Home / جاگو دنیا / نائیجیریا: بوکو حرام کا سیکڑوں طلبہ کو اغوا کرنے کا دعویٰ

نائیجیریا: بوکو حرام کا سیکڑوں طلبہ کو اغوا کرنے کا دعویٰ

نائیجیریا کی شدت پسند تنظیم بوکو حرام نے ملک کے شمال مغربی علاقے سے سیکڑوں طلبہ کو اغوا کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

یہ بوکو حرام کا ایک دہائی سے زائد عرصے قبل وجود میں آنے کے بعد ملک کے اس حصے میں پہلا حملہ ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کے مطابق بوکو حرام اور اس کا حریف گروپ اسلامک اسٹیٹ اِن ویسٹ افریقہ پروونس (اِسویپ) اب تک نائیجیریا کے شمال مشرقی حصے اور پڑوسی ممالک کیمرون، چاڈ اور نائیجر میں شرپسندی کی کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔

نائیجیریا کی ریاست کاٹسینا کے گورنر امینو بیلو ماساری نے کہا کہ اغوا کاروں نے حکومت سے روابط کیے ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ‘بچوں کی بحفاظت واپسی یقینی بنانے کے لیے اغوا کاروں سے بات چیت جاری ہے’۔

اغوا کیے گئے طلبا کی تعداد اب تک واضح نہیں ہوسکی ہے۔

تاہم نائیجیریا کے عسکری ترجمان جنرل جان اینیچی نے ٹی وی چینلز کو بتایا کہ کانکارا کے قصبے میں واقع لڑکوں کے سیکنڈری اسکول پر بھاری ہتھیاروں سے لیس مسلح افراد کے حملے کے بعد 333 طلبا لاپتہ ہیں۔

غیر مستحکم خطے میں جمعہ کو ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری ابتدائی طور پر نام نہاد ڈاکوؤں پر عائد کی گئی تھی جو اکثر تاوان کے لیے اغوا کی وارداتیں کرتے ہیں۔

اس کے بعد آرمی نے کہا تھا کہ اس نے ‘ڈاکوؤں’ کے ٹھکانے معلوم کر لیے ہیں جہاں عسکری آپریشن جاری ہے۔

حکومت نے ابتدائی طور پر اس دعوے پر ردعمل نہیں دیا ہے، تاہم اگر اغوا میں بوکو حرام کے ملوث ہونے کی تصدیق کی جاتی ہے تو اس سے پورا بیانیہ بدل جائے گا۔

بوکو حرام کے چینل سے ‘اے ایف پی’ کو بھیجی گئی چار منٹ کی وائس ریکارڈنگ میں سنا گیا کہ ‘میں ابوبکر شیخو ہوں اور ہمارے بھائی کاٹسینا میں اغوا کے پیچھے ہیں’۔

یہ آواز ابوبکر شیخو کی آواز سے مماثلت رکھتی ہے جو 2014 میں چیبوک سے اسکول کی 276 بچیوں کو اغوا کرنے میں بھی ملوث تھا، اس واقعے کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے اس حوالے سے خوف پایا جاتا ہے کہ بوکو حرام اور اسویپ ملک کے شمال مغربی علاقوں میں اپنے قدم جما رہے ہیں۔

Check Also

دوحہ مذاکرات میں افغان طالبان کو تسلیم کرنے سے متعلق بات نہیں ہو گی: اہلکار اقوامِ متحدہ

اقوامِ متحدہ کی قیادت میں دوحہ میں ہونے والے افغان طالبان رہنماؤں کے اجلاس کے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *