کرتارپور راہداری کا ایک سال مکمل ہونے پر کرتارپور میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ سال 9 نومبر کو وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گورو نانک کے یوم پیدائش کے موقع پر کرتارپور راہداری کا افتتاح کیا گیا تھا۔
کرتارپور راہداری کا افتتاح
تحصیل شکر گڑھ میں واقع گوردوارہ صاحب کے قریب کرتارپور کوریڈور کے سنگ بنیاد کی تقریب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابقہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ،بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ، بھارتی کرکٹر و سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو، بھارت کی نمائندگی وزیر خوراک ہرسمرت کور اور وزیر تعمیرات ہردیپ سنگھ سمیت مختلف ممالک کے سفارتکاروں، عالمی مبصرین اور سکھ برادری کے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔
بڑے پیمانے پر’’ امن کی علامتی پہچان ‘‘ بننے والی یہ تقریب سکھوں کے مذہبی پیشوا بابا گرونانک کے 550ویں یومِ پیدائش پر منعقد کی گئی۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرتارپور راہداری پر کیے گئے معاہدے کے تحت روزانہ 5000 یاتری اس راہداری کا استعمال کر سکیں گے۔
کرتارپور کی پہلی سالگرہ
کرتارپور راہداری کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر ملک بھر سے سکھ یاتریوں کی کرتارپور آنے کا سلسلہ جاری ہے۔
کرتار پور آنے والوں کے لیے پنڈال کی تیاری کا کام جاری ہے جب کہ اس موقع پر منعقد کیے جانے والے سیمینار سے مختلف رہنما خطاب بھی کریں گے
کرتار پور کہاں واقع ہے؟
کرتارپور گوردوارہ ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں واقع ہے جو بھارتی سرحد سے کچھ دوری پر ہے، گوردوارہ دربار صاحب 1539 میں قائم کیا گیا۔
بابا گرونانک نے وفات سے قبل 18 برس اس جگہ قیام کیا اور گرونانک کا انتقال بھی کرتارپور میں اسی جگہ پر ہوا۔
کرتار پور کی تاریخی اہمیت
لاہور سے تقریباً 120 کلو میٹر کی مسافت پر ضلع نارووال میں دریائے راوی کے کنارے ایک بستی ہے جسے کرتارپور کہا جاتا ہے، یہ وہ بستی ہے جسے بابا گرونانک نے 1521ء میں بسایا اور یہ گاؤں پاک بھارت سرحد سے صرف تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
نارووال شکر گڑھ روڈ سے کچے راستے پر اتریں تو گوردوارہ کرتار پور کا سفید گنبد نظر آنے لگتا ہے، یہ گوردوارہ مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 سے 1929 کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔
گرو نانک مہاراج نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہیں بسر کیے اور اُن کی سمادھی اور قبر بھی یہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ کرتارپور سکھوں کے لیے مقدس مقام ہے۔
بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کو کرتارپور تک پہنچنے کے لیے پہلے لاہور اور پھر تقریباً 130 کلومیٹر کا سفر طے کرکے نارووال پہنچنا پڑتا تھا جب کہ بھارتی حدود سے کرتارپور 3 سے 4 کلو میٹر دوری پر ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کے وقت گوردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا، دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث طویل عرصے تک یہ گوردوارہ بند رہا۔
بھارتی سیکیورٹی فورس نے سرحد پر ایک ‘درشن استھل’ قائم کر رکھا ہے جہاں سے سکھ دوربین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدار کرتے ہوئے اپنی عبادت کیا کرتے تھے، تاہم پہلی بار 1998 میں دونوں حکومتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت ہر سال سکھ یاتریوں کو کرتارپور کا ویزہ ملنا شروع ہوا۔
گوردوارے کے انچارج سردار گوبند سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ پہلے جنگل تھا، 2000ء میں اس کی دوبارہ تعمیر و مرمت کی گئی تو سکھ یاتریوں کی آمد شروع ہوگئی، گوردوارے کے باغیچے میں واقع کنویں کو ‘سری کھوہ صاحب’ کہا جاتا ہے۔
گورداورے میں ایک لنگر خانہ بھی ہے جہاں یاتریوں کی خاطر تواضع کی جاتی ہے۔