Home / جاگو دنیا / دہلی فسادات کیس میں 18 ماہ سے زیر حراست عمر خالد کی درخواست ضمانت مسترد

دہلی فسادات کیس میں 18 ماہ سے زیر حراست عمر خالد کی درخواست ضمانت مسترد

بھارت کی ایک عدالت نے دہلی میں فسادات بھڑکانے کے الزام میں 18 ماہ قبل گرفتار کیے گئے معروف سماجی کارکن اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق طالبعلم عمر خالد کی ضمانت مسترد کر دی ہے۔

عمر خالد کو 13 ستمبر 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا، ان پر فروری 2020 میں ہونے والی پرتشدد جھڑپوں میں ایک اہم سازشی ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس میں بیشتر مسلمانوں سمیت 53 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

عمر خالد نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے صرف ایک پرامن احتجاج میں حصہ لیا۔

عمر خالد ان متعدد طلبہ اور کارکنوں میں سے شامل ہیں جنہیں انسداد دہشت گردی کے سخت گیر قانون کے تحت تشدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ان کی ضمانت سے متعلق احکامات 14 مارچ کو جاری ہونا متوقع تھے لیکن اس کے بعد سے 3 بار موخر کیے جاچکے ہیں۔

آج ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے کہا کہ عمر خالد کی ضمانت کی درخواست میں کوئی میرٹ اور وزن نہیں ہے۔

عمر خالد کے والد سید قاسم رسول الیاس نے برطانوی خبررساں ادارے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ وہ اس فیصلے سے مایوس ہوئے ہیں اور اعلیٰ عدالت میں اپیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، بہت جلد انصاف ملے گا۔

دہلی میں فسادات ایک متنازع شہریت ترمیمی بل کے خلاف مہینوں تک جاری رہنے والے طویل احتجاج کے درمیان ہوئے۔

شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) 3 پڑوسی مسلم اکثریتی ممالک (افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش) سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دیتا ہے۔

اگرچہ ناقدین کا مؤقف ہے کہ یہ ایکٹ مسلم مخالف ہے اور بھارت کی سیکولر اقدار کے خلاف ہے، تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا اصرار ہے کہ یہ ایکٹ مظلوم اقلیتوں کو پناہ دیتا ہے۔

ہندوؤں اور مسلمانوں سمیت لاکھوں لوگ اس قانون کے خلاف پرامن مظاہرے کرنے کے لیے سڑکوں پر آئے، تاہم دہلی میں ایک احتجاج پرتشدد صورت اختیار کر گیا، جس کے نتیجے میں اس قانون کے حق میں اور مخالفت کرنے والوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں۔

پرتشدد تصادم نے جلد ہی مذہبی شکل اختیار کر لی، جس کے نتیجے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پرتشدد کاروائیوں کا دائرہ پھیلتا گیا اور 3 دن تک جاری رہا، ہندو انتہاپسندوں کے ہجوم نے مبینہ طور پر مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو (اکثر پولیس کی مدد سے) نشانہ بنایا۔

برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی کی رپورٹنگ میں فسادات کے دوران پولیس کی بربریت اور ملوث ہونے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ۔

اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران پیش آنے والا یہ واقعہ شہر میں مذہبی فسادات کے بدترین سلسلسوں میں سے ایک تھا ۔

عمر خالد پر 2 اشتعال انگیز تقاریر کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس میں انہوں نے مبینہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے دوران مظاہرین کو سڑکیں بلاک کرنے پر اکسایا۔

ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ بین الاقوامی سطح پر پروپیگنڈہ پھیلانا چاہتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔

پولیس نے کہا کہ اس سازش کے تحت عمر خالد اور ان کے ساتھیوں نے دہلی میں فسادات بھڑکانے کے لیے خواتین اور بچوں کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا۔

عمر خالد نے اس دعوے کو چیلنج کیا اور کہا کہ پولیس نے ان کے خلاف الزامات عائد کرنے کے لیے ایک ترمیم شدہ ویڈیو کلپ کو بنیاد بنایا۔

پولیس کا یہ بھی الزام ہے کہ یہ انتشار بھارتی صدر نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کے لئے سی اے اے مخالف مظاہرین کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھا۔

عمر خالد کے علاوہ ان مظاہروں کی قیادت کرنے والے کئی مظاہرین، طلبہ لیڈروں اور کارکنوں کو فسادات پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

گرفتار کیے گئے ان تمام افراد پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت الزام عائد کیا گیا تھا جو کہ انسداد دہشت گردی سے متعلق ایک سخت قانون ہے جس کے مطابق ضمانت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

گزشتہ ہفتے اپوزیشن کانگریس پارٹی کی سابق کونسلر عشرت جہاں کو گرفتار کیے جانے کے 2 سال سے زیادہ عرصے بعد ضمانت مل گئی۔

عمر خالد کو 2016 میں بھی غداری کے الزام میں ان کے ایک اور ساتھی طالب علم رہنما کنہیا کمار کے ہمراہ بھارت مخالف نعرے لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ان دونوں نے یہ الزامات مسترد کردیے تھے اور انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔

Check Also

چین کی بڑھتی فوجی طاقت، جاپان و فلپائن کے دفاعی معاہدے پر دستخط

خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کے خدشات کے باعث جاپان اور فلپائن …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *