Home / جاگو صحت / سائنسدان نابینا شخص کی بینائی جزوی بحال کرنے میں کامیاب

سائنسدان نابینا شخص کی بینائی جزوی بحال کرنے میں کامیاب

سائنسدانوں نے ایک انقلابی طریقہ کار کی مدد سے دہائیوں سے نابینا شخص کی بینائی کو جزوی بحال کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔

طبی جریدے جرنل نیچر میڈیسین میں شائع مقالے میں بتایا گیا کہ ایک نئے جینیاتی طریقہ کار کی مدد سے اس شخص کی بینائی کو جزوی طور پر بحال کیا گیا۔

اب وہ شخص چھوٹی اشیا کو ایک خاص قسم کے چشمے کو پہن کر دیکھنے کے قابل ہوگیا ہے۔

اس نئے طریقہ کار کے لیے آپٹوجینیٹکس پر انحصار کیا گیا جس میں عصبی خلیات کو روشنی کی مدد سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ابھی اس نئے طریقہ کار کو صرف ایک مریض پر آزمایا گیا ہے جو کلینیکل ٹرائل کا حصہ تھا۔

اس کلینیکل ٹرائل کا مقصد جین تھراپی کے انسانی جسم پر اثرات اور محفوظ ہونے کو جانچنا ہے، ٹیسٹنگ کا سلسلہ جاری رہے گا تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ تیکنیک نابینا مریضوں کو روزمرہ کے کاموں میں مدد کے لیے کس حد تک مؤثر ہوسکتی ہے۔

اس طریقہ کار میں آنکھوں کے خلیات میں جینیاتی تبدیلیاں کی جاتی ہیں تاکہ وہ روشنی کے حوالے سے زیادہ حساس ہوسکیں۔

محققین نے بتایا کہ پردہ چشم ہماری آنکھ میں موجود کسی حیاتیاتی کمپیوٹر کی طرح ہوتا ہے۔

پیاز کی طرح اس حیاتیاتی کمپیوٹر میں بھی متعدد تہیں ہوتی ہیں جو آنکھوں میں داخل ہونے والی روشنی کو فلٹر کرتی ہیں اور ان کا تجزیہ خاص خلیات کا ذریعہ کرتی ہیں۔

اس سے ایک اور خاص خلیے تک سگنل جاتا ہے جس سے انسان کو علم ہوتا ہے کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔

تاہم آنکھوں کے مخصوص امراض میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں ہوتی ہیں جس سے یہ افعال کام نہیں کرتے یا ختم ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ بینائی سے محرومی کی شکل میں نکلتا ہے۔

اس 58 سال مریض کو آنکھوں کی ایک مخصوص بیماری retinitis pigmentosa کے باعث بینائی سے محرومی کا سامنا کئی دہائیوں قبل ہوا تھا اور پردہ چشم کسی سگنل کو شناخت کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔

اگرچہ اس مریض کے فوٹو ریسیپٹر خلیات فعال نہیں رہے مگر ریٹینل گینگلائن خلیات کام کررہے تھے اور ان خلیات کو ہی اس نئے طریقہ کار کا ہدف بنایا گیا۔

تحقیقی ٹیم نے ایک وائرل ویکٹر تیار کیا جس نے ایک جین کو ان خلیات تک پہنچایا اور جب وہ جین آنکھوں میں پہنچ گیا تو اس نے ایک روشنی محسوس کرنے والے پروٹین کو بنانا شروع کردیا۔

بینائی کی بحالی کے مریض کو ایک ایسا چشمہ پہننے کی ضرورت ہوتی ہے جو آنکھوں میں آنے والی روشنی کو مونوکرومیٹک تصاویر میں بدل کر رئیل ٹائم میں پردہ چشم کے تدوین شدہ خلیات تک پہنچاتا ہے۔

یعنی چشمے کے بغیر وہ شخص نابینا ہوتا ہے۔

جین کی منتقلی کے لیے انجیکشن لگانے کے بعد بینائی میں کوئی ماہ تک کوئی اثر مرتب نہیں ہوا مگر پھر اس نے بتایا کہ وہ چشمہ پہننے کے بعد سفید لکیریں دیکھ رہا ہے۔

انجیکشن لگنے کے 20 ماہ بعد بھی بینائی میں بہتری آرہی تھی اور محققین کے مطابق موجودہ ڈیوائس سے مریض چہرہ دیکھ نہیں سکتا یا کچھ پڑھ نہیں سکتا کیونکہ ریزولوشن بہت زیادہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس طریقہ کار سے مریض کی بینائی عام سطح پر بحال نہیں ہوئی مگر کسی سطح تک بہتری سے نابینا مریضوں کو روزمرہ کے کام کرنے مین مدد ملے گی جس سے ان کا معیار زندگی نمایاں طور پر بہتر ہوگا۔

کورونا وائرس کی وبا کے باعث اس ٹرائل پر کام روکا رہا مگر محققین کو توقع ہے کہ وہ مزید مریضوں کو اس کا حصہ بناکر 2025 تک اسے مکمل کرلیں گے۔

Check Also

بلڈ ٹیسٹ سے فالج کے خطرات کی نشاندہی کرنا ممکن

امریکی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی ایک طویل تحقیق سے معلوم ہوا ہے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *