Home / جاگو ٹیکنالوجی / نئی حکومت آتے ہی سرکاری ڈیجیٹل اثاثوں پر کنٹرول کی دوڑ

نئی حکومت آتے ہی سرکاری ڈیجیٹل اثاثوں پر کنٹرول کی دوڑ

نو منتخب حکومت اور پی ٹی آئی کی قیادت کے درمیان سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم نیا میدانِ جنگ بن گیا، سابق وزیر اعظم عمران خان کی ٹیم نے وزیر اعظم آفس کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ کو آرکائیو (محفوظ) کرلیا۔

نئی حکومت کی بیوروکریسی اور سیاسی قیادت سرکاری ڈیجیٹل اثاثوں پر جلد کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جسے ٹیکنالوجی کے اس دور میں مخالفین کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ بر سرِ اقتدار افراد کا ایجنڈے کے پرچار کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

سابق اکاؤنٹ کے آرکائیو ہونے کے بعد موجودہ وزیر اعظم کے لیے نیا اکاؤنٹ بنایا گیا ہے۔

عہدہ سنبھالتے ہی نئی حکومت نے ویب سائٹ سمیت حکومت کے ڈیجیٹل میڈیا ونگ (ڈی ایم ڈبلیو) کی تمام سرگرمیاں معطل کرتے ہوئےملازمین کو کام پر آنے سے روک دیا تھا۔

شہباز شریف کے عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم کے دفتر کا اکاؤنٹ (پاک پی ایم او) آرکائیو کردیا گیا تھا جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سوشل میڈیا ٹیم نے شہباز شریف کے لیے نیا اکاؤنٹ ( پی ایم او – پی کے) بنایا ہے۔

پاک پی ایم او نامی اکاؤنٹ 2018 میں بنایا گیا تھا یہ پاکستان کے وزیر اعظم کے لیے پہلا اکاؤنٹ تھا۔

یہ حکومت اور عوام کے درمیان براہِ راست گفتگو کا ایک جدید راستہ ہے، تصدیق شدہ اکاؤنٹ کو بند کرنا پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت کا فیصلہ تھا۔

ٹوئٹر اکاؤنٹ بنانے کی روایت بہت سے اداروں کی جانب سے اختیار کی گئی ہے لیکن یہاں عہدیدار کی موجودگی کے قطع نظر اکاؤنٹس پر سرگرمیاں جاری رہتی ہیں، اسی طرح فوج کے میڈیا ونگ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ (آفیشل ڈی جی آئی ایس پی آر) دسمبر 2016 میں بتایا گیا تھا۔

2016 کے بعد عہدے پر تین عہدیدار تبدیل ہونے کے بعد بھی اس اکاؤنٹ پر عوامی معلومات سے متعلق سرگرمیاں جاری ہیں، البتہ جون 2010 میں بنایا گیا اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کا اکاؤنٹ (ڈی ایس اسلام آباد) اب بھی وہی ہے۔

اکاؤنٹ کو آرکائیو کرنے والے عہدیداران نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ بین الاقوامی طرز عمل ہے۔

ڈی ایم ڈبلیو کے سابق جنرل مینجر عمران غزالی نے کہا کہ ’ امریکا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور سرکاری اکاؤنٹ کو آرکائیو کیا گیا ہے اسے ڈیلیٹ نہیں، یہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اس کا ڈیٹا محفوظ کیا جاسکے اور نئے استعمال کنندہ اس کا ڈیٹا ڈیلیٹ بھی کر سکتے ہیں۔

قبل ازیں عمران غزالی نے دعویٰ کیا تھا کہ پی ایم او اکاؤنٹ کو آرکائیو کرنے کے لیے باضابطہ طور پر ٹوئٹر سے رابطہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ڈی ایم ڈبلیو اب اکاؤنٹ تک رسائی کھو چکا تھا۔

انہوں نے لکھا کہ ’پی ایم او کی آئی ٹی ٹیم نے اکاؤنٹ تک رسائی کا دعویٰ ٹوئٹر پر کیا تھا، حالانکہ یہ اکاؤنٹ ان کی جانب سے بنایا گیا نہ ہی ان کے زیر انتظام تھا‘۔

ریاست کے ملازمین

ڈیجیٹل میڈیا ونگ (ڈی ایم ڈبلیو) 2018 میں تشکیل دیا گیا تھا تاکہ حکومت کا اسٹریٹجک یونٹ مؤثر انداز میں کام کرے اور جعلی اور توہین آمیز خبروں کی نشاندہی کرتے ہوئے حکومت ایجنڈا تیار کیا جاسکے۔

ڈی ایم ڈبلیو کا سوشل میڈیا وینگ پاکستان انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کی طرح کام کرتا ہے لیکن ڈی ایم ڈبلیو کے تمام اراکین کا تعلق نجی شعبہ جات سے ہے۔

رواں ماہ شہبازشریف کے عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد ڈی ایم ڈبلیو کے سربراہ عمران غزالی نے عہدہ چھوڑ دیا تھا۔

علاوہ ازیں ڈی ایم ڈبلیو کے جنرل مینجر سمیت دیگر عہدیداران نے عہدے سے استعفیٰ دےدیا تھا جبکہ عہدے پر موجود کانٹریکٹ ملازمین کے معاہدے کی معیاد اگست تک ہے۔

ڈی ایم ڈبلیو کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر الطاف خان کا کہنا تھا کہ ’ہم ریاست کے ملازمین ہیں، ہم بیرون ملک میں پاکستان کے مشن سمیت وزارت خارجہ کے 250 اکاؤنٹ چلا رہے ہیں، ڈی ایم ڈبلیو کی وجہ سے حکومت کے ڈیجیٹل اثاثوں میں 5 گنا اضافہ ہوا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پیشہ ور اور تعلیم یافتہ ہیں، سیاست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، ہم ملازمت پر واپس جانے کا انتظار کر رہے ہیں ۔

حکومت تبدیل ہونے کے باوجود بھی الطاف خان کا کہنا ہے کہ ان کا کنٹریکٹ اگلے سال ختم ہوگا اور وہ اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم کشمیر اور افغانستان سے امریکی انخلا جیسے قومی سلامتی اور خارجی سفارت کاری کے مسئلے پر قوم کا بیانیہ پیش کرنے میں سب سے آگے تھے، ہم اس بات کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ ہمارے اچھے کام کو مسترد نہیں کیا جائے گا‘۔

پی آئی ڈی کا سوشل میڈیا ونگ مکمل طور وزارت اطلاعات کے عہدیداران اور افسران کے زیر انتظام تھا، لیکن پی ٹی آئی نے اسےختم کرتے ہوئے ڈی ایم ڈبلیو قائم کیا، جس کے لیے تمام عملہ نجی شعبہ جات کے کنٹریکٹ کے بعد رکھا گیا تھا۔

وزیر اعظم کے سابق فوکل پرسن برائےڈیجیٹل میڈیا حکومت اور ڈی ایم ڈبلیو کے درمیان رابطہ کام کرتے تھے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نگہت داد کا کہنا ہے کہ ’سابق ڈی ایم ڈبلیو سیاسی دباؤ کا شکار تھا، میرا خیال ہے کہ اسے بیوروکریسی کے ماتحت ہونا چاہیے۔

ڈی ایم ڈبلیو کے دوبارہ بحال ہونے کے بعد مریم نواز کے اثر و رسوخ سے متعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ونگ کو جلد فعال کردیا جائے گا اس کو سیاسی نقطہ چینی کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

Check Also

لاہور ہائیکورٹ: ججوں کی حفاظت کرنے والے اہلکاروں کا نفسیاتی ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ

ججوں کی سیکیورٹی فول پروف بنانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *