Home / تازہ ترین خبر / مسئلہ کشمیر علاقائی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، وزیر خارجہ

مسئلہ کشمیر علاقائی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، وزیر خارجہ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے خطے کے ساتھ تعاون کرسکتا ہے تاہم مسئلہ کشمیر علاقائی تجارت اور ترقی کی راہ میں ‘رکاوٹ’ ہے۔

وزیر خارجہ اسلام آباد میں فوٹو گرافی اور ثقافت کی نمائش کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے جس میں غیر ملکی سفارت کاروں اور معززین نے شرکت کی تھی تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کریں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ‘ہم کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے خطے میں تعاون کر سکتے تھے مگر ہم نے اجتماعی طور پر، علاقائی سطح پر ایسا نہیں کیا، ہم بہتر کام کر سکتے تھے’۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر تنازع کی وجہ سے علاقائی تجارت نہیں ہوئی اور جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون (سارک) ایسوسی ایشن کام نہیں کررہا جب کہ ‘ہم نے ہر جگہ علاقائی تجارت میں ترقی دیکھی جیسے یورپی یونین (ای یو) اور آسیان (جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن)’۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ‘رکاوٹ کیا ہے؟ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا اور ہمیں عالمی برادری کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بھارت میں موجودہ حکومت نے جو کچھ کیا ہے وہ ناقابل تسخیر ہے’۔

انہوں نے سوال کیا کہ مقبوضہ خطے میں بھارت کی طرف سے سرمایہ کاری کا وعدہ کہاں گیا، مقبوضہ کشمیر میں پھلنے پھولنے والی سیاحت 5 اگست 2019 کو اٹھائے گئے ‘تباہ کن” اقدامات کی وجہ سے ‘ختم’ ہوچکی ہے جس نے بھارت کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا ذکر کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ‘ہم بھارت کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں اور ہم بھارت کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں تاہم اس (کشمیر) تنازع کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کو نقصان اٹھانا پڑا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘دونوں اطراف میں تناؤ’ کی وجہ سے ترقیاتی منصوبوں پر محدود وسائل کا ‘زیادہ سے زیادہ استعمال’ نہیں کیا جارہا۔

انہوں نے کہا کہ ‘وقت آگیا ہے کہ ہم ظاہر کریں کہ ہم کس طرح آگے بڑھتے ہیں، جو کچھ ہو رہا ہے وہ غیر مستحکم ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مسئلہ کشمیر کے بارے میں بات نہ کرنے کا انتخاب کرنا اور اس کو نظرانداز کرنے سے حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور اس مسئلے کو بات چیت اور پرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہئے’۔

انہوں نے تقریب میں موجود غیر ملکی معززین اور سفارتی عملے کو بتایا کہ ‘کون ایسا ماحول پیدا کرے گا جو دوبارہ مشغولیت کے لیے ضروری ہے، اس لیے براہ کرم اپنے دارالحکومتوں کو لکھیں (اور) اصل صورتحال کے بارے میں انہیں آگاہ کریں’۔

انہوں نے زور دیا کہ وہ آزاد کشمیر اور بھارت کے زیر قبضہ علاقے دونوں کا جائزہ لیں اور بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ سفارتی وفد کو وہاں کے لوگوں سے ملاقات کرکے مقبوضہ کشمیر پر ایک ‘آزاد تشخیص’ کرنے کی اجازت دے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ انسانی حقوق سے متعلق ان کے مستقل موقف کی بنیاد پر ‘وہاں کی زمینی حقائق کو نظر انداز کرنا چھوڑ دے گی’۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں توقع ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم اور یورپی یونین اس مسئلے پر اپنا کردار ادا کریں گے۔

Check Also

رواں ماہ کے آخر میں ترک صدر کا دورہ پاکستان متوقع

رواں ماہ کے آخر میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے دورہ پاکستان پر …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *