Home / تازہ ترین خبر / تحریک عدم اعتماد پر بحث کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس کچھ دیر بعد شروع ہوگا

تحریک عدم اعتماد پر بحث کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس کچھ دیر بعد شروع ہوگا

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے قومی اسمبلی کا اہم اجلاس کچھ دیر بعد شروع ہوگا جس میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین تحریک عدم اعتماد پر بحث کریں گے۔

قومی اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں 28 مارچ کو قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی جہاں اپوزیشن کے 161 اراکین نے تحریک کی حمایت کی تھی۔

قومی اسمبلی کا گزشتہ اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت اسمبلی اجلاس شروع ہوا اور تحریک عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہونے کے بعد ملتوی کردیا تھا۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے تحریک پیش کرتے کہا تھا کہ قومی اسمبلی کے رولز اینڈ پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007 کی ذیلی شق 4 کے تحت وزیر اعظم کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پیش کر رہا ہوں۔

شہباز شریف کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد اراکین کی گنتی کی گئی تھی جہاں حکومتی اتحادی جماعتیں اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف اراکین ایوان میں موجود نہیں تھے۔

قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی قرارداد بحث کے لیے اپوزیشن کے 161 اراکین کی حمایت پر منظور کرلی گئی تھی۔

تحریک عدم اعتماد منظور کی گئی تھی تو قائد حزب اختلاف نے تحریک پر بحث کے لیے قرارداد پیش کی تھی۔

شہباز شریف نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 95 کی ذیلی شق ون کے تحت قرارداد میں یہ ایوان وزیراعظم عمران خان نیازی پر عدم اعتماد کرتا ہے۔

ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے قومی اسمبلی کا اجلاس 31 مارچ (جمعرات) کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا تھا۔

اپوزیشن نے 10 مارچ کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرائی تھی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں کا اجلاس 25 مارچ، 2022 بروز جمعہ دن 11 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب کیا تھا۔

قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 155 ارکان، ایم کیو ایم کے 7، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، مسلم لیگ (ق) کے 5 ارکان، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے 3 اور عوامی مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے۔

قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 56 ، متحدہ مجلس عمل کے 15، بلوچستان نیشنل پارٹی کے 4، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک، جمہوری وطن پارٹی کا ایک اور اس کے علاوہ 4 آزاد اراکین شامل ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جو بڑی حکومتی اتحادی جماعتیں ہیں انہوں نے بھی اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے گزشتہ روز اسلام آباد میں متحدہ اپوزیشن کے ساتھ پریس کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت سے باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کردیا تھا جبکہ اپوزیشن سے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے ایک درجن سے زائد منحرف ایم این ایز پہلے ہی حکومتی پالیسیوں پر اپنی تنقید کے ساتھ کھل کر سامنے آچکے ہیں، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے ارکان کے طور پر نااہل ہونے کی قیمت پر بھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کر سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ایم کیو ایم پاکستان اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ آج ایم کیو ایم اور بی اے پی کی وجہ سے ہماری تعداد 175 ہوگئی ہے جبکہ کامیابی کیلئے ہمیں 172 چاہئیں، اس وقت ہمیں قومی اسمبلی کے 175 اراکین کی حمایت حاصل ہے، وزیراعظم ایوان میں اکثریت کھوچکے، وزیر اعظم عمران خان مستعفی ہوں۔

پاکستان مسلم لیگ (ق) پی ایم ایل ق اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے ) نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد میں حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر اعظم کا پارلیمنٹ کے سامنے ‘خفیہ خط’ پیش کرنے کا فیصلہ

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے سامنے ‘خفیہ خط’ پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وزیراعظم کو امید ہے کہ خط کا مواد جاننے کے بعد ان کی پارٹی کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے ناراض اتحادی بھی اپنا ارادہ بدل لیں گے اور ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر دیں گے۔

‘خفیہ خط’ پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا انتہائی اہم اجلاس بھی ہوا۔

خیال رہے کہ قومی سلامتی کمیٹی ملک کے سیکیورٹی معاملات پر رابطوں کا اعلیٰ ترین فورم ہے، جس کی سربراہی وزیراعظم کرتے ہیں اور اس میں اہم وفاقی وزرا، مشیر قومی سلامتی، مسلح افواج کے سربراہان اور خفیہ اداروں کے اعلیٰ عہدیدار شامل ہوتے ہیں۔

گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ مبینہ دھمکی آمیز خط اسنیئر صحافیوں اور اتحادیوں کو دکھائیں گے۔

اسلام آباد میں الیکٹرونک پاسپورٹ کے اجرا کی تقریب سے خطاب میں ان کا کہنا تھا یہ غیر ملکی سازش ہے، لوگ فیصلہ کرتے ہوئے ضرور سوچیں کہ کہیں آپ پاکستان کے خلاف سازش کا حصہ نہ بن جائیں۔

دھمکی آمیز خط سے متعلق بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک غیر ملکی سازش ہے، یہ سازش اس وقت سے ہورہی ہے جب باہر بیٹھ کر پاکستان کو ایک ٹیلی فون کال پر کنٹرول کرنے والے برداشت نہیں کر پار ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی حکومت ہو جو اپنے ملک کے مفاد کے لیے فیصلے کرے۔

وزیراعظم نے یہ خط کابینہ کے ہنگامی طور پر بلائے گئے اجلاس میں اراکین کے ساتھ شیئر کیا تھا لیکن اجلاس میں اس کے 2 اتحادی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) مدعو کرنے کے باوجود شریک نہیں ہوئی تھی۔

یہ معلوم ہوا ہے کہ خط کابینہ اراکین کو ایک ٹی وی اسکرین پر دکھایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ وزیراعظم نے چند ٹی وی اینکرز کو بلا کر بھی انہیں بتایا تھا کہ خط میں استعمال کی گئی زبان سخت اور دھمکی آمیز تھی اور اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجاتی ہے تو پاکستان کے لیے اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

تاہم میڈیا کو مذکورہ خط دکھایا نہیں گیا تھا۔

دریں اثنا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بدھ کے روز 2 مرتبہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی جس کے بعد کچھ وزرا نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگا گیا نہ ہی وہ دے رہے ہیں۔

دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس طلب کر لیا تھا۔ اس ضمن میں جاری بیان کے مطابق پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی صدارت میں آج شام 6 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہو گا۔

اجلاس میں شرکت کے لیے کمیٹی اراکین کے علاوہ تمام پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کو شرکت کے لیے مدعو کیا گیاہے جس میں دھمکی آمیز خفیہ مراسلے پر بریفنگ دی جائے گی۔

ادھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فیصل واڈا نے گزشتہ روز خوفناک دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے ملک بیچنے سے انکار پر انہیں قتل کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔

سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا نے یہ دعویٰ نجی ٹی وی اے آر وائی نیوز کے پروگرام “آف دی ریکارڈ” میں اس خط سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کیا، جس سے وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے جلسے میں عوام کو دکھایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس خط میں ان کی حکومت گرانے کے لیے کی گئی غیر ملکی سازش کے ثبوت موجود ہیں۔

Check Also

لاہور ہائیکورٹ: ججوں کی حفاظت کرنے والے اہلکاروں کا نفسیاتی ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ

ججوں کی سیکیورٹی فول پروف بنانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *