Home / جاگو بزنس / اسحٰق ڈار کے ناقابل رسائی ہونے پر تاجر برادری کا تحفظات کا اظہار

اسحٰق ڈار کے ناقابل رسائی ہونے پر تاجر برادری کا تحفظات کا اظہار

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور محصولات کے ارکان نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے ناقابل رسائی ہونے پر تاجر برادری کے تحفظات کی تائید کی ہے۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے ارکان نے وزیر خزانہ تک رسائی نہ ہونے کا شکوہ کیا تو کمیٹی چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی مسلم لیگ (ن) قیصر احمد شیخ نے کہا کہ ’وہ تو مجھ سے بھی نہیں ملتے‘۔

پارلیمانی کمیٹی کے دیگر اراکین کے ساتھ کے سی سی آئی کے دورے کے دوران قیصر شیخ نے کہا کہ پاکستان میں طاقت کے 3 مراکز وزیر خزانہ، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور گورنر اسٹیٹ بینک ہیں۔

انہوں نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈار صاحب کو براہ راست عوام نے منتخب نہیں کیا، کے سی سی آئی جیسے کاروباری اداروں سمیت کسی نے بھی پارلیمانی کمیٹیوں کی افادیت پر زیادہ دھیان نہیں دیا‘۔

انہوں نے تاجروں سے کہا کہ وہ وزارت خزانہ سے رجوع کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا سہارا لیں، ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے، دیکھتے ہیں آپ کے مسائل کیسے حل نہیں ہوتے‘۔

کراچی کے تاجروں نے ’کنٹرولڈ ایکسچینج ریٹ پالیسی‘ کی بھی بھرپور مذمت کی جو معاشی امور میں اسحٰق ڈار کی پہچان بن چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی کمی کی وجہ سے بیرونی تجارت تعطل کا شکار ہے جس کی عکاسی سرکاری اور حقیقی شرح تبادلہ میں بڑھتے فرق کے ساتھ ساتھ ڈالر کی تیزی سے پھیلتی ہوئی بلیک مارکیٹ سے ہوتی ہے۔

زبیر موتی والا نے کہا کہ ’لاکھوں ڈالر مالیت کی مشینری بے کار پڑی ہے کیونکہ بینک اسپیئر پارٹس کی درآمد کے لیے ڈیڑھ سے 2 ہزار کی ادائیگیاں بھی کلیئر نہیں کر رہے‘۔

حکومت صنعتی یونٹس کے لیے خام مال سمیت درآمدات کو کم سے کم کرکے ڈالر کے اخراج کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے، نتیجتاً کچھ مینوفیکچرنگ کمپنیاں مکمل طور پر کام بند کر چکی ہیں یا اپنی پیداوار کو کم کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اناج، مشینری، کیمیکلز اور کھانے پینے کی اشیا کی کھیپیں بندرگاہوں پر پھنسی ہوئی ہیں، شپنگ اور پورٹ چارجز بڑھ رہے ہیں جو کئی شپمنٹس کی لاگت سے بھی زیادہ ہیں‘۔

زبیر موتی والا نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے کمرشل بینکوں کو حالیہ ہدایت پر تنقید کی جس میں ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے امپورٹ کلیئرنس کو ترجیحی فہرست میں فوڈ اور انرجی سیکٹر سے نیچے رکھا گیا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ ’برآمدات ڈالر پیدا کرتی ہیں، اگر برآمدی سیکٹر آپ کی ترجیح نہیں ہے تو آپ کو ڈالر کہاں سے ملیں گے؟‘

Check Also

رواں ماہ کے آخر میں ترک صدر کا دورہ پاکستان متوقع

رواں ماہ کے آخر میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے دورہ پاکستان پر …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *