Home / جاگو دنیا / میں رہوں یا نہ رہوں قافلہ رواں رہے۔۔۔۔۔ آہ سراج بٹ

میں رہوں یا نہ رہوں قافلہ رواں رہے۔۔۔۔۔ آہ سراج بٹ

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

اس کے ارادے پہاڑوں سے زیادہ مضبوط تھے گہرائی سمندر جیسی تھی, 10 ماہ قبل ہی اس کوکینسر کےموذی مرض نےجکڑا لیا تھا، جس کے بعد اس کی بدن کی قوت اور طاقت روبہ زوال ہوتیچلی جارہی تھی، وہ ارادوں کا مضبوط شخص تھا مگر  غیر مرئی اور مرئی طور پر اس کے ڈھلتےبدن اور اعضاء پر وہ اپنی گرفت اور اپنا اختیار کم سے کم کرتا چلا گیا، مگر پھر بھی اس کےارادے پہاڑوں جیسے مضبوط اور توانا تھے، ان گزشتہ دس ماہ میں اس کا جسم موم کے پتلے کیمانند پگھلتا چلا گیا ،میرا دوست میرا ساتھی میرے دکھ درد درد بانٹنے والا ہم پیالا اور ہم نوالہسراج بٹ آج دنیا میں موجود نہیں،مگر اس کی یادیں دل و دماغ میں رچی بسی ہوئی ہیں،امریکہمیں اس سے دوستی ایک دہائی سے زیادہ عرصہ پر محیط تھی اسکی خوشی اخلاقی اور اس کیدوسروں کے لئے جینے اور کچھ کرنے کی عادت ہی شاید ہماری دوستی کا سبب بنی، سراج بٹقراقرم تھنکر فورم کا صدر تھا جبکہ پاکستانی سیاست کے حوالے سے مسلم ڈیموکریٹک کاکس کےپلیٹ فارم اور ساؤتھ ایشیا میں انسانی حقوق اور سیاسی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والیتنظیم ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے بورڈ آف ڈائریکٹر کارکن بھی رہا وہ پاکستان کے سابقصدر صدر پرویز مشرف کی پارٹی ال پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بھی سرگرم رہا مگربعد ازاں وہ پاکستان مسلم لیگ ن ڈیلس کے صدر بھی منتخب ہوئے  ڈیلاس میں وہ فیشن انڈسٹریملبوسات کی کمپنی میں میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، لیڈر شپ کی صلاحیتں اس میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی، اپنے حسن اخلاق کے سبب وہ ہر خاص وعام کے دل جیتنا جانتا تھا،ایک بار یارجس سے ملتا اس کو وہ اپنا گرویدہ کر لیتا تھا کسی کی مدد کرتا تو کے لیے اپنا تن من دھن سبکچھ قربان کر دیتا دوستوں کا ایسا دوست کہ اگر کسی پر کڑا وقت آ جائے تو پیچھے ہٹنے والا نہیںتھا، ڈیلس میں آنے والی کئی فیملیوں کو اس نے کئی کئی ماہ تک اپنے گھر کا سائبان فراہم کیا،اپنے ملک سے دیار غیر میں آنے والوں کےلئے ان کی وہ نہ صرف مدد کرتا بلکہ ان کو کئی کئی ماہتک اپنے گھر میں رہائش فراہم کرتا اور اس فیملی کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں ان کی ہر ممکنمدد کرتا اور جب وہ اس قابل ہو جاتے تو ان کو انجے گھر منتقل کر کے سکھ کا سانس لیتا تھا یہسلسلہ چلتا رہتا تھا، اس کا گھر مہمانوں سے خالی ہوتا تو وہ آپنے آپ کو خالی خالی محسوسکرتا تھا اور اس کو یہ احساس شاید اس لیے بھی شدید تھا کہ وہ اپنی نو عمری کے زمانہ میں ہیپہاڑوں کی زندگی کو خیر آباد کر کے بیرون ملک معاش کی تلاش میں چل نکلا تھا،ملیشیا سے لیکرجاپان اور پھر امریکہ جہاں بھی گیا وہ وہ سمندر کی طرح متحرک زندہ اور لافانی رہا، جہاںراہیں، اجنبی اور نا مہرباں تھیں وہ منزل بے نشان، مگر وہ رستوں کی دھول میں دھند میں اپناسفر جاری رکھے ہوئے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ نیویارک ہو کہ ڈیلس جہاں جہاں بھی قیام پذیررہا وہ متحرک سرگرمیوں کا شریک رہا، ڈیلس میں انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرمیاں ہوں کہمذہبی ثقافتی اور تحریری سرگرمیاں وہ ہر جگہ موجود ہوتا پاکستانیت اس میں کوٹ کوٹ کر بھریہوئی تھی وہ اپنے وطن سے اپنے آبائی شہر یا دیہات سے دور ضرور تھا مگر وہ ہمہ وقت اپنے وطنکی محبت سے سرشار رہتا تھا، اپنے وطن کی سیاست قومی تصورات وہ اپنے بچوں میں بھی دیناچاہتا تھا اس لیے اس چند سال قبل اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچوں کو پانچ ماہ تک اپنے علاقہگلگت چھوڑ کر آئے تاکہ وہ وہاں کا کلچر سیکھ سکیں

ایک طرف امریکہ کی زندگی دوسروں طرف وہ علاقہ جہاں بجلی بھی میسر نہیں تھی اس نے اپنےبچوں کو وہاں تربیت کے لیے لیے عارضی طور منتقل کیا اپنی والدہ اور اپنے بھائی اور دیگر رشتہداروں کے ہمراہ بچوں نے پانچ ماہ کا چلا کاٹا، جب بچے واپس امریکا ائے تو پہچانے نہیں جاتےتھے کیونکہ وہ کمزور ہو چکے تھے،لیکن ایک بات ہر کسی نے محسوس کی کہ وہ جو بچے جو پہلےامریکن ماحول اور کلچر کے مطابق ایکٹ کرتے نظر آتے تھے وہ اب تبدیل ہو چکے تھے،بڑوں کی عزتخصوصاً اپنے والد ایک آنکھ کے اشارے پر بات سمجھ جاتے وہ اپنی خواہشات کو بیان کرتے تھےاور اگر والد کی آنکھ سے  ناراضگی کا اظہار دیکھتے تو وہیں وہ اسپر قابو پا لیتے تھے پاکستانسے آنے کے بعد جب وہ صحت مند تھا بچوں کو امریکہ میں مختلف جگہوں پر گھمانے لے جاتاشاید اس کے اندر کا انسان اس کو بتا چکا تھا تھا کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت اور یہی وجہ ہےکہ بچوں کو جیسے جیسے موقع ملتا تفریح کے لئے وہ  جاتا تھا مگر اس تفریح میں  میں بھی وہبچوں کو امریکی تاریخ سے روشناس کراتا اور ایسی جگہوں پر تفریح کے لئے لے جاتا جہاں پربچوں کو تفریح کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا  تھا بچوں کی تربیت کے ساتھساتھ ساتھ وہ کمیونٹی سرگرمیوں میں بھی جہاں خود حصہ لیتا اپنے بچوں کو بھی آگے لاتاپاکستان ڈے کی تقریبات میں میں ان کے بچےسونی دھرتی اللہ رکھےکا نغمہ پیش کرتے  اورڈھیروں داد تحسین سمیٹتے اس طرح وہ صوفی منش شخص بھی تھا ہماری دوستی کی وجہ بھیشاید یہی تھی وہ میری طرح جس ماحول میں جاتا اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لینے کا کمالرکھتا تھا مذہبی سماجی اور ادبی تقریبات میں میں نہ صرف شریک ہوتا بلکہ انتظامیہ کا حصہبھی ہوتا تھا اس نے اپنے حسن اخلاق اور کمیونٹی خدمات کے ذریعہ انتہائی قلیل وقت میں اپنا نامبنایا۔

ڈیموکریٹک پارٹی میں مسلم کاکس جس کے ذریعے امریکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا نا ہویایا کسی سیاسی کسی اور انسانی حقوق کے حوالے والے سے کام کرنے والی تنظیم ساؤتھ ایشیاڈیموکریسی واچ کا پلیٹ فارم ہو جس کے تحت مقامی یونیورسٹی میں کانفرنس کا انعقاد ہو وہ عملیطور پر سرگرم رہتا، انتظامات کے حوالے سے وہ اس طرح وطن کی مٹی اپنی ماں پاکستان کےحوالے سے منعقدہ پلیٹ فارم ہو جس طرح کہ پاکستان سوسائٹی آف نارتھ ٹیکساس وہ ہر اس جگہموجود رہتا اور جہاں جہاں سے ہماری کمیونٹی کے افراد کو اجتماعی فوائد ملتے وہ اس پلیٹ فارمپر پیش پیش ہوتا، جس طرح میں نے اپنی تحریر کی ابتدا میں تحریر کیا کہ اس کے ارادے پہاڑوںسے زیادہ مضبوط تھے اسلئیے وہ ہر اس موقع پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوتا اور ناممکن کوممکن بناتا مگر چند سال قبل جب اس کو یہ اطلاع ملی کہ ان کی والدہ اس جہان فانی سے رخصتہو گئی ہیں تو اس نے اس صدمہ کو برداشت کیا، اس دن میں شہر سے باہر تھا، واپسی پر انکےگھر گیا جہاں ان کے پاس تعزیت کیلئے آنے والے دوستوں کا تانتا بندھا ہوا تھا دوسرے روز جب میںان کے پاس تعزیت کیلئے پہنچا اور جیسے ہی ان سے بغل گیر ہوا تو وہ میرے سینے سے لگا اورپھوٹ پھوٹ کر رویا۔ جس طرح قدرتی آفات یا برسات جب پہاڑوں پر نازل ہوئی ہے تو پہاڑوں کےدامن میں ندیاں تیز بہاؤ کے ساتھ روانی سے آگے بڑھتی ہیں، اس طرح میں نے اس روز اس کے بلندپہاڑ جیسے حوصلے سے اس کی آنکھوں کے ذریعے اس کے جسم سے ندیوں کو آزاد ہوتے دیکھا،بعد ازاں ان کی اہلیہ نے مجھے بتایا کہ میں ان کا وہ واحد دوست تھا جس سے وہ بغل گیر ہو کررویا، تاہم میں نے کبھی بھی اس کو دکھ اور تکلیف کے دوران پریشان ہوتے نہیں دیکھا وہ ہمیشہمسکراتا رہتا، دوستوں کی جانب سے کبھی کبھار اگر غلطی سرزد ہو جاتیں تو وہ کبھی غصہ نہیںکرتا وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ دوستیاں پالنی پڑتی ہیں۔

دس ماہ قبل جب ڈاکٹروں نے انکو مسلسل پیٹ کی تکلیف کی شکایت پر مشہورہ دیا کہ آپ اینڈواسکوپی کرالیں جس کے بعد ہی پتہ چلا کہ اس کو آنتوں کا کینسر ہے اور وہ آخری اسٹیک پر تھایہ سننے کے بعد ہم سب دوست پریشان تھے مگر وہ ہم سے جیسے ہی  ملا اور تو اسپر اپنیتشویش اظہار کرنے  کے بجائے کہ وہ ہمیں تسلیاں دیتا رہا وہ  ہنس کر کہتا رہا راجہ صاحب کوئیبات نہیں نہیں سب کچھ ٹھیک  ہو جائیگا وہ دوستوں کو جھوٹا دلاسا دیتا رہتا اور کہتا کہہڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ کینسر سے نمٹنے کی ابھی کیموتھراپی میں نئی میڈیسن آئی ہیں میں وہیمیں ٹرائی کروں گا مگر کیموتھراپی کے بار بار لینے کے بعد اس کا جسم مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوتا چلا گیا وہ جو پہاڑوں کی طرح مضبوط قوت ارادی کا مالک تھا اس موذی مرض اور کیموتھراپیکے باعث اس طرح ہو گیا جیسا کہ ڈھلے سورج کے وقت جب انسان کا قد چھوٹا اور سائے لمبے ہوتےچلے جاتے ہیں، سورج پیچھے اور سایہ آگے آگے حرکت کرتا ہے، اس طرح ہی وہ پھر اس سائے کےپیچھے پیچھے چلنے پر مجبور ہو گیا، سراج بٹ اسہی راستے کا مسافر بنا، اس نے اپنے اختیاراتکی کمندیں ڈال دیں اور جب زندگی اس کے پاس بہت ہی قلیل تھی تو وہ چند لمحوں کا حاکم بنناچاہتا تھا، اس کی آسودہ آغوش میں خوابوں اور خواہشوں کی اسکراحت باقی تھیں، وہ محو سفررہا، وہ خواہشوں اور بے بسی کے نرغے میں تھا، ماضی کے حافظے کی باز گشت اس کو سنائیدینے لگیں وہ اپنی نو عمری میں گزاری گئی پہاڑوں کی زندگی کو یاد کرتا مجھے اس نے کچھ روزپہلے ایک وڈیو شیئر کی جس میں گلگت کے خوبصورت جھرنے، سرسبز و شاداب وادیاں صاف پانیقدرتی جھیلیں، آبشاروں خوبصورت سرسبز اور فلک بوس پہاڑ، اس کے ہمراہ روایتی سازوبابمحور کن موسیقی کی صدا میں بولتے یہ الفاظ آج میرے کانوں میں گونج رہے ہیں،

یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمہیں

وڈیو کو میں نے دیکھا تو میں بھی اس منظر میں گم ہوتا چلا گیا میں بھی گلگت میں فطرت کیآغوش تک جانے والی پگڈنڈیوں پر چل پڑا، خوبصورت ترین رنگوں، شاندار ترین مناظر میں گم ہوگیا، کبھی میری نظر و پرفریب آبشار پر تھی تو کبھی برف پر جمی ہوئی جھیل پر اور کبھی وہاںسرخ گالوں والے کھیلتے کودتے بچوں پر واقعی یہ علاقہ میں نے بھی دیکھا ہے یہ خوابوں کی دنیامیں کھلنے والا ایک دریچہ ہے، جہاں فطرت کے ہر چھپے ہوئے گوشے کو تلاش کرنا انتہائی آسانہے۔

جب وہ بیماری کے سخت نرغہ میتھا تو اس نے مجھ سے اپنی ایک خواہش کا ذکر کیا اور کہا کہراجہ صاحب اگر  یہاں امریکہ میں میری  موت واقع ہو جائے تو میری خواہش ہے کہ میں گلگت میںاپنی والدہ کے پہلوں میں دفن ہوں، اس لیے اگر ایسا ہو جائے تو آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ آپمیرے جسد خاکی کو وہاں پہنچا نے کا بندوبست کریں گے میں نے یہ وعدہ ان سے کیا تھا مگرمجھے کیا معلوم تھا کہ وہ مجھے یہ تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا چند ماہ پہلے ڈاکٹروں نے انکو بہتکم وقت دیا مگر اس نے اس کا ذکر کسی دوست سے نہیں کیا، مگر ان کی آنکھوں کے نیچے بڑےحلقوں کے پیچھے پوشیدہ درد کو ہم نہیں سمجھ سکے، کینسر بری طرح ان کو اندر ہی اندر سےنگل رہا تھا، وہ سکون کے پہلوں میں جانا چاہتا تھا، مجھے اس بات کا ہمیشہ افسوس رہے گا کہجس طرح ذمہ داریوں  کی وجہ سے بعض اوقات انسانوں کو خود سے ملنے کا موقع بھی میسر نہیںآتا اس طرح ان کے جاتے ہوئے میں میں ان کو ائیرپورٹ پر خدا حافظ نہیں کہہ سکا، مجھے کیامعلوم تھا کہ وہ لمبے سفر پر چل نکلا ہے اور پہاڑوں کے ماحول اور فضا کے طلسمات میں جکڑا وہاپنے آخری سفر کی جانب رواں دواں ہے اس کے موتی جیسے خواب سمندر کی کف میں کناروں سےلپٹے مجھے جھلستے ہوئے نظر آرہے تھے۔ مگر وہ میرے زار وجود کے سینے پر اپنی لہر کے نشانچھوڑ گیا میں اس کو لبوں کی بے نام جنبش سے  بھی الوداع نہ کہہ سکا وہ زندگی کی بازی ہارنےکے باوجود خوش تھا وہ اب دنیا کی رنگا رنگینیوں اور خوش نما ہنگاموں سے دور چلا گیا تھا وہہفتوں میں ہی اس کے حافظہ کی بازگشت سک بن کر ماحول میں گونج رہی تھی, تاہم وہ پاکستانجانے کے بعد ہی دو ہفتوں میں ڈھلتا چلا گیا، اس کے قدم رک گئے، ٹانگیں جواب دینے لگیں، اس کیخواہش پوری ہو چکی تھی، وہ اپنے علاقے میں تھا، اس کی ماں کا وجود ایک بار پھر اس کےسامنے تھا اور اس کے سامنے اپنی آغوش میں لپٹنے کے انتظار میں تھی وہ کہہ رہی تھی بیٹاکتنے زخم، کتنے دکھ کھا کر میرے پاس پہنچا ہے اور یہ تمام  درد تمہاری جان نے سنبھال رکھےتھے۔ اب ان سب سے چھٹکارے کا وقت آ پہنچا ہے اس کا کہنا تھا کہ تمہارے نازک دل پر دکھوںکے پہاڑ ہیں مگر اب وقت ہے کہ تمہارے بدن میں سے نئی کونپلوں اور کلیوں کو نمو کیا جائے آخریوقت میں کلمہ طیبہ کا ورد کرنے کے دوران  اس نے دو ہچکیاں لیں، وہ پھر اپنی والدہ کے پہلوں میںاس کی گود میں سر رکھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گیا وہ ماں کے پاس جانا چاہتا تھا، اس کیرگوں میں نہ وہ اذیت تھی اور نہ وہ کرب، موت اور زندگی کی کشکول میں ماں کا پیار، مانتا سبکچھ اس کے پاس تھا۔ اب اس کا جسد خاکی استور کے قبرستان پہنچ چکا ہے، اس سرزمین میںجہاں بلند چوٹیوں سے دامنوں تک اترتے ہوئے سرسبز جنگلات اور ان میں سفید جھالروں کی طرحٹھنڈے پانیوں کی ندی نالے ہیں، محبت بھری پر جوش نگاہوں والے مہربان انسان وہاں آتے جاتےہیں، وہ بہتے جھرنوں کی مسکراہٹ میں ہے  جس میں رنگ ہی نہیں، خوشبو بھی ہے، ایسی لاجوابخوشبو جو کہ اپنے اندر سبکو جذب کر لے۔

سراج بٹ کا انتقال اس روز ہوا جس روز میرے شادی کی سالگرہ منائی جاتی ہے اس کی یہ آخریہچکیاں مجھے ہر سال اس موقع پر اس کی یاد دلاتی رہیں گی، کیونکہ یہ ایک ایسا دوست تھا جوکہ ہر کسی سے محبت کرتا وہ اگلے کے دل کا حال نہیں جانتا تھا۔ نیکی کرتا تو اُس کا اجر نہیںمانگتا تھا، اصلاح کا کام کرتا اور کام مکمل ہونے  پر وہ دوسرے  مشن پر لگ جاتا تھا وہ لبوں کےساتھ ساتھ آنکھوں سے بھی گفتگو کرتا تھا اس کی زبان نہیں جذبے بولتے نظر آتے تھے آس کیدھڑکنیں گویا ہوتی تھیں، وہ کمیونٹی میں بھی اجتماعی شعور بیدار کرنا چاہتا تھا، وہ اپنے علاقےکے لوگوں کے لیے ہمہ وقت کام کرنا چاہتا تھا، جو کہ صدیوں سے استحصال اور ناانصافی کیچکی میں پس رہے ہیں۔ ان کے جانے سے یہاں کمیونٹی میں ایک زریں باب اختتام پذیر ہوا ہے مگروہ اپنے کام اپنے نام اور اپنے دوستوں اور انجانوں سے محبت بھرے رشتے جوڑنے کے حوالے سےہمیشہ ان سبکی یادوں میں محفوظ رہے گا۔

Check Also

بلوچستان: دکی میں بارودی سرنگ کے 2 دھماکے، ایک شخص جاں بحق، 20 زخمی

بلوچستان کے ضلع دکی میں بارودی سرنگ کے 2 دھماکے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *