Home / جاگو دنیا / وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کی درخواست ضمانت پھر خارج

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کی درخواست ضمانت پھر خارج

برطانوی عدالت نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے متعلق درخواست کو مسترد کردیا اور اسی حکم نامے کی بنیاد پر ان کی ضمانت کے لیے دی گئی پٹیشن بھی خارج کردی۔

غیرملکی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق جولین اسانج گزشتہ 18 ماہ سے ایکواڈور کے سفارت خانے سے بے دخل کیے جانے کے بعد جنوب مشرقی لندن کی بیلمارش جیل میں قید ہیں۔

جولین اسانج کی گزشتہ ضمانتوں کی درخواستوں کو مسترد کردیا گیا تھا لیکن ان کے وکلا کا خیال تھا کہ چند روز قبل وکی لیکس کے بانی کی امریکا کو حوالگی سے متعلق فیصلے کے بعد ان کی ضمانت کے امکان میں اضافہ ہوا ہے۔

جولین اسانج کے وکیل نے زور دیا کہ برطانیہ میں جولین اسانج کے دو بچوں کے گھر کے پتے پر ضمانت ہو سکے گی۔

امریکی استغاثہ نے ایک دہائی قبل وکی لیکس کی جانب سے شائع ہونے والی فوجی اور سفارتی دستاویزات کی اشاعت پر جاسوسی کے 17 الزامات اور کمپیوٹر غلط استعمال کا ایک الزام عائد کیا تھا۔

جولین اسانج نے گزشتہ سماعت میں جولین اسانج کے وکلا کا مؤقف تھا کہ جولین اسانج ایک صحافی کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور وہ ایسی دستاویزات شائع کرنے کے لیے آزادی اظہار رائے کی پہلی ترمیم کے تحفظ کے حقدار ہیں۔

واضح رہے کہ ان دستاویزات میں عراق اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی غلطیوں کو بے نقاب کیا گیا تھا۔

جج نے امریکی وکلا کے ان دعووں کو مسترد کردیا تھا کہ جس میں کہا گیا تھا کہ جولین اسانج کو آزادانہ تقریر کے قوانین کے ذریعے تحفظ حاصل ہے اور اگر ان کے طرز عمل متعین حدود میں جرائم کا مرتکب ہوا تو انہیں اظہار رائے کے حق سے تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ نومبر 2010 میں سویڈن نے جولین اسانج کے بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، اس سے قبل ان سے جنسی ہراساں اور ریپ کے الزامات پر سوالات کیے گئے تھے تاہم انہوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خفیہ امریکی دستاویزات کو شائع کرنے پر انہیں سویڈن سے امریکا کے حوالے کردیا جائے گا۔

بعد ازاں دسمبر 2010 میں جولین اسانج نے برطانوی پولیس کے سامنے سرنڈر کیا تھا لیکن وہ 10 روز کی ضمانت پر رہا ہوگئے تھے تاہم حوالگی کی کارروائی کو چیلنج کرنے میں ناکامی کے بعد انہوں نے ضمانت کی خلاف ورزی کی تھی اور فرار ہوگئے تھے۔

جس کے بعد اگست 2012 میں ایکواڈور کی جانب سے انہیں سیاسی پناہ دی گئی تھی اور اس کے بعد سے وہ لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم تھے۔

Check Also

آسٹریلیا: فلسطینی حامیوں کا پارلیمنٹ کی چھت پر چڑھ کر احتجاج

فلسطینی حامی مظاہرین نے آسٹریلیا کے پارلیمنٹ ہاؤس کی چھت پر چڑھ کر احتجاج کیا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *