Home / تازہ ترین خبر / 1995 میں بے نظیرحکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث فوجی افسران کی سزا کے خلاف اپیلیں مسترد

1995 میں بے نظیرحکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث فوجی افسران کی سزا کے خلاف اپیلیں مسترد

سپریم کورٹ نے منگل کے روز فیصلہ سناتے ہوئے 1995 میں مرحوم وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے کے الزام میں سزا پانے والے دو سابق فوجی افسران کی طرف سے سزا کے خلاف دائر کی گئی درخواستیں میرٹ کے بغیر قرار دیتے ہوئے انہیں خارج کر دیا ہے۔

دو سابق فوجی افسران کرنل محمد آزاد منہاس اور کرنل عنایت اللہ خان کو 26 ستمبر 1995 کو مرحوم میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی، بریگیڈیئر مستنصر بااللہ اور دیگر 38 فوجی افسران کے ساتھ مل کر اسی سال 30 ستمبر کو جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں ہونے والی کور کمانڈر میٹنگ پر حملے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس مبینہ منصوبے میں اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ، کابینہ کے سینئر وزرا اور فوجی سربراہان کے قتل کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جس کے بعد میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو امیر المومنین کے طور پر اسلامی نظام خلافت کا اعلان کرنا تھا۔

سازش کی تفصیلات کا انکشاف اس وقت ہوا جب سازش کرنے والوں میں سے ایک اور اس سازش سے الگ ہوکر حرکت الجہاد الاسلامی کے نام سے مشہور ہونے والے گروپ کے سربراہ قاری سیف اللہ اختر وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔

ان کی گواہی پر، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے ریٹائرڈ میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو 7سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ اسلحے اور فوجی وردیوں کا ایک بڑا ذخیرہ ضبط کر لیا گیا تھا، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے بریگیڈیئر مستنصر بااللہ کو بغاوت کی کوشش میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر 14 سال قید کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔

کرنل محمد آزاد منہاس اور کرنل عنایت اللہ خان کا ستمبر 1996 میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی طرف سے سازش میں مبینہ کردار کی وجہ سے ان کا کورٹ مارشل کیا گیا تھا اور ایک فوجی عدالت نے انہیں 4 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

کرنل عنایت اللہ خان نے 2000 میں سپریم کورٹ اور کرنل آزاد منہاس نے لاہور ہائی کورٹ میں اس سزا کو چیلنج کیا تھا جس نے گزشتہ سال مئی میں ان کی اپیل خارج کر دی تھی۔

سپریم کورٹ کے سامنے اپنی اپیل میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ سزا دائرہ اختیار سے باہر اور بدنیتی پر مبنی ہے جس کے نتیجے میں انہیں فوجی خدمات سے ہٹا دیا گیا تھا اور ان کی جائیدادیں اور دیگر مراعات ضبط کر لی گئیں۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ سال فروری میں ان کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ دلائل کے دوران دو سابق افسران نے استدلال کیا کہ ان کے خلاف ایک اور الزام میں مقدمے کی سماعت شروع کرنے سے پہلے استغاثہ کے لیے لازم ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش کے اہم جرم کو ثابت کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت بنائے گئے پرنسپل چارج میں دائرہ کار کا فقدان ہے اور یہ غیرقانونی ہے کیونکہ اس کا تعلق خاص طور پر تفویض شدہ فوجی فرائض کی انجام دہی کے دوران کی گئی بدانتظامی یا کوتاہی سے ہے۔

درخواست گزاروں کے مطابق ہمارا کورٹ مارشل بد نیتی پر مبنی تھا کیونکہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے پاس حکم جاری کرنے کا دائرہ اختیار نہیں ہے اور اس لیے یہ قانون کی نظر میں پائیدار نہیں ہے۔

ان کے ان دعوؤں کا جواب ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دیا تھا۔

دونوں طرف سے دلائل سننے کے بعد عدالت نے کہا تھا کہ دونوں سابق افسران کے حوالے سے اس معاملے کو آرمی ایکٹ کے مطابق مناسب طریقے سے نمٹا دیا گیا تھا اور ان کی اس دلیل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کہ ان کے خلاف قانون کے تحت کی گئی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا جائے۔

مزید یہ کہ، ان کی یہ دلیل کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی جانب سے ٹرائل میں طاقت کا غلط استعمال کیا گیا اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اسے رد کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی عہدے کے فوجی افسر کی ذمہ داری ہے کہ اسے ذمے داریاں دی گئی ہوں یا نہیں لیکن وہ انہیں اداد کرنے کا پابند ہے تاکہ وقار، ساکھ، نظم و ضبط کو برقرار رکھا جا سکے اور سب سے بڑھ کر روح کے مطابق ادارے کا نظم و ضبط برقرار رکھا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی غلطی جو ادارے کی سالمیت/نظم و ضبط میں رکاوٹ بنتی ہے، اس پر یقینی طور پر ہر شخص جوابدہ ہے کیونکہ اسے آرمی ایکٹ کے تحت ایک ایسا عمل تصور کیا جائے گا جس کے تحت ٹرائل کیا جا سکے۔

عدالت نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں دو سابق فوجی افسران کی طرف سے دائر درخواستوں کو بھی قابل سماعت قرار دیا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ درخواست گزاروں نے کافی عرصے کے بعد اپنی سزاؤں کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا اور “اس کی خاطر خواہ وجہ نہیں بتا سکے کہ وہ برسوں تک کیوں خاموش رہے اور بروقت آئینی دائرہ کار کو درست طریقے سے استعمال نہیں کیا، لہٰذا صرف اسی بنیاد پر ان کی آئینی درخواستیں خارج ہونے کے قابل ہیں۔

درخواست گزاروں کی جانب سے مراعات سے محروم کیے جانے کے حوالے سے درخواست پر عدالت نے نوٹ کیا کہ سروسز سے برطرفی کسی بھی فوجی اہلکار سے وہ تمام مراعات اور سہولتیں چھین لیتی ہے جو اسے فوج میں شمولیت پر کا اہل بناتی ہیں۔

Check Also

عمران خان کا موسم تبدیل ہورہا ہے، لگتا ہے ان کے دل میں ہمدردانہ گنجائش پیدا ہو رہی ہے، خواجہ آصف

وزیردفاع خواجہ آصف نے عمران خان کی جانب سے حکومت کی مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *