Home / جاگو صحت / انسانی جسم میں حالیہ برسوں میں آنے والی حیرت انگیز تبدیلی

انسانی جسم میں حالیہ برسوں میں آنے والی حیرت انگیز تبدیلی

یہ کوئی ڈیڑھ سو سال پہلے یعنی 1868 میں جرمن ڈاکٹر کارل رین ہولڈ اگسٹ ویونڈرلیچ نے اس خیال کا اظہار کیا جو کہ اب تمام میڈیسین میں سب سے زیادہ جانے والا نمبر ہے اور وہ ہے 37 سینٹی گریڈ یا 98.6 فارن ہائیٹ۔

جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ یہ انسانی جسم کا اوسط درجہ حرارت ہے اور اس کی مدد سے بخار کی شناخت بھی کی جاتی ہے۔

مگر وقت کے ساتھ بالخصوص حالیہ بوسوں میں جسمانی درجہ حرارت میں کمی کو صحت مند بالغ افراد میں دیکھا گیا ہے۔

2017 میں برطانیہ میں 35 ہزار افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان میں اوسط درججہ حرارت 97.9 فارن ہائیٹ تھا اور 2019 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ امریکی شہریوں کا اوسط جسمانی درجہ حرارت 97.5 فارن ہائیٹ ہوگیا ہے.

اب کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بھی بولیویا کے قدیم باشندوں تسیمان میں بھی اسی طرح جسمانی درجہ حرارت میں کمی کو دریافت کیا گیا۔

16 سال سے وہاں ایک ہیلتھ اینڈ لائف پراجیکٹ پر کام ہورہا ہے اور محققین کی جانب سے آبادی کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے۔

انہوں نے ان باشندوں میں ہر سال اوسطاً 0.9 فارن ہائیٹ کی کمی کا مشاہدہ کیا اور آج ان کا اوسط درجہ حرارت 97.7 فارن ہائیٹ ہے۔

محققین نے بتایا کہ 2 دہائیوں سے بھی کم وقت میں ہم نے اسی طرح کی کمی امریکا میں بھی دیکھی اور اس کی بنیاد لگ بھگ 5 ہزار 500 افراد کے 18 ہزار مشاہدات ہیں، جبکہ متعدد عناصر کو مدظر رکھا گیا جو جسمانی درجہ حرارت پر اثچرانداز ہوتے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل سائنسز ایڈوانسز میں شائع ہوئے۔

محققین نے بتایا کہ تحقیق سے امریکا بھر میں اوسط جسمانی درجہ حرارت میں کمی ثابت ہوتی ہے مگر ابھی یہ وضاحت ممکن نہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے، مگر یہ واضح ہے کہ انساننی جسم میں کچھ تو بدل رہا ہے جو اس تبدیلی کا باعث ہے، ایک خیال یہ ہے کہ صفائی کی عادات، صاف انی، ویکسینیشن اور طبی علاج میں بہتری کی وجہ سے ہمیں کم بیماریوں کا سامنا ہورہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہماری تحقیق میں ہم نے اس خیال کو براہ راست جانچا۔

ان کا کہنا تھا کہ وجہ چاہے واضح نہ ہو مگر جسمانی درجہ حرارت میں کمی ضرور سب کے سامنے ہے، یہاں تک کہ ہم نے اپنی تحقیق کو صرف 10 فیصد ایسے بالغ افراد تک بھی محدود کیا جن کو ڈاکٹروں نے مکمل صحت مند قرار دیا تھا، ان میں بھی جسمانی درجہ حرارت میں وقت کے ساتھ اس کمی کا مشاہدہ کیا گیا۔

محققین کے خیال میں ادویات، بیماریوں کی شرح میں کمی اور دیگر کے ساتھ ایک امکان یہ بھی ہے کہ ہمارے ججسم کو اب اندرونی جسمانی درجہ حرارت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی، کیونکہ گرمیوں میں ایئرکنڈیشنر اور سردیوں میں ہیٹر یہ کام کرتے ہیں۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بولیویا کے قدیم باشندے اس طرح کی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال نہیں کرتے مگر انہیں اب کپڑوں اور کمبلوں تک زیادہ رسائی حاصل ہے۔

محققین کے مطابق تحقیق سے پہلا عندیہ یہی ملتا ہے کہ جسمانی درجہ حرارت میں کمی آرہی ہے مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے، وہ بھی واضح نہیں۔

Check Also

بلڈ ٹیسٹ سے فالج کے خطرات کی نشاندہی کرنا ممکن

امریکی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی ایک طویل تحقیق سے معلوم ہوا ہے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *