Home / تازہ ترین خبر / آپریشن ’عزمِ استحکام‘ فوج کی نہیں، حکومت کی ضرورت ہے، وزیر دفاع

آپریشن ’عزمِ استحکام‘ فوج کی نہیں، حکومت کی ضرورت ہے، وزیر دفاع

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے ماضی میں کیے جانے والے فوجی آپریشنز کے بعد پاکستان کو یہ توقع نہیں تھی کہ ملک میں دہشتگردی ایک بار پھر بڑھے گی اور حال ہی میں اعلان کردہ آپریشن ’عزمِ استحکام‘ فوج کی نہیں بلکہ حکومت کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں شدت پسندوں کے خلاف نیا آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس پرحزب اختلاف کی جماعتوں سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کے علاوہ خاص طور پر قبائلی عمائدین اور عوام نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان کے قیام اور دہشتگردی کی نئی لہر کے خاتمے کے لیے شروع ہونے والے فوجی آپریشن پر سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین سے مشاورت جاری رہے گی۔

اس سوال پر کہ کیا یہ نیا آپریشن محض فوج کی طرف سے آنے والا ایک منصوبہ ہے اور ان کی حکومت مجبوراً اس کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے رہی ہے، خواجہ آصف نے کہا کہ ’حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور یہ ذمہ داری لینی بھی چاہیے۔ یہ آپریشن فوج کی نہیں، ہماری ضرورت ہے۔‘

یاد رہے کہ 2 روز قبل امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکا (وی او اے)‘ کو اپنے انٹرویو میں خواجہ آصف نے واضح کیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے جب کہ آپریشن ’عزم استحکام‘ کے تحت ضرورت پڑی تو کالعدم تنظیم کی سرحد پار پناہ گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’عزم استحکام کی پالیسی کوئی جلد بازی میں نہیں آئی ہے، اس کا پس منظر ہے، حالیہ مہینوں میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے لیکن ملک میں سیاسی ماحول کچھ اس قسم کا ہے کہ جماعتیں اور گروپس اپنے سیاسی فائدے کے لیے کوئی اسپیس نہیں دینا چاہتے اور میری دانست میں سیاسی مفادات ان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آپریشن کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے جو بھی تحفظات ہیں انہیں دور کیا جائے گا اور حکومت اس معاملے کو اسمبلی میں بھی لے کر آئے گی تاکہ اراکین کے سوالات اور تحفظات کا جواب دے کر انہیں اعتماد میں لیا جاسکے اور یہ ہمارا فرض بھی ہے۔‘

پچھلے آپریشنز کے حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ پچھلے آپریشنز میں کسی قسم کی کوئی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہو، اُس وقت بھی اور آج بھی افواج پاکستان سب سے بڑی اسٹیک ہولڈرز ہیں، وہ آج بھی جانیں دے رہے ہیں، آپریشن کے بعد سویلین حکومتوں کو جس طرح سے کردار ادا کرنا چاہیے تھا اُس میں تمام حکومتیں ناکام رہی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم آپریشن عزم استحکام کو کامیاب بنانے کے لیے چاہتے ہیں کہ اپوزیشن اور تمام سیاسی جماعتوں سے بات کی جائے اور اس کے خدوخال سے اُن کو آگاہ کریں، کابینہ نے اس کی منظوری دے دی ہے، وہ چاہیں تو اسمبلی میں یا پھر آل پارٹیز کانفرنس میں اس حوالے سے بات کی جاسکتی ہے۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے نیشنل ایکشن پلان پر ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی گئی تھی جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف، جے یو آئی (ف) سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا جب کہ وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کو آپریشن کے بارے میں گردش کرنے والی قیاس آرائیوں کے حوالے سے اعتماد میں لیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں کوئی فوجی بڑا آپریشن نہیں ہوگا۔

گزشتہ ہفتےوزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک پریس کانفرنس میں آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے سامنے آنے والے سیاسی جماعتوں کے تحفظات پر کہا تھا کہ ’آپریشن عزم استحکام کا ماضی کے آپریشنز سے موازنہ درست نہیں ہے، آپریشن عزم استحکام پر کابینہ اور پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا‘۔

Check Also

فوج سمیت تمام ادارے اپنے آئینی دائرہ کار سے وابستہ ہو جائیں، مولانا فضل الرحمٰن

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرتے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *