Home / قلم شرارے / کیا خلائی مخلوق کی سیاست دم توڑرہی ہے

کیا خلائی مخلوق کی سیاست دم توڑرہی ہے

کیا خلائی مخلوق کی سیاست دم توڑرہی ہے  

تحریر : راجہ زاہد اختر خانذادہ

کسی بھی ملک کے دفاع میں جہاں اس ملک کی افواج اہم کردار ادا کرتی ہیں و ہیں انٹیلی جنٹس کا ادارہ ملک کی سلامتی اور جنگوں کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرتا ہے  اطلاعا ت کا حصول اس اہم شعبہ کے سر ہوتا ہے جسکی بنیاد پر ملک کے اہم فیصلہ کیئے جاتے ہیں بدقسمتی سے پاکستانی فوج کا اہم شعبہ پاکستان کی ستر سالہ زندگی میں یہ کام ملکی دفاع کی بجائے اپنے ہی ملک میں سیاست میں اکھاڑپچھاڑ کیلئے استعمال کیا جاتا رہا یہیی وجہہ ہے کہ اسکو پاکستان کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں کے ذریعہ پکارا جانے لگا  پاکستان کی اکتر سالہ زندگی کے مختلف ادوار میں خفیہ ایجنس آئی ایس آئی کیلئے پاکستان میں کئی اصطلاحات سامنے آئیں خوف کی ماری ہوئی قوم انکو کبھی خلائی مخلوق تو کبھی اشٹبلشمنٹ سے تعبیر کرتی رہی تو کبھی خفیہ ہاتھ کہ کر پکارتی رہی تو کبھی انکو ریاست کے اندر ریاست کا نام دیا گیا کبھی سخبار والوں نے قانون نافذ کرنے والے ادارے کا تو کبھی عسکری اداروں کا نام دیا آجکل انکو بوٹ والے،جیپ والے اور خلائی مخلوق کا نیا نام مارکیٹ میں آیا ہے جبکہ لاتعداد اور  بھی کئی اصطلاحات اور ناموں سے انکو پکارا جاتا ہے۔  

الیکٹرانک میڈیاجس تیزی سے ترقی کررہا ہے اسکے سبب معلومات کی رسائی عوام الناس کو اب کافی آسان ہوگئی ہے۔پاکستان کی 71سالہ زندگی میں اس ریاستی ادارے کو ڈھال بناکر جو کھیل کھیلا گیا اور کھیلا جارہا ہے اُس سے اب ہر خاص و عام کافی حد تک واقف ہوچکا ہے لیکن ان پڑھ طبقہ یا پڑھا لکھا مگر بے شعور طبقہ ابتک بھی اس حقیقت سے آشنا نہیں ہے۔لیاقت علی خاں،محترمہ فاطمہ جناح،ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو ‘ اکبر بھٹی سمیت لاتعداد سیاسی رہنما مختلف ادوار میں براہ راست اس خلائی مخلوق کے عتاب کا نشانہ بنے اور وہ اسکا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان کی بازی بھی ہارگئے مگر جیت ہمیشہ ایجنسی نے ہی جیتی لیکن اسکے نتیجہ میں پوری قوم آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں سے ہم نے اپنا سفر کی ابتدا کی تھی ۔گورے آقا کی غلامی سے نکل کر ہم کالے آقاؤں کے رحمو کرم پر ہیں اور ہماری نسلیں بی فاختہ کی  رح دکھ جھیلتی چلی آرہی ہیں اور کؤوں کی نسلیں عرصہ سے یہ انڈے کھارہی ہیں میں زیادہ دور نہیں جاتا آمرپرویز مشرف کا دور تو آپکو یاد ہوگا جب مشرف کے لائے ہوئے سیاستدانوں کو مذہبی پارٹیوں کی سہولت کاری میسر کی گئی تھی  بے نظیر بھٹو پر پہلے کارساز خودکش حملہ اور پھر لیاقت باغ میں حملہ کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا گیا تحقیقات بتاتی ہیں اور یہ ریکارڈ پر ہے کہ یہ خودکش بمبار مولانا سمیع الحق کے مدرسہ میں قیام پذیر رہے جنہوں نے بے نظیر کو قتل کیا  ۔یہ وہی مدرسہ ہے جسکو بعد ازاں عمران خان کی حکومت نے سالنہ کئی کڑوڑ روپے امداد بھی فراہم کی اور یہ تمام بات ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔اسطرح آج آپ دیکھ لیں کہ شہید بشیر بلور کے صاحبزادے ہارون کو خودکش حملہ میں شہید کیا گیا اس سے قبل ملتان اور اُچ شریف میں بلاول بھٹو کی انتخابی مہم میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ۔مالہ کنڈ میں جلسہ کا اجازت نامہ منسوخ کیا گیا پنجاب میں داخلہ سے قبل پی پی پی قیادت کو دہشتگردوں کے ممکنہ حملہ کی بھی تنبیہہ کی گئی۔ سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا نے پریس کانفرنس میں برملا کہا کہ آئی ایس آئی کے برگیڈیر عادل اس سارے کھیل کے پیچھے ہیں اسطرح پپلز پارٹی کے ترجمان مصطفیٰ نواز کھوکھر نے دنیا ٹی وی میں کامران خان شو میں بات کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اسہی ایجنسی کے  کرنل عابد شاہ،میجر شہزاد،اور کرنل معیزنامی حاضر سروسز افسران اس سارے سیاسی کھیل تماشہ کے پیچھے ہیں ۔لندن میں نواز شریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیض حمید انتخابات سے پہلے دھاندلیوں میں مصروف عمل ہیں ۔انکا کہنا تھا کہ ہمارے اُمیدواروں کو جیپ کا نشان دلوانے میں بھی انکا کردار ہے اور جنرل فیض اور انکی ٹیم وفاداریاں تبدیل کروانے میں ملوث ہیں نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ فوج کے ترجمان محکمہ آئی۔ایس۔پی۔آر نے ڈی ۔جی۔آئی۔ایس آئی جنرل فیض حمید کے بارے میں صفایاں پیش کی ہیں انکا کہنا تھا کہ یہ عجیب بات ہے کہ فوجی امور کی بجائے سیاسی امور پر صفایاں پیش کی جارہی ہیں ۔انکا مزید کہنا تھا کہ جنرل فیض حمید ہمارے امیدواروں سے شیر کا نشان چھڑوانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔اور انکا ایسی کاروائیوں میں ملوث ہونا حلف اور آئینی کردار سے انحراف ہے۔تاہم انہوں نے مورچوں میں جاکر دشمنوں کا مقابلہ کرنے والے نوجوانوں کیلئے کہا کہ انکو ہماراسیلوٹ ہے۔اسطرح پپلز پارٹی کو کہا جارہا ہے کہ وہ صرف سندھ تک محدود رہے میڈیا کو بھی یہ خلائی مخلوق کنٹرول کررہی ہے جبکہ میڈیا کو کہا جارہاہے کہ تحریک انصاف کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کو مثبت کوریج نہ دی جائے ۔پاکستان کے سب سے پرانے انگلش اخبار  ڈان کو اس الیکشن میں نشانہ بنایا گیا بی بی سی کو تازہ انٹرویو میں ہارون فیملی کے حمید ہارون نے بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں میزبان سٹیون ساکور سے پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر بڑھتی ہوئی پابندی اور عسکری عناصر کی مبینہ طور پر سیاست اور انتخابات سے قبل دھاندلی کے حوالے سے گفتگو کی جسمیں انکا کہنا تھا کہ  ‘گذشتہ دو سالوں سے میڈیا پر دباؤ کا سلسلہ جاری ہے لیکن خاص طور پر پچھلے تین مہینوں سے میڈیا پر دباؤ بڑھ گیا ہے اور آزادانہ تنقید کرنے والے صحافتی اداروں پر حملے کیے جا رہے ہیں ، دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا ہے کہ ’’آج کے اس دور میں آئی ایس آئی پوری طرح عدالتی معاملات میں جوڑ توڑ کرنے میں ملوث ہے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’آئی ایس آئی والے اپنی مرضی کے بنچ بنواتے ہیں۔ خفیہ ادارے آئی ایس آئی والوں نے ہمارے چیف جسٹس کو اپروچ کر کے کہا نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن سے پہلے باہر نہیں آنے دینا۔‘‘

انہوں نےکہا کہ ’’احتساب عدالت پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایڈمنسٹریٹو کنٹرول کیوں ختم کیا گیا؟ عدلیہ کی آزادی سلب ہو چکی ہے۔ آپ کی حویلی بندوق والوں کے کنٹرول میں ہے‘‘۔ 

اسطرح انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی قیادت کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔مگر جب پپلز پارٹی نے اپنا موقف دینے کیلئے پریس کانفرنس کی تو یہ نیوز کانفرنس کسی بھی میڈیا پر دیکھائی نہیں دی جسکو اسہی ایجنسی نے کنٹرول کیا۔۔مالہ کنڈ میں پیپلز پارٹی کو جلسہ کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ پہلے سے  حاصل اجازت کو بھی منسوخ کردیا گیا مگر عمران خان کو وہاں جلسہ کی اجازت دے دی گئی کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 150وہ افراد جوکہ فورتھ شیڈول میں ہیں ۔الیکشن کمیشن نے انکو انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دے دیا جبکہ اسکے برعکس کئی اہم سیاستدانوں کو عدالتوں کے ذریعہ نااہل کراکے انکے لیئے انتخابات کا راستہ روکا گیا اور ایک مخصوص پارٹی کو سپورٹ فراہم کی گئی  ۔انتخابات سے قبل تمام سیاستدانوں کی سیکیورٹی (سپریم کورٹ ) نے واپس لینے کے احکامات صادر کیئے یہ دراصل خلائی مخلوق کی جانب سے سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کو وہی تنبیہ تھی جو کہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے سے قبل دی گئی تھی اسطرح آج بھی PPP/ANP والوں کو خوف دلا کر انتخابی مہم سے دور کرنے والے خودکش طالبان کو آخری حربے کے بطور استعمال کیا گیا تحریک طالبان کا ترجمان اسوقت اسامہ بن لادن کی طرح خلائی مخلوق کا مہمان بنا ہوا ہے۔پاکستان میں اسوقت حالات انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں پاکستان میں اسوقت ضیاء مشرف آمریتی  سوچ اور پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ ن کے لوٹووں  کو جوڑ کر پی ٹی آئی کے ذریعہ ملک کا اقتدار ہتھیا نے کیلئے جو کچھ کیا جارہا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے میڈیا کے ذریعہ جعلی سرویز دکھائے ۔

جا رہے ہیں تاکہ لو گوں کی پہلے سے برین واشنگ کی جا سکے مگر باشعور عوام پاکستان کے بدلتے اور خطرناک اِس سیاسی کلچرل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جس شدت سے اسوقت آئی ایس آئی متحرک ہے ماضی میں بھی وہ اسطرح ہی متحرک تھی مگر میڈیا پر کنٹرول کے باعث یہ باتیں جو آج مارکیٹ میں آجاتی ہیں پہلے نہیں آتی تھیںاسلیئے اب یہ جنگ باشعور افراد بخوبی سمجھنے لگے ہیں،عام تاثر یہی ہے   دنیا بھر میں فوج ملک کیلئے بنائی جاتی ہے تاکہ وہ اسکی حفاظت کرسکی لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان وہ واحد  مُلک ہے جو شاید  فوج کے لئے بنایا گیا ہو چندفوجی جرنیل اوردوہزار  انکے فوجی حواری پورے ملک کو عرصہ سے یرغمال بنائے ہوئے ہیں جبکہ خوف کے ذریعے انہوں نے ابتک قوم پر اپنا محاصرہ برقرار  رکھا ہوا تھا جبکہ ہر دور میں کچھ سیاستدان انکے آلہ کار بنے رہے جنکا اصل انکا مقصد صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہی ہوتا تھا یہی حال ہمارے مسلم ملک ترکی کا بھی تھا جہاں پر عرصہ دراز سے فوج حکمرانی کے مزے لوٹ رہی تھی مگر دنیا نے دیکھا کہ وہاں پر جیسے ہی فوج نے اقتدار پر قبضہ کی کوششیں کی تو طیب اردگان نے قوم سے اپیل کی کہ عوام سڑکوں پرآجائیں پھر کیا ہوا اس فوج کے توپ گولے اور ٹینک سب کچھ عوامی سیلاب کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے آج وہی ترکی ہے جہاں پر کئی فوجی جرنیلوں کو سخت سزائوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے آج عوام تُرکی کے اصل حکمران ہیں اور انکا وزیراعظم  بے باکانہ فیصلہ کر رہا ہے وہ فیصلہ جو قوم کی آواز ہیں۔آپکو یہ بھی یاد ہو گا کہ جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو عمران  خان کی جانب سے اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا گیا  اس دھرنے میں خلائی مخلوق عمران خان  کے ساتھ تھی یہی وجہ تھی کہ اس دھرنے میں انکے کارکنوں  نے پارلیمنٹ کے دروازے تک توڑ ڈالے ،PTVپر قبضہ کیا گیا جبکہ ثالثی کے نام پر خلائی مخلوق نے نواز شریف کو مستعفی ہونے کیلئے کہا مگر وہ ڈٹا رہا اور آخر کار سپریم کورٹ کے ذریعے خلائی مخلوق نے  اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرہی لیا پاکستان میں ہونے والے 2108کے انتخابات اُسہی جھوٹ کا تسلسل ہیں جوکہ گذشتہ 71سالوں سے عوام کے سامنے ہے کراچی کو ہی دیکھ لیجئے کہ مردم شماری کے ذریعے کراچی کی آبادی کو نصف سے بھی کم دکھایا گیا اسطرح پشتون  آبادی والے علاقوں میں صوبائی اسمبلی کی نشت 50ہزار ووٹوں پر بنائی گئی جبکہ کراچی کے دیگر حلقوں میں یہی صوبائی اسمبلی کی نشست ڈھائی لاکھ ووٹوں پر مشتمل ہے، بلوچستان میں تو ویسے ہے فوج حکمران ہے، خیبر پختونخواہ میں اے این پی اور پی پی پی کے ہاتھ پاؤں باندھکر پی ٹی آئی کے پہلوانوں کو میدان میں اتاردیا گیا ہے جو کچھ اکتر سالوں سے ہوتا چلا آرہا ہے وہی فلم دوبارہ سے چلائی جارہی ہے مگر کردار تبدیل ہوچکے ہیں یہ  

اسطرح کی دھاندلی ہے جو کہ عام افراد کی نظر سے ہمیشہ اوجھل رہی ہے کراچی کے لوگوں کے مینڈ یٹ کو کس طرح تقسیم در تقسیم کیا گیا ہے اس سے کراچی میں احساس محرومی  بڑھ رہا ہے پنچاب  ہائی کورٹ کے ذریعہ الطاف حسین کے خطاب پر پابندی کے بعد وہی طریقہ آج نواز شریف پر آزمایا جارہا ہے عدالتوں کے ذریعہ میڈیا سمیت پورے ملکے  کو نکیل ڈالی جارہی ہے  ماضی اگر یاد ہو تو یہی نواز شریف تھا جس نے وزیراعظم گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ کی جانب سے انکی نا اہلی پر خوشی کا اظہار کیا  آج وہی نواز شریف ہے جو اس عمل کا  خود شکار ہورہا ہے۔اب 25جولائی کا دن اب گھنٹوں پر کے فاصلے پر ہے  یہ انتخابات کتنے صاف اور شفاف ہونگے اسکا اندازہ عوام الناس کو بھی پہلے سے ہو چلا ہے یہ بازگشت بھی آرہی ہیں کہ حلوہ بنانے والوں نے اس حلوہ میں ضرورت سے زیادہ میٹھا ڈال دیا ہے لیکن تاریخ سے سبق حاصل نہ کرنے والوں کو یہ جان لینا ہوگا کہ اانہوں نے ماضی میں یہی کچھ کر کے پاکستان کا دائیاں بازو کٹوایا تھا فوج اور جماعت اسلامی کے ذریعے انہوں نے جو کچھ بنگال میں کیا وہ بھی ایک شرمناک تاریخ ہے سندھ ،بلو چستان ، اور خیبر پختواہ  تو پہلے سے ہی  فوج کے عتاب کا شکار تھے اور اگر یہاں کے لوگ  انکے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو ان پر غدار کی مہر با آسانی ثبت کردی جاتی ہے مگر آج پنچاب جاگ چکاہے وہ پنچاب جسکے ہر تیسرے گھر سے لوگ فوج اور عسکری اداروں کی ملازمت کر تے ہیں وہ لوگ آج اپنی ہی اس فوج کے خلاف سراپا احتجاج ہیں وہ کہہ  رہے ہیں کہ آپکا کام سیاست نہیں وہ کہہ رہے ہیں ” ووٹ کو عزت دو” یہ  نعرہ اسوقت پنجاب میں مقبول نعرہ بن چکا ہے ، وہ جان چکے ہیں کہ خلائی مخلوق،اشٹبلشمنٹ،خفیہ ہاتھ،ریاست کے اندر ریاست،بوٹ والے،جیپ والے ، قانون نافذ کرنے والے ادارے، عسکری ادارے کیا بلا ہیں اسو قت سندھ، بلوچستان  اور خیبر پختواہ کے عوام کی نظر یں پنجاب کے عوام پر مرکوز  ہیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں  ان صوبوں کے عوام گذشتہ 71سالوں سے یہی بات کر رہے تھے جس پر انکو ملک دشمن اور غدار کہا گیا وہ عوام جوکہ پر کشش نعروں میں مبتلا ہو کر خلائی مخلوق کی عین خواہشات کے مطابق اپنا ووٹ دیتے رہے ہیں وہ آج انکے ہی خلاف کھڑے  ہو ئے ہیں  سابق وزیراعظم نواز شریف پاکستان میں حقیقی تبدیلی کا خواب سجا کر  واپسی آچکے ہیں اور اپنی بیٹی کے ہمراہ جیل میں ہیں، انکو اِس بات انداز ہے کہ انہوں نے جو راستہ چنا ہے وہ انتہائی دُشوار گذار  کٹھن راستہ ہے انکو معلوم ہے کہ خلائی مخلوق والے انتہائی ظالم اور سفاک بھی ہیں انکو معلوم ہے کہ جو بھی انکی مخالفت کرے وہ اس کو غدار  وطن کہہ کر مار ڈالتے ہیں مگر  اس بار خلائی مخلوق کو چیلنج دینے والا کسی دوسرے صوبہ کا شخص نہیں وہ انکی ہی اپنی دھرتی پنجاب کا بیٹا ہے اور اسکی  مثال فرعون کے گھر میں موسیٰ کی پیدائش جیسی ہی  ہے آج پنجاب جاگ چکا ہے لاہور میں نواز شریف کے استقبال کو روکنے کیلئے جو کچھ کیا گیا اس سے پورے پنچاب کو پتہ چل چکا ہے انکو پتہ چل چکا ہے کہ سیاست داں قصور وار نہیں کیونکہ بھٹو تو کرپٹ نہیں تھا پھر بھی اسکو پھانسی کیوں دی گئی، اسلئے ووٹ کو  عزت دو کا نعرہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے عوام کو پتہ چل چکا ہے کہ ملک میں غیر یقینی کی صورتحال کا اصل ذمہ دار کون ہے یہ خلائی مخلوق اشٹیبملمٹ ،خفیہ ہاتھ ، ریاست کے اندر ریاست ، بوٹ والے اور جیپ والے کون لوگ ہیں ؟ انکا تو اصل کام سرحدوں کی حفاظت ہے نہ کہ سیاست میں اکھاڑ پچھاڑ، کرپشن کرنے والے اور کرانے والے تو یہیی ہاتھ ہیں  اسلیئے اب بوٹ والے اب اپنے گھر میں ہی بغاوت کا شکار ہوچکے ہیں  دونوں جانب سے کمانیں چڑھی ہوئی ہیں تاہم دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں انتخابات کے بعد کیا کچھ ہوتا ہے مگر آثار بتارہے ہیں کہ آنے والی حکومت کیلئے حکمرانی پھولوں کی سیج نیہں بلکہ کانٹوں کا پلنگ ثابت ہوگا۔خلائی مخلوق کی سیاست اب پنجاب دھرتی پر دم توڑنے کیلئے بستر مرگ پر موجود ہے مگر بقول حبیب جالب یہ شعور عوام میں بیدار کرناضروری ہے  کہ۔

اٹھا رہا ہے جو فتنے میری زمینوں میں

وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستینوں میں

کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہوگا

جو پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے سینوں میں

یہ لوگ اس کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں

کہ اقتدار رہے ان کے جانشینوں میں

یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لیے

کھڑے رہو گے کہاں تک تماش بینوں میں

Check Also

‎کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر

    کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر تحریر : راجہ زاہد اختر خانزادہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے دلبرداشتہ ہو کر چند ایک ماہ سے اس پر اظہار خیال کرنابھی چھوڑ دیا تھا، مگر شاید اپنی اس مٹی سے محبت واپس پھر وہیں کھینچ لانے کومجبور کردیتی ہے کہ اپنے حصے کا حق ادا کیا  جائے،ہماری قوم اور ملک گزشتہ تہتر سالوں سے دائروں کےسفر میں ہے،جس کا کوئی اختتام نہیں ہے ،یہ سفر کولہو میں بندھے ہوئے بیل کی مانند ہے، جسکی کوئی منزل نہیں ہے، جس طرح کولہو کا بیل آشنائے راز سے واقف نہیں ہوتا، اور دن رات چلتاچلا جا تا ہے، اس طرح ہماری قوم کو بھی دائروں کے اس سفر میں الجھا دیا گیا ہے، پاکستان کیآرمی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ سات دہائیوں سے ہر کسی کو کٹھ پتلی بنائے چلی آرہی ہے ، اور انکواسی دائرہ کے سفر میں چلنے پر مجبور کرتی رہی  ہے، اب جبکہ ملک کا تمام میڈیا حکومتی کنٹرولمیں ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ (جیو اور جنگ) کے مالک میر شکیل الرحمن انکی حراست میں ہیں انہوں نے  میڈیاپر پابندی کے ذریعہ کولہو کے اس بیل کی آنکھیں بھی مکملطور بند کردی ہیں ،اس طرح اب اس قوم(بیل) کو جہاں چاہے گھمائو یہ قوم یہی سمجھے گی کہ وہآگے کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن دراصل ہماری منزل ہم سے کوسوں دور ہے، گزشتہ تہتر سالوں سےپاکستان کی تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو ہی دہراتی چلی آرہی ہے، یہ ملک جہاں تھا وہیں پر نہیں بلکہوہ مزید پیچھے کی طرف چلا گیا ہے، اگر ہم یحییٰ خان کے مارشل لاء کو بھی گنتی میں گنیں تواس ملک میں چار مارشل لاء لگ چکے ہیں جو کہ اپنی نوعیت کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلفرہے ہیں، اس دوران کبھی ہمیں سمجھایا گیا کہ مظلوم مسلمان بھائیوں کیلئے جہاد کرنا ہے اسطرح پھر کہا گیا کہ پرائے معاملات میں ٹانگ اڑانا دہشت گردی ہے، کبھی ہمیں یہ بتایا گیا کہ دنیابھر میں بسنے والے مسلمان تمہارے بھائیوں کی طرح ہیں، کبھی تیس لاکھ افغان مہاجرین کےبوجھ تلے قوم کو دبا دیا جاتا ہے، کبھی اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کرا کے امریکی ڈالر خطیرتعداد میں وصول کیئے جاتے ہیں، کبھی تمام مسلمانیت دل سے نکال کر کئی مسلمانوں کو سارےمسلمہ اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غیروں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے، کبھی غیر ملکی ایجنٹوں کو ویزے جاری کر کے انہیں اپنے ہی ملک میں غدار بھرتی کرنے کےکام کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ کبھی اپنے ہی ملک میں دھرنے دلوا کر ملک کی معیشت اورسیاسی استحکام کو دائو پر لگایا جاتا ہے، کبھی جمہوری حکومتوں کو ناک میں نکیل ڈالنے کیلئےان کی کان مروڑی کی جاتی ہے، کبھی ایدھی جیسے شخص کوبھی خریدنے کی کوشش کی جاتیہے، تو کبھی اس کے جنازہ کی آڑ میں اپنا نام بلند کیا جاتا ہے، جب کبھی بھی قوم مشکل میں ہوتو سارا ملبہ سیاسی حکومت پر گرا کر متوازی حکومت کھڑی کرتے ہوئے اپنے نغمہ بجا بجا کر بتایاجاتا ہے کہ یہی ایک ادارہ ہے جو کہ محبت وطن ہے،باقی سب غدار ہیں، یہی آپ سے سچے ہیں،کبھی اپنے ہی ان لیڈروں کو قتل کرا دیا جاتا ہے، جنہوں نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئےسر توڑ کوششیں کی ہوتی ہیں، کبھی غریب صوبوں سندھ اور بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کےان عوام کو جو کہ اپنے لئے حق طلب کرتے ہیں اور اپنے حصہ کی روٹی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیںتو ان کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے، ان کی لاشیں مسخ کر کے پھینک دی جاتی ہیں، کبھی کراچیمیں اردو بولنے والے کو بڑا محب وطن قرار دیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ غدارقوم ہیں اورتو اور انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح تک کوبھی نہیں بخشا ، اس کوبھی ایوب خان کے مقابلہ میں مدقابل آنے پر ”انڈین ایجنٹ”قراردے دیا گیا، ججوں کی تحریک میںپوری قوم ایک ساتھ کھڑی ہوئی میڈیا نے اس تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ججز بحالہوئے مگر مجال ہے کہ کوئی جنرل مشرف کو غدار تک قرار دے دے، وہ پاکستان آیا مگر اس کوباآسانی فرار کرا دیا گیا، جمہوری حکومت بھی آئی تو اس کو گارڈ آف آنرز دے کر رخصت کیا گیا،نواز شریف دور میں ججوں کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں نہ صرف ججوں کی بلکہ ججوں کےاہل خانہ کو ٹریپ کر کے ان کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں، اس طرح ایماندار ججوں کو فیملیکے ذریعہ بلیک میل کیا گیا، دھرنے والوں میں کھلم کھلا رقوم تقسیم کی گئیں اور اس سلسلے میںوہ ایماندار جج قاضی فائز عیسیٰ نے آرمی انٹیلی جنس کی جانب سے رقوم کی تقسیم سے متعلقتاریخی فیصلہ دیا اور کوئٹہ سانحہ  کی تحقیقات پر دبنگ ریمارکس اور فیصلے دئیے، اس کو بھیمیڈیا ٹرائل کے ذریعے بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ، اسکو عہدے سے ہٹایا گیا اس سےقبل ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی آئی ایس آئی پر تنقید کرنے کیپاداش میں ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرف کیا گیا، اس جج نے پاکستان میں  جبریگمشدگیوں کے بارے میں اپنی عدالت میں کہا تھا کہ ” میں سمجھتا ہوں کہ مقامی پولیس بھی انطاقتور ایجنسیوں کے ساتھ مل چکی ہے جنہوں نے ملک کے سماجی ڈھانچے میں رکاوٹیں پیداکررکھی ہیں” جسٹس صدیقی نے آئی ایس آئی پر بھی شدید تنقید کی تھی جس کے بعد انکوخرید کیئے گئے ججوں کے ذریعے فارغ  کرادیا گیا ، ملک میں میڈیا کے ذریعے عوام کو کنٹرولکرنے کیلئے نت نئے گانے بنانے اور سوشل میڈیا پر کروڑوں روپے خرچ  کئے گئے مگر ان سے یہمعلوم نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ رقم فوج نے کہاں اور کیو ں کر خرچ کی؟ دائروں کے اس سفر میں گزشتہ ستر سالوں میں کبھی ہمیں کمشنری نظام ،تو کبھی ضلعی نظامکبھی پھر وہی کمشنری سسٹم اور پھر ضلعی بلدیاتی نظام الغرض وہی دائروں کا سفر جاری اورساری رہا ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پوری قوم کو یکجا کر نے کے بجائے ہمیں گروہوں ،نسلوں اورقبیلوں میں تقسیم کیا ،قوم کو آپس میں تقسیم کر کے ہی ان کا کاروبار چلتا ہے، انہوں نے قوم کومختلف دائروں میں تقسیم کر کے پھر انکو ایک دائرے میں قیدکیا ، اسطرح کسی کو کسی کےدائرے میں جھانکنے کی اجازت بھی نہیں، سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان کا دائرہ ،اردو ،سندھی کادائرہ، بلوچی اور پنجابی دائرہ، سرائیکی اور پنجابی کا دائرہ، شیعہ سنی، وہابی اور بریلویدائرہ، سیکولر اور مذہبی دائرہ ،یہ پوری قوم ان دائروں میں رہتے ہوئے اب تہتر سالوں بعد اپنے آپکو انہی دائروں کا قیدی سمجھنے لگ چکی ہے ، میڈیا جو اس بٹی ہوئی قوم کو شعور کی منزل پرلے جا کر انہیں سمجھانا چاہتا ہے کہ اپنے دائروں سے باہر نکلو اور اگر نکل نہیں سکتے تو ایکدوسرے کیلئے کم از کم احترام  ہی پیدا کرلو مگر جو بھی ایسی کوشش کرے وہ یہاں غدار قرار پاتاہے،دائروں کے اس سفر کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ ہی کوئی منزل، ہاں جو اس دائروں سے باہر اندائروں کو چلا رہے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ ان کی منزل اور کام یہی ہے کہ وہ قوم کو انہی میںمصروف رکھیں،اسی میں ان کی نجات ہے، اس طرح ملک میں جس طرح میں نے پہلے بتایا کہ چارمارشل لاء لگ چکے ہیں، انتخابات بھی ہوئے ،مختلف سیاسی جماعتوں نے اقتدار کیلئے زور آزمائیبھی کی مگر دائروں کے اس سفر میں رہتے ہوئے پاکستان کے نظام میں ذرہ برابر بھی بہتری نظرنہیں آئی، آپ گزشتہ ستر سالوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،ہمارا سیاسی نظام، حکمرانی کیصلاحیتیں، سماجی اور اخلاقی اقدار تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو کر پستی کی طرف گامزن ہیں،اس طرح ماضی میں اپنی کارکردگی پر فخر کرنے والے قومی ادارے بھی ہماری اس تہتر سالہتاریخ میں بد ترین توڑ پھوڑ اور تنزلی کا شکار ہوئے ، جس میں پی آئی اے اور اسٹیل ملز اس کیواضع مثالیں ہیں، مگر یہ تو ہمارے ہی تخلیق کردہ ادارے تھے، مگر وہ ادارے جو کہ انگریز ہمیں دےکر گئے تھے، وہ بھی تو ہم سنبھال نہیں سکے، پوسٹ آفس، ریلوے، تعلیم کا شعبہ، ضلعیانتظامیہ، بلدیاتی ادارے اور قومی خدمات کے کئی ادارے اس وقت اپنی بربادی کی مثال بنے ہوئےہیں، یہ سب ادارے انگریز ہم کو انتہائی بہتر حالت میں دے کر گئے تھے، دائروں کے اس سفر نےتنزلی کی جو داستان رقم کی ہے وہ انتہائی دل دکھانے والی داستان ہے اور عبرتناک بھی ہے ، مگرہم نے اب تک اس سے عبرت حاصل نہیں کی کوئی سبق نہیں سا۔  تاریخ کے مشاہدات اور مطالعہسے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ منظم جمہوری ممالک میں سیاسی قیادتوں نے سول سروسز، قوانین کوباقاعدہ بنایا لہٰذا اس ڈھانچہ سے باہر جو کوئی بھی قدم رکھنے کی کوشش کرتا تو اس کو دیگراداروں کے ذمہ دار روکنے کیلئے قانون پر عملدرآمد کراتے اور قانون کی بالادستی وائم کرنے کیلئےوہ ان قوانین کے ذریعے عملی جامعہ پہنایا جاتا، اس طرح ان پختہ بالغ جمہوری معاشروں میںقانون کی حکمرانی زندگی کا معمول اور رواج بن گئی، اس استحکام کی بنیادی وجہ یا اس کا رازسول سروس کی استقامت میں پنہاں ہوتا ہے، اس لئے ان ممالک میں سول سروسز کو بہت زیادہآئینی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ،اس طرح قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کی کارکردگی کے راستےمیں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی، وہ بلا خوف وخطر کام کرتے ہیں اور اس نظام کو چلاتےہیں، اس طرح کا تحفظ گزشتہ دنوں ہمیں امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں بھی نظر آیا، جہاں پرہیوسٹن کے پولیس چیف نے اپنے ملک کے صدر کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے کہا کہ صدر صاحب اگرآپ عقل ودانش کی بات نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے منہ کو ہی بند رکھیں”پولیس چیف نے یہجملہ پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کی موت کے بعد صدر ٹرمپ کی جانب سے دئیےگئے اس بیان کے جواب میں کہا تھا کہ اگر پولیس عوام کی حفاظت نہیں کر پا رہی ہے تو وہ اس کےلئے ملٹری فورسز کو پولیس کی جگہ تعینات کر سکتے ہیں، اس بیان پر اگر صدر ٹرمپ عملدرآمدکرتے تو واقعی معاملہ مزید بگاڑ کی طرف جاتا ، اس لئے پولیس چیف نے اپنے صدر کی جانب سےاس نظام کو خراب کہنے پر شٹ اپ بھی کہااور ان کو دوسرے لفظوں میں احمق بھی کہہ ڈالا اورمنہ بند کرنے کا مشورہ بھی دے دیا ، ان کا یہ بیان امریکہ بھر کے میڈیا میں کئی دنوں تک گردشکرتا رہا ، امریکہ ہمارے آبائی ملک پاکستان کی طرح 52 ریاستوں کا مجموعہ ہے ، اس طرحپاکستان میں بھی صوبے وفاق کو قائم رکھنے کی علامتیں ہیں، یہ بالکل اس طرح ہے کہ سندھبلوچستان، خیبر پختونخواہ یا پنجاب کے کسی بڑے شہر کا پولیس چیف اپنے ہی وزیر اعظم کیجانب سے اپنے فرائض میں مداخلت پر اس کو شٹ اپ کہہ دے، لیکن ایسا پاکستان میں ممکن نہیں،ویسے بھی اس طرح حق گوئی کے ساتھ اظہار خیال کردینا صدارتی یا پارلیمانی نظام کا تحفہنہیں ، بلکہ سچ یہی ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے اور یہ اس کا لازمی جُز ہے، امریکہ ہینہیں تمام یورپی ممالک میں جہاں جمہوریتیں ہیں وہاں اس طرح قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، مگرآپ پاکستان کو دیکھ لیں جہاں سندھ پولیس کے آئ جی کو رینجر کے سیکٹر کمانڈر نے اغوا کرایااور جبرا ان سے احکامات پر عملدرآمد کرایا ، جمہوریت ہمارے ملک میں بھی ہے لیکن اگر آپ تھانہمیں ایف آئی آر کٹوانے جائیں تو آپ کو حیرانی ہو گی کہ ملک میں سول لاء ، شرعیہ لاء سمیت کئیقوانین نافذ العمل ہیں، اس طرح نہ تیتر اور نہ بٹیر والی صورتحال ہے، اس جمہوریت کو جو لوگکنٹرول کرتے چلے آ رہے ہیں، وہ پاکستان کی آرمی اور اسٹیبلشمنٹ ہے، جنہوں نے گزشتہ70سالوںسے جمہوریت کو اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے، وہی اقتدار پر پوری طرح قابض ہیں اور جبکبھی بھی جمہوری حکومتیں جمہور ان کے مفادات پر چھیڑ چھاڑ کرنے کا سوچتے ہیں تو یہ پھرسے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں، اس لئے آنے والی تمام جمہوریتوں کو ان کی ہی کٹھ پتلی بننا پڑتا ہے، اس اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص خاندان اور جاگیردار سیاسی پارٹیاں باقاعدہ غلام ہیں، اس طرحان قوتوں نے70سالوں سے جمہوریت کو اپنے دائرہ میں قید کررکھا ہے ،ملک میں امیر امیر تر اورغریب غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہمیں جو بھی مافیا ئیں نظر آتی ہیں، سب کیسب اس نظام اور اس اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں، اگر سچا جمہوری معاشرہ تشکیل پا جائے توایسی مافیائیں کبھی بھی اس نظام میں پنپ نہیں سکتیں، پاکستان میں سرمایہ داروں کی شوگرملز مافیائیں ہیں وہ جب چاہیں چینی کی قیمت بڑھا دیں، گندم کی مافیا جب چاہیں ملک میں آٹےکی مصنوعی قلت پیدا کر دیں اور قیمتوں کو آسمان تک چڑھا دیں، اس طرح سیمنٹ ،پٹرول،مافیائیں اپنا منہ کھولے بیٹھی ہوئی ہیں، اب کرونا کے بعد پاکستان سے خبریں آ رہی ہیں کہ دوائوںکی انڈسٹری مافیا نے اس بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوائوں کی قیمتیں کئی فیصد بڑھا دی ہیں،جبکہ حکومت نے ان مافیا کو ار دوام دیتے ہوئے دواوں کی قیمتوں کو حال ہی میں بڑھا دیا ہے اسطرح یہ استحصالی قوتیں انتہائی منظم ہیں، صرف اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کتنیہی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے ، اس طرح اسٹیبلشمنٹ اور ان کی غلام اور لونڈی قوتوں کی حوسکی قیمت غریب عوام کو ہی دینا پڑتی ہے، ایک طرف سیاسی حکمرانوں کی نااہلی کا سانحہ درپیشہے تو دوسری طرف نااہل، خود غرض، سیاسی قوتوں نے سول سروسز کے ڈھانچہ کو برباد کرکےرکھ دیا ہے، اس بربادی کی وجہ سے سول سروسز کو آئینی تحفظ سے محروم رکھا گیا ،وزیر اعظمذوالفقار علی بھٹونے بڑے بڑے کام کئے مگر جب آئین تشکیل پا رہا تھا تو اس وقت بھی اس کو شایدجان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ سیاستدان ان سول سروسز کےافسران کو اپنی وفاداری پر لگانا چاہتے تھے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے خادم بن کر کا م کریں تاکہ ان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکے، یعنی یہ کہ جو کچھ حکمران چاہیں وہ وہیکریں اورسول سروسز رولز ریگولیشن کے نام پر کوئی بھی انکے لیئے رکاوٹ نہ بن سکے، اس طرحملک میں کھلے بندوں قانون شکنی اور لوٹ مار کا کلچر پروان چڑھنے لگا، سول سروسز کے افسراننے بھی اس بہتی گنگا سے اپنا حصہ وصول کیا، لوٹ مار کے اس کلچر میں اخلاقی قدروں کاجنازہ نکل گیا اور مزید کئی اور مافیائوں نے اس نظام کے تحت نیا جنم لیا اور حکومتی انتظامیکارکردگی کا بیڑاغرق کر دیا گیا، ہمارے سامنے اس وقت یہ منظر موجود ہے، قومی اداروں کیکارکردگی زوال پذیری کا شکار ہے، نیچے سے اوپر تک رشوت ستانی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا،ریلوے پوسٹ آفیس، اسٹیل مل، ضلعی انتظامیہ، پی آئی اے، مقامی حکومتوں کے شعبہ ناکارہ ہوچکے ہیں اور اس ناکامی کا سارا وزن غریب عوام برداشت کررہے ہیں، وہی اس کی قیمت ادا کررہےہیں،سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی ڈھانچہ، انتظامی ڈھانچہ اور اخلاقی ڈھانچہ اب اپنے اپنےدائروں میں سفر کررہا ہے، اس لئے حکمران کوئی بھی آئے، کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، اس طرحعوام کو صرف چہرے کی تبدیلی پر لگایا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ بے وقوف بن کر رہ جاتے ہیں ، اسوقت عوام بے بس اور محرومی کے احساس تلے مغلوب دائروں میں یہ سفر جاری رکھے ہوئے ہے،جس طرح پہلے میں نے کہا کہ میڈیا جو کہ عوام کو درست سمت کا تعین کرنے میں بڑا مدد گارتھا،اب اس بیل کی آنکھ پر بھی مکمل اور مضبوط پٹی باندھ دی گئی ہے، میڈیا کو بھی دائروں کےسفر میں ڈال دیا گیا ہے، کسی کو بھی کسی کے دائرے میں جھانکنے کی اجازت نہیں،، مختلفدائروں میں بٹی ہوئی یہ قوم کس طرح تلاش کرے کہ اس کی منزل کیا ہے، اس کے لئے ضروری ہےہمیں اپنی آنکھوں سے اور اپنی عقلوں سے جو پٹی اسٹیبلشمنٹ نے باندھی ہوئی ہے ہم اسکو اتارپھینکیں اور شعور کے ذریعے اصل دشمن کو پہنچانیں اور قوم اور ملک کاہم درست سمت پر تعینکریں ،بصورت دیگر آنے والے وقتوں میں ہم اور ہماری نسلیں اسی دائرے کے سفر میں لگی رہیں گیاور منزل ان سے بھی کوسوں دور ہوگی اسلیئے یہ ایسے سوالات ہیں جنکے جواب آپکو معلوم ہونابہت ضروری ہیں اور یاد رکھیئے جو معاشرہ سوال کرنابھول جاتا ہے۔ وہ جواب کبھی نہیں  ڈھونڈسکتا، اسلیئے جو بھی ایسا سوال کرتا ہے اسکو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *