Home / قلم شرارے / ڈفر جرنیل، چور سیاستدان اور نیا پاکستان

ڈفر جرنیل، چور سیاستدان اور نیا پاکستان

ڈفر جرنیل، چور سیاستدان اور نیا پاکستان

تحریر:  زاہد اختر

پاکستان کی معروف قانون داں اور انسانی حقوق کیلئے اپنی پوری زندگی وقف کرنے والی مرحومہ عاصمہ جہانگیر آج مجھے یہ کالم لکھتے وقت بہت زیادہ آ رہی ہیں وہ اس لئے کہ اپنی زندگی میں وہ ایک سخت جملہ فوجی جرنیلوں کے بارے میں کہا کرتی تھیں وہ یہ تھا کہ”فوجی جرنیل ڈفر ہوتے ہیں” انہوں نے یہ جملہ شاید کسی جرنیل کے منہ پر بھی کہا تھاوہ بڑی دبنگ خاتون تھیں، اس جملہ کے پیچھے یقینا ان کو کئی سالوںکا تجربہ بھی تھا، قیام پاکستان کے بعد بد قسمتی سے ہمارے ملک کی تاریخ بھی فوجی جرنیلوں کے ڈفر فیصلوں سے بھر پور ہے، پانی کی تقسیم کا معائدہ انڈیا سے ہو یا انہی کے دور میں سقوط ڈھاکہ یا پھر جنرل ضیاء الحق کے دور میں طالبان کی تشکیل کا معاملہ یابعد ازاںپرویز مشرف کے دور میں امریکہ کی جانب سے مسلط کی گئی دہشت گردی کے خلاف جنگ میںہر اول دستے کا کردار ادابہر کیف ان تمام فیصلوں کو عوام اور دانشور طبقہ ہمیشہ مسترد کرتے آ رہا ہے اور یہ فیصلے بقول عاصمہ جہانگیر کے” ڈفر جرنیلوں”کے تھے اور وقت نے ثابت کیا کہ یہ فیصلے واقعی انتہائی غلط تھے، جس سے ملک اورقوم کو ناتلافی نقصان پہنچا پاکستان میں گوکہ جمہوری حکومت کام کررہی ہے لیکن اس بات کا ادراک سب کو ہے کہ اصل ڈور کس کے ہاتھ میں ہے، انتخابات میں جس طرح دھاندلی کر کے اور کچھ نشستوں میں ہیر پھیر کر کے عمران خان کو لایا گیا اس سے اس وقت صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ فوجی جرنیلوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ آئندہ کا حکمران عمران خان ہی ہوگا،لیکن عمران خان کے برسر اقتدار آ جانے کے بعد بھی جس طرح تواتر کے ساتھ آئی ایس پی آر کے سربراہ پریس کانفرنس میں جس طرح کی باتیں کررہے ہیں وہ اخلاقی اورقانونی طور پر درست نہیں، کیونکہ یہ ان کا مینڈیٹ نہیں لیکن فوج کے ترجمان اب کھلم کھلا وہ بیانات دینے لگے ہیں جو کہ وزیر دفاع یا وزیر داخلہ کامینڈیٹ ہے، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ یا فوجی جرنیل کس ڈگر جا رہے ہیں، ان کی کیا حکمت عملی ہے، کسی کو کچھ نہیں پتا، انہوں نے پاکستان کا آغاز اقبال کے خواب سے کیا اور جناح کا پاکستان بناتے بنانے مدینہ پہنچ گئے، ملائیشیا اور ترکی والی حکمرانی کی ، وہ ہمیشہ مثالیں دیتے تھے مگر وہ نہیں چاہتے کہ کوئی بھی نظام کامیاب ہو کیونکہ اس بات میں ہی ان کی کامیابی ہے کہ نظام کامیاب نہ ہوں،ان حالات کے باوجود اب بھی میںموجودہ حالات کا تمام تر ذمہ دار عمران خان کو نہیں سمجھتا لیکن عوام کی اکثریت یہ ضرورت سمجھتی ہے کہ عمران خان نے جو وعدے کئے تھے وہ ان سے وفا نہ کر سکے، ویسے بھی گزشتہ ستر سالوں سے حکمرانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی وہ برسراقتدارآتے ہیں تو انہیں سب چیزیں صرف اور صرف اگر انہیں جو چیز درست نظر نہیں آتی وہ اقتدار پر براجمان ان کے سیاسی مخالفین ہوتے ہیں لیکن اصل زمینی حقائق یہ ہیں کہ معاشی حالات اس وقت اس نہج پر ہیں کہ ایسے حالات کسی بھی ملک میں ہوں تو وہ بغاوتوںکو جنم دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس وقت نہ ہی پاکستان کا امیر طبقہ اور نہ ہی بیرون ملک رہنے والے لوگوں کا ، ان غریبوں سے کوئی تعلق ہے، جن کے پاس اس وقت نہ ہی پیٹ بھرنے کیلئے روٹی ہے اور نہ ہی علاج معالجہ کیلئے دوائیں لینے کی سکت ہے، اس طرح کے والدین بیچارے بچوںکو تڑپتا دیکھ کر بس اللہ سے دعا کے ذریعے شفا طلب کرتے ہیں، موجودہ دور میں حکومت نے جہاں اشیاء خوردو نوش میں اضافہ کیا، وہاں اب دوائوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں، تعلیم کی صورتحال اور بھی بدتر ہے،لاکھوںبچے اسکول جانے کے بجائے اپنے والدین کے ہمراہ ان کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں یا بعض بچے مختلف چیزیں بازاروں اور گلیوں میں فروخت کر کے اپنے خاندان کی کفالت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں، ہمیں معلوم ہے مگرشاید عام عوام کو اس بات کا بخوبی اندازہ نہ ہو کہ عمران خان وزیر اعظم کی کرسی پر تو برجمان ہیں مگر دراصل وہ بااختیار نہیں حالات یہ ہیں کہ وہ نہ اسٹیٹ بینک کا گورنر خود لگا سکتے ہے اورنہ ہی وزیر خارجہ اس کا ہے، چیئرمین FBRبھی کسی کے کہنے پراس نے لگایا ہے دوسری جانب حال ہی میں پٹرولیم مصنوعات پر نئے وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے 10فیصدی ٹیکس لگایا مگردلچسپ امر یہ ہے کہ وزیر خازانہ نے اس ضمن میں کابینہ کو بتانے تک کی زحمت گوارا نہیں کی، جو کہ مختلف حکومتوںمیں اور مختلف اداروں میں اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں،جن کو عمران خان خود برا کہتے تھے اور ان پر تنقید کرتے تھے بہر کیف یہ موجودہ وفاقی کابینہ میں ان افراد کی اکثریت ہے، کابینہ گزشتہ کئی مہینوں میں کوئی ریلیف عوام کو نہیں دے پائی، اس طرح گزشتہ دنوںاپوزیشن رہنما مولانا فضل الرحمن نے حکومت گرانے کیلئے سیاستدانوں سے رابطے قائم کئے مگرایسا لگتا ہے کہ ز رداری نہیں چاہتے کہ یہ حکومت اتنی جلدی فارغ ہو جبکہ اسٹیبلشمنٹ اور زرداری ایک پیج پر سمجھے جاتے ہیں، تا ہم یہ کھیل جن لوگوں کی جانب سے کھیلا جارہا ہے، وہ یقینا پاکستان کے دوست نہیںجس طرح میں نے اس کالم کی ابتدا میں تحریر کیاتھا کہ یہ ڈفر جرنیل جس طرح ملک  کو چلا رہے ہیں اس سے عوام کو مزید تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا، بعض دوستوںکا ایسے حالات کے بعد یہ سوچنا انتہائی درست ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک عوام کیلئے نہیں بلکہ ان جرنیلوںکیلئے معرض وجود میں آیا تھا پچھلے دنوں اس پر میں طنزیہ بھی لکھا تھا کہاگر یہ وطن تمہارا ہے ہم ہیں خامخواہ اس میں، بہر کیف اگر ہم سابقہ دفاعی بجٹ کا مطالعہ کریں تو مسلم لیگ کی حکومت کے دوران2013سے لے کر آخرتک دفاع کے شعبہ کا بجٹ تقریباً دوگنا کیا گیا،2013ء میں دفاع کا بجٹ627ارب روپے  تھا،2014ء میں 700، 2015 میں 780، 2016ء میں860جبکہ2017-18ء میں920ارب روپے رکھے گئے،940خرچہ کیا، اس طرح نواز شریف کے دور میں دفاعی بجٹ میں دوگنا اضافہ کیا گیا، اس طرح2018-19ء میں یہ دفاعی بجٹ اب گیارہ سو ارب تک پہنچ گیا ہے جبکہ اطلاعات یہ ہیں کہ سابق وزیر خارجہ اسد عمر کو اس لئے ان کے عہدے سے فارغ کیا گیاتھا کیونکہ انہوں نے فوجی بجٹ میں کٹوتی سے متعلق امریکی حکام کو یقین دہانی کرادی تھی تاہم جیسے ہی اس بات کی اطلاع جرنیلوںکو ملی انہوں نے فوری طور پر اسد عمر فارغ کرا دیا، دوسری جانب جرنیل بجٹ کے سلسلے میں پاکستانی میڈیا کے ذریعے یہ ہمیشہ بار آور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا بجٹ انڈین فوج سے پھر بھی کم ہے، لیکن عوام ان کی اس بات کے جھانسہ میں آ جاتے ہیں، حالانکہ اگر ہم درست موازنہ کریں توانڈیا کی فوج ہماری فوج کے مقابلے میں عدوی حیثیت سے بہت زیادہ ہے اور انڈیا آبادی کے لحاظ سے بھی دنیا کا دوسرابڑا ملک ہے ، اس لئے اس سے موازنہ کر کے اپنا بجٹ ان کے مقابلے دکھانے کا مقصدجرنیلوں کی ان عیاشیوں کو برقرار رکھنا ہے جوکہ عرصہ دراز سے چلتی چلی آ رہی ہے، اس وقت پاکستان آرمی میں2فل جرنیل،29لیفٹیننٹ جرنیل،194میجر جرنل ہیں جبکہ9کورفوج کیلئے30لیفٹیننٹ جرنل ہیں،18 ڈویژن کیلئے166میجرجنرل اس کے علاوہ ان کے نچلے عہدوں جس میں برگیڈئیر، کرنل،لیفٹیننٹ ،کرنل، میجر تک کا حساب لگا لیں اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کے عہدے پر بھی میجر جنرل تعینات کیا جاتا ہے، کسی زمانہ میں یہ عہدہ ایک کرنل رینک کے آفیسر کے پاس ہوتا تھا، بہر کیف ان افسران کا آپ حساب لگا لیں کہ یہ جرنیل سے لے کر میجر تک تمام افسران پاکستانی عوام کو کتنے میں پڑتا ہے، میں کیپٹن اور اس کے نیچے کے افسران اور جوانوں کی بات نہیں کرتا، ان بچاروں کو وہ مراعات حاصل نہیںجو کہ میجر اور اوپر تک کے رینک کے افسران کو ملتی ہے اگر عوام کو حقیقت سامنے نظر آ جائے تو ان جرنیلوں کے مقابلے میں ان کو سیاستدان زیادہ اچھے لگنے لگیں گے،یہ ڈفر فوجی کھاتے بھی عوام کا ہیں اور غراتے بھی عوام پرہیںیہ لوگ تنخواہوںکے علاوہ جو مراعات جس میں دوران ملازمت مفت رہائش، بنگلہ، مفت بجلی،پانی، گیس،سی130طیارے اور پورے ملک سمیت باہر جانے پرمفت سفری سہولت پی آئی اے،ریلوے میں رعایتی ٹکٹ، گھرپر ذاتی ملازم جس کو بٹ مین کہا جاتا ہے،برگیڈ اور اس سے اوپر کے عہدوں کے افسران کیلئے اسٹاف کار (سرکاری گاڑی) بچوںکیلئے آرمی پبلک سکول،انٹر کالجز، بحریہ سکول،PAFاسکول،یونیورسٹی، انجینئرنگ کالج اور یونیورسٹی، آرمی میڈیکل کالج، آرمی کے اسپتالوں میں پورے اہل خانہ کا تاحیات مفت علاج، ریٹائرمنٹ کے بعد تمام جائیدار وویلتھ ٹکس سے مستثنیٰ،فلیٹ ولاز،دکانیں، پلاٹ،مربے اور سونے پر سہاگہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انکو سرکاری اداروںکا سربراہ بھی لگا دیا جاتا ہے، شہدائوں کے نام کی آڑ میں ان فوجی افسران  کے بچوں کی فلاح وبہبود کے نام پر ٹرسٹ اور فلاحی ادارے قائم ہیںجس میں بینک، انشورنس کمپنیاں فرٹیلائزر،سیمنٹ، سریے کی فیکٹریاں، ڈیری فارم، شوگر ملز،ٹیکسٹائل ملز،مرچ مصالوں کی فیکٹریاں، پیٹرول پمپ، بیکریاں اور شادی ہال،مویشی منڈیاں،پانی کے ٹینکر ہر کچھ چھوٹے صوبوں میںہے، پاکستان کی معیشت تباہ ہے مگر انکو کوئی فکر نہیں،امن وامان کے نام پر یہ چھوٹے صوبوں میں رینجرز کی صورت میں وہاں کا نہ صرف مقامی بجٹ بھی ہڑپ کر جاتے ہیں، بلکہ ان صوبوںمیں ان لوگوں کی آواز کو بھی دباتے ہیں جو کہ ان کے خلاف اور اپنے حقوق کیلئے آواز بلندکرتا ہے، وہ اس کو ملک کا غدار گردانتے ہیں، ان پرمختلف الزامات لگا کر ان کو کئی کئی سالوں ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے غائب کر دیا جاتا ہے جبکہ سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے سیاستدانوں ،صحافیوں کوانڈین ایجنٹ قرار دے کر ان کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعہ بدنام کیا جاتا ہے ان کو غدار یا کرپشن کا پروپیگنڈا کر کے وہ ماحول بنایا جاتا ہے، جس سے عوام میں ان کے لئے نفرت جنم لینا شروع ہو جاتی ،دوسری جانب آپ کو یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت ملک بھر میں شہدا کے نام پر لی جانے والی قیمتی شہری زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہے اور یہی کام اگر عام شہری کرے تو اس سے پوچھا جاتا کہ آپ کے پاس یہ رقم کہاں سے آئی سوچتا ہوں یہ کیسی ریاست ہے جہاںپر فلاح وبہبود صرف فوجی افسران کیلئے ہے، ملک عنان اقتدار بظاہر کسی کے پاس ہو مگر اصل حکمران یہی رہتے ہیں،یہ سیاستدانوںکو خود اس بات کے مواقع فراہم کراتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ کرپشن کریںاگر کوئی یہ نہیں کرتاتو ان کے پاس ملک غداری کا ایک ایسا فتوا  بروقت موجود رہتا ہے جو کہ فوری طور پر پر فٹ کر دیا جاتا ہے، محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے مابین گزشتہ ادوار میں میثاق جمہوریت کا معاہدہ طے پایا تھا وہ ملک کے بہتر مفاد میں تھا مگر محترمہ کو بھی انہی جرنیلوں نے اپنے پالتووں کے ہاتھوں شہید کرا دیا،اس وقت آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ کے ہمنوا بھی ہیں اور ان کو آنکھیں بھی دکھاتے ہیں، جبکہ نواز شریف نے اپنے دور میں فوجی جرنیلوں سے ڈکٹیشن نہ لینے کا جو عہد کیا اس سے ان کو نقصان بھی لاحق ہوا نہ صرف ان کووزارت عظمیٰ بلکہ وہ آج کل جیل کی سلاختوںکے پیچھے بھی ہیں، یہی نوواز شریف اگر آج فوجی جرنیلوں سے ساز باز کر لے تو کچھ ہی دنوں بعد ہی یہ فرشتہ صف سیاستدان بھی ثابت ہو جائے گا، اسٹیبلشمنٹ نے اس بار جس تیسرے کھلاڑی کو کھیل میں شامل کر کے عنان اقتدار اس کے حوالے کیا ہے ،ناتجربہ کاری کی بنیاد پر فائول پر فائول کیے جا رہا ہے، جس سے ملک کو ناتلافی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے، جس طرح میں نے اپنے کالم کے ابتدا میں تحریر کیا ،یہ ڈفر فوجی جو کچھ کررہے ہیں وہ ہمارے ملک کیلئے کسی طورساز گار بات نہیں،ان کی جانب سے لائی گئی ،حکومت جن وعدوں کے ساتھ برسر اقتدار آئی تھی ،اس میں سے کوئی وعدہ وفا نہیںکر سکی،اس وقت اسٹاک مارکیٹ سجدہ ریز ہے، ڈالر اور مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، آئی ایم ایف کے نمائندوں کو اپنا نمائندہ بنا کر عہدوںپر لگا دیا گیا ہے، قرضہ لینے سے قبل ہی اتنہائی مہنگائی کر دی گئی ہے کہ اللہ کی پناہ، بجلی،گیس، پٹرول ، دوائیں، اشیائے خوردونوش سب کی قیمتیں آسمان پر ہیں اورجس طرح کا احتساب ہو رہاہے وہ بھی سب کے سامنے ہے، ایک طرف بات کی جاتی ہے کہ این آر اونہیں دیا جائے گا تو دوسری جانب لوگوں کو باہر جانے کے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں، داخلی صورتحال کے ساتھ ساتھ سرحدوں کی صورتحال فاٹا کے عوام کا سڑکوںپر آنا پورے پاکستان سے سیاسی کارکنوں کو غائب کرنے کا جو عمل جاری اورساری ہے، اس سے ملک کی وحدت پارہ پارہ ہو رہی ہے، بین الاقوامی برادری آپ کی غلط خارجہ پالیسی کے سبب آپ کے ساتھ نہیں، سعودی عرب جس کے ساتھ ساتھ آپ ہوتے ہیں وہ بھی آپ کے ساتھ نہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم عمران خا ن عوام کواس ضمن میں اعتماد میںلیں، جھوٹ اور جعلی تسلی اوردلاسے دلا کر آپ قوم کو کب تک بیوقف نہیں بنا سکتے، اس لئے تو عوام آج یہ کہنے پرمجبورہو رہے کہ اس سے توبہترتو وہ چورتھے جن کے دور میں باوجودڈالر چوری کرنے کے پیٹرول، گیس اور اشیائے خوردونوش سب سے کنٹرول میں تھے، جی ڈی پی اور معیشت کا گراف بھی اوپر کی طرف اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، ان تمام حالات سے مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب عوام خود جیل کا دروازہ توڑ کر نواز شریف کو اقتدار میں لانے کیلئے سڑکوں پر نہ آ جائیں ۔

Check Also

‎کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر

    کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر تحریر : راجہ زاہد اختر خانزادہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے دلبرداشتہ ہو کر چند ایک ماہ سے اس پر اظہار خیال کرنابھی چھوڑ دیا تھا، مگر شاید اپنی اس مٹی سے محبت واپس پھر وہیں کھینچ لانے کومجبور کردیتی ہے کہ اپنے حصے کا حق ادا کیا  جائے،ہماری قوم اور ملک گزشتہ تہتر سالوں سے دائروں کےسفر میں ہے،جس کا کوئی اختتام نہیں ہے ،یہ سفر کولہو میں بندھے ہوئے بیل کی مانند ہے، جسکی کوئی منزل نہیں ہے، جس طرح کولہو کا بیل آشنائے راز سے واقف نہیں ہوتا، اور دن رات چلتاچلا جا تا ہے، اس طرح ہماری قوم کو بھی دائروں کے اس سفر میں الجھا دیا گیا ہے، پاکستان کیآرمی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ سات دہائیوں سے ہر کسی کو کٹھ پتلی بنائے چلی آرہی ہے ، اور انکواسی دائرہ کے سفر میں چلنے پر مجبور کرتی رہی  ہے، اب جبکہ ملک کا تمام میڈیا حکومتی کنٹرولمیں ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ (جیو اور جنگ) کے مالک میر شکیل الرحمن انکی حراست میں ہیں انہوں نے  میڈیاپر پابندی کے ذریعہ کولہو کے اس بیل کی آنکھیں بھی مکملطور بند کردی ہیں ،اس طرح اب اس قوم(بیل) کو جہاں چاہے گھمائو یہ قوم یہی سمجھے گی کہ وہآگے کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن دراصل ہماری منزل ہم سے کوسوں دور ہے، گزشتہ تہتر سالوں سےپاکستان کی تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو ہی دہراتی چلی آرہی ہے، یہ ملک جہاں تھا وہیں پر نہیں بلکہوہ مزید پیچھے کی طرف چلا گیا ہے، اگر ہم یحییٰ خان کے مارشل لاء کو بھی گنتی میں گنیں تواس ملک میں چار مارشل لاء لگ چکے ہیں جو کہ اپنی نوعیت کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلفرہے ہیں، اس دوران کبھی ہمیں سمجھایا گیا کہ مظلوم مسلمان بھائیوں کیلئے جہاد کرنا ہے اسطرح پھر کہا گیا کہ پرائے معاملات میں ٹانگ اڑانا دہشت گردی ہے، کبھی ہمیں یہ بتایا گیا کہ دنیابھر میں بسنے والے مسلمان تمہارے بھائیوں کی طرح ہیں، کبھی تیس لاکھ افغان مہاجرین کےبوجھ تلے قوم کو دبا دیا جاتا ہے، کبھی اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کرا کے امریکی ڈالر خطیرتعداد میں وصول کیئے جاتے ہیں، کبھی تمام مسلمانیت دل سے نکال کر کئی مسلمانوں کو سارےمسلمہ اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غیروں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے، کبھی غیر ملکی ایجنٹوں کو ویزے جاری کر کے انہیں اپنے ہی ملک میں غدار بھرتی کرنے کےکام کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ کبھی اپنے ہی ملک میں دھرنے دلوا کر ملک کی معیشت اورسیاسی استحکام کو دائو پر لگایا جاتا ہے، کبھی جمہوری حکومتوں کو ناک میں نکیل ڈالنے کیلئےان کی کان مروڑی کی جاتی ہے، کبھی ایدھی جیسے شخص کوبھی خریدنے کی کوشش کی جاتیہے، تو کبھی اس کے جنازہ کی آڑ میں اپنا نام بلند کیا جاتا ہے، جب کبھی بھی قوم مشکل میں ہوتو سارا ملبہ سیاسی حکومت پر گرا کر متوازی حکومت کھڑی کرتے ہوئے اپنے نغمہ بجا بجا کر بتایاجاتا ہے کہ یہی ایک ادارہ ہے جو کہ محبت وطن ہے،باقی سب غدار ہیں، یہی آپ سے سچے ہیں،کبھی اپنے ہی ان لیڈروں کو قتل کرا دیا جاتا ہے، جنہوں نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئےسر توڑ کوششیں کی ہوتی ہیں، کبھی غریب صوبوں سندھ اور بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کےان عوام کو جو کہ اپنے لئے حق طلب کرتے ہیں اور اپنے حصہ کی روٹی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیںتو ان کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے، ان کی لاشیں مسخ کر کے پھینک دی جاتی ہیں، کبھی کراچیمیں اردو بولنے والے کو بڑا محب وطن قرار دیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ غدارقوم ہیں اورتو اور انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح تک کوبھی نہیں بخشا ، اس کوبھی ایوب خان کے مقابلہ میں مدقابل آنے پر ”انڈین ایجنٹ”قراردے دیا گیا، ججوں کی تحریک میںپوری قوم ایک ساتھ کھڑی ہوئی میڈیا نے اس تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ججز بحالہوئے مگر مجال ہے کہ کوئی جنرل مشرف کو غدار تک قرار دے دے، وہ پاکستان آیا مگر اس کوباآسانی فرار کرا دیا گیا، جمہوری حکومت بھی آئی تو اس کو گارڈ آف آنرز دے کر رخصت کیا گیا،نواز شریف دور میں ججوں کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں نہ صرف ججوں کی بلکہ ججوں کےاہل خانہ کو ٹریپ کر کے ان کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں، اس طرح ایماندار ججوں کو فیملیکے ذریعہ بلیک میل کیا گیا، دھرنے والوں میں کھلم کھلا رقوم تقسیم کی گئیں اور اس سلسلے میںوہ ایماندار جج قاضی فائز عیسیٰ نے آرمی انٹیلی جنس کی جانب سے رقوم کی تقسیم سے متعلقتاریخی فیصلہ دیا اور کوئٹہ سانحہ  کی تحقیقات پر دبنگ ریمارکس اور فیصلے دئیے، اس کو بھیمیڈیا ٹرائل کے ذریعے بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ، اسکو عہدے سے ہٹایا گیا اس سےقبل ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی آئی ایس آئی پر تنقید کرنے کیپاداش میں ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرف کیا گیا، اس جج نے پاکستان میں  جبریگمشدگیوں کے بارے میں اپنی عدالت میں کہا تھا کہ ” میں سمجھتا ہوں کہ مقامی پولیس بھی انطاقتور ایجنسیوں کے ساتھ مل چکی ہے جنہوں نے ملک کے سماجی ڈھانچے میں رکاوٹیں پیداکررکھی ہیں” جسٹس صدیقی نے آئی ایس آئی پر بھی شدید تنقید کی تھی جس کے بعد انکوخرید کیئے گئے ججوں کے ذریعے فارغ  کرادیا گیا ، ملک میں میڈیا کے ذریعے عوام کو کنٹرولکرنے کیلئے نت نئے گانے بنانے اور سوشل میڈیا پر کروڑوں روپے خرچ  کئے گئے مگر ان سے یہمعلوم نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ رقم فوج نے کہاں اور کیو ں کر خرچ کی؟ دائروں کے اس سفر میں گزشتہ ستر سالوں میں کبھی ہمیں کمشنری نظام ،تو کبھی ضلعی نظامکبھی پھر وہی کمشنری سسٹم اور پھر ضلعی بلدیاتی نظام الغرض وہی دائروں کا سفر جاری اورساری رہا ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پوری قوم کو یکجا کر نے کے بجائے ہمیں گروہوں ،نسلوں اورقبیلوں میں تقسیم کیا ،قوم کو آپس میں تقسیم کر کے ہی ان کا کاروبار چلتا ہے، انہوں نے قوم کومختلف دائروں میں تقسیم کر کے پھر انکو ایک دائرے میں قیدکیا ، اسطرح کسی کو کسی کےدائرے میں جھانکنے کی اجازت بھی نہیں، سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان کا دائرہ ،اردو ،سندھی کادائرہ، بلوچی اور پنجابی دائرہ، سرائیکی اور پنجابی کا دائرہ، شیعہ سنی، وہابی اور بریلویدائرہ، سیکولر اور مذہبی دائرہ ،یہ پوری قوم ان دائروں میں رہتے ہوئے اب تہتر سالوں بعد اپنے آپکو انہی دائروں کا قیدی سمجھنے لگ چکی ہے ، میڈیا جو اس بٹی ہوئی قوم کو شعور کی منزل پرلے جا کر انہیں سمجھانا چاہتا ہے کہ اپنے دائروں سے باہر نکلو اور اگر نکل نہیں سکتے تو ایکدوسرے کیلئے کم از کم احترام  ہی پیدا کرلو مگر جو بھی ایسی کوشش کرے وہ یہاں غدار قرار پاتاہے،دائروں کے اس سفر کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ ہی کوئی منزل، ہاں جو اس دائروں سے باہر اندائروں کو چلا رہے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ ان کی منزل اور کام یہی ہے کہ وہ قوم کو انہی میںمصروف رکھیں،اسی میں ان کی نجات ہے، اس طرح ملک میں جس طرح میں نے پہلے بتایا کہ چارمارشل لاء لگ چکے ہیں، انتخابات بھی ہوئے ،مختلف سیاسی جماعتوں نے اقتدار کیلئے زور آزمائیبھی کی مگر دائروں کے اس سفر میں رہتے ہوئے پاکستان کے نظام میں ذرہ برابر بھی بہتری نظرنہیں آئی، آپ گزشتہ ستر سالوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،ہمارا سیاسی نظام، حکمرانی کیصلاحیتیں، سماجی اور اخلاقی اقدار تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو کر پستی کی طرف گامزن ہیں،اس طرح ماضی میں اپنی کارکردگی پر فخر کرنے والے قومی ادارے بھی ہماری اس تہتر سالہتاریخ میں بد ترین توڑ پھوڑ اور تنزلی کا شکار ہوئے ، جس میں پی آئی اے اور اسٹیل ملز اس کیواضع مثالیں ہیں، مگر یہ تو ہمارے ہی تخلیق کردہ ادارے تھے، مگر وہ ادارے جو کہ انگریز ہمیں دےکر گئے تھے، وہ بھی تو ہم سنبھال نہیں سکے، پوسٹ آفس، ریلوے، تعلیم کا شعبہ، ضلعیانتظامیہ، بلدیاتی ادارے اور قومی خدمات کے کئی ادارے اس وقت اپنی بربادی کی مثال بنے ہوئےہیں، یہ سب ادارے انگریز ہم کو انتہائی بہتر حالت میں دے کر گئے تھے، دائروں کے اس سفر نےتنزلی کی جو داستان رقم کی ہے وہ انتہائی دل دکھانے والی داستان ہے اور عبرتناک بھی ہے ، مگرہم نے اب تک اس سے عبرت حاصل نہیں کی کوئی سبق نہیں سا۔  تاریخ کے مشاہدات اور مطالعہسے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ منظم جمہوری ممالک میں سیاسی قیادتوں نے سول سروسز، قوانین کوباقاعدہ بنایا لہٰذا اس ڈھانچہ سے باہر جو کوئی بھی قدم رکھنے کی کوشش کرتا تو اس کو دیگراداروں کے ذمہ دار روکنے کیلئے قانون پر عملدرآمد کراتے اور قانون کی بالادستی وائم کرنے کیلئےوہ ان قوانین کے ذریعے عملی جامعہ پہنایا جاتا، اس طرح ان پختہ بالغ جمہوری معاشروں میںقانون کی حکمرانی زندگی کا معمول اور رواج بن گئی، اس استحکام کی بنیادی وجہ یا اس کا رازسول سروس کی استقامت میں پنہاں ہوتا ہے، اس لئے ان ممالک میں سول سروسز کو بہت زیادہآئینی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ،اس طرح قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کی کارکردگی کے راستےمیں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی، وہ بلا خوف وخطر کام کرتے ہیں اور اس نظام کو چلاتےہیں، اس طرح کا تحفظ گزشتہ دنوں ہمیں امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں بھی نظر آیا، جہاں پرہیوسٹن کے پولیس چیف نے اپنے ملک کے صدر کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے کہا کہ صدر صاحب اگرآپ عقل ودانش کی بات نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے منہ کو ہی بند رکھیں”پولیس چیف نے یہجملہ پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کی موت کے بعد صدر ٹرمپ کی جانب سے دئیےگئے اس بیان کے جواب میں کہا تھا کہ اگر پولیس عوام کی حفاظت نہیں کر پا رہی ہے تو وہ اس کےلئے ملٹری فورسز کو پولیس کی جگہ تعینات کر سکتے ہیں، اس بیان پر اگر صدر ٹرمپ عملدرآمدکرتے تو واقعی معاملہ مزید بگاڑ کی طرف جاتا ، اس لئے پولیس چیف نے اپنے صدر کی جانب سےاس نظام کو خراب کہنے پر شٹ اپ بھی کہااور ان کو دوسرے لفظوں میں احمق بھی کہہ ڈالا اورمنہ بند کرنے کا مشورہ بھی دے دیا ، ان کا یہ بیان امریکہ بھر کے میڈیا میں کئی دنوں تک گردشکرتا رہا ، امریکہ ہمارے آبائی ملک پاکستان کی طرح 52 ریاستوں کا مجموعہ ہے ، اس طرحپاکستان میں بھی صوبے وفاق کو قائم رکھنے کی علامتیں ہیں، یہ بالکل اس طرح ہے کہ سندھبلوچستان، خیبر پختونخواہ یا پنجاب کے کسی بڑے شہر کا پولیس چیف اپنے ہی وزیر اعظم کیجانب سے اپنے فرائض میں مداخلت پر اس کو شٹ اپ کہہ دے، لیکن ایسا پاکستان میں ممکن نہیں،ویسے بھی اس طرح حق گوئی کے ساتھ اظہار خیال کردینا صدارتی یا پارلیمانی نظام کا تحفہنہیں ، بلکہ سچ یہی ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے اور یہ اس کا لازمی جُز ہے، امریکہ ہینہیں تمام یورپی ممالک میں جہاں جمہوریتیں ہیں وہاں اس طرح قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، مگرآپ پاکستان کو دیکھ لیں جہاں سندھ پولیس کے آئ جی کو رینجر کے سیکٹر کمانڈر نے اغوا کرایااور جبرا ان سے احکامات پر عملدرآمد کرایا ، جمہوریت ہمارے ملک میں بھی ہے لیکن اگر آپ تھانہمیں ایف آئی آر کٹوانے جائیں تو آپ کو حیرانی ہو گی کہ ملک میں سول لاء ، شرعیہ لاء سمیت کئیقوانین نافذ العمل ہیں، اس طرح نہ تیتر اور نہ بٹیر والی صورتحال ہے، اس جمہوریت کو جو لوگکنٹرول کرتے چلے آ رہے ہیں، وہ پاکستان کی آرمی اور اسٹیبلشمنٹ ہے، جنہوں نے گزشتہ70سالوںسے جمہوریت کو اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے، وہی اقتدار پر پوری طرح قابض ہیں اور جبکبھی بھی جمہوری حکومتیں جمہور ان کے مفادات پر چھیڑ چھاڑ کرنے کا سوچتے ہیں تو یہ پھرسے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں، اس لئے آنے والی تمام جمہوریتوں کو ان کی ہی کٹھ پتلی بننا پڑتا ہے، اس اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص خاندان اور جاگیردار سیاسی پارٹیاں باقاعدہ غلام ہیں، اس طرحان قوتوں نے70سالوں سے جمہوریت کو اپنے دائرہ میں قید کررکھا ہے ،ملک میں امیر امیر تر اورغریب غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہمیں جو بھی مافیا ئیں نظر آتی ہیں، سب کیسب اس نظام اور اس اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں، اگر سچا جمہوری معاشرہ تشکیل پا جائے توایسی مافیائیں کبھی بھی اس نظام میں پنپ نہیں سکتیں، پاکستان میں سرمایہ داروں کی شوگرملز مافیائیں ہیں وہ جب چاہیں چینی کی قیمت بڑھا دیں، گندم کی مافیا جب چاہیں ملک میں آٹےکی مصنوعی قلت پیدا کر دیں اور قیمتوں کو آسمان تک چڑھا دیں، اس طرح سیمنٹ ،پٹرول،مافیائیں اپنا منہ کھولے بیٹھی ہوئی ہیں، اب کرونا کے بعد پاکستان سے خبریں آ رہی ہیں کہ دوائوںکی انڈسٹری مافیا نے اس بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوائوں کی قیمتیں کئی فیصد بڑھا دی ہیں،جبکہ حکومت نے ان مافیا کو ار دوام دیتے ہوئے دواوں کی قیمتوں کو حال ہی میں بڑھا دیا ہے اسطرح یہ استحصالی قوتیں انتہائی منظم ہیں، صرف اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کتنیہی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے ، اس طرح اسٹیبلشمنٹ اور ان کی غلام اور لونڈی قوتوں کی حوسکی قیمت غریب عوام کو ہی دینا پڑتی ہے، ایک طرف سیاسی حکمرانوں کی نااہلی کا سانحہ درپیشہے تو دوسری طرف نااہل، خود غرض، سیاسی قوتوں نے سول سروسز کے ڈھانچہ کو برباد کرکےرکھ دیا ہے، اس بربادی کی وجہ سے سول سروسز کو آئینی تحفظ سے محروم رکھا گیا ،وزیر اعظمذوالفقار علی بھٹونے بڑے بڑے کام کئے مگر جب آئین تشکیل پا رہا تھا تو اس وقت بھی اس کو شایدجان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ سیاستدان ان سول سروسز کےافسران کو اپنی وفاداری پر لگانا چاہتے تھے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے خادم بن کر کا م کریں تاکہ ان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکے، یعنی یہ کہ جو کچھ حکمران چاہیں وہ وہیکریں اورسول سروسز رولز ریگولیشن کے نام پر کوئی بھی انکے لیئے رکاوٹ نہ بن سکے، اس طرحملک میں کھلے بندوں قانون شکنی اور لوٹ مار کا کلچر پروان چڑھنے لگا، سول سروسز کے افسراننے بھی اس بہتی گنگا سے اپنا حصہ وصول کیا، لوٹ مار کے اس کلچر میں اخلاقی قدروں کاجنازہ نکل گیا اور مزید کئی اور مافیائوں نے اس نظام کے تحت نیا جنم لیا اور حکومتی انتظامیکارکردگی کا بیڑاغرق کر دیا گیا، ہمارے سامنے اس وقت یہ منظر موجود ہے، قومی اداروں کیکارکردگی زوال پذیری کا شکار ہے، نیچے سے اوپر تک رشوت ستانی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا،ریلوے پوسٹ آفیس، اسٹیل مل، ضلعی انتظامیہ، پی آئی اے، مقامی حکومتوں کے شعبہ ناکارہ ہوچکے ہیں اور اس ناکامی کا سارا وزن غریب عوام برداشت کررہے ہیں، وہی اس کی قیمت ادا کررہےہیں،سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی ڈھانچہ، انتظامی ڈھانچہ اور اخلاقی ڈھانچہ اب اپنے اپنےدائروں میں سفر کررہا ہے، اس لئے حکمران کوئی بھی آئے، کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، اس طرحعوام کو صرف چہرے کی تبدیلی پر لگایا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ بے وقوف بن کر رہ جاتے ہیں ، اسوقت عوام بے بس اور محرومی کے احساس تلے مغلوب دائروں میں یہ سفر جاری رکھے ہوئے ہے،جس طرح پہلے میں نے کہا کہ میڈیا جو کہ عوام کو درست سمت کا تعین کرنے میں بڑا مدد گارتھا،اب اس بیل کی آنکھ پر بھی مکمل اور مضبوط پٹی باندھ دی گئی ہے، میڈیا کو بھی دائروں کےسفر میں ڈال دیا گیا ہے، کسی کو بھی کسی کے دائرے میں جھانکنے کی اجازت نہیں،، مختلفدائروں میں بٹی ہوئی یہ قوم کس طرح تلاش کرے کہ اس کی منزل کیا ہے، اس کے لئے ضروری ہےہمیں اپنی آنکھوں سے اور اپنی عقلوں سے جو پٹی اسٹیبلشمنٹ نے باندھی ہوئی ہے ہم اسکو اتارپھینکیں اور شعور کے ذریعے اصل دشمن کو پہنچانیں اور قوم اور ملک کاہم درست سمت پر تعینکریں ،بصورت دیگر آنے والے وقتوں میں ہم اور ہماری نسلیں اسی دائرے کے سفر میں لگی رہیں گیاور منزل ان سے بھی کوسوں دور ہوگی اسلیئے یہ ایسے سوالات ہیں جنکے جواب آپکو معلوم ہونابہت ضروری ہیں اور یاد رکھیئے جو معاشرہ سوال کرنابھول جاتا ہے۔ وہ جواب کبھی نہیں  ڈھونڈسکتا، اسلیئے جو بھی ایسا سوال کرتا ہے اسکو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *