Home / جاگو کالمز / مدارس کے نظام میں اصلاحات اورحکومت پاکستان کا عزم

مدارس کے نظام میں اصلاحات اورحکومت پاکستان کا عزم

فرینک اسلام

مدارس کے نام سے معروف 30ہزار کے لگ بھگ مذہبی  سکولوں کو حکومت پاکستان نے مین سٹریم تعلیمی نظام کا حصہ بنانے کا اعلان کیاہے تاکہ طویل عرصہ سے ملک بھرمیں جاری شدت پسندی کا خاتمہ کیاجاسکے۔پاکستانی فوج کے ترجمان ڈائریکٹرجنرل آئی ایس پی آر میجرجنرل آصف غفورنے یہ اعلان کرتے ہوئے اس عزم کااظہارکیاہے کہ ان تمام مذہبی مدارس کو حکومتی کنٹرول میں لایاجائے گا تاکہ اصلاحاتی ایجنڈا کے تحت مدارس کے نصاب میں جدید سائنسی مضامین شامل کرکے نفرت کے پرچارکی سوچ ختم کی جاسکے۔

حکومت پاکستان کا یہ اعلان میرے جیسے آزاد آبزرور کے لئے خصوصی اہمیت کااہمیت کا حامل ہے جو ایک عرصہ سے بھارتی مدارس میں اصلاحات پر زوردے رہے ہیں۔ یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں مدارس کی اصلاحات کا پروگرام ایک حساس اورنازک معاملہ ہے کیونکہ مدارس کو چلانے والے مذہبی عناصر اس “مداخلت”کے خلاف سخت مزاحمت کریں گے۔

بین الاقوامی سطح پر ان پاکستانی مدارس کو نوجوانوں میں شدت پسندی ابھارنے کا ذمہ دار قراردیاجاتارہاہے اورپاکستان ان دنوں اپنی سرزمین سے پیداہونے والی ایسی ہی شدت پسندی کے باعث سخت دبائو کا شکاربھی ہے۔بین الاقوامی  سطح پر منی لانڈرنگ اوردہشت گردی  کیلئے ہونے والی فنڈنگ پر نظر رکھنے والی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی طرف سے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیے جانے کے بعد سے حکومت اس سٹیٹس کو ختم کرنے کیلئے سخت جدوجہد کررہی ہے۔

بیروزگاری اورافراط زر کے ساتھ ساتھ بدترین معاشی بحران کے شکار پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ میرا پختہ یقین ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت کیلئےشدت پسند تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کاسا تھ ساتھ مدارس میں اصلاحات انتہائی اہم ہیں تاہم پاک فوج کے ترجمان نے یہ واضح کیاکہ پاکستان میں قائم 30ہزار مدارس میں سے صرف 100 کے لگ بھگ ہی شدت پسندی کے پرچار میں ملوث ہیں۔مذہبی  مدارس پاکستان میں تعلیمی سہولیات سے محروم لاکھوں غریب طلباء کو تعلیم دے رہے ہیں تاہم اب انہیں نفرت اورشدت پسندی سے احتراز کرناہوگا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق حکومتی کنٹرول میں لانے کے بعد ان مدارس میں جدیدتعلیم کے فروغ کیلئے انسداددہشت گردی اورسکیورٹی اپریشنز پر ہونے والے اخراجات میں سے فنڈز خرچ کیے جائیں گےتاکہ آئندہ ان مدارس سے فارغ ہونے والے طالبعلموں کو بھی عملی زندگی میں وہی مواقع مل سکیں جو پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلباء کو میسرہوتے ہیں۔ میجرجنرل آصف غفورنے اس عزم کااظہارکیاکہ ہم پاکستان میں پرتشدد شدت پسندی ختم کرناچاہتے ہیں اوریہ تبھی ممکن ہوگا جب قوم کے تمام نوجوانوں کو یکساں تعلیم اورمواقع ملیں۔

حال ہی میں بھارتی اخبارات میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں بھارتی مدارس کی ماڈرنائزیشن پر زوردیاتھاکیونکہ انڈیا کےطول وعرض میں قائم 40000مدارس میں مجموعی  آبادی کے 2سے 4فیصد طلباء زیرتعلیم ہیں۔ پسماندہ اورانتہائی غریب بستیوں میں قائم یہ مدارس ابتدائی تعلیم کے حصول کا وہاں واحد ذریعہ ہیں اور کسی منظم اورمربوط تعلیمی نظام اورنیٹ ورک کا حصہ ہونے کی بجائے ان مدارس کی اکثریت آزادانہ طورپر کام کررہی ہے۔

میرے خیال میں یہ مدارس صرف اورصرف اسلامی تعلیم اوراسلام کے مخصوص نظریہ کے تحت دیتے ہیں اوروہاں طلباء مخصوص مذہبی عینک سے ہر چیز کو دیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں جس سے بادی النظرمیں ان طلباء کی معاشرتی ، معاشی اورسماجی حالات کے مطابق قوت فیصلہ اورصلاحیت متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس طرح یہ نوجوان 21ویں صدی کے تقاضوں سے نبردآزما ہونے کی صلاحیتوں سے عاری ہوجاتے ہیں۔بھارت کی طرح پاکستان میں بھی صورتحال یکساں ہیں اوراسی طرح اس کے علاج کی ضرورت بھی مشترک ہوگی۔

مدارس کی اصلاح کیسے ممکن ہے

میرے نقطعہ نظر کے مطابق تو سب سے اہم علاج مدارس کے نصاب کو ہمہ جہت اورمتوازن بنانے کی ضرورت ہے جس میں سائنس وٹیکنالوجی اورریاضی کی تعلیم ابتدائی سالوں میں رائج کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد ووکیشنل اورٹیکنیکل ٹریننگ  اورہائیر ایجوکیشن کیلئے ان طلباء کو تیارکیاجاناچاہئے۔ مدارس کے طلباء کا المیہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ وہ پرائمری لیول سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے اورمدارس کے نصاب کی اصلاحات میں اس امر پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہوگی کہ یہ نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اہلیت حاصل کرپائیں۔پاکستان میں یہ مسئلہ وزارت تعلیم کی طرف سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے مشترکہ طورپر اصلاحات کے عمل پر عملدرآمد سے حل ہوسکتاہے۔

پاکستان میں تبدیلی کے عمل کے روایتی مخالفین مدارس میں اصلاحات کے عمل کے خلاف بھرپور مزاحم ہونگے جبکہ استثنائی طورپر بعض اسے قبول بھی کرلیں گے۔ اب اس کا انحصار حکومت پاکستان کے سیاسی عزم اورمستقل مزاجی پر ہے کہ وہ ملک کے طول وعرض میں ان اصلاحات پر کیسے عملدرآمد کراتی ہے۔ یہ امید کی جانی چاہئے کہ ان مدارس کی انتظامہ اپنے طلباء اورملک کے بہترین مفاد میں حکومت کے ساتھ کس حد تک تعاون کرتی ہے۔

اصلاحاتی عمل میں حائل رکاوٹیں

مدارس کے اصلاحاتی ایجنڈا پر عملدرآمدمیں میرے خیال میں دوبڑی رکاوٹوں کا سامنا ہوسکتاہے۔ اول وہ مدارس کے منتظمین کا وہ مائنڈ سیٹ ہے جو سخت گیر روایات، مسخ حقائق کی قبولیت، منجمد نقطعہ نظر  اورمخصوص اعتقادات پر مبنی ہے۔ یہ  روایات،  نظریات  اوراعتقادات کی منتظمین کے بچپن کے حالات کے عکاس ہوتے ہیں جن کا عموماً مذہب کے ساتھ کوئی لینادینا نہیں ہوتااورایسے میں سوچ کی تبدیلی ان لوگوںکیلئے سب سے مشکل امرہوسکتاہے۔ دوسری بڑی رکاوٹ حکومت کی طرف سے ہر رنگ ونسل اورمذہب کے لوگوںکو کوالٹی ایجوکیشن بلاتفریق فراہم کرنے میں ناکامی کے باعث پیش آسکتی ہے۔

حال ہی میں بھارتی صوبہ ہریانہ کے ضلع میوات سےمتعلق ایک دلچسپ سٹڈی منظر عام پر آئی تھی جو بھارت کا پسماندہ ترین علاقہ ہے جہاں مدرسے صرف مسلمان طلباء کو تعلیم دیتے ہیں۔وہاں ہونے والے ایک سروے میں میوات کے لوگوں نے اس خواہش کا اظہارکیاتھا کہ وہ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں جدید سائنسی تعلیم دلواناچاہتے تھے لیکن انہیں اس کے مواقع ہی میسرنہ تھ۔دلچسپ امریہ ہے کہ میوات کے 77 میں سے صرف 8 مدارس ایسے تھے جو طلباء کو جدید تعلیم سے آراستہ کررہے تھے۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اگر پسماندہ علاقوں کے لوگوں اورمدارس کے منتظمین کو مناسب مواقع اور وسائل میسر ہوں توانہیں اس تبدیلی کی طرف راغب کیاجاسکتاہے۔

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا پہلاقدم:

میں ہمیشہ سے نظرانداز کیے گئے اورکمزورطبقات خصوصاًخواتین کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے پر زوردیتا رہاہوں اوراس ضمن میں میراعلیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے زعماء سے بھی بھرپوررابطہ رہاہے جن کی اس طرف خصوصی توجہ ہے اوروہ قابل قدرکام کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ میرے علم میں آیا ہے کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے حال ہی میں مدرسہ گریجویٹس کو یونیورسٹی گریجویٹ کورسز میں شرکت کیلئے خصوصی طورپر ایک کورس مرتب کیاہےجس میں انگریزی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اورہومین ڈویلپمنٹ کے مضامین شامل ہیں تاکہ ایسےطلباء کو دینی اورتنہائی پسندی سے نکال کر مضبوط اورقابل فہم نظام کا حصہ بنایا جاسکے۔

حتمی طورپر میں پاکستان کی حکومت کے اس اقدام کو قابل ستائش قراردیتاہوں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ پاکستان میں مدارس میں اصلاحات کا اعلان پہلی مرتبہ نہیں کیاگیا۔ ماضی  کی کئی حکومتیں مدارس کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے اوراصلاحات کے ایجنڈے کے خلاف  مذہبی جماعتوں کی سخت مزاحمت  اوراپنی کمزور حکمت عملی کے سبب عملدرآمد نہ کراسکیں۔ اب بہرطوریہ امید کی جاسکتی ہے کہ آخرکارپاکستانی حکومت مدارس کے اصلاحات کے ایجنڈے پر عملدرآمد میں کامیاب ہوجائے گی جو نہ صرف پاکستانی معاشرہ میں ایک مثبت تبدیلی ہوگی بلکہ بین الاقوامی سطح کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر بھی  مدارس سے متعلق لوگوں کے خیالات کو تبدیل کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

Check Also

ناشتہ کیے بغیر بھوکے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ قرار

امریکا سمیت دیگر ممالک کے ماہرین کی جانب سے بھوک کے صحت اور خصوصی طور …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *