Home / تازہ ترین خبر / ’جسٹس قاضی عیسیٰ کیس کا فیصلہ غلط، ناانصافی پر مبنی تھا‘

’جسٹس قاضی عیسیٰ کیس کا فیصلہ غلط، ناانصافی پر مبنی تھا‘

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں 26 اپریل کا اس کا اکثریتی فیصلہ صریحاً ناانصافی پر مبنی ہے اور عوام اور مفاد عامہ کے خلاف ہے جس سے عدالتی احتساب کا معیار متاثر ہوتا ہے۔

حکومت نے عدالت عظمیٰ سے اس خلا کو پرُ کرنے کی استدعا کی ہے۔

سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومتی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف 8 جولائی کو دائر کی گئی اپیل میں کہا گیا کہ ’سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ غلط، انصاف کی خلاف ورزی اور تعصب پر مبنی اور دوسری صورت میں غیر قانونی، غیر آئینی اور بغیر کسی دائرہ اختیار کے ہے’۔

26 اپریل کو عدالت عظمیٰ نے 6، 4 کی اکثریت سے گزشتہ برس 19 جون کے اپنے اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا جس میں ٹیکس حکام کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر 3 غیر ملکی جائیدادوں کی تفتیش کا حکم دیا گیا تھا۔

حکومت نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ وہ نظرثانی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرے۔

مذکورہ اپیل صدر سیکریٹری قانون کے توسط سے ڈاکٹر عارف علوی، وفاقی حکومت، وزیر اعظم عمران خان، وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم، وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اور اثاثوں کی ریکوری یونٹ کے قانونی ماہر ضیا المصطفیٰ کی جانب سے دائر کی گئی۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ 26 اپریل کے اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے دروازے بند کردیے ہیں اور ریکارڈ میں آنے والے الزامات اور معلومات کے سلسلے میں جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کا احتساب عدالتی آزادی کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔

اپیل میں کہا گیا کہ اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے معیار کو بھی کمزور کردیا ہے بلکہ اعلی عدالتوں کے ججوں کو صرف عدالتی احتساب سے بچنے کے لیے عدالتی آزادی کے نظریے کے پیچھے چھپنے کے لیے ایک ڈھال فراہم کی گئی ہے۔

اس میں کہا گیا کہ عدالتی آزادی کا تصور بنیادی طور پر انفرادی ججوں کے مفاد کے لیے نہیں ہے بلکہ عدالتی آزادی کا نظریہ ججوں کے مفاد اور پورے معاشرے کے مفادات، حقوق اور فوائد کے حصول کے لیے ہے۔

اپیل میں کہا گیا کہ اکثریتی فیصلہ اسلامی اور جدید فقہ کے خلاف بھی ہے اور اعلی عدالتوں کے ججوں کے لیے ضابطہ اخلاق میں جو اعلی اخلاقی اصولوں کا تصور کیا گیا اس کے بھی خلاف ہے۔

اکثریتی فیصلے میں اس امر پر بھی زور نہیں ملتا کہ جدید فقہ کی مکمل حمایت حاصل ہونے کے علاوہ اپنے مالیات اور اثاثوں کی وضاحت کرنے کے ذمہ داران، ججوں، قاضیوں اور سرکاری ملازمین کی ذمہ داری ہمارے دین اور شاندار ورثے سے واجب ہے۔

اپیل میں زور دیا گیا کہ سرکاری ملازمین، عہدیداروں، ججوں، قاضیوں کے قریبی رشتہ داروں مثلاً ان کی شریک حیات اور زیر کفالت بچوں کی بھی وضاحت کی ضرورت ہے۔

اپیل میں کہا گیا کہ اکثریتی فیصلے میں جج کی اہلیہ اور بچے (زیر کفالت یا زیر کفالت نہ ہو) کے اثاثوں اور مالی معاملات کی جانچ پڑتال سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

حکومت نے اپیل میں دعوی کیا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر غیر ملکی اثاثے، جو لندن کے 3 املاک حاصل کیے گئے ذرائع کے حوالے سے کوئی جواز پیش نہیں کرسکے ہیں۔

اپیل میں یہ الزام لگایا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے غیر ملکی کرنسی بینک اکاؤنٹ سے کافی حد تک منسلک تھے جس کے ذریعے لندن کی جائیدادوں کو مالی اعانت فراہم کی جاتی تھی۔

اس اپیل میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کے اس اعتراض پر بھی وضاحت کی گئی کہ املاک نظرثانی کی درخواست میں غیر مناسب زبان استعمال نہیں کی۔

Check Also

رواں ماہ کے آخر میں ترک صدر کا دورہ پاکستان متوقع

رواں ماہ کے آخر میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے دورہ پاکستان پر …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *