Home / جاگو کالمز / ڈیلس میں جاگو ٹائمز نیوز کی تیسری سالگرہ اور سرو سنگیت

ڈیلس میں جاگو ٹائمز نیوز کی تیسری سالگرہ اور سرو سنگیت

انڈیا سے معروف بین الاقوامی سارنگی نواز فنکار پنڈت ملندریکر اور ان کے صاحبزادے یدنیش ریکر ڈیلس میں وکی انٹرٹینمنٹ کے وقار چشتی اور مادھوری کے مہمان تھے ان کے توسط سے انہوں نے یہاں ڈیلس کثیر الاشاعت اخبار دی جاگو ٹائمز نیوز کی تیسری سالگرہ کے پروگرام میں شرکت کی جاگو ٹائمز نیوز کے اس پروگرام میں ہال سر و سنگیت کے دلدادہ مرد و خواتین سے پر تھا تقریب کے مہمان خصوصی امیر مکھانی اپنے دوست کے والد کی اچانک وفات کے سبب اس پروگرام میں شریک نہیں ہو سکے تاہم دیگر مہمانوں اور کمیونٹی کی مقتدر شخصیات جس میں ہیلتھ کیئر بزنس ٹائیکون ڈاکٹر حسن ہاشمی ان کی اہلیہ سابق میئر سلمہ ہاشمی پاکستانی امریکن چیمبر آف کامرس کے چیئرمین حفیظ خان،ڈاکٹروں کی تنظیم اپنا کے رہنما ڈاکٹر دائود ناصر،اردو گھر کے بانی ڈاکٹر عامر سلیمان،پاکستان امریکن ایوسی ایشن کے رہنمائوں ڈاکٹر جاوید اجمل،افتخار افتی،معروف شاعر سید یونس اعجاز،نیو یارک لائف انشورنس کے محمد شوکت،پاکستانی کمیونٹی رہنما ڈاکٹر رابعہ ،سائوتھ ایشین ڈیموکریسی واچ کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن اٹارنی توصیف کمال،ممتاز کمیونٹی رہنما ندیم اختر،پاکستانی کی گلوکارہ بنجن سسٹر اور زندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین موجود تھے۔گو کہ پروگرام 4دن کے شارٹ نوٹس پر منعقد کیا گیا تھا تاہم پھر بھی کمیونٹی کی شخصیات اس پروگرام میں بھر پور طریقہ شریک ہوئیں ٹیکساس کنگ ارونگ میں اسٹیج کی سجاوٹ کا کام روبی چوہدری نے بااحسن و خوبی سر انجام دیا۔ٹیکساس کنگ کے علی خاور،عدیل خاور اور نبیل خاور نے انتظامی کاموں میں حصہ لے کر اس ہال کو سنوارنے میں چار چاند لگائے جاگو ٹائمز نیوز کی سالگرہ کی اس تقریب میں نظامت کے فرائض ڈیلس کی خوش چہرہ اور خوش آواز DHRRکی ایڈمن نازیہ خان تھیں جبکہ شریک نظامت کے فرائض جاگو ٹائمز نیوز کے بیوروچیف اظہر غیور نے سر انجام دئیے پروگرام اس لحاظ سے بھی توجہ طلب تھا کہ اس پروگرام میں زیادہ وقت آنے والے فنکاروں اور گلوکاروں کیلئے ہی صرف کیا گیا تھا جبکہ 10منٹ کا وقت صرف سالگرہ پروگرام جس میں کیک کاٹنے کی تقریب اور تقاریر شامل تھیں کیلئے مقرر کیا گیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ آنے والے تمام حاضرین نے پروگرام سے بھر پور لطف حاصل کیا اے آر وائی نیوز کے سیم میڈیا کے سہیل عباس یوٹیوب کے ذریعہ براہ راست یہ پروگرام نشر کر رہے تھے جس کی وجہ سے کئی افراد پروگرام دیکھنے کے بعد آخری لمحات کے دوران ہی اس پروگرام میں شریک ہوئے اس طرح جاگو ٹائمز کے اظہر غیور کیمرہ مین مظفر سید اور ٹیم کے اراکین شیبان اظہر مہمانوں کی توازع اور کام کاج میں مصروف رہے۔اس طرح جاگو ٹائمز نیوز سمیت دیگر اسپانسروں کی پوری ٹیم نے اس پروگرام کو بہتر سے بہتر بنانے کی بھر پور کوشش کیں۔پروگرام کا آغاز انڈیا سے آئے ہوئے مہمان سارنگی نواز فنکاروں کی پرفارمنس سے کیا گیا پروگرام کے آغاز میں انہوں نے سارنگی کے اندر چھپے سروں کو اپنی بولتی انگلیوں کے ذریعہ راگ پر آلاپ کے ذریعہ آشکار کیا تو وہاں موجود ہر شخص انگشت بددنداں تھا دوونوں فنکاروں کی سارنگی کے تاروں کو چھیڑنے کیلئے مشتاق انگلیاں میٹھے سروں سے سنگیت کو جنم دے رہی تھیں راگوں پر آلاپ کرتے اور سارنگی سے سر کبھی ہنستے کبھی روتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔انہی لمحات میں میں سوچ کی دنیا گم تھا اور سانگری کے ماضی کی تاریخ کے جھرنکوں میں جھانکتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ برصغیر پاک و ہند کا وہ باجا ہے جو اب کسی بھی ملک نے ایجاد نہیں کیا حکیم سارنگا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے یہ باجا ایجاد کیا اور حکیم سارنگا نے جب یہ باجا ایجاد کیا تو اس وقت اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے گلے میں ہر طرح کے نغمات اور سر پیدا کیے ہیں لہذا کیوں نہ ایسا ساز ایجاد کیا جائے جو کہ انسانی گلے کا نعم البدل ہو اس طرح اس نے بدساز ایجاد کیا اور اس نام سارنگا رکھا جس کو بعض لوگ چنگ کے نام سے بھی مدعو کرتے ہیں۔ابتدائی زمانہ میں سارنگی میں چودہ سے سترہ تار ہوتے تھے جو کہ اب پچاس تک ہو چکے ہیں سارنگی کے یہ 40/45تار لمبے مثلثی فریم میں کھنچے ہوئے ہوتے ہیں  جبکہ 7پیڈل بھی لگے ہوئے ہوتے ہیں جن کے ذریعہ تاروں میں توازن پیدا کیا جاتا ہے جس سے اضافی سر نکالے جاتے ہیں اس دوران ہاتھوں کی مدد سے ان کو چھو کر آواز نکالی جاتی ہے میں دیکھ رہا تھا کہ دونوں فنکاروں کی جمی ہوئی انگلیاں جب دھیمے سے سر سرائیں اور آہستہ آہستہ سارنگی کے پردوں کو تکنے لگیں تو وہاں سے سر تیزی سے نکلتے رہے سروں میں عجیب درد اور اداسی کی کیفیت تھی ہر سننے والا اس جادوئی موسیقی میں آہستہ آہستہ گم ہوتا چلا گیااور سارنگی کے اندر موجود میٹھے میٹھے سروں سے محضوض ہونے لگا سارنگی میں بانسری کی لے کویل کی کوک اور میٹھے سر مل کر سنگیت کو جنم دے رہے تھے ہرتان دیک کی طرح محسوس ہوتی دکھائی دے رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے حاضرین بھی جنم جنم سے سارنگی کے میٹھے سروں کیلیے ترس رہے ہوں یہی وجہ تھی کہ ہال میں اس دوران مکمل خاموشی چھا گئی اور حاضرین دل کی آغوش میں چھپے سروں نے کروٹ لینا شروع کر دی سارنگی کی سروں لی لے ہر کسی کو ناچتی ناگن کی طرح بل کھاتی ہوتی محسوس ہو رہی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ تاروں سے نکلی کنجلی آوازوں میں چڑیاں چہچہا رہی ہوں۔اور گیت چھیڑ رہی ہوں۔کوئل نغمہ سرائی کر رہی ہو عندلیب قصیدہ خواں ہو اور دل کے تالاب میں بہتا ہوا یہ چشمہ ظلمت شب کو اپنا نغمہ سنا رہا ہو سارنگی کی سحر انگیز صدا اور طبلے سے ہم آہنگ ہو کر مجھے کیفیت آفریں سمت لے جا رہی ہوں میں اپنی رگوں میں زندگی کی حرارت محسوس کر رہا تھا میں قلم کاری کرنے والا اب بھی ان کے اس اثر کو بھول نہیں پایا اور بام فلک سے ستارے نوچ لانے کی کوشش میں مگھن ہوں آسمان ادب پر ستارے ٹانکنے والوں کی سماعتیں بھی اس دوران رس گھول رہی تھیں اور ان کے کمال فن پر وہی نہیں بلکہ عام جنم حاضرین بھی منجمد ہو کر رہ گئے ہوں۔موسیقی کی زمزیں نہ جانے والا راگ شدھ کو مل سر اور گانے کی نزاکتوں کا مجھے بھی اتنا ادراک نہیں مگر میں بھی لافانی گانے اور راگ سنگر زندگی حرارت کو صیح طور پر اپنی رگوں میں محسوس کرتا ہوں۔

Check Also

ناشتہ کیے بغیر بھوکے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ قرار

امریکا سمیت دیگر ممالک کے ماہرین کی جانب سے بھوک کے صحت اور خصوصی طور …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *