Home / تازہ ترین خبر / پی ٹی آئی نے مزار قائد کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا، مرتضیٰ وہاب

پی ٹی آئی نے مزار قائد کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا، مرتضیٰ وہاب

ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لوگوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مزار قائد کو استعمال کیا اور ہم اس حوالے سے کارروائی کے لیے سفارشات وفاقی حکومت کو ارسال کررہے ہیں۔

مرتضیٰ وہاب نے کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مزار قائد پر پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے رپورٹ 30 دن میں جمع کرا دی گئی تھی اور کل اس رپورٹ کی باضابطہ منظوری سندھ کابینہ نے اپنے اجلاس میں دی۔

انہوں نے کہا کہ مزار قائد کی حرمت کے حوالے سے ایک قانون موجود ہے جو کھلے الفاظ میں طریقہ کار واضح کرتا ہے کہ کسی بھی طرح کوئی شخص مزار قائد کی بے حرمتی کرتا ہے تو کس طریقے سے قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 18 اکتوبر کو ایک واقعہ رونما ہوا جس کو کابینہ کی کمیٹی سمجھتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف، اس کے وزرا، اراکین صوبائی اسمبلی اور وفاقی حکومت نے اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اس واقعے اور قائد اعظم کے مزار کی حرمت کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ سب سے پہلے پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی راجا اظہر نے پولیس کو ایک واقعے کے حوالے سے درخواست جمع کرائی، پولیس نے اس درخواست کے جواب میں قانونی مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ درخواست آپ پولیس میں جمع نہیں کراتے بلکہ یہ مجسٹریٹ کے سامنے جمع کراوائی جاتی ہے اور وہ اس حوالے سے کارروائی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس درخواست کو مسترد کیے جانے کے بعد ایک دوسری درخواست مزار قائد ایڈمنسٹریٹر غلام اکبر نے جمع کرائی اور انہوں نے اپنی درخواست میں انہی مندرجات کا ذکر کیا، پولیس نے دوبارہ کہا کہ قانون کے مطابق مجسٹریٹ مجاز اتھارٹی ہے، ہم کارروائی نہیں کر سکتے، اس دوران تحریک انصاف کے لیڈران نے تھانے میں پڑاؤ ڈالا، تھانے میں جاکر ان کا رویہ قابل مذمت تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قانونی پیچیدگی سے بچنے کے لیے تحریک انصاف نے ایک راستہ نکالا اور ایک شخص کھڑا کیا جس نے پولیس کو درخواست جمع کرائی کہ مزار کی بے حرمتی تو ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی، پولیس نے اس درخواست پر ایف آئی آر کاٹی جس کے بعد کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کا عمل شروع ہوا، گرفتاری ہوئی، مجسٹریٹ نے 24 گھنٹے بعد انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔

ترجمان سندھ حکومت نے کہا کہ پولیس نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ ایف آئی آر جھوٹی ہے اور پولیس نے اپنی رپورٹ عدالت کے سامنے جمع کرائی تو عدالت نے اتفاق کرتے ہوئے کلاس سی میں ایف آئی آر ختم کردی۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے ان تمام محرکات پر غور کیا جن کی بنیاد پر یہ کارروائی کی گئی تو سب سے پہلے پتا یہ چلا کہ مدعی نے درخواست میں اپنا نمبر درج کیا تھا اور جس نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) صفدر نے انہیں دھمکی دی ہے تو اس موبائل نمبر کے ذریعے اس کی لوکیشن کا پتا چلایا کہ شام 4 سے 5 بجے کے درمیان وہ سپر ہائی وے پر موجود تھا جو مزار قائد سے میلوں دور ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر یہ پتا چلا کہ وہ شخص کوئی عام آدمی نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی کارکن ہے اور اس بات کا بعد میں سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر نے اعتراف کیا کہ وہ شخص ہماری پارٹی کا رکن بلکہ میرا رشتے دار بھی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ جب پولیس نے مزار پر دعا کرنے والے قاری صاحب سے پوچھا تو انہوں نے بھی کہا کہ یہ جس طرح سے یہ واقعہ بتا رہے ہیں ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ویڈیو میں تھانے پر موجود تحریک انصاف کے وزرا کا دھمکی آمیز رویہ واضح نظر آتا ہے اور یہ بھی نظر آتا ہے کہ ایک اہم وفاقی وزیر خود تھانے جا کر پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر آئی جی سندھ اور چیف سیکریٹری سندھ کے حوالے سے دھمکی آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ کمیٹی کے مؤقف کو کابینہ نے متفقہ طور پر منظور کیا کہ جس میں کہا گیا کہ سرکاری کام میں مداخلت کرنے کا کسی کو بھی اختیار نہیں ہے، چاہے وہ گورنر ہو، وہ وفاقی وزیر، رکن قومی یا صوبائی اسمبلی ہو، قانونی ادارے قانون کے تابع ہیں اور قانون کے مطابق کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی یہ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کے ان لوگوں نے اپنے سیاسی مقاصد کو استعمال کرنے کے لیے مزار قائد کو استعمال کیا تاکہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کر سکیں اور جو 18 اکتوبر کو پیپلز پارٹی اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا بہت بڑا تاریخی، کامیاب جلسہ تھا اور اسے ناکام بنانے کی کوشش کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: مزار قائد کی بے حرمتی سے متعلق کیس میں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر رہا

ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کمیٹی نے اس بات کی سفارش کی کہ فوری طور پر سندھ حکومت وفاقی حکومت کو خط ارسال کر کے بتائے گی کہ کس طریقے سے آپ کی سیاسی جماعت کے نمائندوں اور اراکین نے پولیس سے متعلق کار سرکار میں مداخلت کی کوشش کی اور سرکاری نوکروں کو دھمکانے کی کوشش کی۔

ترجمان سندھ حکومت نے کہا کہ چونکہ وفاقی حکومت کے لوگ سندھ حکومت کے تابع نہیں ہیں، اس لیے ہم سفارشات وفاقی حکومت کو ارسال کررہے ہیں تاکہ وفاقی حکومت نوٹس بھی لے اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی بھی کرے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ سندھ کی کابینہ کمیٹی نے یہ بھی بات کی کہ پولیس نے ان کے دباؤ میں آ کر جھوٹی کہانی پر مبنی ایف آئی آر کاٹ دی تو پولیس کو پہلے ثبوت دیکھ کر پھر کارروائی کرنی چاہیے تھی، پولیس کا کام ہے کہ وہ اپنے دماغ کا استعمال کرے اور ان کا کام تھا کہ چیزوں کو دیکھنے کے بعد کارروائی کرے جو ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے نہیں کیا کیونکہ وہ وفاقی حکومت کے دباؤ میں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پولیس کو سفارشات دی ہیں کہ وہ طریقہ کار واضح کریں کہ ہر ایف آئی آر کے اوپر اس طرح کی کارروائی نہیں ہونی چاہیے اور اس طرح کسی کی چادر اور چار دیواری کو پامال نہیں کرنا چاہیے، پولیس کا حق ہے کہ تفتیش کرے اور جو شخص ایف آئی آر میں نامزد ہے اس کا فرض ہے کہ وہ تعاون کرے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے مزید کہا کہ ایف آئی آر پر وقت شام 7 بجے کا درج ہوا ہے جبکہ کمیٹی کے پاس شواہد موجود ہیں کہ ایف آئی آر صبح پانچ بجے کٹی جب پی ٹی آئی کے لوگوں نے تھانے کے باہر پریس کانفرنس کی، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شام 7 بجے کا وقت اس ایف آئی آر پر لکھ دیا جائے، پولیس کو اس معاملے میں بھی ذمے داری کا مظاہرہ اور دباؤ کا سامنا کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا میں جو پاک فوج کے کچھ افسران کے حوالے سے خبر نشر ہوئی تھی، چیئرمین پیپلز پارٹی نے 20 اکتوبر کو اپنی پریس کانفرنس میں چیف آف آرمی اسٹاف سے گزارش کی تھی کہ ہر چیز قانون کے مطابق ہونی چاہیے اور قانون کے مطابق ان کے افسران پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے جس کو کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے فوراً اس معاملے کا نوٹس لیا اور کورٹ آف انکوائری تشکیل دی جس نے اپنی سفارشات ارسال کیں جس کے بعد انضباطی کارروائی کی گئی۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ کمیٹی کا خیال ہے کہ اس پورے معاملے میں ہم سب کو قانون کا احترام کرنا چاہیے، سرکاری عہدوں کا احترام کرنا چاہیے اور احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم سب کو اپنا اپنا کام کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگلے ہفتے سندھ حکومت کو خط ارسال کردیا جائے گا جس میں تمام باتیں شیئر کی جائیں گی جس کے بعد کمیٹی کی رپورٹ بھی عام کردی جائے گی۔

Check Also

رواں ماہ کے آخر میں ترک صدر کا دورہ پاکستان متوقع

رواں ماہ کے آخر میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے دورہ پاکستان پر …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *