Home / قلم شرارے / ‎نیا پاکستان… کیا واقعی تبدیلی آگئی ہے…؟

‎نیا پاکستان… کیا واقعی تبدیلی آگئی ہے…؟

نیا پاکستان… کیا واقعی تبدیلی آگئ  ہے…۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ 

پاکستان میں بے انصافی کی آگ، رشوت ستانی کا زہر، جھوٹ مکرو فریب کے ساتھ جینا، مہنگی تعلیم حاصل کرنے کے باوجودبیروزگاری، نوجوان پر بہتر مستقبل کیلئے والدین اور معاشرتی دبائو ،نوجوانوں کی خوابوں کے برعکس زندگی ،یہی وہ مسائل اور عوامل تھے جس کے سبب قوم پریشان ہے اور ان سب مسائل کے حل کا کورڈ ورڈ”تبدیلی”اور”نئے پاکستان” کا وہ پرکشش نعرہ تھا جس کی بنیاد پر عوام نے  پی ٹی آئی اور عمران خان کو بھر پور طریقے سے ووٹ کیا ،عمران خان کی 21سالوں کی مسلسل جدوجہد  کے بعد انہوں نے  قوم کے ذہن کو تبدیلی کے اسہی کورڈ ورڈ سے کھولا اس  نعرہ کی کشش نے نے کئی موروثی سیاستدانوں کا کاروباربھی  ٹھپ کر کے رکھ دیا، گو کہ عمران خان جب سیاست کی دوڑ میں شامل ہوئے تو وہ انتہائی سچائی کے ساتھ کھری کھری سنا دیتے تھے ، یہ انداز بھی نوجوانوں کے دل میں گھر کرتا چلا گیا، جیو پر کیپٹل ٹاک کے ذریعہ انہوں نے متعد پرگراموں میں شرکت کی اسوقت اور اب بھی روایتی سیاستدان اس کو سچا لیڈر ماننے کیلئے تیار نہ تھے،کوئی اس کو دھوکے باز کہتا تو کوئی اس کو یہودیوں کا جاسوس قرار دیتا، اس کو بہروپیے جیسے الفاظوں سے بھی نوازا گیا ،کبھی طالبان کا ساتھی بتایا گیا تو کبھی مغرب کا دلدادہ قرار دیا گیا، انتخابات سے قبل بھی ان کی سابقہ اہلیہ نے کتاب کے ذریعے جو کچھ لکھا اور بیان کیا وہ انتہائی شرمناک تھا اور پی ٹی آئی کارکنوں کیلئے انتہائی صدمے کا باعث تھا مگر اس کے پیروکار باوجود تمام برائیوں کے اس کو وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان دیکھنا چاہتے تھے،انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی حالانکہ انتخابات سے قبل دوسری پارٹیوں کے مفاد پرست عناصروں نے عمران کے ہاتھ پر جوق در جوق بیعت کرنا بھی شروع کر دی،مخالفین طعنہ دینے لگے کہ یہ کیسی تبدیلی ہے جس میں پرانے لوٹوں سے اپنی پارٹی کو بھرا جا رہا ہے، پرانے کارکن بھی اس سے دلبرداشتہ ہوئے، لیکن بہت سوں کا خیال تھا کہ یہ آنے والے لوگ غرض مند مکھیوں کی مانند ہیں، جو گڑ کی ڈلی سے چمٹنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن عمران ایسا نہیں جو ان آنے والے مفاد پرست لوگوں کے جھانسے میں آ سکے، اسطرح نوجوانوں کا عشق عمران کے ساتھ دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا، کیونکہ عمران نوجوانوں کے زمانے کو سچ ماننے کیلئے ان کا ہم عمر بن گیا تھا، اس نے ان نوجوانوں کے بکھرے خوابوں کی گٹھڑی کوسر پر اٹھایا اور وہ تمام سیڑھیاں عبور کرتا چلا گیا جو کہ دوسرے کئی پرانے  سیاستدانوں کیلئے ایک خواب تھا مگر نوجوان اس کے دست وبازو بن گئے  وہ نوجوان جو کہ افسانوی توقعات کے سحر میں مبتلا ہو چکے تھے ان پر نہ ریحام کی کتا ب نے اثر کیا اور نہ ہی ووٹ کو عزت دو کے نعرے نے گرمی پیدا کی، نہ ہی نواز اور مریم کا جیل جانا ان پر اثر انداز ہوا، بس ان کے ذہنوں میں اور خیالوں میں اگر کوئی بس رہا تھا تو وہ صرف اور صرف عمران خان تھا۔

محرومی،یاس ومایوسی، استدلال، ظلم،عدم تحفظ ومساوات، جاگیردارانہ نظام، شخصی اور خاندانی موروثی سیاست والے گھٹن زدہ ماحول میں ان کی نظر پرتی تو عمران پر ہی پڑتی، وہ یہ کہتے یار سبکو آزمالیا ایک بار اس کو آزمانے میں کیا حرج ہے ؟ کینیڈا سے لے کر امریکہ مشرق وسطیٰ میں بسنے والے پاکستانی ہوں یا کراچی ڈیفنس سے لے کر خیبر تک سب پر اس کا جادود سر چڑھ کر بولا، اب جبکہ عمران خان وزیر اعظم کی کرسی پر برجمان ہیں تو اس کے دیوانوں کے خیالوں اور خوابوں کے خوانچے بھی اونچی اونچی دیواروں پر موجود ہیں ،عمران کی جیت کے بعد کی گئی پہلی تقریر کو مخالفوں نے بھی پسند کیا کیونکہ یہ کسی پر الزامات اور تنقید سے پاک تھی، جس کو سب نے بردبارانہ تقریر قرار دیا کیونکہ انہوں نے اس تقریر کے ذریعے جہاں دوستوں کے دل خوش کئے وہیں دشمنوں کو بھی مایوس نہیں کیا،تعلیم، روزگار، صحت سے متعلق انہوں نے اپنی ترجیحات بیان کیں، ان کا کہنا تھا کہ کئی ملکوں کی اتنی آبادی نہیں جتنے لوگ پاکستان میں تعلیم سے محروم ہیں، انہوں نے وزیر اعظم ہائوس میں اسکول کھولنے اور گورنر ہائوس عوام کو مختص کرنے کی بات کی، عالمی طاقتوں کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی بات کی تو سیاسی مخالفین کو بھی دوستی کی پیشکش کی ،ملک کو کرپشن سے پاک کرنے اور نوجوانوں کو روزگار دینے کے وعدے کئے اب جبکہ اسلام آباد ان کی دسترس میں ہو گا تو تحریک انصاف کو اپنا آپ منوانا ہو گا، اور اپنے کاموں کے ذریعے عوام کو بتانا ہو گا کہ ان کے قول وفعل میں تضاد نہیںہے، حالیہ انتخابات کا اگر ہم جائزہ ہیں تو خیبر پختونخواہ میں ان کو دو تہائی اکثریتی ووٹ ملے جبکہ کراچی اور پنجاب میں بھی انہوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں حالانکہ ان دونوں جگہوں سے دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے لیکن خیبر پختونخواہ میں سیاستدانوں نے دھاندلی کا رونا نہیں رویا، غلام احمد بلور سمیت کئی سیاستدانوں نے نتائج آنے کے بعد اپنی شکست کو بیانگ دھل تسلیم کرتے ہوئے ٹی وی انٹرویو دیئے تاہم بعض سیاسی پنڈتوں کیلئے یہ نتائج غیر متوقع تھے، جبکہ ان کو پی ٹی آئی کی فتح تکلیف دہ لگ رہی تھی اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی سیاست میں عرصہ داراز سے فرسودہ سیاسی کلچر کا مزاج بنا دیا گیا ہے، کئی سیاس رہنما انتخاب جیتنے کو اپنا موروثی حق سمجھتے ہیں، وہ اس بات سے نالاں ہیں کہ وہ کیوں نہیں جیتے تاہم بعض جگہوں پر حیران کن نتائج اور چھ بجے کے بعد فارم45 کا نہ ملنا ہر کسی کیلئے سوالیہ نشان تھا کہ ایسا کیوں کیا گیا، میں خود الیکشن نتائج دیکھ رہا تھا اور جو نتائج نظر آ رہے تھے اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ دونوں جانب نشستیں برابر ،برابر آ رہی ہیں یعنی مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی نشستیں پی ٹی آئی کے مقابلے میں برابر جا رہی تھیں، مگر بعد ازاں یکے بعد دیگرے یہ شکایات آنا شروع ہو گئیں اور کئی جیتے ہوئے امیدوار صبح ہارے ہوئے نظر آئے ٹی وی کے اینکر جو رات کو چیخ رہے تھے صبح ایسے خاموش ہوئے کہ رات ان کی جانب سے کی گئی باتوں پر شک ہونے لگا۔

اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جو کچھ کیا گیا وہ پلان نمبر2تھا جس کے مطابق صرف چند مخصوص حلقوں کو چھیڑا گیا تا کہ سادہ اکثریت دلا کر عمران خان کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکے، اس طرح جیپ،تحریک لبیک سمیت کالعدم تنظیموں کو ان انتخابات میں ووٹ تقسیم کرنے کیلئے استعمال کیا گیا جس پر ان پارٹیوں کے رہنما بھی حیران تھے کہ ہم سے تو کچھ اور وعدہ کیا گیا تھا لیکن26جولائی کو انہیں اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ ان سب کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا ہے۔

نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم کی جانب سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس سے فوج کا مورال کافی حد تک خراب ہوا تاہم نواز شریف پارٹی نے اسٹیبلشمنبٹ کے کردار کے منفی گوشوں کو روشنی میں لا کر عوام کو تہہ داری کا احساس دلا یا، انہوں نے عوام کو بتایا کہ یہ پرچھائیں کون لوگ ہیں ان کا عوام سے کیا رشتہ ہے اور کس سیاستدان کا اصل کردار اسی پرچھائیں کے اثر تلے کام کررہا ہے بہر کیف اب یہ سب تمام باتیں ماضی کا حصہ بن گی ہیں، جو حکومت آچکی ہے اس کے اثرات میڈیا پر بھی سے پڑنا شروع ہو گئے ہیں، حکومت آنے سے قبل ہی میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسر شپ نافذ کر دی گئی ہے او ر بڑے بڑے میڈیا کے مالکان بھی جھکنے پر مجبور ہو گئے ہیں، تا ہم ڈان اخبار اب تک ڈٹا ہوا ہے ہم بھی ماضی کے دھندلک اندھیروں میں واپس جانا نہیں چاہتے مگر اظہار رائے کی آزادی پر بھی کسی قسم کی سودے بازی نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ ہر شہری کا یہ آئینی حق ہے مگر جس طرح سپریم کورٹ اس وقت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی باندی کا کردار ادا کررہی ہے اس امر نے پورے ملک کو اور اس کی عوام کو کمزور کرکے رکھ دیا ہے ،تاہم خوشی کے ان لمحات میں جب عمران خان وزیر اعظم کا حلف اٹھا ہیں تو ہم ان کی یاداشت اور عوام کے ریکارڈ کیلئے ان کو29اپریل2018کا جلسہ یاد دلاتے چلیں جب مینار پاکستان پر ہونے والے جلسہ میں اور20مئی کوعمران خان نے پہلے سو دن کا جو پلان عوام کو دیا تھا اور نئے پاکستان کے حوالے سے پھر25جولائی کو قوم سے خطاب میں انہوں نے جس عزم کا اعادہ کیا تھا، اس کو یاد دلانا اور ضبط تحریر لانا ضروری ہے، عمران خان نے ان مواقعوں میں میں کہا تھا کہ ہم ملک میں استحکام لے کر آئینگے، ٹیکس نیٹ ورک میں اضافہ اور ایف بی آر میں اصلاحات لائی جائی جائیں گی، انکم سپورٹ پروگرام کو6کروڑ پاکستانیوں تک پہنچایا جائے گا تا کہ نچلے طبقہ کمی اور برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا حکومت آنے کے فوری بعد زرعی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے گا، ہاریوں(مزارعوں) کو قرضے فراہم کئے جائینگے، ون ونڈو قرض اسکیم متعارف کرائی جائے گی، پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم بنائے جائینگے، عورتوں کی فلاح وبہبود کیلئے کرمنل جٹس رفارم کا آغاز کیا جائے گا، شہروں میں صاف پانی فراہم کیا جائے گا، طرز حکومت کی تبدیلی اولین ترجیح ہو گی، معیشت کی بحالی سماجی خدمات میں انقلاب، دہشت گردی کا خاتمہ،ملکی سلامتی کی ضمانت،

کرپشن کے خاتمے کیلئے نیب کو خود مختیار اور مضبوط ادارہ بنایا جائے گا، ایک کروڑ نوکریاں پیدا کی جائیں گی، جبکہ انتخاب جیتنے کے بعد عمران نے یہ بھی کہا کہ میں وزیر اعظم ہائوس میں رہنے کے بجائے وزیر انکلیو میں رہونگا، احتساب کی شروعات اپنے آپ سے کروں گا، عمران خان جب یہ باتیں کہہ رہا تھا تو مخالفین نے اس کو دیوانے کے خواب سے تعبیر کیا، اپوزیشن والے اس پروگرام کو ایک کہانی سے تعبیر کررہے ہیں، کسی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اس پر عمران خان ان وعدوں پر عملدرآمد کرا دے گا تو وہ سیاست چھوڑ دینگے، جس میں سرفہرست ایک کروڑ نوکریاں اور50لاکھ گھروں کی تعمیر سر فہرست ہے،اس وقت جو حکمران نہیں ہیں وہ بھی کبھی حکمران تھے ،پیپلز پارٹی، ن لیگ، دونوں کو عوام نے بھر پور میڈیٹ دیا انہوں نے بھی اپنے اپنے دور اقتدار میں پہلے100روز کا پروگرام دیا ،پیپلز پارٹی نے کہا تھا کہ وہ ٹریڈ یونین اور طلبہ تنظیموں پر سے پابندیاں ختم دینگے ، جمہوریت کو استحکام دینگے، دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرینگے، FRCختم کردینگے،فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا، مہنگائی پر قابو پایا جائے گا، بلوچستان میں مصالحتی عمل کی شروعات کی جائے گی،دہشتگردی کا خاتمہ کیا جائے گا، توانائی کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا، معیشت کو مضبوط بنایا جائے گا، اس طرح مئی2013ء میں ن کی حکومت قائم ہوئی انہوں نے بھی100 دن کا جو پروگرام دیا وہ وہی ڈرافٹ تھا جو کہ پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آتے وقت پہلے سے انائونس کیا تھا لیکن ن لیگ نے سیاسی مفاہمت کو ترک کیا، قرضوں میں کمی بھی نہ ہو سکی، ہاریوں کو سہولیات، صحت، تعلیم سب کیلئے، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور خزانہ میں زر مبادلہ کے ذخایر میں اضافہ مگر افسوس دونوں حکومتیں اپنی اپنی باریاں لیکر چلی گئیں کچھ کام کیئے اور کرپشن کی نئی داستانیں رقم کیں جبکہ  عوام اپنی باری کے انتظار میں ہی  رہے، تاہم اب عوام نے عمران خان پر اعتماد کیا ہے اس کے تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے پر لبیک کہہ کر اس کو بھی ایک باری دلا دی ہے گو کہ اپوزیشن عمران خان پر دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہے لیکن آپ نے بھی ایسے پارلیمنٹرین کی اکثریت کو ٹکٹ دئیے ہیں جن کے ساتھ کافی بیگیج ہے اس طرح ان آزاد امیدواروں کو بھی اپنے ساتھ ملایا ہے جو عرصہ دراز سے لوٹا کریسی کا شاخسانہ رہے ہیں، ایم کیو ایم جس کو آپ پوری عمر برا کہتے رہے وہ بھی آپ کی اسی کشتی میں سوار ہیں جس کے ناخدا آپ ہی ہیں۔اسی طرح یہ پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ پی ٹی آئی سے دیگر سیاسی جماعتوں نے اور آزاد امیدواران نے جو بھی معاہدے کئے ہیں ان کو تحریری طور پر لکھا گیا ہے جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اتحاد یوں کا پی ٹی آئی پر اعتماد پختہ نہیں، تاہم ہماری خواہش ہے کہ ملک ترقی کرے ،عوام خوشحال ہوں، کرپٹ سسٹم، غیر شفاف نظام کا خاتمہ ہو،مگر عوام کو یہ نہیں معلوم کہ5,4 سال بعد تبدیلی کے نام پر ان کو ہمیشہ دھوکہ دیا جاتا ہے، آج بھی ایک غیر مستحکم حکومت سامنے ہے،ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ عوام پانچ سال تک اس نظام کے خلاف اپنی نفرتوں اور غصہ کو برداشت کرتے رہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا اصل دشمن بے نقاب ہو مگر جوں ہی5سال پورے ہوتے ہیں توبدقسمتی سے ان کا وہی دشمن نئے انداز میں دوستی، وفاداری، ہمدردی اور محبت کا لبادہ اوڑھ کر آ جاتا ہے اورپھر وہی رہزن ایک بار پھر عوام کی اس تبدیلی کو اُچک لیتا ہے، اپنے دشمن کی پہچان نہ رکھنے والی یہ قوم پھر انہی رہزنوں کو دوست اور ملک  کا مسیحا سمجھ کر اگلے پانچ سالوں کے لئے منتخب کر لیتی ہے، اس طرح سب کچھ بیکار چلا جاتا ہے، یہیی کھیل اکتر سالوں سے چل رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کو یہ پہچاننا ہو گا کہ اس کا اصل دشمن کون ہے جس نے71سالوں سے قوم کو خوش حالی سے دور رکھا ہوا ہے، تحریک انصاف ہو کہ مسلم لیگ ن ،ایم کیو ایم ہو کہ ایم ایم اے ۔اے این پی ہو کہ دیگر مذہبی جماعتیں یہ عوام کی اصل اور حقیقی دشمن نہیں ہیں، ہم سب کا دشمن کرپٹ نظام انتخاب ہے، یہ سب کچھ گزشتہ 71 سالوں سے چلتا چلا آرہا ہے، جس کے ذریعے مخصوص لوگوں کو پالا جا رہا ہے، یہ لوگ ملک کی آبادی کاایک فی صد بھی نہیں جنہوں نے99فیصد قوم کو اپنے گورکھ دھندے میں جکڑا ہوا ہے، اب بھی جعلی جمہوریت ایک بار پھر ہمارے سامنے ہے جو کہ اس کرپٹ نظام کے گرد گھوم رہی ہے یہ سیاست میں بھی دھوکہ ہے، اب بھی دیہی علاقوں میں جاگیردار اور شہری علاقوں میںسرمایہ دار سیاست پر قابض ہیں، پاکستان میں کوئی بھی الیکشن دس بیس کروڑ رپوں سے کم میں نہیں لڑ ا جاسکتا، تمام پارٹیوں میں چند ایک ہی غریب کارکنوں کوان نشستوں میں کوئی حیثیت ملتی ہے ہاں البتہ اس نظام کے خلاف ایم کیو ایم وہ واحدسیاسی جماعت تھی جس کے اراکین اسمبلی متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے تھے لیکن اس میں سے بھی کئی اس کرپٹ زدہ نظام کا شکار ہو گئے،آج جو جنگ آپ اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہم دیکھ رہے ہیں وہ محض نورا کشتی ہے کیونکہ تمام سیاسی پارٹیاں اسی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں ہر دور کی فوجی آمریت نے اپنے سائے تلے ان کی خودپرورش کی ہے،ملک کی اسٹیبلشمنٹ کا اثرورسوخ نہ کبھی کمزور پڑا ہے اور نہ ہی ختم ہوا ہے وہ ایک مضبوط، مستحکم اور مؤثر ادارہ ہے اور اس لئے یہ ایک کھیل اس طرح ہی چلتا رہے گا۔

عمران خان کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف باتیں کرتے تھے  بہت کھری کھری سناتے تھے مگر آج وہ بھی اس کی اسٹیٹ اسکو(Statusquo) کا حصہ بن کر اقتدار کی کرسی پر برجمان ہوچکے ہیں وہ بھی اس وقت ایک طرف جاگیرداروں،وڈیروں تو دوسروی طرف سرمایہ داروں کے چنگل میں ہیں،تیسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں انکے کنٹرول کا ریموٹ موجود ہے ۔ملک کے نوجوانوں نے تبدیلی کے اس نعرہ کو اس لئے لگایا اور  عمران خان کا اسلیئے ساتھ دیا ہے کہ وہ انکو بھی انقلابی سمجھ رہے ہیں اور ان پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں لیکن ان نوجوانوں نہیں معلوم کہ ان کی تبدیلی ہائی جیک ہو چکی ہے،وہی اسٹیبلشمنٹ جو آج ان کو مواقع فراہم کررہی ہے وہی اسٹیبلشمنٹ ماضی میں نواز شریف کو بھی مواقع فراہم کرتی آئی ہے، ایوب خان،یحییٰ،جنرل ضیائ، جنرل مشرف کا دور دیکھ لیں اور سول دور حکومت بھی دیکھ لیں سب مختلف نعرے لیکر آئے لیکن یکے بعد دیگرے سب دھوکہ دیکر چلتے بنے۔تبدیلی آئی تو مخصوص لوگوں کے گھر میں آئی وہ وزیر ہوں یا فوجی جنرل، یہی ہر دور میں خوشحال رہے، میں مایوسی کی بات نہیں کرونگا لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب تک یہ سسٹم رہے گا، عوام اس وقت تک خوشحال نہیں ہو سکتے  پاکستان میں بے انصافی کی آگ، رشوت ستانی کا زہر، جھوٹ مکرو فریب کا کاروبار یونہی چلتا رہے گا، عوام کو اب نئے پاکستان سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ ان اُمیدوں کو پرا کرنے میں ان کی مدد کرے اور عمران خان کو وہ ہمت دے جس کی قوم کو70سالوں سے تلاش ہے لیکن انتخابات کے نتیجہ میں اور اس سے قبل جو واقعات رونما ہوئے ان سے تو مجھے بہتری کی امید نظر نہیں آئی، ہوسکتا ہے کہ کوئی معزہ رونما ہوجائے اور عمران خان تاریخ میں وہ کچھ کرجائیں جسکا وہ اپنے سابقہ ماضی میں بارہا اظہار کرچکے ہیں مگر یاد رہے اصل تبدیلی اس وقت ہی واقع ہو گی جب یہ پورا نظام تبدیل ہو گا تاہم  کسی میں یہ ہمت نہیں کہ اس اسٹیٹس کو کے نظام کو وہ تبدیل کر سکے کیونکہ اس طرح کی تبدیلی بھٹو نے بھی چاہی تھی بینظیر بھٹو بھی ایسی تبدیلی کی خواہاں تھیں باوجود دیگر منفی باتوں کے نواز شریف بھی آج کل اسہی تبدیلی کا خواہاں تھا مگر یہ تبدیلی وہ تمام رہنما نہ لا سکے، شاید اسوجہ سے کہ وہ کرپٹ تھے عمران خان تبدیلی اور نئے پاکستان نعرہ لگا کر وزیر اعظم کی کرسی پر برجمان ہو چکے ہیں اور بقول اقبال

پیوستہ رہ شجر سے

اُمید بہار ریکھ…

اس لئے اب قوم عمران خان کی صورت میں اس امید بہار کی متلاشی ہے مگر وقت کم ہے اور مقبلہ سخت  مگر یہ بات بھی ابھی قبل از وقت ہے ،آنے والے ماہ وسال آپ کو یہ بتا دینگے کہ وہ اپنے اس مشن میں کس حد تک کامیاب ہو سکے ہیں اور نیا پاکستان اور تبدیلی کا یہ خواب جو کروڑوں عوام خصوصاً نوجوانوں نے دیکھا ہے وہ کس حد تک شرمندہ تعبیر ہو سکے گا…!

Check Also

‎کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر

    کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر تحریر : راجہ زاہد اختر خانزادہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے دلبرداشتہ ہو کر چند ایک ماہ سے اس پر اظہار خیال کرنابھی چھوڑ دیا تھا، مگر شاید اپنی اس مٹی سے محبت واپس پھر وہیں کھینچ لانے کومجبور کردیتی ہے کہ اپنے حصے کا حق ادا کیا  جائے،ہماری قوم اور ملک گزشتہ تہتر سالوں سے دائروں کےسفر میں ہے،جس کا کوئی اختتام نہیں ہے ،یہ سفر کولہو میں بندھے ہوئے بیل کی مانند ہے، جسکی کوئی منزل نہیں ہے، جس طرح کولہو کا بیل آشنائے راز سے واقف نہیں ہوتا، اور دن رات چلتاچلا جا تا ہے، اس طرح ہماری قوم کو بھی دائروں کے اس سفر میں الجھا دیا گیا ہے، پاکستان کیآرمی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ سات دہائیوں سے ہر کسی کو کٹھ پتلی بنائے چلی آرہی ہے ، اور انکواسی دائرہ کے سفر میں چلنے پر مجبور کرتی رہی  ہے، اب جبکہ ملک کا تمام میڈیا حکومتی کنٹرولمیں ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ (جیو اور جنگ) کے مالک میر شکیل الرحمن انکی حراست میں ہیں انہوں نے  میڈیاپر پابندی کے ذریعہ کولہو کے اس بیل کی آنکھیں بھی مکملطور بند کردی ہیں ،اس طرح اب اس قوم(بیل) کو جہاں چاہے گھمائو یہ قوم یہی سمجھے گی کہ وہآگے کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن دراصل ہماری منزل ہم سے کوسوں دور ہے، گزشتہ تہتر سالوں سےپاکستان کی تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو ہی دہراتی چلی آرہی ہے، یہ ملک جہاں تھا وہیں پر نہیں بلکہوہ مزید پیچھے کی طرف چلا گیا ہے، اگر ہم یحییٰ خان کے مارشل لاء کو بھی گنتی میں گنیں تواس ملک میں چار مارشل لاء لگ چکے ہیں جو کہ اپنی نوعیت کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلفرہے ہیں، اس دوران کبھی ہمیں سمجھایا گیا کہ مظلوم مسلمان بھائیوں کیلئے جہاد کرنا ہے اسطرح پھر کہا گیا کہ پرائے معاملات میں ٹانگ اڑانا دہشت گردی ہے، کبھی ہمیں یہ بتایا گیا کہ دنیابھر میں بسنے والے مسلمان تمہارے بھائیوں کی طرح ہیں، کبھی تیس لاکھ افغان مہاجرین کےبوجھ تلے قوم کو دبا دیا جاتا ہے، کبھی اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کرا کے امریکی ڈالر خطیرتعداد میں وصول کیئے جاتے ہیں، کبھی تمام مسلمانیت دل سے نکال کر کئی مسلمانوں کو سارےمسلمہ اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غیروں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے، کبھی غیر ملکی ایجنٹوں کو ویزے جاری کر کے انہیں اپنے ہی ملک میں غدار بھرتی کرنے کےکام کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ کبھی اپنے ہی ملک میں دھرنے دلوا کر ملک کی معیشت اورسیاسی استحکام کو دائو پر لگایا جاتا ہے، کبھی جمہوری حکومتوں کو ناک میں نکیل ڈالنے کیلئےان کی کان مروڑی کی جاتی ہے، کبھی ایدھی جیسے شخص کوبھی خریدنے کی کوشش کی جاتیہے، تو کبھی اس کے جنازہ کی آڑ میں اپنا نام بلند کیا جاتا ہے، جب کبھی بھی قوم مشکل میں ہوتو سارا ملبہ سیاسی حکومت پر گرا کر متوازی حکومت کھڑی کرتے ہوئے اپنے نغمہ بجا بجا کر بتایاجاتا ہے کہ یہی ایک ادارہ ہے جو کہ محبت وطن ہے،باقی سب غدار ہیں، یہی آپ سے سچے ہیں،کبھی اپنے ہی ان لیڈروں کو قتل کرا دیا جاتا ہے، جنہوں نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئےسر توڑ کوششیں کی ہوتی ہیں، کبھی غریب صوبوں سندھ اور بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کےان عوام کو جو کہ اپنے لئے حق طلب کرتے ہیں اور اپنے حصہ کی روٹی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیںتو ان کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے، ان کی لاشیں مسخ کر کے پھینک دی جاتی ہیں، کبھی کراچیمیں اردو بولنے والے کو بڑا محب وطن قرار دیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ غدارقوم ہیں اورتو اور انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح تک کوبھی نہیں بخشا ، اس کوبھی ایوب خان کے مقابلہ میں مدقابل آنے پر ”انڈین ایجنٹ”قراردے دیا گیا، ججوں کی تحریک میںپوری قوم ایک ساتھ کھڑی ہوئی میڈیا نے اس تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ججز بحالہوئے مگر مجال ہے کہ کوئی جنرل مشرف کو غدار تک قرار دے دے، وہ پاکستان آیا مگر اس کوباآسانی فرار کرا دیا گیا، جمہوری حکومت بھی آئی تو اس کو گارڈ آف آنرز دے کر رخصت کیا گیا،نواز شریف دور میں ججوں کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں نہ صرف ججوں کی بلکہ ججوں کےاہل خانہ کو ٹریپ کر کے ان کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں، اس طرح ایماندار ججوں کو فیملیکے ذریعہ بلیک میل کیا گیا، دھرنے والوں میں کھلم کھلا رقوم تقسیم کی گئیں اور اس سلسلے میںوہ ایماندار جج قاضی فائز عیسیٰ نے آرمی انٹیلی جنس کی جانب سے رقوم کی تقسیم سے متعلقتاریخی فیصلہ دیا اور کوئٹہ سانحہ  کی تحقیقات پر دبنگ ریمارکس اور فیصلے دئیے، اس کو بھیمیڈیا ٹرائل کے ذریعے بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ، اسکو عہدے سے ہٹایا گیا اس سےقبل ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی آئی ایس آئی پر تنقید کرنے کیپاداش میں ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرف کیا گیا، اس جج نے پاکستان میں  جبریگمشدگیوں کے بارے میں اپنی عدالت میں کہا تھا کہ ” میں سمجھتا ہوں کہ مقامی پولیس بھی انطاقتور ایجنسیوں کے ساتھ مل چکی ہے جنہوں نے ملک کے سماجی ڈھانچے میں رکاوٹیں پیداکررکھی ہیں” جسٹس صدیقی نے آئی ایس آئی پر بھی شدید تنقید کی تھی جس کے بعد انکوخرید کیئے گئے ججوں کے ذریعے فارغ  کرادیا گیا ، ملک میں میڈیا کے ذریعے عوام کو کنٹرولکرنے کیلئے نت نئے گانے بنانے اور سوشل میڈیا پر کروڑوں روپے خرچ  کئے گئے مگر ان سے یہمعلوم نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ رقم فوج نے کہاں اور کیو ں کر خرچ کی؟ دائروں کے اس سفر میں گزشتہ ستر سالوں میں کبھی ہمیں کمشنری نظام ،تو کبھی ضلعی نظامکبھی پھر وہی کمشنری سسٹم اور پھر ضلعی بلدیاتی نظام الغرض وہی دائروں کا سفر جاری اورساری رہا ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پوری قوم کو یکجا کر نے کے بجائے ہمیں گروہوں ،نسلوں اورقبیلوں میں تقسیم کیا ،قوم کو آپس میں تقسیم کر کے ہی ان کا کاروبار چلتا ہے، انہوں نے قوم کومختلف دائروں میں تقسیم کر کے پھر انکو ایک دائرے میں قیدکیا ، اسطرح کسی کو کسی کےدائرے میں جھانکنے کی اجازت بھی نہیں، سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان کا دائرہ ،اردو ،سندھی کادائرہ، بلوچی اور پنجابی دائرہ، سرائیکی اور پنجابی کا دائرہ، شیعہ سنی، وہابی اور بریلویدائرہ، سیکولر اور مذہبی دائرہ ،یہ پوری قوم ان دائروں میں رہتے ہوئے اب تہتر سالوں بعد اپنے آپکو انہی دائروں کا قیدی سمجھنے لگ چکی ہے ، میڈیا جو اس بٹی ہوئی قوم کو شعور کی منزل پرلے جا کر انہیں سمجھانا چاہتا ہے کہ اپنے دائروں سے باہر نکلو اور اگر نکل نہیں سکتے تو ایکدوسرے کیلئے کم از کم احترام  ہی پیدا کرلو مگر جو بھی ایسی کوشش کرے وہ یہاں غدار قرار پاتاہے،دائروں کے اس سفر کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ ہی کوئی منزل، ہاں جو اس دائروں سے باہر اندائروں کو چلا رہے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ ان کی منزل اور کام یہی ہے کہ وہ قوم کو انہی میںمصروف رکھیں،اسی میں ان کی نجات ہے، اس طرح ملک میں جس طرح میں نے پہلے بتایا کہ چارمارشل لاء لگ چکے ہیں، انتخابات بھی ہوئے ،مختلف سیاسی جماعتوں نے اقتدار کیلئے زور آزمائیبھی کی مگر دائروں کے اس سفر میں رہتے ہوئے پاکستان کے نظام میں ذرہ برابر بھی بہتری نظرنہیں آئی، آپ گزشتہ ستر سالوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،ہمارا سیاسی نظام، حکمرانی کیصلاحیتیں، سماجی اور اخلاقی اقدار تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو کر پستی کی طرف گامزن ہیں،اس طرح ماضی میں اپنی کارکردگی پر فخر کرنے والے قومی ادارے بھی ہماری اس تہتر سالہتاریخ میں بد ترین توڑ پھوڑ اور تنزلی کا شکار ہوئے ، جس میں پی آئی اے اور اسٹیل ملز اس کیواضع مثالیں ہیں، مگر یہ تو ہمارے ہی تخلیق کردہ ادارے تھے، مگر وہ ادارے جو کہ انگریز ہمیں دےکر گئے تھے، وہ بھی تو ہم سنبھال نہیں سکے، پوسٹ آفس، ریلوے، تعلیم کا شعبہ، ضلعیانتظامیہ، بلدیاتی ادارے اور قومی خدمات کے کئی ادارے اس وقت اپنی بربادی کی مثال بنے ہوئےہیں، یہ سب ادارے انگریز ہم کو انتہائی بہتر حالت میں دے کر گئے تھے، دائروں کے اس سفر نےتنزلی کی جو داستان رقم کی ہے وہ انتہائی دل دکھانے والی داستان ہے اور عبرتناک بھی ہے ، مگرہم نے اب تک اس سے عبرت حاصل نہیں کی کوئی سبق نہیں سا۔  تاریخ کے مشاہدات اور مطالعہسے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ منظم جمہوری ممالک میں سیاسی قیادتوں نے سول سروسز، قوانین کوباقاعدہ بنایا لہٰذا اس ڈھانچہ سے باہر جو کوئی بھی قدم رکھنے کی کوشش کرتا تو اس کو دیگراداروں کے ذمہ دار روکنے کیلئے قانون پر عملدرآمد کراتے اور قانون کی بالادستی وائم کرنے کیلئےوہ ان قوانین کے ذریعے عملی جامعہ پہنایا جاتا، اس طرح ان پختہ بالغ جمہوری معاشروں میںقانون کی حکمرانی زندگی کا معمول اور رواج بن گئی، اس استحکام کی بنیادی وجہ یا اس کا رازسول سروس کی استقامت میں پنہاں ہوتا ہے، اس لئے ان ممالک میں سول سروسز کو بہت زیادہآئینی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ،اس طرح قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کی کارکردگی کے راستےمیں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی، وہ بلا خوف وخطر کام کرتے ہیں اور اس نظام کو چلاتےہیں، اس طرح کا تحفظ گزشتہ دنوں ہمیں امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں بھی نظر آیا، جہاں پرہیوسٹن کے پولیس چیف نے اپنے ملک کے صدر کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے کہا کہ صدر صاحب اگرآپ عقل ودانش کی بات نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے منہ کو ہی بند رکھیں”پولیس چیف نے یہجملہ پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کی موت کے بعد صدر ٹرمپ کی جانب سے دئیےگئے اس بیان کے جواب میں کہا تھا کہ اگر پولیس عوام کی حفاظت نہیں کر پا رہی ہے تو وہ اس کےلئے ملٹری فورسز کو پولیس کی جگہ تعینات کر سکتے ہیں، اس بیان پر اگر صدر ٹرمپ عملدرآمدکرتے تو واقعی معاملہ مزید بگاڑ کی طرف جاتا ، اس لئے پولیس چیف نے اپنے صدر کی جانب سےاس نظام کو خراب کہنے پر شٹ اپ بھی کہااور ان کو دوسرے لفظوں میں احمق بھی کہہ ڈالا اورمنہ بند کرنے کا مشورہ بھی دے دیا ، ان کا یہ بیان امریکہ بھر کے میڈیا میں کئی دنوں تک گردشکرتا رہا ، امریکہ ہمارے آبائی ملک پاکستان کی طرح 52 ریاستوں کا مجموعہ ہے ، اس طرحپاکستان میں بھی صوبے وفاق کو قائم رکھنے کی علامتیں ہیں، یہ بالکل اس طرح ہے کہ سندھبلوچستان، خیبر پختونخواہ یا پنجاب کے کسی بڑے شہر کا پولیس چیف اپنے ہی وزیر اعظم کیجانب سے اپنے فرائض میں مداخلت پر اس کو شٹ اپ کہہ دے، لیکن ایسا پاکستان میں ممکن نہیں،ویسے بھی اس طرح حق گوئی کے ساتھ اظہار خیال کردینا صدارتی یا پارلیمانی نظام کا تحفہنہیں ، بلکہ سچ یہی ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے اور یہ اس کا لازمی جُز ہے، امریکہ ہینہیں تمام یورپی ممالک میں جہاں جمہوریتیں ہیں وہاں اس طرح قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، مگرآپ پاکستان کو دیکھ لیں جہاں سندھ پولیس کے آئ جی کو رینجر کے سیکٹر کمانڈر نے اغوا کرایااور جبرا ان سے احکامات پر عملدرآمد کرایا ، جمہوریت ہمارے ملک میں بھی ہے لیکن اگر آپ تھانہمیں ایف آئی آر کٹوانے جائیں تو آپ کو حیرانی ہو گی کہ ملک میں سول لاء ، شرعیہ لاء سمیت کئیقوانین نافذ العمل ہیں، اس طرح نہ تیتر اور نہ بٹیر والی صورتحال ہے، اس جمہوریت کو جو لوگکنٹرول کرتے چلے آ رہے ہیں، وہ پاکستان کی آرمی اور اسٹیبلشمنٹ ہے، جنہوں نے گزشتہ70سالوںسے جمہوریت کو اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے، وہی اقتدار پر پوری طرح قابض ہیں اور جبکبھی بھی جمہوری حکومتیں جمہور ان کے مفادات پر چھیڑ چھاڑ کرنے کا سوچتے ہیں تو یہ پھرسے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں، اس لئے آنے والی تمام جمہوریتوں کو ان کی ہی کٹھ پتلی بننا پڑتا ہے، اس اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص خاندان اور جاگیردار سیاسی پارٹیاں باقاعدہ غلام ہیں، اس طرحان قوتوں نے70سالوں سے جمہوریت کو اپنے دائرہ میں قید کررکھا ہے ،ملک میں امیر امیر تر اورغریب غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہمیں جو بھی مافیا ئیں نظر آتی ہیں، سب کیسب اس نظام اور اس اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں، اگر سچا جمہوری معاشرہ تشکیل پا جائے توایسی مافیائیں کبھی بھی اس نظام میں پنپ نہیں سکتیں، پاکستان میں سرمایہ داروں کی شوگرملز مافیائیں ہیں وہ جب چاہیں چینی کی قیمت بڑھا دیں، گندم کی مافیا جب چاہیں ملک میں آٹےکی مصنوعی قلت پیدا کر دیں اور قیمتوں کو آسمان تک چڑھا دیں، اس طرح سیمنٹ ،پٹرول،مافیائیں اپنا منہ کھولے بیٹھی ہوئی ہیں، اب کرونا کے بعد پاکستان سے خبریں آ رہی ہیں کہ دوائوںکی انڈسٹری مافیا نے اس بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوائوں کی قیمتیں کئی فیصد بڑھا دی ہیں،جبکہ حکومت نے ان مافیا کو ار دوام دیتے ہوئے دواوں کی قیمتوں کو حال ہی میں بڑھا دیا ہے اسطرح یہ استحصالی قوتیں انتہائی منظم ہیں، صرف اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کتنیہی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے ، اس طرح اسٹیبلشمنٹ اور ان کی غلام اور لونڈی قوتوں کی حوسکی قیمت غریب عوام کو ہی دینا پڑتی ہے، ایک طرف سیاسی حکمرانوں کی نااہلی کا سانحہ درپیشہے تو دوسری طرف نااہل، خود غرض، سیاسی قوتوں نے سول سروسز کے ڈھانچہ کو برباد کرکےرکھ دیا ہے، اس بربادی کی وجہ سے سول سروسز کو آئینی تحفظ سے محروم رکھا گیا ،وزیر اعظمذوالفقار علی بھٹونے بڑے بڑے کام کئے مگر جب آئین تشکیل پا رہا تھا تو اس وقت بھی اس کو شایدجان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ سیاستدان ان سول سروسز کےافسران کو اپنی وفاداری پر لگانا چاہتے تھے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے خادم بن کر کا م کریں تاکہ ان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکے، یعنی یہ کہ جو کچھ حکمران چاہیں وہ وہیکریں اورسول سروسز رولز ریگولیشن کے نام پر کوئی بھی انکے لیئے رکاوٹ نہ بن سکے، اس طرحملک میں کھلے بندوں قانون شکنی اور لوٹ مار کا کلچر پروان چڑھنے لگا، سول سروسز کے افسراننے بھی اس بہتی گنگا سے اپنا حصہ وصول کیا، لوٹ مار کے اس کلچر میں اخلاقی قدروں کاجنازہ نکل گیا اور مزید کئی اور مافیائوں نے اس نظام کے تحت نیا جنم لیا اور حکومتی انتظامیکارکردگی کا بیڑاغرق کر دیا گیا، ہمارے سامنے اس وقت یہ منظر موجود ہے، قومی اداروں کیکارکردگی زوال پذیری کا شکار ہے، نیچے سے اوپر تک رشوت ستانی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا،ریلوے پوسٹ آفیس، اسٹیل مل، ضلعی انتظامیہ، پی آئی اے، مقامی حکومتوں کے شعبہ ناکارہ ہوچکے ہیں اور اس ناکامی کا سارا وزن غریب عوام برداشت کررہے ہیں، وہی اس کی قیمت ادا کررہےہیں،سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی ڈھانچہ، انتظامی ڈھانچہ اور اخلاقی ڈھانچہ اب اپنے اپنےدائروں میں سفر کررہا ہے، اس لئے حکمران کوئی بھی آئے، کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، اس طرحعوام کو صرف چہرے کی تبدیلی پر لگایا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ بے وقوف بن کر رہ جاتے ہیں ، اسوقت عوام بے بس اور محرومی کے احساس تلے مغلوب دائروں میں یہ سفر جاری رکھے ہوئے ہے،جس طرح پہلے میں نے کہا کہ میڈیا جو کہ عوام کو درست سمت کا تعین کرنے میں بڑا مدد گارتھا،اب اس بیل کی آنکھ پر بھی مکمل اور مضبوط پٹی باندھ دی گئی ہے، میڈیا کو بھی دائروں کےسفر میں ڈال دیا گیا ہے، کسی کو بھی کسی کے دائرے میں جھانکنے کی اجازت نہیں،، مختلفدائروں میں بٹی ہوئی یہ قوم کس طرح تلاش کرے کہ اس کی منزل کیا ہے، اس کے لئے ضروری ہےہمیں اپنی آنکھوں سے اور اپنی عقلوں سے جو پٹی اسٹیبلشمنٹ نے باندھی ہوئی ہے ہم اسکو اتارپھینکیں اور شعور کے ذریعے اصل دشمن کو پہنچانیں اور قوم اور ملک کاہم درست سمت پر تعینکریں ،بصورت دیگر آنے والے وقتوں میں ہم اور ہماری نسلیں اسی دائرے کے سفر میں لگی رہیں گیاور منزل ان سے بھی کوسوں دور ہوگی اسلیئے یہ ایسے سوالات ہیں جنکے جواب آپکو معلوم ہونابہت ضروری ہیں اور یاد رکھیئے جو معاشرہ سوال کرنابھول جاتا ہے۔ وہ جواب کبھی نہیں  ڈھونڈسکتا، اسلیئے جو بھی ایسا سوال کرتا ہے اسکو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *