Home / تازہ ترین خبر / ‎لاہور کا جلسہ اور گیٹ نمبر چار کی پیداوار سیاستدان

‎لاہور کا جلسہ اور گیٹ نمبر چار کی پیداوار سیاستدان

لاہور کا جلسہ اور گیٹ نمبر4کے پیداوار سیاستدان

راجہ زاہد اختر خانزادہ

لاہور پنجاب کا دل ہے گو کہ لاہور کو ماضی میں  آرمی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی چلی آرہی ہے مگر یہ پاکستان کی تاریخی حقیقت ہے کہ آٹھ دہائیوںپر مشتمل بھرپور تحریکی زندگی گزارنے والے پاکستان کے ممتاز وکیل اور بائیں بازو کے نمایاںسیاست دان۔ عابد منٹو سے لے کر بے باک، بے لاگ اور بے خوف افسانہ نگار سعادت منٹو تک اور انقلابی شاعری کااستعارہ رکھنے والے فیض احمد فیض کا بھی یہی جنم بھومی ہے جبکہ آج بھی انکی کہی گئ یہ نظملازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گےاشٹیبلشمنٹ اور جاگیرداروں سے مزاحمت کا ایک مقبول استعارہ سمجھی جاتی ہے، لاہور کی ماضی کی معروف شوشلسٹ رہنما  شیخ رشید سے لے کر  شیخ رفیق تک ان تمام قد آور شخصیات نے اسہی لاہور میں جنم لیا  مرحوم معروف قانون دان اورانسانی حقوق کی علم بردار  مرحومہ عاصمہ جہانگیر جوکہ جرنیلوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر بات کرتی تھیں  وہ بھی اسہی شہر کی باسی  تھیں ، یہ وہی شہر ہے جس نےجب بنگالیوں کے خلاف ملٹری آپریشن  ہوا تو پہلا جلوس بھی یہیں سے نکالا گیا، اس دوران ان رہنماؤں پر بغاوت کے مقدمات بنائے گئے، یہ وہی شہر ہے جب ون یونٹ بنایاگیا  تو دیگر صوبوں کے اقلیتی قوموں کے حقوق کیلئے یہاں سے ہی بازگشت سب سے پہلے سنائی دی گئی، ون یونٹ کے زمانہ میں پاکستان کے تمام ادارے لاہور کی  دفتری زبان پنجابی کے حوالے کئے گئے18ویں ترمیم کے خلاف بھی یہاں سے ہی آواز اٹھائیگئی، اُس زمانہ میں جب مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک تمام بڑے شہروں میں بنگالی زبان  کو قومی زبان کا درجہ دینے کی تحریک چل رہی تھی اور اس مطالبے پر طلبہ  کے خلاف ریاست نے زبردست کریک ڈائون کیا تو یہ شہر ہی تھا جس نے اس پر سب سے پہلے آواز بلند کی تاہم 16دسمبر سانحہ کے بعد یہ نقشہ تبدیل ہوتا چلا گیا، قرارداد لاہور جس کو بعد ازاں قرار داد پاکستان کا کہا گیا وہ بھی اسی شہر سے منظور ہوئی لیکن قیام پاکستان کے بعد اس قرار داد کی روح کے خلافاسٹیبلشمنٹ نے اس پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا، یہ وہی شہر لاہور ہے جہاں  دائیں بازو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے جنم لیا لیکن بعد ازاں اسی شہر سے آمرحکمران جنرل ضیاء الحق نے نواز شریف کا سیاسی جنم دیا اور پھر یہ سر زمین بھٹو مخالف سیاست کا محور ہوکر رہہ گئی جبکہ آرمی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اور کئی مہرے سامنے لاکر انکو اپنے مقاصد کیلئے استمال کیا،70اور80کی دہائیوں میں پی سی او ججز کا بار بار جنم دینے کا رواج اپنایا گیا، جسٹس دراب پٹیل تاریخ کے وہ بہادر جج تھے جنہوں نےجنرل ضیاء الحق کے پی سی او قبول نہیں کیا، لاہور جو کہ کامریڈ مدیحہ سے لیکر وارث میر تک مزاحمت کی ایک تاریخ رکھتا ہے،جبکہ اگر ہم ماضی کے جھرونکوںمیں جھانکیں تو لاہور کا تاریخی شاہی قلعہ  اس بات کی گواہی دیتا نظر آتا ہے کہ جمہوریت کے پرستاروں نے چاہے وہ شہید  ناصر حسین ہوں یا وہ سینکڑوں ان گنت جمہوریت کی شمع کے لاہوری پروانے جنہوں نے آمریت کے ظلم کے خلاف جلنا اور مرنا پسند کیا مگر اپنے آپکو سرینڈر نہیں کیا۔ انہوں نے اسجہدوجہد میں پھانسییاں قبول کیں اور پیٹھوں پر کوڑے کھائے، قید تنہائی کی صعوبتیں بھیخوشی خوشی قبول کیں، اس لیئے ہم سیاسی تاریخ میں لاہور کو کسی طور پاکستان کی سنہری تاریخ سے جدا نہیں کرسکتے۔تاہم جہاں ایسے پروانے موجود تھے وہاں اس شہر نے میر جعفر اور میر صادق جیسے مفاد پرستسیاستدانوں کو بھی جنم دیا۔ اگر ہم پاکستان کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو ایوب خان سے لے کرجنرل مشرف تک ہر آمر نے اپنے آمریتی مارشلاء کے دوران نت نئے مفاد پرست سیاستدانوں کو پیدا کیا اور یہ سلسلہ ابتک چلتا چلاآرہا ہے۔جبکہ بقول  عمران خان کے  شیخ رشید سمیت تمام سیاستدان گیٹ نمبرچار کی پیداوار ہیں، مگر آج وہی گیٹ نمبر چارکی وہ خود پیداوار بن گئے اور اپنی کابینہ میں بھی تمام لوگ اسہی گیٹ سے گذر کر لگائے گئےہیں۔ مولانا فضل الرحمن جو کہ اس وقت پی ڈی ایم کے سربراہ بھی ہیں جبکہ ان کی جماعت عدم تشدد اور مذہبی فکر  کا پرچار کرنے والی جماعت کہلاتی ہے جسکی سیاسی تاریخ100سالوں پر محیط ہے مگر آج جو مولانا اشٹیبلشمینٹ سے اتنے زیادہ نالاں نظر آتے ہیں وہ ماضی میں جنرلپرویز مشرف کو باوردی صدر قبول کرانے میں پیش پیش رہے مولانا نے انکو ، ایل ایف او کے ذریعہ پاکستان کیپارلیمنٹ کے ذریعے نہ صرف انکے ناجائز اقداموں کو جائز قرار دلوایا بلکہ مشرف کو ملک کا باوردی فوجی صدربھی پالیمنٹ کے ذریعہ تسلیم کیا گیا ۔ اسطرح نوازشریف جوکہ جنرل ضیاء کے کندھوں پر سوار ہو کر سیاسی میدان میں اترے تھے انہوں نے  بھی انکے آمریتی دور میں ضیاالحق کو مکمل اور بھرپور مدد فراہم کی اگر ہم محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاست پر نظر دوڑایں تو انہوں نے اپنیسیاسیُ حکمت عملی کے ذریعے سیاست میں مفاہمت کا راستہ اختیار کیا ضیا الحق کی زمانے میں جب یہ نعرے لگتے تھے کہیہ وردی والے بے غیرت، یہ جنرل کرنل بے غیرت” تو محترمہ بینظیر نے اپنے کارکنوں کو ان نعروں کو ختم کرنے کی ہدایت کی اور انہوں نے اس نعرےکو ضیاء الحق تک محدود کرنے کیلئے کہا، یہ فوجی اشٹیبلشمنٹ سے نرم رویہ رکھنے کا ایکمظاہرہ تھا، اسلیئے ہی آج پاکستان کے بعض عوام سیاستدانوں سے یہ سوال کرتے  نظر آتے ہیں کہ وہسیاستدان جن کا ماضی خود بھی اسٹیبلشمنٹ کو پروان چڑھانے کا سبب بنا، وہ  آج  کس منہسے عمران خان کو  ناجائز قرار دے رہے ہیں،اس طرح تھوڑا اور ماضی میں چلے جائیں تو مولانافضل الرحمن نے مشرف دور میں لندن قیام کے دوران مائنس پی پی پی بھی فیصلہ کیا تھا اور کہا تھا کہپرویز مشرف کے ہوتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے،گا ، دراصل یہ بھی مشرف کی ایک چال تھیاور مولانا کے ذریعہ وہ یہ چاہتے تھے کہ تمام پارٹیاں انتخابات سے باہر ہوجائیں اسطرح آگے چلکر اچکزئی سمیت ایسٹی پی اور دیگر جماعتوں نے اس انتخاب کا بائیکاٹ بھی کیا، مگر اے پی ڈی ایم کےبانی(ن) لیگ سمیت دیگر پارٹیںوں نے ان انتخابات میں حصہ لیا اور  یہ محترمہ  بینظیر بھٹو  اور بعدازاں آصف زرداری کی ہی سیاسی حکمت عملی تھی کہ مشرف کو نہصرف وردی جسکو وہ اپنی کھال کہا کرتے تھے نہ صرف اتارنا پڑی بلکہ انکو صدارت کے عہدے سے بھی سبکدوش ہونا پڑا ، گو کہ محترمہ بینظیر بھٹو اس سیاسی جدوجہد میں اپنی جان کی بازی ہار گئیں مگر انہوں نے ملک کو ایک جمہوری حکومت کے قیام کا موقع دلوایا لیکن اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو نہ صرف عمران خان بلکہ سیاستدنوں کی اکثریت بھی کسی نہ کسی طریقے آرمی اسٹیبلشمنٹ کے سہولت کار کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دیتی نظر آئیں، ذوالفقار علی بھٹو ، بگٹی، نواز شریف اور مولانا صاحب سے لے کر متحدہ قومی موومنٹ سب کے سب ہی اس جرم میں برابر کے شریک رہے ہیں  اسطرح  پاکستان میں نہ صرف جرنل شاہی بلکہ جج شاہی اور مقامی جاگیرداروں نے آرمی اسٹیبلشمنٹ کا بھر پور طریقے سے ساتھ دیا جس طرح عوام نے دیکھا کہ چینی چوری میں ملوث جہانگیر ترین، چوہدری شجاعت حسین،چوہدری پرویز الٰہی، مونس الٰہی سے لے کر نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شریف سمیت یہ سب لوگ ایک کردار کے بطور اپنا اپنا فریضہ بخوبی سرانجام دیتے رہے، ان سیاستدانوں سے متعلق نیب سے لے کر ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹس اور مختلف عدالتی معاملات میں بہت کچھ مواد موجود ہے، یہ تمام تاریخ بتانے کامقصد صرف یہ تھا کہ ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیئے، اگر واقعی سیاستدان اباشٹبلشمینٹ سے بیزار ہوچکے ہیں اور وہ اپنے ماضی کے گناہوں کی تلافی کرنا چاہتے ہیں تو بہتاچھی بات ہے مگر عوام ان پر کسطرح اعتبار کریں ؟ لیکن اسکے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہےبہرکیف اپوزیشن کی جانب سے لاہور کا جلسہ لاہور کی سابقہ تاریخ کے ذریعے تاریخ کو شکست دینے کا ایک مظاہرہ تھا کیونکہ آمرانہ نظریہ کے ذریعے جس نے پاکستان کو اب تک مشکل حالات اور صورتحال سے دوچار کررکھا ہے، اسوقت شوشل میڈیا کا دور ہے لیڈران ہینہیں اب عوام بھی یہ جان چکے ہیں کہ  کون ہے جو اصل حکمران ہے، سیستدانوں نے ماضی میں جو کچھ کیا اور جن کاساتھ دیاوہ درست عمل نہیں تھا ، اسلیئے آج بھی اشٹبلشمینٹ کے خلاف آواز بلند کرنے پر گزشتہ ادوار کی طرح ظلم وجبر کاآغاز تشدد کے ساتھ ہو رہا ہے اور آمریت کے ایجنڈا سے اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف آج بھی بھر پور طاقت کااستعمال کر کے ان کے راستے میں رکاوٹیں حائل کی جارہی ہیں، اگر ہم موجودہ حکومت پر نظر کریں تو عمران خان کی کابینہ میں محکمہ داخلہ سے لے کر محکمہ خزانہ تک تمام لوگ کمزور ہیں، شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ بہر کیف لاہور کا جلسہ دراصل شکست ہے آمریتی سوچ کی جس نے پاکستان کو جبراٌ  قیدی بناکررکھا ہے جبکہ ماضی کے ہر آمرانہ دور میں جبر کی شروعات تشدد کے ذریعے ہی رکھی گئی  ہے جس کے ذریعے ہی آمریت کو عوام پر مسلط کیا گیا ہے، آج بھی اختلاف رائے کو جرم بنا دیاگیا ہے، آج  بھی اختلاف رائے کے خلاف ریاستی طاقت کا بے دریخ استعمال کیا جا رہا ہے، آج بھی اس کو دبانے والے اندرون خانہ موجود ہیں، یہ لوگ کبھی شیخ رشید کی زبان میں میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں تو کبھی وہ انکے ذریعہ دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں اور کبھی دبائو کیلئے ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہیں، عمران خان کتنے کمزور وزیر اعظم ہیں اس کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی کابینہ میں پی ٹی آئی کے لوگوں کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے،جبکہ کابینہ میں اکثریت اساکائی لیپسیاستدانوں کی ہے، اشٹیبلشمینٹ نے عمران خان کو جو کابینہ دی ہے وہ بھی ان کے لئے پریشانیوں کا باعث ہے، مگر عمران خان کو معلوم ہے کہ جنہوں نے انکو اقتدار دیا ہے وہی اسکوحفاظت بھی فراہم کرینگے۔ پاکستان میں اگلے سال مارچ کے مہینہ میں سینیٹ کا انتخاب ہو گا،اس لیئے ابھی سے استعفوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، اور اگر استعفیٰ دینے کے اعلان پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے تو اس میں سب سے زیادہ نقصان اور متاثرہ جماعت پیپلز پارٹی ہو گی، ایک جانب پیپلز پارٹی کرپشن کے چکر میں پھنسی ہوئی ہے اور دوسری جانب دیگر پارٹیوں کا دبائو ان کی طرف برقرار ہے، بہر حال آنے والے45دن انتہائی اہم ہیں، سردیوں کے موسم میں سیاسی گرمی کی تپش سبکو محسوس ہورہیہے۔ سیاسی کشمکش دلچسپ صورتحال اختیار کررہی ہے لیکن لاہور کا جلسہ یقینا پی ڈی ایم کی جانب سے عوامی غم وغصہ ظاہر کرنے کا ایک مظہر ثابت ہوا ہے جسکے ذریعہ  آرمی اسٹیبلشمنٹ کو بتایا گیا ہے کہ یہ لاہور اب آپکے ساتھنہیں رہا اس سے واقعی آرمی اشٹیبلشمنٹ پر ایک بڑا دبائو بھی بڑھ رہا ہے، جبکہ امریکہ میں نئیحکومت آنے کے بعد پاکستان کے حوالے سے ہے،آئندہ پاکستان کی سیاست میں کیا ہونے جا رہا ہے، اس سوال کا جواب جاننے والوں کو ابھی مزید45دن انتظار کرنا ہو گا، اگر اپوزیشن نے اپنے پتے پوری طرح نہیں کھیلے تو آرمی اسٹیبلشمنٹ یقینا یہ کھیل مارچ میں جیت سکتی ہے،لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ سیاستدان جو کہ ہمیشہ سے گیٹ نمبر چارکی پیداوار ہیں وہ کس طرح اپنے ماضی کے کردار سے چھٹکارا حاصل کر سکیں گے۔

Check Also

وزیر داخلہ کی وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے ملاقات، امن و امان کی صورتحال پر گفتگو

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور سے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *