Home / تازہ ترین خبر / جبران ناصر، ان کی اہلیہ کو پرواز سے اتارنا ’غیر قانونی‘ تھا، سندھ ہائی کورٹ

جبران ناصر، ان کی اہلیہ کو پرواز سے اتارنا ’غیر قانونی‘ تھا، سندھ ہائی کورٹ

سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ وکیل جبران ناصر اور ان کی اہلیہ منشا پاشا کا نام واچ لسٹ میں شامل کیا جانا خفیہ تھا اور ان پر بیرون ملک جانے پر پابندی لگانے کا اقدام غیر قانونی تھا۔

رواں ماہ کے شروع میں وکیل جبران ناصر نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں ایف آئی اے نے گزشتہ ماہ دبئی جانے سے روک دیا تھا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر جبران ناصر نے کہا کہ 27 جون کو میں اور میری اہلیہ عید کے موقع پر اپنے اہل خانہ سے ملنے دبئی روانہ ہو رہے تھے اور ہمیں 5 جولائی کو کراچی واپس آنا تھا۔

جبران ناصر نے کہا کہ ہم نے اپنا سامان چیک کیا، بورڈنگ پاسز ملے، امیگریشن کلیئر کی اور ایگزٹ اسٹیمپس حاصل کیے لیکن ڈیپارچر لاؤنج کے قریب پہنچتے ہی ہمیں ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے بلایا جو اپنے فون پر کسی سے ہدایات لے رہا تھا۔

وکیل جبران ناصر نے کہا کہ ایف آئی اے اہلکار نے ان کے پاسپورٹ لیے اور فون پر بات کرنے والے شخص کو نام پڑھ کر سنائے۔

انہوں نے افسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہی لوگ ہیں آپ کے‘ جس کے بعد ہماری پرواز چھوٹ گئی، ہمارا سامان واپس آگیا اور ہمارے پاسپورٹ پر چسپاں ڈاک ٹکٹ اتار دیے گئے۔

سماجی کارکن نے کہا کہ ’اہلکار نے ہم سے کہا کہ براہ کرم سمجھا کریں سر، ہمیں ہدایات ہیں آپ کو جانے نہیں دینا‘، اس کے علاوہ کوئی باضابطہ وضاحت نہیں دی گئی۔

جبران ناصر نے کہا کہ انہیں اور نہ ہی ان کی اہلیہ کو وزارت داخلہ سے اس معاملے سے متعلق کوئی اطلاع موصول ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے خاندان کے سفر پر پابندی کو یکم جون کو انہیں اور ان کے خاندان کو ہراساں کرنے اور دھمکانے کے لیے اختیار کیے گئے غیر قانونی اور غیر آئینی ہتھکنڈوں کے تسلسل کے طور پر دیکھا۔

جبران ناصر نے کہا کہ نہ تو میں انسانی حقوق کے کام اور سیاسی سرگرمی کو ترک کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور نہ ہی میرا پاکستان سے باہر جانے کا کوئی ارادہ ہے، یہیں رہیں گے اور کسی بھی اور تمام اداروں کی غیر قانونی اور غیر آئینی پالیسیوں اور اقدامات کی مزاحمت کرتے رہیں گے۔

اس کے بعد جبران ناصر نے اس اقدام کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ آف لوڈ کرنے اور بیرون ملک سفر سے روکنے کے اقدامات کو ’غیر قانونی، بلاقانونی جواز اور غیر آئینی‘ قرار دیا جائے۔

ان کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور وفاقی حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو 17 اگست تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی جانب سے تحریر کردہ آج سامنے آنے والے فیصلے میں سندھ ہائی کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ ’قانون کے تحت کسی بھی شخص کو پاکستان چھوڑنے سے روکنا ایک حکم کے تحت ہونا چاہیے، وہ حکم منظور ہوتے ہی متاثرہ شخص (افراد) کو بتا دینا چاہیے۔‘

فیصلے میں کہا گیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی حکم منظور کیا جاتا ہے لیکن متعلقہ شخص کو اس سے آگاہ نہیں کیا جاتا، تو یہ طاقت کے من مانے استعمال کا معاملہ ہو گا کہ اگر اس حکم کو خفیہ رکھا جائے اور اس وقت اچانک مطلع کیا جائے جب کہ وہ ملک چھوڑ رہا ہو۔

سندھ ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ شوکاز نوٹس جاری کیے بغیر یا اس شخص کا مؤقف سنے بغیر کسی شخص کو نو فلائی لسٹ میں نہیں رکھا جا سکتا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ’ کیونکہ واچ لسٹ یا ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کسی شخص کی نقل و حرکت کی آزادی کو کم کرتی ہے، اس لیے یہ طے ہے کہ کسی شخص کو مذکورہ فہرست میں اس وقت تک شامل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس کے خلاف منفی کارروائی کرنے سے قبل شوکاز نوٹس اور سماعت کا موقع نہ دیا جائے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’موجودہ مقدمات میں اب تک کے حقائق کے مطابق درخواست گزاروں کے نام واچ لسٹ میں خفیہ طور پر شامل کیے گئے، درخواست گزاروں کو کبھی کوئی نوٹس نہیں دیا گیا، صرف انہی بنیادوں پر وزارت داخلہ/ایف آئی اے کی جانب سے درخواست گزار میاں اور بیوی کو جہاز سے اتارنا قانونی اختیار کے بغیر تھا۔‘

سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے جبران ناصر نے کہا کہ وہ عدالت عالیہ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے یہ قرار دیا کہ ہمارے سفر پر پابندی لگانا اور ہمیں آف لوڈ کرنا غیر قانونی تھا اور میرا نام واچ لسٹ میں ڈالنا قانونی اختیار کے بغیر تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ عدالت عالیہ نے ہدایت کی کہ مستقبل میں سفر میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کی جائے، یہ فیصلہ کسی بھی شہری کے خلاف قانون و آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی اسی طرح کی کارروائیوں کو چیلنج کرنے کی بہترین نظیر ہے۔

Check Also

لاہور ہائیکورٹ: ججوں کی حفاظت کرنے والے اہلکاروں کا نفسیاتی ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ

ججوں کی سیکیورٹی فول پروف بنانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *