Home / تازہ ترین خبر / پیپلز پارٹی اورسیز ونگ کی جانب سے امریکہ میں نئے عہدیدان کی نامزدگی کے بعد پی پی پی امریکہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی

پیپلز پارٹی اورسیز ونگ کی جانب سے امریکہ میں نئے عہدیدان کی نامزدگی کے بعد پی پی پی امریکہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی

‎نیو یارک(نمائندہ خصوصی)پاکستان پیپلز پارٹی اوورسیز کے عہدیداران کی سفارش پر امریکہ میں پیپلز پارٹی کے صدر کی نامزدگی کے بعد پیپلز پارٹی واضع طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے، جبکہ نامزد صدر کی جانب سے امریکہ کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں چیئر قائم کرنے کے بعد ان ریاستوں اور شہروں میں بھی اختلافات کھل کر سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، سینئر کارکنوں اور جیالوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کی تمام ریاستوں میں ازسر نو تنظیم کے نام پر پیپلز پارٹی کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے ، پرانے جیالے نئی تنظیم کے حوالے سے انتہائی نالاں اور چراغ پا ہیں، اس ضمن میں ذرائع نے بتایا ہے کہ پیپلز پارٹی امریکہ اور ریاستوں میں توڑ پھوڑ کے ذمہ دار پیپلز پارٹی اوورسیز کے عہدیداران ہیں، انہوں نے بتایا کہ چند ماہ قبل پاکستان سے اوورسیز کمیٹی کے بعض اراکین امریکہ دورے پر آئے او ر موجودہ صدر جو کہ کبھی بھی کسی بھی ایک عہدے پر مقرر نہیں کئے گئے، انہوں نے اوورسیز کمیٹی کے ایک رکن کی بھر پور مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئےان کو خوش کرنے کیلئے انکے اعزاز میں رنگارنگ نجی محفلیں منعقد کیں، جس میں ان کی خواہش کے مطابق انکو خوش کرنے کا تمام سامان مہیا کیا گیا جس سے اس کمیٹی کے رکن کے دل جیتے جاتے تھے، اس طرح اس بھر پور مہمان داری کا انعام ان کو نئی تنظیم سازی میں صدر کے عہدہ کے نوٹیفکیشن پر اختتام پذیر ہوا، جس کے بعد نامزد صدر نے جن کو پہلے کبھی بھی اس طرح کے کام کا کوئی تجربہ نہیں تھا، انہوں نے امریکہ بھر میں مختلف ریاستوں میں عہدوں کے بندر بانٹ کا کام شروع کرتے ہوئے دھڑا دھڑ نوٹیفکیشن جاری کرنا شروع کر دئیے اور اپنی جیسی اہلیت کے حامل افراد کو اہم عہدوں پر تعیناتی کے پروانے جاری کئے ، ان عہدوں پر تعینات افراد نہ صرف نئے بلکہ پارٹی میں خدمات کا کوئی بھی ریکارڈ نہیں رکھتے ہیں۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں جن میں ٹیکساس،الباما، کیلی فورنیا، فلوریڈا، جارجیا اور نیو جرسی میں انہوں نے سو فیصدی ایسے افراد کو صدر اور جنرل سیکرٹری کے عہدوں پر فائز کر دیا جن کا پیپلز پارٹی سے دو پرے سے بھی واسطہ نہیں تھا، یہ افراد نہ تو گزشتہ20/30سالوں کے دوران پیپلز پارٹی کے کسی پروگرام میں شریک ہوئے اور نہ ہی ان کو پیپلز  پارٹی کے حلقہ احباب
‎میں کوئی جانتا تھا، لیکن ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ان افراد کو پیپلز پارٹی کا چوہدری بنا دیا گیا جس سے پرانے جیالے جو کہ برسا برسوں سے پارٹی کیلئے نہ صرف اپنا وقت بلکہ ڈالر قربان کرتے چلے آ رہے تھے وہ تانکتے اور جھانکتے رہ گئے، اس ضمن میں صرف نیو یارک ایک ایسی واحد ریاست ہے جہاں پر دس فی صدی پرانے عہدیداروں کو عہدے دئیے گئے ، وہاں پر بھی کئیسینئر افراد کو جو کہ  گذشتہ عرصہ20/30سالوں سے اپنی رقم وقت اور انرجی پارٹی کیئلے  وقفکرتے چلے آ رہے ، ہیں انکو نکال باہر کیا، اس ضمن میں نیو یارک سے تعلق رکھنے والے ایک سینئررہنما  نے اس وقت اس پر احتجاج کرتے ہوئے ایک پمفلٹ بھی جاری کیا جو کہ چوہدری اعجاز فرخاور دیگر کی جانب سے جاری کیا گیا تھا، جس میں پارٹی چیئرمین اور کو چیئرمین آصف علیزرداری سے سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ پیپلزپارٹی یو ایس اے کی تنظیم سازی کے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور نظریاتی  ساتھیوں کےامنگوں کے مطابق پارٹی  تنظیم کو تشکیل دیں

( پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے جاری کردہ پمفلٹ کا عکس)

جس کے بعد موجودہ صدر نے چوہدری اعجاز فرخاور دیگر سے جوڑ توڑ کر کے چوہدری  اعجاز فرخ کو پیپلز پارٹی امریکہ کا سرپرست اعلیٰ اور انکی بیگم کو وومن ونگ کا صدر نامزد کر کے ان کی آوازکو ہمیشہ کیلئے دبا دیا ، عہدے ملنے کے بعدیہ رہنما بھی خاموشی اختیار کر گئے اور جن اصولوں پر وہ سراپا احتجاج تھے، ان اصولوں سےانہوں نے سودے بازی کر لی، اس طرح پیپلز پارٹی امریکہ کی تنظیم میں پہلے کبھی نہ ہی سرپرست اعلیٰ کا عہدہ تھا اور نہ ہی کئی اور عہدے جیسا کہ وومن ونگ، منارٹی ونگ ،ہیومن رائٹس ونگ، یوتھ ونگ، سوشلمیڈیا  ونگ وغیرہ وغیرہ اس طرح امریکہ کے صدر نے اپنے عہدے کو چلانے کے لئے چار مشیر بھیمقرر کیے ہیں ، جن میں ایک سیاسی امور کے لئے ، دو چیف منتظمین اور ایک کوآرڈینیٹر بھیشامل ہیں، سینئر کارکنان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے عہدے پہلے کبھی بھی پیپلز پارٹی امریکہ کیتنظیم کا حصہ نہیں رہے یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہے تا کہ عہدوں کی بندر بانٹ میں اپنےلوگوں کو زیادہ سے زیادہ ایڈجسٹ کیاجا سکے، جبکہ ان عہدوں میں اگر پارٹی کے مخلصکارکنوں کو مواقع فراہم کئے جاتے تو یہ پارٹی کیلئے بہترین اثاثہ ثابت ہو سکتے تھے لیکن سب کچھاس کے برعکس ہوا اور دوسری پارٹیوں کے لوٹے ان عہدیداران کی صورت جمع کر لئے گئے اورپارٹی کے پرانے اور قربانی دینے والے کارکن اپنی بغلیں بجاتے رہ گئے ، جس کے باعث پیپلز پارٹی امریکہ بھر میں واضح طور پر دودھڑوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے اور پرانے جیالے انتہائی بددلی اور مایوسی کا شکار ہو گئےہیں، سینئر کارکنان سے اس ضمن میں جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ محترمہ شہیدبینظیر بھٹو کے قریبی ساتھی تصور کئے جانے والے وہ رہنما جنہوں نے پاکستان میں مارشلاء دور  میں کافی صعوبتیں برداشت کیں اور انہوں نے نہ صرف بینظیر بھٹو بلک صدر آصف زرداری کیقیادت میں مسلسل پارٹی کا  کام کیا ان تمام کو تنظیم نو میں یکسر طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہےاور وہ اس موجودہ تنظیمی ڈھانچے سے وہ  انتہائی نالاں اور پریشان ہیں انکا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی اس وقت امریکہ بھر میں ایک کمزور تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے ،سینئر کارکنوں کا کہناہے کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پیپلز پارٹی کی اگر نتظیم نو کرنی تھی تو اس میں امریکہ بھر سے ایسی شخصیات کو شامل کیا جاتا ، جن کے ذاتی تعلقات یہاں کے سینیٹرز اور اراکین کانگرس سے ہیں جو کہ کسی بھی وقت پاکستان میں  جمہوریت کےفروغ کیلئے ایک اہم کردار ادا کرسکتے تھے اور پاکستان اور پارٹی کیلئے وہ کام سر انجا م دےسکتے تھے جو کہ کوئی بھی عام شخص سر انجام نہیں دے سکتا تھا لیکن موجودہ تنظیم سازیمیں اس امر کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے صرف خانہ پری والا کام کیا گیا ہے ، موجودہ صدر نےاس ضمن میں تنظیم سازی کے حوالے سے کئی افراد کو خود فون کر کے یہ کہا کہ ہمیںصرف نام درکار ہیں، باقی کام تو سوشل میڈیا پر ہی متحرک ہونا ہے  تا کہ پاکستان میں  موجود اعلی قیادت کو مطمئن کیا جاسکے کہ امریکہ اور اسکی ریاستوں میں پارٹی کیلئے کام ہو رہا ہے ، امریکہ  جبکہ نیو یارک کے بعد ریاست ٹیکساس امریکہمیں پیپلز پارٹی کے پروگراموں کے حوالے سے بڑا ایک گڑھ تصور کیا جاتا  ہے جہاں گزشتہ20/30سالوں کے دوران انتہائی منظم طریقے سے پیپلز پارٹی کے عہدیداران کام کرتے  چلے آرہےہہیں جہاں پر ان کے سابقہ عہدیداران کے  تعلقات  اراکین سینیٹ اور کانگریس سے بھی ہیں، لیکنوہاں بھی یہی عمل دھرا گیا اور ریاست ٹیکساس میں پی پی پی کا صدر ایک ایسے شخص کونامزد کر دیا گیا جو کہ یہاں پر واٹس ایپ گروپ میں عریاں ٹوٹے بھیجنے میں شہرت کا حامل ہے،اس کا تعارف کمیونٹی میں شریف النفس افراد کیلئے ایک ناپسندیدہ شخص کے بطور جانا جاتا ہےجبکہ  کئی افراد نے تو اس کو اپنے فون سے اسہی بنیاد پر بلاک کررکھا ہے لیکن اچانک اسشخص کی بحیثیت پی پی پی ٹیکساس صدر  نامزدگی سب کے لئے کسی اچمنبے سے کم نہ تھی،اس ضمن میں پی پی پی امریکہ کے صدر کو سینئر کارکنان نے آگاہی بھی دی مگر انہوں نے ایک نہ سنی، اور  معاملہ جوں کا توں رہا، سینئر کارکنانکا کہنا تھا کہ جو شخص ماضی میں  خود کبھی بھی پیپلز پارٹی کے کسی بھی ایک عہدہ پر نہرہا ہو وہ کس طرح ہماری اس بات کو سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ خود سفارش کی پیداوار ہے اوراس کو نہیں پتہ کہ پارٹی کو کس طرح چلایا جاتا ہے، پارٹی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس انتہائیافسردہ صورتحال میں پارٹی کا جنازہ ہر اسٹیٹ سے نکال دیا گیا ہے اور وہ کام جو کہ کسی دشمن کر کرنا تھا وہ ہماری صفوںمیں موجود افراد نے وہی کام کر دیا ہے، اس طرح اب پیپلز پارٹی ایک کمزور تنظیم کے طور پرامریکہ میں ہر کسی کے سامنے ہے، انکا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود اعلیٰ قیادت کو شاید اسکا انداز نہیں اور جب انکو اس بات کا اندازہ ہو گا تو اس وقت پانی سر سے گزر چکا ہوگا اسلیئے ،سینئر کارکنان کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ وہ اس بندر بانٹ پر سراپا احتجاج ہیں، تا کہ وہاپنی اس پارٹی کو جس کے لئے انہوں نے اپنی جوانیاں اپنا آرام اور سکون سب کچھ  قربان کیا وہ اس پارٹی کو اس ٹڈی دل حملہ سے بچا سکیں، اس ضمن میں جاگو ٹائمز  نے ریاست ٹیکساس، واشنگٹن، الباما، کیلی فورنیا، فلوریڈا، جارجیا، نیو جرسی میں موجودہ سینئرکارکنان اور رہنمائوں سے رابطے کیئے جنہوں نے اس امر پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ، ریاست واشنگٹن میں  پیپلز پارٹی کے سینئیررہنما سجاد بلوچ نے جاگو ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا

پیپلز پارٹی واشنگٹن کے سینیر رہنما سجاد بلوچ اعلی قیادت کے (ہمراہ۔

کہ از سر نو تنظیم سازی کے نام پر پارٹی میں نفاق کا جو بیج بویا جا رہا ہے اس کی فصل ہم سب کو کاٹنا ہو گی،انکا کہنا تھا کہ امریکہ کے نئے نامزد صدر کی کوئی قابلیت نہیں جبکہ ان کو ذاتی تعلقات کی بنیادپر امریکہ کا صدر نامزد کیا گیا اور وہ جس معیار پر صدر بنے ہیں، آگے بھی وہ تنظیم کو اسہیبنیادوں پر چلانا  چاہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ جس شخص کو تنظیم میں کسی بھی عہدے کا کوئی تجربہ نہ ہو وہ کس طرح پورے امریکہ کو درست سمت پر چلا سکتاہے، انہوں نے کہا کہانہوں نے اپنی آواز اپنے چیئرمین بلاول بھٹو اور شریک چیرمین آصف علی زرداری تک پہنچانےکیلئے کئی ذرائع کا استعمال کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ مرکزی نامزد عہدیداران دھڑلے سے روزانہ کی بنیادوں پر نت نئے نوٹیفکیشن جاری کررہے ہیں اور مقامی کارکنوں کو یہ بارآور کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ یہ نوٹیفکیشن اعلی قیارت کی آشیر باد سے جاری کئے جا رہے ہیں، حالنکہ ایسا نہیں اور ان کو یقین ہے کہ ایسا بالکل نہیں اسیلئےوہ  امید کرتے ہیں کہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس بات کا فوری نوٹس لے کر اس نامنہاد تنظیمی ڈھانچے کو معطل کر کے پرانے اور سینئر اور پارٹی سے مخلص کارکنان پر مبنیتنظیمی ڈھانچہ تشکیل دینے کا اعلان کریں تا کہ پارٹی مزید کسی بھی ممکنہ نقصان سے بچسکے،ان کا کہنا تھا کہ موجودہ افراد اور عہدیداران کی نامزدگی میں کسی طور پارٹی کو فائدہ نہیں ہے بلکہ اس تنظیم سازی کے ذریعے پارٹی کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے اور نئے آنے والے اسکائی لی  عہدیداران کےآنے سے پارٹی نہیں بلکہ ان کو ذاتی فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی  ہے کیونکہ یہ لوگ سیاسی یتیموں کا ایک ٹولہ ہیں اور ان کو سستی شہرت کیلہے کسی بھیپارٹی کی بیساکھیوں کی ضرورت ہے، جس سے ان کا قد کاٹھ بڑھانے کی کوشیش کی جا رہی ہیںانکا کہنا تھا کہ  جو خود کمیونٹی میں غیر معروف ہو وہ پارٹی کیلئے کیا کام سرانجام دے سکتا ہے،دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نیویارک کے جرنل سیکریٹری  راجہ  اسد پرویز نے پیپلز پارٹی امریکہ کے صدر کے آمرانہ رویہ کےخلاف بطور احتجاج استعفیٰدے دیا ہے انہوں نے اپنی جانب سے پیش کیے جانے والے استعفی میں تحریری طور پر بتایا ہے کہ  ہے کہ وہ پیپلز پارٹی امریکہ کے صدر کے آمرانہ رویہ کےخلاف بطور احتجاج استعفیٰ دے رہے ہیںجبکہ انہوں مزید اپنے استعفی میں تحریر کیا ہے کہ میں پیدائشی طور پر پیپلز پارٹی کا جیالا ہوںجبکہ پیپلزپارٹی اور قیادت سے محبت اور ان سے رشتہ میرے خون میں شامل ہے جو کہ کبھی بھیختم نہیں ہوگا جبکہ میں اپنی اعلیٰ قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتا ہوں ۔ دوسری جانب حالہی میں چیئرمین بلاول بھٹو کی سالگرہ کے سلسلے میں  بھی موجودہ تنظیمی ڈھانچے کی زبوں حالی فوری طور پر سامنے آ ئی کہ سینٹرل تنظیم کی جانب سے پارٹی چیئرمین کی سالگرہ منانے کی کوئی تقریب منعقد  کرنے کا اعلان تک نہیں کیا گیا صرف شوشل میڈیا پر پمفلٹ بنا کر لگادیئے گئے جبکہ کچھجیالوں نے جو کہ محنت مزدوری کرتے ہیں، انہوں نے ان کی سالگرہ کا پروگرام منعقد کر کے اسبات کا ثبوت فراہم کیا کہ سینٹرل عہدوں پر کام کرنے والے صرف عہدوں کے بھوکے ہیں، اور انکوپارٹی کیلئے کام میں کسی بھی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہے، سجاد بلوچ نے پیپلز پارٹی کیاس صورتحال کے حوالہ سے آخر میں اقبال عظیم کا یہ شعر پڑھا کہ

راہ وفا میں ہم پہ جو گزری ہے پوچھ لو

منزل پہ کیا سلوک ہوا یہ نہ پوچھنا

رستے میں کون کون ملا پوچھو شوق سے

کس کس کا ساتھ چھوٹ گیا یہ نہ پوچھنا

Check Also

9 مئی بہانہ، عمران خان نشانہ تھا، ڈی جی آئی ایس پی آر کی ’سیاسی‘ پریس کانفرنس مسترد کرتے ہیں، عمر ایوب

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری عمرایوب نے کہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *