Home / تازہ ترین خبر / اسرائیل، بھارت کے عزائم ناپاک اور دونوں میں بے پناہ مماثلت ہے، شہباز شریف

اسرائیل، بھارت کے عزائم ناپاک اور دونوں میں بے پناہ مماثلت ہے، شہباز شریف

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم اور بمباری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اور بھارت کے عزائم ناپاک اور دونوں میں بے پناہ مماثلت ہے۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسجد اقصیٰ میں نہتے نمازیوں پر حملے کیے گئے اور دمشق دروازے پر ظلم کیا گیا، اسرائیلی فضائیہ نے جس طرح وحشیانہ بمباری کی اور سیکڑوں گھر تباہ و برباد کردیے، یہ تمام چیزیں قابل مذمت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی مختلف ادوار میں اسرائیل کی حکومت اور فوج فلسطین کے نہتے باشندوں پر جو ظلم و ستم ڈھاتی رہی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، پوری دنیا اس سے آگاہ ہے مگر اس مرتبہ مشرقی یروشلم میں انتہا پسند یہودیوں نے مارچ کیا اور ‘عربوں کی موت’ کے دن رات نعرے لگاتے رہے اور پوری دنیا نے یہ دلخراش مناظر دیکھے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تازہ ترین ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں نسلی امتیاز جیسے جرائم میں ملوث ہے اور کم و بیش اسی طرح کی صورتحال مقبوضہ کشمیر میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب ورطہ حیرت میں چلے گئے جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان آیا کہ آرٹیکل 370 بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور مجھے توقع نہیں تھی کہ یہ اس طرح کا بیان دیں گے جس نے ہمارے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مقاصد کو ہلا کر رکھ دیا، وہ الگ بات کہ انہوں نے بعد میں اپنا بیان واپس لے لیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ دنیا سے کوئی بھی یہودی خاندان یا فرد اسرائیل آ کر مقیم ہوتا ہے تو اسے وہاں زمین کا مالک بنایا جاتا ہے، اسی سرزمین پر فلسطینیوں کے آباؤ اجداد صدیوں سے رہ رہے ہیں لیکن ان کو ان کے گھروں سے نکال کر غلام بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نریندر مودی نے بھی یہی حربہ اپنایا ہے، کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے، آرٹیکل 370 ختم کرکے کشمیر میں مستقل لاک ڈاؤن لگایا ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں سے سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے وزیر خارجہ سے مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر لابنگ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں جہاں بھی ممکن ہو وہ اس حوالے سے آگاہی بیدار کریں کہ اسرائیل اور بھارت کے ناپاک عزائم ہیں، دونوں میں بے پناہ مماثلت ہے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ 1948 سے اب تک 60 سے 70 لاکھ فلسطینی ان کو اپنے گھروں سے بے گھر کیا گیا اور دنیا کے مختلف کونوں میں وہ خیمہ زن اور پناہ گزیں ہیں جبکہ دوسری اور تیسری نسل اس بدترین ظلم کا شکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی بمباروں نے غزہ میں اندھا دھند بمباری کی ہے، پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک بلند عمارت کو مسمار کیا گیا جس میں کئی لوگ رہائش پذیر اور مختلف دفاتر بھی ہیں، کبھی بھی دیکھتی آنکھ نے اس طرح کی سفاکی نہیں دیکھی گئی کہ آپ گنجان آبادی میں آسمان سے اندھا دھند گولے برسائے جائیں اور بے گناہ و نہتے لوگوں کو شہید کردیا جائے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ اوسلو کے سمجھوتے کو انہوں نے پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، مرحوم یاسر عرفات اور منہم بیگن کو امن کا نوبیل انعام تو ملا لیکن ایک آزاد اور خود مختار فلسطین کا قیام آج تک نہ ہو سکا اور پھر کشمیر کی طرح سلامتی کونسل میں فلسطین کی قراردادیں ہیں ان کو حقارت سے ٹھکرا دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں جہاں فاشسٹ ہٹلر کھڑا تھا، وہاں نیتن یاہو کھڑا ہے، ماضی میں جہاں یہودی بچے اور خواتین کھڑے تھے، وہاں پر آج فلسطینی مائیں، بہنیں اور بچے کھڑے ہیں، ماضی میں جرمنی کے کیمپوں میں جو جرائم یہودیوں سے کیے گئے، اس سے بھی بدترین جرائم آج اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کررہا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ اس بے دردی سے قتل عام تیسری دنیا، مسلمان ممالک اور معاشی طور پر کمزور اقوام کے نام پیغام ہے کہ ‘جس کی لاٹھی، اس کی بھینس’ اور اگر رواج جڑیں پکڑ گیا تو پھر تمام دنیا شدید خطرات سے دوچار ہو جائے گی۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر اس طرح کی ہلکی سی حرکت کوئی اسلامی ملک کرتا تو پھر کیا ہوتا، کیا عالمی طاقتیں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی رہتیں، کیا عالمی طاقتیں خاموش رہتیں، ان پر فوراً جنگ مسلط کر دی جاتی اور ان پر ہر قسم کی پابندیاں لگا دی جاتیں لیکن آج عالمی میڈیا خاموش ہے اور ان کی زبانوں کو تالے لگ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح میڈیا کے دفاتر پر بمباری کی گئی اور بے شمار لوگوں کو شہید کردیا گیا، کیا ایسی حرکت کسی اور ملک میں ہوتی تو کیا دنیا خاموش رہتی، کیا وہ میڈیا کی آزادی کے نام پر ایک بھرپور قدم نہ اٹھاتی اور مل کر اس ملک کے خلاف پابندیاں لگا کر جارحانہ اقدامات نہ کرتی؟ آج عالمی طاقتیں کہاں ہیں؟، کیا ان کا قصور یہ ہے کہ یہ مسلمان ہیں؟۔


Check Also

رواں ماہ کے آخر میں ترک صدر کا دورہ پاکستان متوقع

رواں ماہ کے آخر میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے دورہ پاکستان پر …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *