Home / جاگو دنیا / بورس جانسن دوڑ سے باہر، رشی سوناک کے برطانوی وزیراعظم بننے کی راہ ہموار

بورس جانسن دوڑ سے باہر، رشی سوناک کے برطانوی وزیراعظم بننے کی راہ ہموار

سابق وزیر اعظم بورس جانسن کنزرویٹیو پارٹی کی قیادت کی دوڑ سے دستبردار ہونے کے اعلان کے بعد رشی سوناک کے برطانوی وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

برطانیہ کے سابق وزیر اعظم بورس جانسن ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے لیے ضروری حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جہاں دائیں بازو کی کنزرویٹیو پارٹی کی اہم شخصیات ان کے مخالف رشی سوناک کی حمایت میں متحد ہوگئی ہیں۔

سابق وزیر اعظم بورس جانسن نے اتوار کی شام آخری لمحات میں ڈرامائی اعلان میں کہا کہ وہ کنورزیٹیو پارٹی کی قیادت کی دوڑ سے دستبردار ہو رہے ہیں۔

بورس جانسن نے ایک بیان میں کہا کہ آپ اس وقت تک حکومت نہیں کر سکتے جب تک کہ آپ کی پارٹی پارلیمنٹ میں متحد نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ پراعتماد تھے کہ ان کے پاس جیتنے کے لیے مطلوبہ ووٹوں کی تعداد موجود ہے۔

بورس جانسن کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا جب کہ وہ خود، رشی سوناک اور پینی مورڈانٹ پارٹی اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیے لِز ٹرس کی جگہ لینے کے لیے مقابلہ کر رہے تھے جب کہ حزبِ اختلاف نے اس تمام سیاسی صورتحال کو مضحکہ خیز، افراتفری کا سرکس قرار دیا۔

تینوں امید واروں نے گزشتہ پورا دن پارٹی اراکین کی حمایت کے حصول کی کوششوں میں گزارا اور اگلے راؤنڈ میں جانے کے لیے 100 ایم پیز کی مطلوبہ حمایت کے لیے تگ و دو کی، جو امیداور یہ مطلوبہ تعداد حاصل کرتا ہے تو وہ خود بخود ملک کا اگلا وزیر اعظم بن جائے گا۔

سابق چانسلر رشی سناک مطلوبہ تعداد میں اراکین کی توثیق حاصل کرنے والے پہلے شخص بن گئے، انہیں 140 ایم پیز کی حمایت تھی جب کہ بورس جانسن تقریباً 57 ووٹ لے کر دوسرے اور پینی مورڈانٹ 24 کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھیں۔

رشی سوناک نے اتوار کے روز باضابطہ طور پر مقابلے میں آئے اور ملک اور پارٹی دیانتداری، پیشہ ورانہ مہارت اور جوابدہی کے ساتھ چلانے کا عزم کیا جب کہ ایسا محسوس ہوا کہ انہوں نے خود کو بورس جانسن اور لز ٹرس سے مختلف رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔

چند مہینوں کے دوران ہی وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں دوسری بار شامل ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں اپنی معیشت کو ٹھیک ، پارٹی کو متحد اور اپنے ملک کے لیے ڈیلیور کرنا چاہتا ہوں۔

رشی سوناک کی حمایت کرنے والے ’بڑے اور نمایاں رہنماؤں میں سابق ہوم سیکریٹری ساجد جاوید، ڈومینک راب اور سابق سیکریٹری ہیلتھ میٹ ہینکوک شامل ہیں جب کہ بورس جانسن کو سابق وزیر داخلہ پریتی پٹیل، خارجہ سکریٹری جیمز کلیورلی اور کابینہ کے وزیر ندیم زہاوی کی حمایت حاصل تھی۔

بورس جانسن نے پینی ڈاونٹ اور رشی سوناک کی حمایت کرنے والے اراکین کے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، انہوں نے اپنی کوششوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان سے “قومی مفاد میں متحد ہونے کے لیے رابطہ کر رہے تھے لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہے، میڈیا رپورٹس انہوں نے پینی مورڈانٹ کو مقابلے سے دست بردار ہونے کا کہا جسے انہوں نے تجویز کو مسترد کر دیا۔

لز ٹرس کو برطانوی وزیر اعظم کے منصب پر آنے کے صرف 6 ہفتوں بعد ہی معاشی پروگرام میں ناکامی کی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا جب کہ ان سے قبل بورس جانسن نے رواں برس جولائی میں اس وقت اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا جب وزیر خزانہ رشی سوناک نے اپنا عہدہ چھوڑا تھا جس پر بڑے پیمانے پر ہلچل مچ گئی تھی اور بورس جانسن کے وزرا نے اجتماعی طور پر استعفے دیے تھے۔

رشی سوناک کو حالیہ انتخابات کے دوران ٹوری سے تعلق رکھنے والے کثیر تعداد میں قانون سازوں کی حمایت حاصل تھی جبکہ ابھی بھی ان کو پارلیمانی پارٹی میں اسی طرح کی حمایت حاصل ہے۔

18 اکتوبر کے روز یو گوف کے سروے کے نئے پولز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رشی سوناک کو لز ٹرس کے متبادل کے طور پر اچھی حمایت حاصل ہے۔

تاہم، رشی سوناک کو ایک متنازع شخصیت کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے کیونکہ سابق وزیر اعظم بورس جانسن کو عہدے سے ہٹانے کے لیے ان کے کردار کی وجہ سے پارٹی کے کئی اراکین ان کے اس عمل کو بھولے نہیں ہیں اور یہ بات بھی واضح ہے کہ وہی ناراض اراکین ہی فیصلہ کریں گے کہ پارٹی کے نئے سربراہ کون ہوں گے۔

اوپینیم کے تازہ ترین سروے کے مطابق رشی سوناک کو بورس جانسن پر واضح برتری حاصل ہوگئی ہے جب کہ تقریباً 45 فیصد عوام بطور وزیر اعظم رشی سوناک کو ترجیح رہے ہیں اور جب کہ بورس جانسن 27 فیصد عوام کی ترجیح ہیں۔

اس تمام سیاس جوڑ توڑ اور کوششوں کے دوران اگر بورس جانسن کی حمایت کرنے والوں میں سے اکثر اراکین پینی مورڈنٹ کی حمایت نہیں کرتے تو اس دوڑ میں رشی سوناک کی جیت یقینی ہوجائے گی اور اس طرح سے وہ نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے ملک کے پہلے وزیر اعظم بن جائیں گے۔

Check Also

چین کی بڑھتی فوجی طاقت، جاپان و فلپائن کے دفاعی معاہدے پر دستخط

خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کے خدشات کے باعث جاپان اور فلپائن …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *