Home / جاگو دنیا / افغانستان سے فرار ہونے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا، اشرف غنی

افغانستان سے فرار ہونے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا، اشرف غنی

افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ان کے پاس افغانستان فوری طور پر چھوڑنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا، طالبان امن کے ذریعے اقتدار کی منتقلی پر رضامند ہونے کے قریب تھے لیکن بعد میں معاہدہ توڑ دیا۔

خبر رساں ایجنسی ’اے پی‘ کے مطابق جمعرات کے روز برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ ایک مشیر میرے پاس آیا اور کہا کہ میں آپ کو ایک منٹ دیتا ہوں افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کرلیں۔

انٹرویو میں اشرف غنی نے ان الزامات کو مسترد کیا کہ وہ افغانستان سے لاکھوں ڈالر لے کر فرار ہوئے۔

اشرف غنی افغانستان سے 20 سال بعد امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے آخری مرحلے میں 15 اگست کو خفیہ طور پر ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے، انہوں نے بتایا کہ اس صبح بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ آج مجھے افغانستان چھوڑنا پڑے گا۔

سابق صدر کے بیانات دوسروں سے بالکل مختلف ہیں۔

رواں ماہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ اشرف غنی کے فرار ہونے سے افغان طالبان کے ساتھ 11 گھنٹے طویل مذاکرات کے بعد طے پانے والا معاہدہ متاثر ہوا جس میں طالبان نے کابل میں داخل نہ ہونے کا وعدہ کیا تھا، معاہدے میں مجھ سمیت امن کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ اور دیگر حکومتی نمائندے شامل تھے۔

حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ اشرف غنی کے کابل چھوڑنے پر میں نے وزیر دفاع بسم اللہ خان، وزیر داخلہ، پولیس چیف کے بعد افغان طالبان کو کابل آنے کی دعوت دی تاکہ وہ کنٹرول حاصل کر کے شہریوں کو ان عناصر سے محفوظ رکھ سکیں جو ملک کو لوٹنے کے خواہ تھے۔

جبکہ اشرف غنی نے سابق برطانوی دفاعی چیف جنرل سر نک کارٹر کے ساتھ ریڈیو انٹرویو میں کہا کہ میں افغانستان کو تباہی سے محفوظ رکھنے کے لیے وہاں سے فرار ہوا۔

اشرف غنی نے دعویٰ کیا کہ طالبان کے دو حریف دھڑے لوگوں پر دباؤ ڈال رہے تھے اور کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر وہ ایک دوسرے سے جنگ لڑنے کے لیے بھی تیار تھے۔

تاہم اشرف غنی نے طالبان کے جن دو حریف دھڑوں کا حوالہ دیا ہے اس کے تاحال ثبوت نہیں ملے۔

افغانستان میں باغی گروہ، جو پہلے دن سے ہی کابل پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، افغان فوج کے ہتھیار ڈالنے یا فرار ہونے کے فوری بعد کچھ حصوں پر قابض ہونے لگا۔

انسانی فلاح کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق طالبان نے فوری حرکت کرتے ہوئے ان کے کمپاؤنڈ کی حفاظت کی۔

بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں اشرف غنی نے ان الزامات کو مسترد کیا کہ انہوں نے چوری کے لاکھوں ڈالر لے کر افغانستان کو چھوڑا، امریکا کے خصوصی انسپکٹر جنرل برائے تعمیرِ نو افغانستان جان سوپکو ان الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

انسپیکٹر جنرل جان سوپکو کی متعدد رپورٹس کے مطابق افغانستان میں ایک کے بعد ایک آنے والی حکومت پر بدعنوانیوں کے سنگین الزامات ہیں جن میں ملکی اور غیر ملکی کنٹريکٹر بھی شامل ہیں۔

امریکا نے 2001 میں طالبان کو اقتدار سے معزول کرانے کے بعد افغانستان کی تعمیرِ نو کی مد میں 146 بلین ڈالرز سے زائد کی رقم خرچ کی۔ اس وقت افغانستان میں غربت کی شرح 54 فیصد تھی۔


Check Also

بھارتی شہر پٹنہ میں اسکول سے 3 سالہ بچے کی لاش برآمد، حالات کشیدہ

بھارت کے شہر پٹنہ میں اسکول سے 3 سالہ بچے کی لاش ملنے کے بعد …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *