Home / جاگو کالمز / علائو الدین ہمدم خانزادہ…محبتوں کے سفیر

علائو الدین ہمدم خانزادہ…محبتوں کے سفیر


جب بھی آغاز کار کرتے ہیں

ذکر پروردگار کرتے ہیں
پھر درود و سلام آقاۖ پر
ہم عقیدت گزار کرتے ہیں
یہ علائوالدین ہمدم خانزادہ صاحب پر تنقیدی یا تجزیاتی مضمون نہیں!ان کا ایک تعارفی شذرہ ہے،ایک اجمالی خاکہ!
آنکھوں میں اداسی ہے مگر لب پہ ہنسی ہے
یہ زندگی اقبال بھی کیا بو العجبی ہے
گزرا ہے جہاں خاک اڑاتا ہوا بچپن
اب تک میری نظروں میں وہ کچی سی گلی ہے
ہم چاہے آبائی دیس کو چھوڑ کر پردیس کو دیس بنا لیں مگر جس دیس میں بستی میں شہر میں ہمارے شعور کی آنکھ کھلی بچپن اور جوانی گزری،تعلیم،روزگار اور شوق کو جلا ملی اس سے قلبی رشتہ کھبی ختم نہیں ہوتا۔اس کی یادیں،اس کی باتیں یاد رہتی ہیں،میرا اور کراچی کا بھی یہی رشتہ ہے۔
مجھ سے نہ پوچھو کیا ہے کراچی
میرے گھر جیسا ہے کراچی
کل میں کراچی میں رہتا تھا
اب مجھ میں رہتا ہے کراچی
اس میں کراچی ایک علامت ہے اس کی جگہ لاہور،ممبئی،ڈھاکا کوئی بھی متعلقہ شہر ہو سکتا ہے مگر جذبات یہی رہیں گے،سو جب کراچی کی خوشبو لیے کوئی کراچی والا آتا ہے تو لگتا ہے کوئی اپنا آگیا اور اس کی خوشبو سے مشام جاں معطر ہو جاتا ہے۔اور اگر اس مہمان سے فکری ہم آہنگی بھی ہو شوق اور پیشے کی ہم رشتگی بھی ہو تو یہ سرشاری دو چند ہو جاتی ہے۔علائو الدین ہمدم خانزادہ بھی میری طرح شاعر بھی ہیں اور صحافی بھی اور بامقصد اور تعمیری فکر و عمل کے قائل بھی ہیں میں برادرم زاہد خانزادہ کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے معروف صحافی اے ایچ خانزادہ اور خوش فکر شاعر علائو الدین ہمدم خانزادہ کو نہ صرف ڈیلس آنے کی دعوت دی بلکہ ان کے شعری مجموعے کے حوالے سے باوقار تقریب پذیرائی بھی منعقد کی ۔خدا آپ کو شاد و آباد رکھے،اور اس کار ادب میں تعاون پر میں اردو گھر کے روح رواں ڈاکٹر عامر سلیمان اور النور انٹرنیشنل کے صدر نورامرہوی کا بھی ممنون ہوں اے ایچ خانزادہ کوئی آموز گمنام صحافی نہیں ہیں بہت طویل عرصے سے کوچہ صحافت کے رہ نور ہیں۔اکتیس برس کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں۔اردو،انگریزی اور سندھی تینوں زبانوں میں انہوں نے پرنٹ میڈیا اور الیکڑانک میڈیا پر عمومی رپورٹینگ سے لے کر انوسٹیگیٹنگ رپورٹینگ میں ایک مقام اور پہچان بنائی ہے۔اس کے علاوہ وہ صحافیوں کے حقوق کی جدوجہد کے ہر اول دستے میں بھی شامل ہیں۔دنیا کے تین سو ممالک میں پاکستان آبادی اور عسکری قوت کے لحاظ سے پانچواں بڑا ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے کراچی اس کا سب سے بڑا شہر ہے اور شہر کے معتبر صحافیوں کی بیٹھک کراچی پریس کلب ہے اے ایچ خانزادہ کراچی پریس کلب کے کئی مرتبہ سیکرٹری اور دیگر مناسب پر فائزرہ چکے ہیں وہ بحیثیت صحافی اس فکر و نظر ہے کے قائل ہیں کہ…
صحافت اور صحافی ایک ذمہ داری کا نام ہے اور یہ ذمہ داری اس وقت تک ادا نہیں ہو سکتی جب تک صحافی خود ذمہ دار نہ ہو ان کا کہنا ہے کہ سب کی خبریں لیں اور سب کی خبریں دیں مگر خبر کا انداز ہماری اقدار اور تہذیبی معاشرت کے مطابق ہونا چاہیے اور یہ جب ہی ممکن ہے جب یہ کام اس طریقے سے کیا جائے جو کرنے کا طریقہ ہے۔
جہاں تک شاعری کا تعلق ہے آپ گزشتہ ایک عشرے سے مشاعروں کی ضرورت سمجھے جاتے ہیں کوئی اہم مشاعرہ شہر میں ان کے بغیر نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق ان کی شاعری دو طرح کی ہے ایک سادہ شاعری،دوسری دودھ پتی والی شاعری،سادہ شاعری سے ان کی راہ سنجیدہ شاعری ہے اور دودھ پتی والی شاعری یہ اپنی طنز و مزاح والی شاعری کو کہتے ہیں اگر کوئی پوچھے کہ یہ اچھے صحافی ہیں یا اچھے شاعر تو سچی بات یہ ہے کہ یہ جتنے اچھے شاعر ہیں اتنے ہی اچھے صحافی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان کی صحافت اور دونوں قسم کی شاعری میں جو قدر مشترک ہے وہ ہے محبت اور صرف محبت چنانچہ ایک جگہ کہتے ہیں۔
جو کوئی مجھ سے محبت کی بات کرتا ہے
تو گویا بادل پہ حکومت کی بات کرتا ہے
محبتوں کے خدا اس کی آبرو رکھ جو
محبتوں میں محبت کی بات کرتا ہے
ساحر لودھیانوی نے اپنی شاعری کو تجربات و حوادث کے لوٹانے کا عمل کہا تھا۔علائو الدین ہمدم خانزادہ اپنی شاعری کو اپنے مشاہدات اور محسوسات کی ترجمانی بنائے ہیں میں نقد ادب کا آدمی نہیں ہوں مگر بھارے عہد کے ایک بہت اہم نقاد اور شاعر جناب سحر انصاری نے ان کی شاعری کے
(صفحہ7بقیہ نمبر1)
بارے میں اس رائے کا اظہار کیا ہے۔خانزادہ نے اپنے کلام میں اپنی ذاتی زندگی کے تجربات و محسوسات کو سمویا ہے ان کے یہاں کسی ایک نہج کی افتاد نہیں ملتی،کہیں انداز،رندانہ ہے کہیں صوفیانہ کبھی عشق کے ہاتھوں بہود روتنہا کبھی انا کی سیٹرھیوں پر تیز تیز پیش قدمی کی مشق اس طرح گردو پیش کی دنیا کے جو مسائل انسانی معاشرے کو مقامی اور عالمی سطح پر درپیش ہیں ان پر بھی شاعرانہ ردعمل بہت واضع ہے۔
میں اس میں یہ اضافہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انہوں نے ایک اہم شعری تجربہ بھی کیا ہے وہ یہ کہ اردو اور سندھی کو اس طرح ملا کر شعر کہے ہیں کہ ایک ہی مصرعے میں آدھا مصرعہ اردو اور آدھا سندھی کا ہے یہ تجربہ بھی ان کے پر خلوص جذبہ محبت کا راست اظہار ہے اس طرح وہ اردو اور سندھی بولنے والوں کو جوڑنے،ملانے اور قریب لانے کی کوشش کرتے ہیں۔الحمد اللہ اس تجربے کی بہت پذیرائی ہوئی۔
ہرزمانے اور علاقے کے اپنے مسائل و مصائب ہوتے ہیں علائوالدین ہمدم خانزادہ کا تعلق جس علاقے اور جس زمانے سے ہے اس کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ…
سخت مشکل ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے
اور ان کا تعلق جس عقیدے کمیونٹی اور طبقے سے ہے وہ فی زمانہ یہ زبان حال یہ کہنے پر مجبور ہے کہ…
مجھے بے دست و پا کر کے بھی خوف اسکا نہیں جاتا
کوئی بھی سانحہ گزرے وہ مجھ سے جوڑ دیتا ہے
سو ایسی پر آشوب صورت حال میں کھری صحافت اور سچی شاعری بڑے جان جوکھوں کا کام ہے مگر وہ دلجمعی کے ساتھ بزم ہنر میں کار ہنر وری کر رہے ہیں مثلاً وہ اپنے شہر کراچی کے حوالے سے کہتے ہیں۔
میں پورے شہر میں آوارہ پھرتا تھا کبھی لوگو
سیاست داں نے میرے شہر کی تقسیم کروا دی
اور جب وہ قومی مسائل پر قلم اٹھاتے ہیں تو ان کا فکر انگیز اظہار کچھ یوں ہوتا ہے
کچھ ایسا حال ہوتا جا رہا ہے
مہینہ سال ہوتا جا رہا ہے
صحافت ہے کہ دیوانی ہوئی ہے
قلم جنجال ہوتا جا رہا ہے
حدود اخلاق کی ساری گرا دی
جنون نے جنجال ہوتا جا رہا ہے
بلوچستان کی کچھ فکر کر لو
وہ اب بنگال ہوتا جا رہا ہے
وہ قومی رہنمائوں پر بھی بڑی جراتمندی سے قلم اٹھاتے ہیں
قوم تو معصوم ہے مظلوم ہے لاچا رہے
اور یہ معصومیت سب سے بڑا ہتھیار ہے
حکمرانی کے لیے آتے ہیں پاکستان میں
جن کا رونا پیٹنا سب کچھ سمندر پار ہے
اک کھلاڑی ترجمہ جس کا پلے بوائے ہوا
وہ انوکھا لاڈلا کھیلن کو پھرتیا رہے
اور جب عالمی سطح کے مظالم کو موضوع شعر بناتے ہیں تو اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی سب سے ستم رسیدہ اقلیت میمانمار یعنی سابق برما کے روہنگیا مسلم پر قلم اٹھاتے ہیں اور اس نظم کا ایک فکر انگیز عنوان بھی دیتے ہیں۔برمی مسلمانوں پر عالمی امن انعام یافتہ انگ سوچی کی ناک کے نیچے ہونے والے مظالم کا شکار روہنگیا مسلم اور امن عالم کے گونگے ٹھیکداروں کے نام۔
بولتے کیوں نہیں زباں والے
مر گئے کیا سبھی جہاں والے
ہم ہیں روہنگیا،مگر اب تو
آہ والے بھی ہم فغاں والے
گائے کو بھی امان حاصل ہے
اور ہم ہیں کہ بے اماں والے
تم سے اپنا مقابلہ کیسا
ہم یقیں والے تم گماں والے
تم کہیں بھی مگر چلے جائو
کہہ رہے ہیں یہاں وہاں والے
دیکھ ہمدم نہ حوصلہ ٹوٹے
دھوپ میں دیکھ سائبان والے
انہوں نے ہر سطح کے موضوعات پر شعر کہتے ہیں مگر ان کی شاعری میں افسردگی اور انفعالیت نہیں امید اور حوصلہ ہے اور یہ اس لیے ہے کہ اس کا خمیر محبت سے اٹھا ہے جس کی بابت وہ خود یوں کہتے ہیں۔
محبت اک ادائے دلبری ہے
محبت ہو تو یہ جادوگری ہے
محبت وحدہ کی شرط اول
محبت ربتہ پیغمبریۖ ہے
محبت باغ میں خوشبو کا جھونکا
محبت ایک ننھنی سی پری ہے
محبت نرم ریشم سے ملائم
محبت پتھروں سے کھردری ہے
محبت میں برا کچھ بھی یہی ہے
محبت بہتری ہی بہتری ہے
آپ نے اپنے مجموعہ کلام کا نام اسی بنیادی فکر کے مطابق محبتوں کا سفر رکھا ہے۔یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے ڈیلس میں
صحافی باضمیر آئے
سخنور دلپذیر آئے
محبتوں کا سفر لیے یہ
محبتوں کے سفیر آئے
اہالیان ڈیلس محبتوں کا سفر کے خالق محبتوں کے سفیر علائوالدین ہمدم خانزادہ کا انتہائی محبت سے خیر مقدم کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ…
اللہ کرئے مرحلہ شوق نہ ہو طے

Check Also

ناشتہ کیے بغیر بھوکے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ قرار

امریکا سمیت دیگر ممالک کے ماہرین کی جانب سے بھوک کے صحت اور خصوصی طور …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *