Home / جاگو دنیا / فرانس کا پاکستان سے ‘یہودیوں سے متعلق بیان’ واپس لینے کا مطالبہ

فرانس کا پاکستان سے ‘یہودیوں سے متعلق بیان’ واپس لینے کا مطالبہ

فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ فرانس میں مسلمان بچوں کے لیے خصوصی طور پر ’شناختی نمبر‘ الاٹ کرنے کے اقدام کے خلاف انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کا متنازع بیان کو واپس لے۔

گزشتہ روز شیریں مزاری نے کہا تھا کہ ‘ایمانوئیل میکرون مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا، جس میں نازی جرمنی میں یہودیوں کو بھی شناخت کے لیے اپنے لباس پر پیلے رنگ کا ستارہ پہننے پر مجبور کیا گیا تھا’۔

بعدازاں پر فرانس کے وزیر خارجہ ایگنس وان ڈیر محل نے شیریں مزاری کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ نفرت انگیز الفاظ صریح جھوٹ پر مبنی ہیں، نفرت اور تشدد کے نظریات سے دوچار ہیں’۔

انہوں نے شیریں مزاری کے بیان کو بہتان قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کردیا۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پیرس نے پاکستان کے سفارتخانے کو ان تبصروں کی شدید مذمت سے آگاہ کیا ہے۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان کو ان بیانات کو واپس لینا چاہیے اور احترام کی بنیاد پر بات چیت کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے’۔

اس کے جواب میں شیریں مزار نے دو ٹوئٹس کیں۔

پہلی ٹوئٹ میں شیریں مزاری نے بتایا کہ ‘فرانسسی سفیر نے مجھے پیغام بھیجا ہے کہ جس مضمون کا حوالہ دے کر آپ نے ‘نازیوں اور یہودیوں’ والی بات کہیں دراصل اس آرٹیکل میں معلومات غلط تھیں’۔

شیریں مزاری نے مزید کہا کہ ‘شناخی نمبر پورے پورے ملک کے بچوں کے لیے ہے’ اس لیے میں اپنی پہلی والی ٹوئٹ حذف کرتی ہوں۔

بعدازاں دوسری ٹوئٹ میں شیریں مزاری نے فرانس کی وزارت خارجہ کی مذمت میں جواب دیا۔

انہوں نے اپنے مؤقف کے حق میں ٹوئٹ میں کہا کہ ‘میری ٹوئٹ کو جھوٹ کہنے سے پہلے متعلقہ لنک پڑھیں’۔

شیریں مزاری نے مزید کہا کہ ایک بات تو بتائیں آخر عوامی مقامات پر راہبہ کو اپنی ‘عادت’ پہننے کی اجازت کیوں ہے جبکہ مسلمان خواتین حجاب نہیں لے سکتیں؟ یہ امتیازی رویہ کیوں؟۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جانب سے مسلم کمیونٹی پر ’چارٹر آف ریپبلکن ویلیو‘ کے نفاذ اور اس کے تحت مسلمان بچوں کے لیے خصوصی طور پر ’شناختی نمبر‘ الاٹ کرنے کے متنازع اقدام سے نئی بحث چھڑ گئی تھی۔

تاہم شیریں مزاری کی جانب سے ٹوئٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چارٹر آف ریپبلکن ویلیو سے متعلق پیش کردہ آرٹیکل میں نامکمل معلومات درج تھیں اور شناختی نمبر تمام بچوں کے لیے ہوں گے۔

ترک نیوز ایجنسی ‘انادولو’ کے مطابق ایمانوئیل میکرون نے فرانسیسی کونسل آف مسلم فیتھ (سی ایف سی ایم) کو مذکورہ چارٹر کو قبول کرنے کے لیے 15 دن کی ڈیڈ لائن دی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی خبر کے مطابق سی ایف سی ایم نے ایک قومی کونسل برائے امام کے قیام پر اتفاق کیا جو فرانسیسی سرزمین پر رہنے والے تمام اماموں کو سرکاری طور پر منظوری پیش کرے گا اور خلاف ورزی کی صورت میں واپس لیا جاسکتا ہے۔

فرانسیسی صدر کے چارٹر میں کہا گیا کہ اسلام ایک مذہب ہے نہ کہ ایک سیاسی تحریک اور مسلم گروہوں میں ’غیر ملکی مداخلت‘ پر پابندی ہوگی۔

فرانسیسی صدر کا متنازع بیان

واضح رہے کہ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے گزشتہ ماہ رپورٹ کیا تھا کہ رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

جس کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو ‘ہیرو’ اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو ‘مجسم’ بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ فرانسیسی صدر کی جانب سے اسلام مخالف بیان سامنے آیا ہو، رواں ماہ کے آغاز میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے فرانس کے سیکیولر ‘بنیاد پرست اسلام’ کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی تھی اور اس دوران اسلام مخالف بیان بھی دیا تھا۔

ایمانوئیل میکرون نے فرانس کی سیکیولر اقدار کے ‘بنیاد پرست اسلام’ کے خلاف ‘دفاع’ کے لیے منصوبے کو منظر عام پر لاتے ہوئے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ کے بہتر کنٹرول کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے سعودی عرب، قطر اور ترکی جیسے ممالک کا نام لیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ فرانس میں ‘اسلام کو غیر ملکی اثرات سے آزاد’ کروانا ضروری ہے۔

ان کے مطابق اس مقصد کے لیے، حکومت مساجد کی غیر ملکی مالی اعانت کے بارے میں جانچ پڑتال کرے گی اور اماموں کی تربیت کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے یا فرانسیسی سرزمین پر غیر ملکی مبلغین کی میزبانی پر پابندی لگائے گی۔

جس پر ردِعمل دیتے ہوئے مصر کے ممتاز اسلامی ادارے جامعۃ الازھر کے اسکالرز نے ‘اسلام پسند علیحدگی’ کے حوالے سے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے بیان کو ‘نسل پرستانہ’ اور ‘نفرت انگیز’ قرار دیا تھا۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ فرانسیسی ہفتہ وار میگزین چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔

Check Also

سلوواکیہ کے وزیراعظم پر حملے کی ویڈیو منظر عام پر

گزشتہ روز فائرنگ میں زخمی ہونے والے سلوواکیہ کے وزیراعظم رابرٹ فیکو کی حالت اب …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *