو اسرائیل دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد فلسطینی قیادت نےوائیٹ ہائوس سے بات چیت کا سلسلہ ختم کر دیا تھا، جبکہ ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے بیان میں امریکہ میں نئے صدر کے انتخاب کی خبر کا خیر مقدم کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ وائیٹ ہائوس انتظامیہ اس انتخاب کے ذریعے ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کر سکتی ہے جس کیلئے ایک موقع ہے بہر کیف بائیڈن کی جیت نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کیلئے موسم بہار کا پہلا جھونکا ثابت ہوا ہے

Check Also

وزیر داخلہ کی وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے ملاقات، امن و امان کی صورتحال پر گفتگو

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور سے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *